• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چھوٹے بچے اور معاشرے کا ایک المیہ ، دستاویز یا سازش ؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
معاشرے کے مختلف رنگ ہیں ۔ کہیں اسلام پسند ایک دوسرے سے نالاں ہیں اور کہیں دین سے بیزار لوگ اسلام پر اعتراض کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔
خود کو محب وطن سمجھتا ہوں ، اسلامی تعلیمات کے پرچار کا خواہشمند اور بے دین لوگوں سے انتہائی بیزاری محسوس کرتا ہوں ۔ اس لیے دین اسلام کے مخالف بکواس کرنے والے اور وطن کے خلاف زبان دراز کرنے والوں کے پاس ایک منٹ بھی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔
لیکن پھر بھی کبھی کبھی ایسی جگہوں پر چلا جاتا ہوں جہاں بہانے بہانے سے دین کا مذاق اور وطن پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں ۔
ذہن یہ ہوتا ہے کہ شاید کسی کی اصلاح کرسکوں لیکن وہاں تو دین و ایمان اور وطن سے پیار محبت کرنے والوں پر لوگ اس طرح ٹوٹتے ہیں جس طرح خوانخوار کتے اپنے شکار پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔
لہذا دوسروں کی اصلاح کی بجائے اپنے ایمان اور عقیدہ کی سلامتی کی فکر کرتے ہوئے فورا واپسی کی راہ لیتا ہوں ۔
آج بھی ایسی ہی ایک محفل سے آ رہا ہوں ۔ لیکن خالی ہاتھ نہیں بلکہ ایک عدد ویڈیو کے ساتھ جس میں بظاہر تو ایک خطرناک معاشرتی برائی کی اصلاح نظر آتی ہے ۔ لیکن میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ محنت محب وطن لوگوں اور اسلام پسندوں نے کی ہے یا پھر اس کا مقصد وطن عزیز کو ’’ اسلامی سلطنت ‘‘ کہنے یا اس میں اسلام کے نفاذ کے لیے کوششیں کرنے والوں کے لیے ایک ’’ طمانچہ ‘‘ اور ’’ گالی ‘‘ بنا کر پیش کرنا ہے ۔
خیر یہ رہی ویڈیو ، خود ہی ملاحظہ کریں :
(چھوٹے بچے اس ویڈیو کو نہ دیکھیں )
http://tune.pk/video/3153884/four-corners-streets-of-shame
ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے دو پہلو مد نظر رہنے چاہییں :
1۔ اس میں ذکر کردہ جس معاشرتی برائی کو واضح کیا گیا ہے ۔ اس کے اسباب اور حل کے بارے میں گفتکو فرمائیں ۔ اسلام نے اس سلسلے میں کیا رہنمائی کی ہے ۔
2۔ دوسرا اس پہلو سے کہ ویڈیو اصلاحی نقطہ نظر سے تیار کی گئی ہے یا سازشی نقطہ نظر سے ، یا اسلامی سلطنت کو بدنام کرنے کے لیے ۔
یہ ویڈیو کسی غیر ملکی چینل نے تیار کی ہے ۔ کیا پاکستان میں یہ برائی اس قدر زیادہ ہے کہ دوسرے بھی اس کی سنگینی کو محسوس کرتے ہیں ؟ اور کیا خود ان کے ممالک میں یہ چیزیں موجود نہیں ہیں ؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بدكاري ( لواطت ) كےمتعلق مسلمانوں كا موقف
ميں اس وقت ايشيا اور خاص كرمليشيا ميں لواطت ( بدكاري ) جيسي فحاشي كے عام ہونےپر ريسرچ كررہا ہوں، آپ سےميري گزارش ہےكہ مندرجہ ذيل سوالوں كےجواب عنايت فرمائيں:
1- مليشيا ميں ( مسلمانوں اور غيرمسلموں كو ) لواطت جيسي فحاشي سے كيسےنپٹنا چاہيے؟
2- ايسےلوگوں كوسخت سےسخت كس طرح كي سزا دي جاسكتي ہے؟
3 - معاشرے كولواطت كےبارہ ميں كس طرج سمجھايا جاسكتا ہے؟
4 - كيا قانونا لواطت كي اجازت ہے ؟

الحمد للہ :

