- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
احادیث میں زکوٰۃ کے مختلف نصاب ملتے ہیں، جیسے دینار (سونا)، درہم (چاندی) ، مویشی وغیرہ
آج کل سونے چاندی کے سکوں کی بجائے ”پیپر کرنسی“ کا رواج ہے۔ اور عام طور سے لوگوں کے پاس ”دولت“ پیپر کرنسی کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہ پیپر کرنسی حکومتیں اپنے قومی خزانہ میں موجود سونے کے ذخائر کے ”بدلہ“ میں جاری کرتی ہیں۔ یعنی جتنی پیپر کرنسی گردش میں ہوتی ہے، اُسی کی ”مالیت کے مساوی“ سونا حکومت کے پاس ہوتا ہے یا ہونا چاہئے (اگر اس مد میں حکومتی کرپشن یا فراڈ کے عنصر کو نظر انداز کردیا جائے تو)
سوال یہ ہے کہ ہم پیپر کرنسی کی زکوٰۃ کا ”نصاب“ کسے بنائیں سونے کو یا چاندی کو ؟ اُصولاً تو ہمیں اسی سونے کو بنانا چاہئے، جس کے عوض یہ پیپر کرنسی جاری ہوئی ہے۔ یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کے مساوی پیپر کرنسی کی مالیت۔ جو اس وقت تقریباً (53 ہزار فی تولہ کے حساب سے) 3 لاکھ 97 ہزار پانسو روپے ہے۔
واضح رہے کہ چاندی کی زکوٰۃ کے نصاب کو معیار بنانے سے پیپر کرنسی کی زکوٰۃ بہت کم بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان مین چاندی 760 روپے فی تولہ ہے اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی پیپر کرنسی صرف 39 ہزار 900 روپے ہے۔
حکومت پاکستان اسی چاندی کے نصاب کو معیار بناتے ہوئے بنک کھاتہ داروں کے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ منہا کرتی ہے۔ یعنی یکم رمضان کو جس کے اکاؤنٹ میں بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی کرنسی موجود ہوتی ہے، اس میں سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی کٹوتی کرلیتی ہے۔ (حکومت سال بھر کی ”بچت“ کا کوئی لحاظ نہیں کرتی، حالانکہ زکوٰۃ ”سالانہ بچت“ پر ہوتی ہے، فی الحال حکومت کی اس ”بدعنوانی“ کو بھی نظر انداز کیجئے)۔
اگر کوئی شخص اپنے پاس موجود کرنسی کی سالانہ بچت پر خود زکوٰۃ دینا چاہے تو وہ نصاب کسے بنائے۔ سونے کو یا چاندی کو۔ سونے کے حساب سے تو کم از کم اس کی سالانہ بچت 3 لاکھ 97 ہزار پانسو روپے ہونی چاہئے جبکہ چاندی کے نصاب سے یہ رقم محض 39 ہزار 900 روپے ہے۔
تنخواہ دار طبقہ (یا بنک اکاؤنٹ ہولڈرز) کے لئے ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی تنخواہ (یا کاروباری آمدن) بنک میں ہر ماہ آتی ہے۔ جس میں سے کبھی کچھ بچ جاتا ہے اور کبھی نہیں بچتا۔ اسے تنخواہ کے سال میں ایک یا کئی بار ایک بڑی رقم بطور بونس بھی ملتا رہتا ہے۔ یہ اضافی رقم مختلف ماہ میں جمع ہوتی ہے۔ اور سال بھر تک خرچ ہوتی رہتی ہے۔ اب اگر کوئی رمضان میں زکوٰۃ نکالنا چاہتا ہے تو وہ کس بیلنس اماؤنٹ کو ”سال بھر تک رہنے والی بچت“ قرار دے تاکہ اول اسے معلوم ہوسکے کہ وہ ”صاحب نصاب“ ہے یا نہیں۔ دوم وہ اسی اماؤنٹ کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ دے۔ کیونکہ بنک اکاؤنت میں تو ہر ماہ رقم گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
امید ہے کہ اہل علم ان دونوں نکات پر روشنی ڈالیں گے کہ پیپر کرنسی کی زکوٰۃ سونے کے نصاب سے طے کی جائے یا چاندی کے نصاب سے اور ہم اپنے بنک اکاؤنٹ کے کس بیلنس اماؤنٹ کو زکوٰۃ نکالنے کے لئے استعمال کریں۔
