• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چوتھے دن کی قربانی کا مسئلہ :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069


چوتھے دن کی قربانی کا مسئلہ

سوال : چوتھے دن کی قربانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب:

۱)قربانی کےایام یوم النحر کے علاوہ بقیہ تین دن یعنی ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحجہ قربانی کے ایام ہیں۔

اس بارے میں جمہورِ اہلِ علم کی دلیل سیدناجبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ :" کل أيام التشريق ذبح "[1] ۔

اس روایت کی سند میں تمام رجال ثقات ہیں۔ البتہ راوی سلمان بن موسیٰ کا سماع (سننا)صحابی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔

جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح ابن حبان میں بھی یہی روایت نقل کی ہے۔ لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے یعنی عبد الرحمٰن بن ابی حسن کا سماع سیدناجبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔

اگرچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے معرفۃ السنن میں اس انقطاع کا ذکر نہیں کیا۔[2] نیز حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے۔

"وحجة الجمهور حديث جبير بن مطعم رضي الله عنه رفعه (کل فجاح منیٰ منحر وکل ايام التشريق ذبح) اخرجه احمد لکن فی إسناده انقطاع ووصله الدارقطنی ورواته ثقات".[3]

’’ یعنی اس حدیث کو متصل سند کے ساتھ امام دارقطنی نے روایت کیا اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں یوں تعدد طرق کے سبب سے اس روایت کو محققین کی ایک جماعت نے قبول کیا ہے۔ مثلاً:

امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:

"فقال الشافعي يجوز في يوم النحر وايام التشريق ثلاثة بعده ومن قال بهذا علي ابن ابي طالب وجبير بن مطعم وابن عباس رضي الله عنهم وعطاء والحسن البصري وعمر بن عبد العزيز

وسليمان موسیٰ الأسدي فقيه أهل الشام وداؤود الظاهري".[4]

یعنی امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب، جبیر بن مطعم، ابن عباس رضی اللہ عنہم ،اور سیدناحسن بصری ، عمر بن عبد العزیز سلیمان موسیٰ الاسدی اور داؤد ظاہری رحمہم اللہ جمیعاً یہ سب چار دن کی قربانی کے قائل ہیں۔

جبکہ فتح الباری میں اہل شام کے امام امام اوزاعی رحمہ اللہ کا نام بھی مذکور ہے نیز امام ابن المنذر رحمہ اللہ نےبھی اس تحقیق کو اختیار کیا ہے۔

مزید شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب الاختیارات میں لکھا ہے۔

"ذبح الأضحية آخر أيام التشريق وهو مذهب الشافعب واحد قولی أحمد".

یعنی قربانی ایام تشریق کے آخری دن تک ہے۔یہی موقف امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے دو قول میں سے ایک قول چوتھے دن کی قربانی کا ہے۔

نیز زاد المعاد میں علامہ امام ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ نے محلّٰی میں حنفیہ کے اس دعوے پر کہ تین دن کی قربانی کا مسئلہ اجماعی مسئلہ ہے کی تردید میں پہلےفقط تین دن کی قربانی سے متعلقہ ان آثار پر اصولی نقد کیا ہے اور پھر اپنا مؤقف بیان کیا ہے، وہ فرماتےہیں:


" عن علي النحر ثلاثةأيام".

یعنی علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے قربانی تین دن ہے اس کی سند میں ابن ابی یعلیٰ سيئ الحفظ جبکہ منہال متکلم فیہ ہے۔

مالک بن ماعز یا ماعز بن مالک نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ان کے والد نے جنابِ عمر رضی اللہ عنہ سے سنا "إنما النحر في هذه الثلاثة الايام"

’’ یعنی قربانی تین دن ہے۔ اس کی سند میں باپ اور بیٹا جو اس اثر کو جنابِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں مجہول ہیں‘‘۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:" أيامالنحر ثلاثة أيام". یعنی قربانی تین دن ہے۔ اس کی سند میں ابو حمزہ ضعیف راوی ہے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:" الأضحی يوم النحر ويومان بعده". اس کی سند بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اسماعیل بن عیاش اور عبد اللہ بن نافع یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔

ان آثار کے بارے میں حنفی امام علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ بھی نصب الرایہ میں لکھتے ہیں: "روي عن عمر وعلي وابن عباس انهم قالوا أيام النحر ثلاثة أفضلهاأولها۔ قلت غريب جداً ".