مليشيا جيسےملك ميں ہم جنس پرستي كي حالت كےبارہ ميں ہميں تو كوئي تجربہ اور علم نہيں كہ وہاں كس حالت ميں ہے، ليكن اس معاشرے كے مسلمانوں كواس گندے اور فحش كام سےمكمل نفرت و كراہيت ہوني چاہيے، اس ليےكہ جس دين يعني دين اسلام كےوہ پيروكارہيں اس نےاس فحش كام كو شديدحرام قرارديا ہےاوردنيا ميں بھي اس كي المناك سزا مقرر كي ہے اور آخرت ميں بھي اسےدردناك سزا ملےگي اور ايسا كيوں نہ ہو جب كہ



نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاس كےمتعلق فرمايا:

( تم جسےبھي قوم لوط كا عمل كرتےہوئےپاؤ تو كرنےوالے اور جس كےساتھ كيا گيا ہو دونوں كوقتل كردو )

يعني جب وہ ايسا كرنےپر راضي ہو امام ترمذي نےسنن ترمذي ميں اسے روايت كيا ہے ديكھيں ترمذي ( 1376 )


علماء اسلام مثلا امام شافعي، امام مالك، اور امام احمد، اسحاق رحمہم اللہ تعالي كا كہناہےكہ: اسے رجم كي حد لگائي جائےگي چاہے وہ شادي شدہ ہو يا كنوارہ.

اور وہ شخص جو اللہ تعالي كي فطرت كي مخالف كركےايسا كام كرتا ہے جومرد كو مرد اور عورت كوعورت سےاكتفاء كرنےاور خاندان اجاڑنےاوران ميں فساد بپا كركےانساني نسل پر اثر انداز ہوتا اور معاشرے ميں بگاڑ اور فساد پيدا كركے خطرناك بيمارياں پيدا كرےاور بےگناہ لوگوں كوضرر اور نقصان سے دوچار كرنےكےساتھ ساتھ يہ اذيت بچوں ميں بھي منتقل كرے، اور عمومي طور پر زمين ميں فساد بپا كرے بلاشك وشبہ يہ بہت ايسي آفت ہے جس كي بيخ كني كرنا ضروري ہے اور اسےجڑ سےكاٹ پھينكنا ضروري ہے.

اس موضوع پر ريسرچ كرنےوالےہوسكتا ہے آپ كو يہ ريسرچ اس دين اسلام كي عظمت اوراس كےقوانين وشرايع كي باريكي كي بلندي اوردين اسلام كونازل كرنےوالے كي حكمت كي طرف لےجائے، اللہ تعالي سےميري دعا ہے كہ وہ آپ كوكاميابي اورتوفيق عطا فرمائے، اللہ تعالي ہي سيدھےراہ كي ہدايت دينے والا ہے.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
لواطت كا انجام

لواطت كى سزا كيا ہے، اور كيا فاعل اور مفعول كے مابين كوئى فرق پايا جاتا ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

لواطت كا جرم سب جرائم سے بڑا، اور سب گناہوں سے سب سے زيادہ قبيح گناہ ہے، اور افعال ميں سے غلط ہے، اس كے مرتكب افراد كو اللہ تعالى نے وہ سزا دى ہے جو كسى اور امت كو نہيں دى، اور يہ جرم فطرتى گراوٹ، اور بصيرت كے اندھے پن، اور عقلى كمزورى، قلت دين پر دلالت كرتا ہے، اور ذلت و پستى كى علامت، اور محرومى كا زينہ ہے، اللہ تعالى سے ہم عافيت و معافى طلب كرتے ہيں.


اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور جب لوط ( عليہ السلام ) نے اپنى قوم كو كہا كيا تم ايسى فحاشى كرتے ہو جو تم سے قبل كسى نے بھى نہي كى، يقينا تم عورتوں كى بجائے مردوں سے شہوت والے كام كرتے ہو، بلكہ تم تو حد سے بڑھى ہوئى قوم ہو، اس كى قوم كا جواب تھا كہ اسے تم اپنى بستى سے نكال باہر كرو يہ پاكباز لوگ بنے پھرتے ہيں، تو ہم نے اسے اور اس كے گھر والوں كو نجات دى، مگر اس كى بيوى پيچھے رہ جانے والوں ميں سے تھى، اور ہم نے ان پر آسمان سے پتھروں كى بارس برسائى، تو آپ ديكھيں كہ مجرموں كا انجام كيا ہوا ﴾الاعراف ( 80 - 84 ).