والسلام
آج کل سونے چاندی کے سکوں کی بجائے ”پیپر کرنسی“ کا رواج ہے۔ اور عام طور سے لوگوں کے پاس ”دولت“ پیپر کرنسی کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہ پیپر کرنسی حکومتیں اپنے قومی خزانہ میں موجود سونے کے ذخائر کے ”بدلہ“ میں جاری کرتی ہیں۔ یعنی جتنی پیپر کرنسی گردش میں ہوتی ہے، اُسی کی ”مالیت کے مساوی“ سونا حکومت کے پاس ہوتا ہے یا ہونا چاہئے (اگر اس مد میں حکومتی کرپشن یا فراڈ کے عنصر کو نظر انداز کردیا جائے تو)
سوال یہ ہے کہ ہم پیپر کرنسی کی زکوٰۃ کا ”نصاب“ کسے بنائیں سونے کو یا چاندی کو ؟ اُصولاً تو ہمیں اسی سونے کو بنانا چاہئے، جس کے عوض یہ پیپر کرنسی جاری ہوئی ہے۔ یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کے مساوی پیپر کرنسی کی مالیت۔ جو اس وقت تقریباً (53 ہزار فی تولہ کے حساب سے) 3 لاکھ 97 ہزار پانسو روپے ہے۔
واضح رہے کہ چاندی کی زکوٰۃ کے نصاب کو معیار بنانے سے پیپر کرنسی کی زکوٰۃ بہت کم بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان مین چاندی 760 روپے فی تولہ ہے اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی پیپر کرنسی صرف 39 ہزار 900 روپے ہے۔
حکومت پاکستان اسی چاندی کے نصاب کو معیار بناتے ہوئے بنک کھاتہ داروں کے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ منہا کرتی ہے۔ یعنی یکم رمضان کو جس کے اکاؤنٹ میں بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی کرنسی موجود ہوتی ہے، اس میں سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی کٹوتی کرلیتی ہے۔ (حکومت سال بھر کی ”بچت“ کا کوئی لحاظ نہیں کرتی، حالانکہ زکوٰۃ ”سالانہ بچت“ پر ہوتی ہے، فی الحال حکومت کی اس ”بدعنوانی“ کو بھی نظر انداز کیجئے)۔
اگر کوئی شخص اپنے پاس موجود کرنسی کی سالانہ بچت پر خود زکوٰۃ دینا چاہے تو وہ نصاب کسے بنائے۔ سونے کو یا چاندی کو۔ سونے کے حساب سے تو کم از کم اس کی سالانہ بچت 3 لاکھ 97 ہزار پانسو روپے ہونی چاہئے جبکہ چاندی کے نصاب سے یہ رقم محض 39 ہزار 900 روپے ہے۔
تنخواہ دار طبقہ (یا بنک اکاؤنٹ ہولڈرز) کے لئے ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی تنخواہ (یا کاروباری آمدن) بنک میں ہر ماہ آتی ہے۔ جس میں سے کبھی کچھ بچ جاتا ہے اور کبھی نہیں بچتا۔ اسے تنخواہ کے سال میں ایک یا کئی بار ایک بڑی رقم بطور بونس بھی ملتا رہتا ہے۔ یہ اضافی رقم مختلف ماہ میں جمع ہوتی ہے۔ اور سال بھر تک خرچ ہوتی رہتی ہے۔ اب اگر کوئی رمضان میں زکوٰۃ نکالنا چاہتا ہے تو وہ کس بیلنس اماؤنٹ کو ”سال بھر تک رہنے والی بچت“ قرار دے تاکہ اول اسے معلوم ہوسکے کہ وہ ”صاحب نصاب“ ہے یا نہیں۔ دوم وہ اسی اماؤنٹ کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ دے۔ کیونکہ بنک اکاؤنت میں تو ہر ماہ رقم گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
امید ہے کہ اہل علم ان دونوں نکات پر روشنی ڈالیں گے کہ پیپر کرنسی کی زکوٰۃ سونے کے نصاب سے طے کی جائے یا چاندی کے نصاب سے اور ہم اپنے بنک اکاؤنٹ کے کس بیلنس اماؤنٹ کو زکوٰۃ نکالنے کے لئے استعمال کریں۔
والسلام