کہ سیدنا عمر، علی اور ابنِ عباس سے مروی شدہ آثار ہیں کہ قربانی کے تین دن ہیں ، میں یہ کہتا ہوں کہ " غریب جدا "۔ یہ تو بہت ہی غریب ہیں ۔

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"الاضحی ثلاثة أيام"۔ قربانی تین دن ہے۔

اس کی سند صحیح ہے لیکن ایک تو یہ صحابی کا قول ہے، مرفوع روایت نہیں نیز اس میں زیادتی کی نفی نہیں ہے۔

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:

"وان کان هذا إجماعًا فقد خالفه عطاء وعمر بن عبد العزيز والحسن البصری والزهري أبو مسلمة بن عبد الرحمن وسليمان بن يسار وأف لکل إجماع خرج عنه هولاء ".[5]

’’ یعنی اگر اس مسئلہ میں اجماع ہوتا ( کہ قربانی صرف تین دن ہے ) تو امام عطاء (امام ابوحنیفہ کے استاذ) اور سیدنا عمر بن عبد العزیز ، امام حسن بصری، امام زہری ابو مسلمہ اور سلیمان بن یسار رحمہم اللہ جیسے نامور ائمہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔ سو ایسا اجماع جس کی مذکورہ ائمہ جیسے مخالفت کریں وہ انتہائی قابلِ رحم وقابلِ افسوس ہے‘‘ (یعنی یہ دعوی اجماع باطل ہے)۔

صاحبِ نیل الاوطار امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلہ میں ترجیح چار دن کی قربانی کو دی ہے ۔ جیساکہ انہوں نے فیصلہ کن انداز میں لکھا ہے:

"أرجحها المذهب الأول للأحاديث المذکورة في الباب وهي يقوی بعضها بعضًا".[6]

یعنی اس مضمون میں مذکورہ احادیث کی روشنی میں مذہبِ اول راجح ہے کیونکہ وہ تمام احادیث ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ بھی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:

"والصواب عندي أنه لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد التي قبله ولاسيما وقد قال به جمع من الصحابة کما في شرح مسلم للنووي".[7]

یعنی میری تحقیق کے مطابق یہ روایت شواہد کی وجہ سےحسن درجہ سے کم نہیں ہےنیز صحابہ کی ایک جماعت بھی اس کی قائل ہے جیساکہ نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس کی وضاحت کی ہے۔

مزید صاحب مرعاۃ المفاتیح علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ بھی اسی موقف کے حق میں ہیں۔

دورِ حاضر کے معروف محققینِ حدیث شیخ عبد القادر الارنائووط اور شیخ شعیب الارنائووط بھی یہی تحقیق رکھتے ہیں جیساکہ شیخ امین اللہ صاحب حفظہ اللہ نے فتاویٰ الدین الخالص میں ذکر کیا ہے۔

سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی (لجنۃ دائمہ) نے بھی اپنے فتوے میں تحریر کیا ہے: "ينتهي الذبح بغروب الشمس اليوم الرابع فی اصح اقوال أهل العلم"۔ [8]

قربانی کا انتہائی وقت چوتھے دن کے غروبِ آفتاب تک ہے۔

اہل الحدیث علماء ِ کرام میں اکثر فتاویٰ نویس کے فتاویٰ بھی مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں یہی ہیں۔

راقم نے شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً سے اس موضوع پر سوال کیا تو شیخ رحمہ اللہ کا یہی جواب تھا کہ:

روایت میں ضعف ہے لیکن چونکہ اس کی متعدد سندیں ہیں جس میں بعض کا ضعف بعض سے زائل ہوجاتا ہے اور مجموعی طور پر روایت قابل عمل ہوجاتی ہے۔

واضح رہے کچھ اہلِ تحقیق کا موقف قربانی کے حوالے سے صرف تین دن کا ہی ہے ان کے پاس بھی دلیل ہے جو کتب میں مذکور ہے۔