اور ايك دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

﴿ تيرى عمر كى قسم يقينا يہ تو اپنى مدہوشى ميں حيران پھرتے ہيں تو انہيں صبح كے وقت ايك چنگاڑ نے پكڑ ليا، اور ہم نے ان كى بستى كا اوپر والا حصہ نيچے كر ديا، اور ہم نے ان پر آسمان سے كنكروں كى بارش برسائى، يقينا اس ميں عقلمندوں كے ليے نشانياں ہيں، اور يہ باقى رہنے والى راہ ہے ﴾الحجر ( 72 - 76 ).

اس كے علاوہ كئى ايك آيات اور بھى ہيں.


ترمذى، ابو داود اور ابن ماجہ ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم جسے قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1456 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4462 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2561 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.


اور مسند احمد ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى سےمروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" قوم لوط جيسا عمل كرنے والے پر اللہ تعالى لعنت فرمائے، اللہ تعالى اس شخص پر لعنت فرمائے جو قوم لوط والا عمل كرتا ہے، يہ تين بار فرمايا"

مسند احمد حديث نمبر ( 2915 ) مسند احمد كى تحقيق ميں شيخ شعيب الارناؤط نے اسے حسن قرار ديا ہے.

اور صحابہ كرام كا لوطى عمل كرنے والے كو قتل كرنے پر اجماع ہے، ليكن اسے قتل كرنے كے طريقہ ميں اختلاف كيا ہے.

ان ميں سے بعض صحابہ كرام تو اسے جلا كر قتل كرنے كے قائل ہيں مثلا على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہما، اور ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كا بھى يہى قول ہے، جيسا كہ آگے بيان ہو گا.

اور ان ميں سے بعض كى رائے ہے كہ اسے اونچى جگہ سے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائيں مثلا ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى رائے يہى ہے.

اور بعض صحابہ كرام اسے پتھروں سے رجم كرنے كے قائل ہيں حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے، يہ بھى ابن عباس اور على رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.

اور ان ميں سے بعض كا قول ہے كہ اسے قتل كيا جائيگا چاہے وہ كسى بھى حالت ميں ہو، شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ.

اور كچھ كا قول ہے كہ:

بلكہ زانى جيسى سزا دى جائيگى، اگر تو شادى شدہ ہے تو اسے رجم كيا جائيگا، اور اگر غير شادى شدہ ہے تو اسے كوڑے مارے جائينگے.

اور بعض كا قول ہے كہ:

اسے شديد قسم كى وہ تعزير لگائى جائيگى جسے حكمران مناسب سمجھے.

اس مسئلہ ميں ابن قيم رحمہ اللہ نے تفصيل بيان كرتے ہوئے فقھاء كرام كے دلائل بيان كرنے كے بعد اس كا مناقشہ بھى كيا ہے، اور پہلے قول كى تائيد كى ہے، انہوں نے اس فاحش اور منكر كام كا علاج اپنى كتاب " الجواب الكافى لمن سأل عن الدواء الشافي " ميں تفصيلا بيان كيا ہے، يہاں ہم ان كى كلام كا كچھ حصہ ذكر كرتے ہيں:

" اور جب لواطت سب فساد اور خرابيوں سے زيادہ بڑى تھى تو دنيا و آخرت ميں اس كى سزا بھى سب سزاؤں سے بڑى ہوئى.

اس كى سزا ميں لوگوں كا اختلاف ہے كہ آيا اس كى سزا زنا سے بڑى ہے يا كہ زنا كى سزا بڑى ہے، يا دونوں كى سزا برابر ہے ؟

اس ميں تين قول پائے جاتے ہيں:

ابو بكر صديق اور على بن ابى طالب، اور خالد بن وليد، اور عبد اللہ بن زبير، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہم، اور امام مالك، اسحاق بن راہويہ، اور امام احمد اصح ترين روايت ميں، اور امام شافعى اپنے ايك قول ميں اس طرف گئے ہيں كہ اس كى سزا زنا سے زيادہ سخت ہے، اور ہر حالت ميں اس كى سزا قتل ہے، چاہے شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ.

اور امام شافعى ظاہر مذہب، اور امام احمد دوسرى روايت ميں يہ كہتے ہيں كہ: اس كى سزا اور زانى كى سزا برابر ہے.

