اعظم بنارسی
رکن
- شمولیت
- جولائی 23، 2017
- پیغامات
- 40
- ری ایکشن اسکور
- 15
- پوائنٹ
- 36
تحریر
ابوصمصام جمال بنارسی
======================
ہمارے معاشرہ میں چرم قربانی کا بھی وہی حال ہےجو بدقسمتی سے زکوۃ جیسی اہم عبادت کاہے جب سے مدارس اور تنظیم کے نمائندےگھر گھر جاکرزکوۃ کا مال وصول کرنے لگے نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان مدارس سےبڑھ کر زکوۃ کا کوئ حقدار ہی نہیں چنانچہ زکوۃ کا سارا مال مدارس اور تنظیموں کی نذر ہوگیا,اب حال تو یہ ہے کہ زکوۃ کے دیگر تمام مصارف کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں.
عیدقرباں کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی کھال کے حقدار کون لوگ ہیں اس کی وضاحت حضرت علی کی اس روایت میں ہو جاتی ہے جس کی تخریج امام بخاري رحمه الله نے کی ہے
ﺃَﻥَّ ﻋَﻠِﻴًّﺎ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﺃَﺧْﺒَﺮَﻩُ : « ﺃَﻥَّ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲَّ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺃَﻣَﺮَﻩُ ﺃَﻥْ ﻳَﻘُﻮﻡَ ﻋَﻠَﻰ ﺑُﺪْﻧِﻪِ، ﻭَﺃَﻥْ ﻳَﻘْﺴِﻢَ ﺑُﺪْﻧَﻪُ ﻛُﻠَّﻬَﺎ، ﻟُﺤُﻮﻣَﻬَﺎ ﻭَﺟُﻠُﻮﺩَﻫَﺎ ﻭَﺟِﻼَﻟَﻬَﺎ، ﻭَﻻَ ﻳُﻌْﻄِﻲَ ﻓِﻲ ﺟِﺰَﺍﺭَﺗِﻬَﺎ ﺷَﻴْﺌًﺎ »
’’ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﻧﮯ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻟﯿﻠﯽٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﭖ ﷺ ﮐﮯ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ( ﺑﻄﻮﺭ ﻧﮕﺮﺍﻥ ) ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟُﻞ ﻣﺴﺎﮐﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﻗﮧ ﮐﺮﺩﯾﮟ ﺍ ‘‘
[ ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ، [(1717]
ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ غریب کا حق ہیں - غریب بےچارہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے رہا اپنی عزت نفس کے آگے مجبور ہو کر وہ بھوک و پیاس کی شدت برداشت کر لیتا ہے لیکن عزت نفس کو مجروح ہونےنہیں دیتا, معاشرہ میں نظر دوڑائیں تو فقراء و مساکین کی کمی نہیں ,لیکن اکثر اغیاء نے انہیں بھلادیاہے ,نہ زکوۃ کےموقع پرغریب یاد رہا نہ عیدالفطراور عیدقرباں کےمواقع پر,شایداس میں اغنیاء کی کسرشان ہو, کہ ہم اتنے بڑے آدمی اور فلاں کےدروازے پرقدم رکھیں ,غریب مسکین,بےحال, پریشان, مدقوف جسم ,پتھرائ آنکھیں, پھٹے پرانے لباس ,بیماریوں سےپریشان رہنے کو نہ سرپرچھت و سائبان ,بدحال وبد ہوش دوش ناتوں پر پریوار کا بوجھ ,اسے تلاش ہے تو ہمدرد کی غمگسار کی ,اسے ضرورت ہے توروپیے پیسے کی , لیکن کون سہارا بنے, کس کے در پرجائیں ,کس سے کہیں ,کوئ اپنا نہیں غربت نے سب سے جدا کر دیا سن رکھا تھاشریعت نے ان جیسے لوگوں کا انتظام کررکھا ہے لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں شریعت توجھوٹی نہیں ہو سکتی لوگ جھوٹے ہو سکتے ہیں.