ہم نے چوتھے دن کی قربانی کے حوالے سے جو گزارشات ضروری سمجھی اسے بقدر ضرورت تحریر کردیا ہے۔


ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب


وصلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ أجمعین


[1] مسند احمد رقم الحديث:16752،سنن الصغير للبيهقی:باب وقت الاضحیۃ رقم الحديث:1832۔

[2] معرفۃسنن:ايام النحر رقم الحديث:16114۔

[3] فتح الباری ج: ۱۰،سنن الدار القطنی :الصيد و الذبائح:رقم الحديث:4758۔

[4] شرح مسلم للنووی: کتاب الاضاحی جزء 13/112۔

[5] المحلی باآثار جلد6/40-43

[6] نيل الاوطار:باب بيان وقت الذبح جلد5/149

[7] سلسلۃالاحاديث الصحيحۃ:باب:2476جلد 5/621

[8] فتاویٰ لجنۃدائمهللبحوث العلمیۃوالافتاء ج: 11، ص: 405
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

قربانی کے تین دن؟




قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ:وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوْااسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَارَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔

سورۃ الحج

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کردی تاکہ اللہ نے جو چوپائے انہیں دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیا کریں۔
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الأنْعَامِ

الحج: 28

اور الله کا نام لو معلوم دنوں میں چوپایوں پر جو اس نے تم کو دیے ہیں

یوم عرفہ – یوم الحج الاکبر – ٩ ذو الحجہ

یوم نحر – یوم عید الاضحی – ١٠ ذو الحجہ

ایام التشریق منی میں حج کے بعد کے تین دن ہیں امام مالک موطا میں ایام تشریق کی وضاحت کرتے ہیں

أَيَّامِ التَّشْرِيقِ إِنَّهُ لَا يُجَمِّعُ فِي شَيْءٍ مِنْ تِلْكَ الْأَيَّامِ

ایام التشریق کیونکہ ان دنوں میں کوئی چیز جمع نہ کی جائے

ابن حجر فتح الباری ج ٤ ص ٢٨٥ میں لکھتے ہیں

وقد اختلف في كونها يومين أو ثلاثة، وسميت أيام التشريق؛ لأن لحوم الأضاحي تشرق فيها أي تنشر عند الشمس

اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو دن ہیں یا تین ہیں، اور ان کو ایام تشریق کہا جاتا ہے کیونکہ قربانی کا گوشت سورج نکلتے ہی پھیل جاتا (بٹ جاتا) ہے

بعض کہتے ہیں یہ تین دن ہیں

اس میں اختلا ف ہے کہ یہ کون کون سے دن ہیں بعض کے نزدیک یہ ١٠، ١١ اور ١٢ ہیں اور بعض کے نزدیک ایام التشریق میں یوم عید کے بعد کے تین دن ہیں یعنی ١١ ، ١٢ اور ١٣ ذو الحجہ

اس سلسلے میں ترمذی کی حسن حدیث پیش کی جاتی ہے کہ مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ اپنے باپ على بن رباح بن قصير اللخمى سے وہ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ
يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام، وهي أيام أكل وشرب

کھانے پینے کے دن ، اہل اسلام کے لئے ہیں یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق

اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایام تشریق کا یوم نحر سے الگ ذکر کیا ہے لہذا یہ الگ ہیں

اس روایت کو امام احمد بھی مسند میں بیان کرتے ہیں الطحاوی اس روایت کو خاص کرتے ہیں یعنی حاجیوں کے لئے کہتے ہیں
فلما ثبت بهذه الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: النهي عن صيام أيام التشريق وكان نهيه عن ذلك بمنى والحجاج مقيمون بها

إسحاق بن منصور بن بهرام نے امام احمد سے قربانی کے بارے میں سوال کیا کہ کتنے دن ہے

کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق
قلت: كم الأضحى؟ [ثلاثة أيام

قال: ثلاثة أيام، يوم النحر، ويومان بعده

احمد نے کہا تین دن ، يوم النحر اور اس کے بعد دو دن

یعنی ١٠ ، ١١ اور ١٢ ذو الحجہ ہوئے

عصر حاضر کے حنابلہ ابن تیمیہ رحم الله کی تقلید میں ایام تشریق میں ١٣ کو بھی شامل کرتے ہیں