اور امام ابو حنيفہ كا كہنا ہے كہ اس كى سزا زانى كى سزا سے كم ہے اور وہ تعزير ہے. "

ابن قيم رحمہ اللہ يہاں تك كہتے ہيں:

" پہلے قول والے جو كہ جمہور امت ہيں، اور كئى ايك نے صحابہ كرام كا اس پر اجماع بيان كيا ہے ان كا كہنا ہے:

خرابيوں اور فساد ميں لواطت سے بڑھ كر كوئى خرابى اور فساد نہيں جو كفر كى خرابى سے ملتى ہے، اور بعض اوقات تو اس قتل سے بھى بڑھ كر ہے جيسا كہ ہم ان شاء اللہ بيان بھى كرينگے.

ان كا كہنا ہے: اللہ تعالى نے قوم لوط سے قبل كسى بھى قوم كو اس ميں مبتلا نہيں كيا، اور نہ ہى انہيں ايسى سزا دى جو كسى اور امت كو نہيں دى گئى، اور ان كو كئى قسم كى سزا دى گئى، جن ميں ان كى ہلاكت كے ساتھ ساتھ ان كے گھروں كو ان پر الٹا كر گرانا، اور انہيں زمين ميں دھنسانے كے ساتھ ساتھ آسمان سے پتھروں كى بارش كرنا، اور انہيں كى آنكھوں كو پھوڑ كر ركھ دينا، اور ان كا عذاب مستقل كرنا، تو اللہ تعالى نے ان كا انجام ايسا كيا اور انہيں وہ سزا دى جو كسى اور كو نہيں دى.

يہ اس اس عظيم جرم كى بنا پر تھى جس كى بنا پر قريب تھا كہ زمين پر اس عمل كا ارتكاب كرنے كى وجہ سے زمين ہلنے لگتى، اور جب فرشتے اس كا مشاہدہ كرتے تو اہل زمين پر عذاب نازل ہونے كےڈر سے وہ آسمان كى طرف بھاگ نكلتے كہ كہيں وہ بھى عذاب سے دوچار نہ ہو جائيں، اور زمين اپنے پروردگار كے سامنے احتجاج كرنے لگتى، اور پہاڑ اپنى جگہ سے ہل جاتے.

بدفعلى كيے جانے والے شخص كے ليے بہتر ہے كہ اسے قتل كر ديا جائے، كيونكہ جب كوئى شخص اس كے ساتھ بدفعلى كرتا ہے تو اسے وہ ايسا قتل كرتا ہے جس كے ساتھ زندگى كى اميد ہى نہى كى جا سكتى، بخلاف اس شخص كے جسے وہ قتل كر دے تو وہ مظلوم اور شہيد ہوتا ہے، اس كى دليل ( يعنى لواطت قتل سے بھى بڑى خرابى اور فساد ہے ) يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے قاتل كى حد كو مقتول كے ولى كے اختيار ميں ركھا ہے چاہے تو وہ اسے معاف كردے، اور چاہے تو اس سے قصاص لے، ليكن لواطت كى حد كو حتمى طور پر قتل ہى قرار ديا ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كا اس پراجماع ہے، اور سنت نبويہ بھى اس كى صراحت كرتى ہے، اور اس كا كوئى مخالف نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے خلفاء راشدين رضى اللہ تعالى عنہم نے اس پر عمل بھى كيا ہے.

صحيح روايت سے ثابت ہے كہ خالد بن وليد رضى اللہ تعالى عنہ نے عرب كے ايك علاقے ميں ديكھا كہ ايك مرد كے ساتھ وہى كچھ كيا جاتا ہے جس طرح عورت كے ساتھ تو انہوں نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كو خط لكھا، چنانچہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے صحابہ كرام سے مشورہ كيا، تو اس كے متعلق ان سب ميں زيادہ شديد قول على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كا تھا، وہ كہنے لگے:

ايسا فعل تو صرف ايك امت نے كيا تھا، اور تمہيں علم ہے كہ اللہ تعالى نے ان كے ساتھ كيا سلوك كيا، ميرى رائے ہے كہ انہيں آگ ميں جلا كر راكھ كر ديا جائے، تو ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كو انہيں جلا كر راكھ كر دينے كا لكھا.

اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول ہے:

بستى اور شہر ميں سب سے اونچى عمارت ديكھ كر لواطت كرنے والے شخص كو اس سے گرا كر اوپر سے پتھر برسائے جائينگے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے اس حد كو قوم لوط كے عذاب سے اخذ كيا ہے.


اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ روايت كرتے ہيں كہ:

" جسے تم قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "

اسے اہل سنن نے روايت كيا ہے، اور ابن حبان وغيرہ نے صحيح قرار ديا ہے، ا ور امام احمد رحمہ اللہ نے اس حديث سے حجت اور دليل پكڑى ہے، اور اس كى سند بخارى كى شرط پر ہے.

