• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چند باہمی حقوق

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عن أبي موسى قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أطعموا الجائع وعودوا المريض وفكوا العاني " . رواه البخاري
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بھوکے (یعنی مضطر و مسکین اور فقیر) کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو (دشمن کی قید سے) چھڑاؤ" (بخاری)
تشریح
اس حدیث میں تین باتوں کا حکم دیا جا رہا ہے یہ " وجوب علی الکفایۃ" کے طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص بھی ان احکام کو پورا کر لے تو بقیہ دوسرے لوگوں کے لئے انہیں پورا کرنا ضروری نہیں ہے تاہم سب کے لئے ان احکام پر عمل کرنا سنت اور باعث ثواب ضرور ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص ان احکام کو پورا نہ کرے تو پھر سب ہی لوگ نافرمانی کے گناہ میں مبتلا ہوں گے۔
شیخ عبدالحق دہلوی نے لکھا ہے کہ " بھوکے کو اس صورت میں کھانا کھلانا سنت ہے اگر وہ حالت اضطرار میں نہ ہو یعنی اس بھوکے کی یہ کیفیت نہ ہو کہ اگر اسے کھانا نہ کھلایا گیا تو مر جائے۔ مگر اس شکل میں اسے کھانا دینا فرض ہے کہ وہ حالت اضطرار کو پہنچ چکا ہو۔

اسی طرح کوئی بھوکا کسی ایسے مقام پر ہو جہاں ایک نہ ہو بلکہ کئی آدمی ذی مقدور ہوں یعنی اس بھوکے کو کھانا کھلانے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان سب ذی المقدور لوگوں پر بھوکے کو کھانا کھلانا فرض کفایہ ہو گا کہ اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی بھوکے کو کھانا کھلا دیا تو سب لوگ بری الذمہ ہو جائیں گے۔ ہاں اگر بھوکا کسی ایسی جگہ ہو جہاں صرف ایک ہی آدمی ذی مقدور ہو اور بقیہ سب لوگ مفلس و قلاش ہوں تو اس ذی مقدور پر بھوکے کو کھانا کھلانا فرض عین ہو گا ایسے ہی اس بیمار کی عیادت اور مزاج پرسی سنت ہے جس کا کوئی خبر گیر اور تیمار دار ہو اور اس بیمار کی عیادت و مزاج پرسی واجب ہے جس کا کوئی خبر گیر و تیمار دار نہ ہو۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " حق المسلم على المسلم خمس : رد السلام وعيادة المريض واتباع الجنائز وإجابة الدعوة وتشميت العاطس "
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایک) مسلمان کے (دوسرے) مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ (١) سلام کا جواب دینا (٢) بیمار کی عیادت کرنا (٣) جنازہ کے ساتھ جانا (٤) دعوت قبول کرنا (٥) چھینکنے والے کا جواب دینا۔"
(بخاری و مسلم)
تشریح
مذکورہ بالا پانچوں چیزیں فرض کفایہ ہیں۔ سلام کرنا سنت ہے اور وہ بھی حقوق اسلام میں سے ہے جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا۔ مگر سلام کرنا ایسی سنت ہے جو فرض سے بھی افضل ہے کیونکہ اسے کرنے سے نہ صرف یہ کہ تواضع و انکساری کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ اداء سنت واجب کا سبب بھی ہے۔
اور علامہ عبید اللہ مبارکپوری لکھتے ہیں :
(رد السلام) أي جوابه. وهو فرض عين من الواحد، وفرض كفاية من جماعة يسلم عليهم. وأما السلام فسنة، فقد نقل ابن عبد البر وغيره إجماع المسلمين على أن ابتداء السلام سنة، وأن رده فرض ‘‘ یعنی سلام کا جواب دینا فرض عین ہے اگر سلامکا جواب دینے ایک ہی ہو ،اور اگر ایک سے زائد ہوں تو فرض کفایہ ہے ، سلام کرنا سنت ہے ،علامہ ابن عبد البر وغیرہ نے اہل اسلام کا اجماع نقل کیا ہے کہ ابتداءً سلام کہنا سنت ہے ، اور اس کا جواب دینا فرض ہے ،
(واتباع الجنائز) أي المضي معها والمشي خلفها إلى حين دفنها بعد الصلاة عليها، وهو من الواجبات على الكفاية ‘‘ جنازے کے ساتھ جانا ، اس کے پیچھے پیچھے چلنا ،اور نماز جنازہ پڑھ کر دفن تک حاضر رہنا ،واجب کفایہ ہے ‘‘(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح )

بیمار کی عیادت اور جنازہ کے ساتھ جانے کے حکم سے اہل بدعت مستثنیٰ ہیں۔ یعنی روافض وغیرہ کی نہ تو عیادت کی جائے اور نہ ان کے جنازہ کے ساتھ جایا جائے۔
جو ضیافت محض از راہ مفاخرت اور نام و نمود کی خاطر ہو اس میں شرکت نہ کی جائے چنانچہ سلف یعنی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور پہلے زمانہ کے علماء کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ ایسی ضیافت کو ناپسند کرتے تھے۔
" چھینکنے والے کا جواب دینے" کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھینکنے والا " الحمدللہ " کہے تو اس کے جواب میں " یرحمک اللہ ' کہا جائے شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اسلام کے ان تمام حقوق کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے خواہ نیک مسلمان ہوں یا بد۔ یعنی ایسے مسلمان ہوں جو گنہگار تو ہوں مگر مبتدع(بدعتی) نہ ہوں اس احتیاط اور امتیاز کو مدنظر رکھا جائے کہ بشاشت یعنی خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا اور مصافحہ کرنا صرف نیک مسلمان ہی کے ساتھ مختص ہونا چاہئے فاجر یعنی ایسے بد اور گنہگار مسلمان کے ساتھ جو علی الاعلان معصیت و گناہ میں مبتلا رہتا ہے بشاشت و مصافحہ ضروری نہیں ہے۔
البتہ اگر اس کی اصلاح کی غرض سے اس سے خندہ پیشانی سے پیش آئے تو دوسری بات ہے ،
 
Top