• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم چاند دوٹکڑے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
چاند دو ٹکڑے

اسلامی دعوت مشرکین کے ساتھ اسی کشمکش کے مرحلے سے گزر رہی تھی کہ اس کائنات کا نہایت عظیم الشان اور عجیب و غریب معجزہ رونما ہوا۔ نبی ﷺ کے ساتھ مشرکین کے مجادلات کے جو بعض نمونے گزر چکے ہیں ان میں یہ بات بھی موجود ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانے کے لیے خرق عادت نشانیوں کا مطالبہ بھی کیا تھا اور قرآن کے بیان کے مطابق انہوں نے پورا زور دے کر قسم کھائی تھی کہ اگر آپ ﷺ نے ان کی طلب کردہ نشانیاں پیش کر دیں تو وہ ضرور ایمان لائیں گے مگر اس کے باوجود ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا اور ان کی طلب کردہ کوئی نشانی پیش نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی سنت رہی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے پیغمبر سے کوئی خاص نشانی طلب کرے، اور دکھلائے جانے کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو اس کی قوم کی مہلت ختم ہو جاتی ہے اور اسے عذاب عام سے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی اور اسے معلوم تھا کہ اگر قریش کو ان کی طلب کردہ کوئی نشانی دکھلا بھی دی جائے تو وہ فی الحال ایمان نہیں لائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْ‌نَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ يَجْهَلُونَ (۶: ۱۱۱)
''یعنی اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیں، اور مردے ان سے باتیں کریں اور ہر چیز ان کے سامنے لا کر اکٹھا کر دیں تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ اللہ چاہ جائے۔ مگر ان میں سے اکثر نادانی میں ہیں۔''
اور اللہ کو یہ بھی معلوم تھا کہ اگر کوئی نشانی نہ بھی دکھلائی جائے لیکن مزید مہلت دے دی جائے تو آگے چل کر یہی لوگ کوئی نشانی دیکھے بغیر ایمان لائیں گے۔ اس لیے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی طلب کردہ کوئی نشانی نہیں دکھلائی، اور خود نبی ﷺ کو بھی اختیار دیا کہ اگر آپ چاہیں تو ان کی طلب کردہ نشانی ان کو دکھلا دی جائے لیکن پھرایمان نہ لانے پر انہیں ساری دنیا سے سخت تر عذاب دیا جائے گا اور چاہیں تو نشانی نہ دکھلائی جائے اور توبہ و رحمت کا دروازہ ان کے لیے کھول دیا جائے۔ اس پر نبی ﷺ نے بھی یہی آخری صورت اختیار فرمائی کہ ان کے لیے توبہ و رحمت کا دروازہ کھول دیا جائے۔ (مسند احمد ۱/۳۴۲، ۳۴۵)
تو یہ تھی مشرکین کو ان کی طلب کردہ نشانی نہ دکھلانے کی اصل وجہ لیکن چونکہ مشرکین کو اس نکتے سے کوئی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سروکار نہ تھا، اس لیے انہوں نے سوچا کہ نشانی طلب کرنا آپ کو خاموش اور بے بس کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس سے عام لوگوں کو مطمئن بھی کیا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ پیغمبر نہیں بلکہ سخن ساز ہیں۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ چلو اگر یہ نامزد نشانی نہیں دکھلاتے تو کسی تعیین کے بغیر کوئی بھی نشانی طلب کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ کیا کوئی بھی نشانی ایسی ہے جس سے ہم یہ جان سکیں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں؟ اس پر آپ ﷺ نے اپنے پروردگار سے سوال کیا کہ انہیں کوئی نشانی دکھلا دے۔ جواب میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے، اور فرمایا کہ انہیں بتلا دو آج رات نشانی دکھلائی جائے گی۔ (الدر المنثور بحوالہ ابو النعیم فی الدلائل ۶/۱۷۷) اور رات ہوئی تو اللہ نے چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھلا دیا۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ آپ انہیں کوئی نشانی دکھلائیں۔ آپ نے انہیں دکھلا دیا کہ چاند دو ٹکڑے ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دونوں ٹکڑوں کے درمیان میں حراء پہاڑ کو دیکھا۔ (صحیح بخاری مع فتح الباری ۷/۲۲۱ح ۳۸۶۸)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ چاند دو ٹکڑے ہوا، اس وقت ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منی ٰ میں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: گواہ رہو اور چاند کا ایک ٹکڑا پھٹ کر پہاڑ (یعنی جبل ابو قبیس) کی طرف جا رہا۔ ( ایضاً ایضا ح ۳۸۶۹)
چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا یہ معجزہ بہت صاف تھا۔ قریش نے اسے بڑی وضاحت سے کافی دیر تک دیکھا اور آنکھ مل مل کر اور صاف کر کر کے دیکھا اور ششدر رہ گئے لیکن پھر بھی ایمان نہیں لائے، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور حقیقت یہ ہے کہ محمد نے ہماری آنکھوں پر جادو کر دیا ہے۔ اس پر بحث و مباحثہ بھی کیا۔ کہنے والوں نے کہا کہ اگر محمد نے تم پر جادو کیا ہے تو وہ سارے لوگوں پر تو جادو نہیں کر سکتے۔ باہر والوں کو آنے دو، دیکھو کیا خبر لے کر آتے ہیں۔ اس کے بعد ایسا ہوا باہر سے جو کوئی بھی آیا اس نے اس واقعے کی تصدیق کی، لیکن پھر بھی ظالم ایمان نہیں لائے اور اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔
یہ واقعہ کب پیش آیا۔ علامہ ابن حجرؒ نے اس کا وقت ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے لکھا ہے۔ (فتح الباری ۶/۶۳۸) یعنی ۸ نبوت، علامہ منصور پوری نے۹ نبوت لکھا ہے (رحمۃ للعالمین ۳/۱۵۹) مگر یہ دونوں بیانات محل نظر ہیں۔ کیونکہ ۸ اور ۹ نبوت میں قریش کی طرف سے آپ ﷺ اور بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کا مکمل طور پر بائیکاٹ چل رہا تھا، بات چیت تک بند تھی اور معلوم ہے کہ یہ واقعہ اس قسم کے حالات میں پیش نہیں آیا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے اس کی ایک آیت ذکر کر کے اس سورۃ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ جب نازل ہوئی تو میں مکہ میں ایک کھیلتی ہوئی بچی تھی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورۂ قمر) یعنی یہ عمر کا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وہ مرحلہ تھا جس میں اس قسم کی باتیں یاد بھی ہو جاتی ہیں اور بچپن کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یعنی ۵، ۶، برس کی عمر، لہٰذا واقعہ شق قمر کے لیے ۱۰ یا ۱۱ نبوت زیادہ قرین قیاس ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے اس بیان سے کہ اس وقت ہم منیٰ میں تھے۔ یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ حج کا زمانہ تھا یعنی قمری سال اپنے خاتمے پر تھا۔
شق قمر کی یہ نشانی شاید اس بات کی بھی تمہید رہی ہو کہ آئندہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آئے تو ذہن اس کے امکان کو قبول کر سکیں۔ واللہ اعلم
****​
 
Top