وہ كہتے ہيں: اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:

" اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے، اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے، اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے )

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كسى ايك ہى حديث ميں زانى پر تين بار لعنت نہيں آئى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبيرہ گناہوں كے مرتكب افراد پر لعنت تو كى ہے، ليكن ايك بار سے زيادہ سے تجاوز نہيں كيا، اور لواطت كے متعلق تين بار تكرار كے ساتھ لعنت كى ہے.

اور پھر صحابہ كرام نے اس كے قتل پر عمل بھى كيا ہے، اور اس ميں كسى بھى دو صحابيوں كا اختلاف نہيں، بلكہ اسے قتل كرنے كے طريقہ كار ميں ان كا اختلاف پايا جاتا ہے، جسے بعض افراد نے اسے قتل كرنے ميں اختلاف سمجھا ہے، تو اسے صحابہ كرام كے مابين نزاعى مسئلہ بيان كيا ہے، حالانكہ يہ تو ان كے مابين مسئلہ اجماع ہے نہ كہ مسئلہ نزاع.

ان كا كہنا ہے:




اور جو كوئى بھى اللہ سبحانہ وتعالى كے درج ذيل فرمان:

﴿ اور تم زنا كے قريب بھى نہ جاؤ، كيونكہ يہ فحاشى اور غضب كا باعث ہے، اور برا راستہ ہے ﴾.

اور لواطت كے متعلق فرمان بارى تعالى:

﴿ تو كيا تم ايسا فحش كام كرتے ہو جو تم سے قبل جہان والوں ميں سے كسى نے بھى نہيں كيا ﴾.

پر غور و فكر اور تامل كيا تو اس كے سامنے ان دونوں كے مابين فرق واضح ہو جائيگا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے زنا كو نكرہ ذكر كيا ہے، يعنى وہ فحش كاموں ميں سے ايك فحش كام ہے، اور اسے لواطت ميں معرفہ ذكر كيا ہے، جو فحاشى كے تمام معانى كو اپنے اندر جمع كرنے كا فائدہ دے رہا ہے، جيسے آپ كہيں كہ: زيد الرجل، اور نعم الرجل زيد.

يعنى: تم اس خصلت كا ارتكاب كر رہے ہو جس كى فحاشى ہر شخص كے ہاں مقرر ہے، جس ميں اس كى فحاشى اور كمال بيان كرنے كى كوئى ضرورت ہى نہيں رہتى، اس ليے كہ اسم كسى اور كى طرف منصرف نہيں ہو سكتا" .... انتہى

ديكھيں: الجواب الكافى ( 260 - 263 ).

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" لواطت كے بارہ ميں بعض علماء كرام كا قول ہے كہ اس كى حد زنا كى حد جيسى ہى ہے، اور اس كے علاوہ اور قول بھى كہا گيا ہے.

ليكن صحيح بات اور جس پر صحابہ كرام كا اتفاق ہے وہ يہ ہے كہ: اوپر اور نيچے والے دونوں كو ہى قتل كر ديا جائيگا، چاہے وہ شادى شدہ ہوں يا غير شادى شدہ، كيونكہ اہل سنن نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ


نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جسے بھى تم قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "

اور ابو داود نے كنوارے لواطت كرنے والے شخص كے متعلق ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:

" اسے رجم كيا جائيگا "

اور على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى اس جيسى روايت بيان كى جاتى ہے، لواطت كرنے والے شخص كو قتل كرنے ميں صحابہ كرام كے مابين كوئى اختلاف نہيں، ليكن اسے قتل كرنے كے كئى ايك طريقے بيان كيے ہيں.

چنانچہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ انہوں نے اسے جلانے كا حكم ديا تھا، اور ان كے علاوہ دوسروں سے قتل كرنے كا بيان كيا جاتا ہے.

اور بعض سے بيان كيا جاتا ہے كہ: اس پر ديوار گرا دى جائيگى حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے.

اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: انہيں گندى اور بدبودار جگہ پر قيد كيا جائيگا حتى كہ وہ مر جائيں.

اور بعض كہتے ہيں:

اسے بستى ميں سب سے اونچى ديوار پر چڑھا كر اسے نيچے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائينگے، جس طرح اللہ تعالى نے قوم لوط كے ساتھ كيا تھا، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے ايك روايت يہى ہے، اور دوسرى روايت يہ ہے كہ اسے رجم كيا جائيگا، اكثر سلف كا مسلك يہى ہے.