ترمذی کی حسن روایت کو امام احمد مسند میں نقل کرتے ہیں لیکن فتوی اس کے بر خلاف دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان کے نزدیک صحیح نہیں

قربانی کا گوشت تو یوم نحر میں ہی بٹنا شروع ہو جائے گا لہٰذا اس کو ایام تشریق سے الگ نہیں کیا جا سکتا

کتاب شرح مختصر الطحاوي از أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370 هـ) کے مطابق امام طحاوی کہتے ہیں

وأيام النحر ثلاثة أيام، يوم النحر ويومان بعده، وأفضلها أولها

اور ایام النحر تین ہیں یوم نحر اور اس کے بعد دو دن اور افضل شروع میں ہے

اس کے بر خلاف امام الشافعی کا کتاب الام میں قول ہے کہ یہ تین دن سے زیادہ ہے
قَالَ الشَّافِعِيُّ : وَالْأُضْحِيَّةُ جَائِزَةٌ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَيَّامَ مِنًى كُلَّهَا لِأَنَّهَا أَيَّامُ النُّسُكِ

قربانی جائز ہے یوم النحر اور سارے ایام منی میں کیونکہ یہ قربانی کے دن ہیں

امام الشافعی کی رائے میں منی کے تمام ایام میں کی جا سکتی ہے

امام الشافعی کی رائے قیاس پر مبنی ہے لہذا قرآن کی آیت میں ہے

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ

(البقرۃ : 203)

اور معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔

شوافع میں أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ کو أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ سے ملا کر بحث کی جاتی ہے کہ قربانی کے دن تمام ایام منی ہیں – اس کے برعکس احناف ، مالکیہ اور حنابلہ کا موقف ہے کہ قربانی تین دن ہے یہاں سے فقہاء کا اختلاف شروع ہوتا ہے

غیر مقلدین شوافع سے ایک ہاتھ آگے جا کر تشریق کے دنوں کی تعریف بدلنے کے بعد اس میں زبردستی ١٣ ذو الحج کو داخل کرتے ہیں اور کہتے ہیں ١٣ تاریخ میں سورج غروب ہونے سے پہلے قربانی جائز ہے

امام محمّد کتاب الأَصْلُ میں کہتے ہیں


باب التكبير في أيام التشريق

قلت: أرأيت التكبير في أيام التشريق متى هو، وكيف هو، ومتى يبدأ ، ومتى يقطع؟ قال: كان عبد الله بن مسعود يبتدئ به من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر ، وكان علي بن أبي طالب يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق ، فأي ذلك ما فعلت فهو حسن ، وأما أبو حنيفة فإنه كان يأخذ بقول ابن مسعود، وكان يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر، ولا يكبر بعدها، وأما أبو يوسف ومحمد فإنهما يأخذان بقول علي بن أبي طالب.


تشریق کے ایام میں تکبیر کہنا …. کہا تکبیر، عبد الله ابن مسعود صلاة الغداة (نماز فجر) یوم عرفہ کے دن سے یوم نحر میں عصر کی نماز تک کرتے اور علی بن ابی طالب صلاة الغداة (نماز فجر) میں تکبیر کہتے ایام تشریق نماز عصر کے آخر تک اور اسی طرح حسن کرتے اور جہاں تک ابو حنیفہ کا تعلق ہے تو وہ ابن مسعود کا عمل کرتے اور … اور امام ابو یوسف اور محمد علی بن ابی طالب کا قول لیتے

قال الإمام محمد: أخبرنا سلام بن سليم الحنفي عن أبي إسحاق السبيعي عن الأسود بن يزيد قال كان عبد الله بن مسعود – رضي الله عنه – يكبر من صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد. انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 310؛ ورواه من وجه آخر. انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 308. وانظر: الآثار لأبي يوسف، 60؛ والمصنف لابن أبي شيبة، 1/ 488؛ ونصب الراية للزيلعي، 2/ 222.