یاد رکھیں آپ اپنی قربانی میں سے ان لوگوں کا حصہ ضرور لگائیں, اور ان کی مدد کو آگے آئیں یہ حاضری سالانہ نہ ہو بلکہ پورے سال بھر ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں,
چرم قربانی کے اصل حقدار بھی یہی ہیں اس لیے اپنی قربانی کی جلدیں انہیں عطا کریں. جن مدارس میں غیرمستطیع طلباء کے قیام و طعام کا انتظام ہو وہاں پرچرم قربانی دیاجاسکتاہے ایسے ہی وہ تنظیمیں جو صحیح میں فقراء کے ہمدر ہیں ان میں بھی چرم قربانی دے سکتے ہیں لیکن جو تنظیم فقراء و مساکین کے نام پر خلیج ممالک سے لاکھوں کروڑ روپیے کا مشروع لاکر ہضم کر رہی ہومحنت کے نام پرمشروعات سے کمیشن لے لے کر کروڑوں کی جائداد بنارہی ہو ایسے تنظیموں کو اپنے صدقہ وزکوۃ میں سےکچھ بھی نہ دیں،وہ مدارس جہاں قیام کے لیے طلبہ سے ہزاروں روپیے وصول کیاجاتا ہو طعام کے نام پر ہاتھوں میں ٹفن تھمادیاجاتاہوکہ
جاؤگھرگھرجاکرمانگ کر کھالو بےچارہ طالب علم طلب علم کیے شوق میں اپنی بے عزتی برداشت کرتے ہوئے زندہ رہنے کے لیے لوگوں کےدروازوں پر جا کردستک دیتاہے ایسے مدارس میں زکوۃ یاصدقہ کا مال دے کر فقراء کو نظرانداز کرجانا دراصل انصاف کاگلاگھونٹ دینا ہے .
اسی طرح وہ مدارس جہاں اساتذہ کی تقرری کے نام پر لاکھوں روپیے رشوت لیے جاتے ہوں کھلے عام شریعت سے کھلواڑ اور مزاق ہو رہا ہو ایسے مدارس میں میرے نزدیک اپنے صدقات کودیناگویاحرام کام میں تعاون کرنا ہے. اس لیے اہل خیر حضرات سے گزارش ہے کہ اپنا صدقہ جان بوجھ کرضائع نہ کریں اور غریبوں مسکینوں کےکام آئیں نوجوانوں سے گزارش ہے وہ اپنے محلے اور علاقے میں بیداری پیدا کریں
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
_ابوصمصام جمال بنارسی_
ابوصمصام جمال بنارسی
======================
ہمارے معاشرہ میں چرم قربانی کا بھی وہی حال ہےجو بدقسمتی سے زکوۃ جیسی اہم عبادت کاہے جب سے مدارس اور تنظیم کے نمائندےگھر گھر جاکرزکوۃ کا مال وصول کرنے لگے نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان مدارس سےبڑھ کر زکوۃ کا کوئ حقدار ہی نہیں چنانچہ زکوۃ کا سارا مال مدارس اور تنظیموں کی نذر ہوگیا,اب حال تو یہ ہے کہ زکوۃ کے دیگر تمام مصارف کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں.
عیدقرباں کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی کھال کے حقدار کون لوگ ہیں اس کی وضاحت حضرت علی کی اس روایت میں ہو جاتی ہے جس کی تخریج امام بخاري رحمه الله نے کی ہے
ﺃَﻥَّ ﻋَﻠِﻴًّﺎ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﺃَﺧْﺒَﺮَﻩُ : « ﺃَﻥَّ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲَّ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺃَﻣَﺮَﻩُ ﺃَﻥْ ﻳَﻘُﻮﻡَ ﻋَﻠَﻰ ﺑُﺪْﻧِﻪِ، ﻭَﺃَﻥْ ﻳَﻘْﺴِﻢَ ﺑُﺪْﻧَﻪُ ﻛُﻠَّﻬَﺎ، ﻟُﺤُﻮﻣَﻬَﺎ ﻭَﺟُﻠُﻮﺩَﻫَﺎ ﻭَﺟِﻼَﻟَﻬَﺎ، ﻭَﻻَ ﻳُﻌْﻄِﻲَ ﻓِﻲ ﺟِﺰَﺍﺭَﺗِﻬَﺎ ﺷَﻴْﺌًﺎ »
’’ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﻧﮯ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻟﯿﻠﯽٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﭖ ﷺ ﮐﮯ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ( ﺑﻄﻮﺭ ﻧﮕﺮﺍﻥ ) ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟُﻞ ﻣﺴﺎﮐﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﻗﮧ ﮐﺮﺩﯾﮟ ﺍ ‘‘
[ ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ، [(1717]
ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ غریب کا حق ہیں - غریب بےچارہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے رہا اپنی عزت نفس کے آگے مجبور ہو کر وہ بھوک و پیاس کی شدت برداشت کر لیتا ہے لیکن عزت نفس کو مجروح ہونےنہیں دیتا, معاشرہ میں نظر دوڑائیں تو فقراء و مساکین کی کمی نہیں ,لیکن اکثر اغیاء نے انہیں بھلادیاہے ,نہ زکوۃ کےموقع پرغریب یاد رہا نہ عیدالفطراور عیدقرباں کےمواقع پر,شایداس میں اغنیاء کی کسرشان ہو, کہ ہم اتنے بڑے آدمی اور فلاں کےدروازے پرقدم رکھیں ,غریب مسکین,بےحال, پریشان, مدقوف جسم ,پتھرائ آنکھیں, پھٹے پرانے لباس ,بیماریوں سےپریشان رہنے کو نہ سرپرچھت و سائبان ,بدحال وبد ہوش دوش ناتوں پر پریوار کا بوجھ ,اسے تلاش ہے تو ہمدرد کی غمگسار کی ,اسے ضرورت ہے توروپیے پیسے کی , لیکن کون سہارا بنے, کس کے در پرجائیں ,کس سے کہیں ,کوئ اپنا نہیں غربت نے سب سے جدا کر دیا سن رکھا تھاشریعت نے ان جیسے لوگوں کا انتظام کررکھا ہے لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں شریعت توجھوٹی نہیں ہو سکتی لوگ جھوٹے ہو سکتے ہیں.
یاد رکھیں آپ اپنی قربانی میں سے ان لوگوں کا حصہ ضرور لگائیں, اور ان کی مدد کو آگے آئیں یہ حاضری سالانہ نہ ہو بلکہ پورے سال بھر ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں,
چرم قربانی کے اصل حقدار بھی یہی ہیں اس لیے اپنی قربانی کی جلدیں انہیں عطا کریں. جن مدارس میں غیرمستطیع طلباء کے قیام و طعام کا انتظام ہو وہاں پرچرم قربانی دیاجاسکتاہے ایسے ہی وہ تنظیمیں جو صحیح میں فقراء کے ہمدر ہیں ان میں بھی چرم قربانی دے سکتے ہیں لیکن جو تنظیم فقراء و مساکین کے نام پر خلیج ممالک سے لاکھوں کروڑ روپیے کا مشروع لاکر ہضم کر رہی ہومحنت کے نام پرمشروعات سے کمیشن لے لے کر کروڑوں کی جائداد بنارہی ہو ایسے تنظیموں کو اپنے صدقہ وزکوۃ میں سےکچھ بھی نہ دیں،وہ مدارس جہاں قیام کے لیے طلبہ سے ہزاروں روپیے وصول کیاجاتا ہو طعام کے نام پر ہاتھوں میں ٹفن تھمادیاجاتاہوکہ
جاؤگھرگھرجاکرمانگ کر کھالو بےچارہ طالب علم طلب علم کیے شوق میں اپنی بے عزتی برداشت کرتے ہوئے زندہ رہنے کے لیے لوگوں کےدروازوں پر جا کردستک دیتاہے ایسے مدارس میں زکوۃ یاصدقہ کا مال دے کر فقراء کو نظرانداز کرجانا دراصل انصاف کاگلاگھونٹ دینا ہے .
اسی طرح وہ مدارس جہاں اساتذہ کی تقرری کے نام پر لاکھوں روپیے رشوت لیے جاتے ہوں کھلے عام شریعت سے کھلواڑ اور مزاق ہو رہا ہو ایسے مدارس میں میرے نزدیک اپنے صدقات کودیناگویاحرام کام میں تعاون کرنا ہے. اس لیے اہل خیر حضرات سے گزارش ہے کہ اپنا صدقہ جان بوجھ کرضائع نہ کریں اور غریبوں مسکینوں کےکام آئیں نوجوانوں سے گزارش ہے وہ اپنے محلے اور علاقے میں بیداری پیدا کریں
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
_ابوصمصام جمال بنارسی_