یعنی علی رضی الله عنہ ١٣ نمازوں میں تکبیر کہتے اور ابن مسعود ٨ نمازوں میں تکبیر کہتے

کتاب النتف في الفتاوى از أبو الحسن علي بن الحسين بن محمد السُّغْدي، حنفي (المتوفى: 461هـ

کے مطابق

قَالَ ابْن مَسْعُود يَنْتَهِي بهَا الى الْعَصْر من يَوْم النَّحْر وَهِي ثَمَانِي صلوَات

وَبِه أَخذ أَبُو حنيفَة وَحده

وَقَالَ عَليّ بل يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الْعَصْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ ثَلَاثَة وَعِشْرُونَ صَلَاة وَكَذَلِكَ قَول عمر فِي رِوَايَة وَعَلِيهِ الْعَامَّة وروى عَن عمر ايضا انه يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الظّهْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ اثْنَتَانِ وَعِشْرُونَ صَلَاة

وَقَالَ ابْن عمر وَابْن عَبَّاس يَبْتَدِئ بِالتَّكْبِيرِ عَن صَلَاة الظّهْر من يَوْم النَّحْر

وَقَالَ لَا تَجْتَمِع التَّلْبِيَة والتكبيرات مَعًا فاذا انْقَطَعت التَّلْبِيَة اخذ فِي التَّكْبِير

وَقَالَ ابْن عَبَّاس يَنْتَهِي بهَا الى آخر أَيَّام التَّشْرِيق عِنْد صَلَاة الظّهْر فَهِيَ عشرَة صَلَاة

وَقَالَ ابْن عمر يَنْتَهِي بهَا الى غداه آخر ايام التَّشْرِيق فَهِيَ خَمْسَة عشر صَلَاة

تکبیرات کی تعداد بتاتی ہے کہ تشریق کے ایام اکابر صحابہ کے نزدیک ١٠، ١١، اور ١٢ ہی تھے

غیر مقلدین ، امام الشافعی کی تقلید میں تین دن کی بجائے چار دن قربانی کرنے کے قائل ہیں لہذا وہ ١٣ ذو الحجہ کو بھی قربانی کرتے ہیں

ابن قیم نے زاد المعاد میں روایت پیش کی ہے

ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528)نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291

لیکن کنز العمال جیسی کتاب میں سند تک تو موجود نہیں ہے اور باوجود تلاش کے اس کی سند دریافت نہ ہوسکی

بیہقی سنن الکبری میں روایت لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ … وَكُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ

اس روایت میں ہے کہ ایام التشریق میں قربانی ہے

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں سليمان بن موسى الدمشقي کےلئے ہے

قال البخاري هو مرسل لم يدرك سليمان أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم

بیہقی سنن الکبری میں یہی راوی سليمان بن موسى کہتے ہیں کہ قربانی تین دن ہے

قَالَ: وَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَانِئٍ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: النَّحْرُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ , فَقَالَ مَكْحُولٌ: صَدَقَ

غیر مقلدین امام الشافعی، امام النووی کے حوالے دیتے ہیں جو سب شافعی فقہ پر تھے لہذا یہ سب چار دن قربانی کی قائل ہیں – ان کے مقابلے میں حنابلہ ، مالکیہ اور احناف تین دن قربانی کے قائل ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ :

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میرا موقف اس مسئلہ پر وہی جو اہل حدیث کے اکثر علماء کاہے کہ قربانی کے چار دن ہیں ،جو اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں تفصیل سے "محمد عامر یونس ‘‘ بھائی نے درج کردیا ہے ؛
اور شیخ مکرم جناب زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا موقف تین دن کا ہے ،جیسا کہ اسی فورم پر ان کا مضمون کسی بھائی نے پوسٹ کر دیا ہوا ہے
درج ذیل تھریڈ دیکھئے:
قربانی کے تین دن ہیں۔حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
طرفین کے دلائل سامنے آگئے ہیں ، مجھے بھی چار دن والی بات درست محسوس ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
لیکن کیا ضرورت ہے کہ پہلا دن ، دوسرا دن ، تیسرا دن چھوڑ کر چوتھے دن قربانی کی جائے ؟
اگر واقعتا کوئی ضرورت ہے تو کرلیں ۔
 
Top