ان كا كہنا ہے:

كيونكہ اللہ تعالى نے قوم لوط كو رجم كيا تھا، اور قوم لوط سے مشابہت ميں زانى كو رجم كرنا مشروع كيا ہے، تو اس ليے دونوں كو ہى رجم كيا جائيگا، چاہے وہ آزاد ہوں يا غلام، يا ان ميں سے ايك غلام اور دوسرا آزاد ہو، جب دونوں بالغ ہوں تو انہيں رجم كيا جائيگا، اوراگر ان ميں سے كوئى ايك نابالغ ہو تو اسے قتل سے كم سزا دى جائيگى، اور صرف بالغ كو ہى رجم كيا جائيگا " انتہى.

ماخوذ از: السياسۃ الشرعيۃ صفحہ ( 138 ).

دوم:

جس كے ساتھ لواطت كى جائے وہ بھى فاعل كى طرح ہى ہے، كيونكہ وہ دونوں فحش كام ميں شريك ہيں، تو اس ليے ان كى سزا قتل ہے جيسا كہ حديث ميں بھى وارد ہے، ليكن اس سے دو صورتيں مستثنى ہونگى:

پہلى صورت:

جسے زدكوب كر كے يا قتل وغيرہ كى دھمكى دے كر لواطت كرنے پر مجبور كيا گيا ہو، تو اس پر كوئى حد نہيں.

شرح منتھى الارادات ميں درج ہے:

" جس شخص كے ساتھ لواطت كى گئى ہے اگر وہ مكرہ ہو اور اسے قتل كر دينے دھمكى دے كر يا زدكوب كر كے مجبور كيا گيا ہو يا لواطت كرنے والا شخص اس پر غالب آ گيا ہو تو اس پر كوئى حد نہيں " انتہى بتصرف

ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 3 / 348 ).

دوسرى صورت:

جس كے ساتھ لواطت كى گئى ہے اگر وہ چھوٹا بچہ ہو ابھى بالغ نہيں ہوا تو اس پر كوئى حد نہيں، ليكن اسے تعزير لگائى جائيگى ادب سكھايا جائيگا جس سے اس عمل كو روكنے ميں مدد ملے، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كى كلام ميں بيان ہو چكا ہے.

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ نے " المغنى " ميں نقل كيا ہے كہ:

" مجنون اور بچہ جو بالغ نہيں ہوا اسے حد نہ لگانے ميں علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں "

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 62 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/38622
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
لواطت سے توبہ کرنا چاہتااورتعاون کا محتاج ہے

میں دین اسلام کا التزام کرنے والا مسلمان ہوں اورایک طویل عرصہ قبل اسلام قبول کیا تھا ، مسئلہ یہ ہے کہ بچپن سے ہی مجھے جنسی بیماری کا شکار کرلیا گیا ، اوراب میری یہ حالت ہے کہ میں مردوں اور عورتوں کا رسیا ہوچکا ہوں میرے اندر یہ چيز پائ جاتی ہے لیکن مجھے اس سے چھٹکارا نصیب نہیں ہورہا اورپتہ نہیں میں اس سے کس طرح نجات حاصل کرسکتا ہوں ۔
میں ہمیشہ تواس معصیت کا ارتکاب نہیں کرتا لیکن بعض اوقات اس کا ارتکاب ہوجاتا ہے ، اورمیں اس فعل پر نادم رہتا ہوں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی جنسی انحراف کوپسند نہیں فرماتا ، لیکن مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ میں اپنے آپ کا تعاون کروں اوراس سے رک جاؤں ۔
اپنے آپ کوبدلنے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہيں ہوا ، میں نے اللہ سبحانہ وتعالی سے بھی تعاون مدد طلب کی ہے ، اورمسلمانوں کے سامنےاس کا اعتراف بھی کیا ہے تا کہ وہ میرا تعاون کریں لیکن ؟ اسی طرح میں ماہر نفسیات کے پاس بھی گيا ہوں مجھے اللہ تعالی اور اس کےدین سے محبت ہے لیکن میرے معاملات اس محبت کے خلاف ہیں میں ہمیشہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
میں اس بیماری کا شکارہوں جس کی بنا پر مجھے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ شریعت اسلامیہ لواطت کرنے والے کوقتل کرنے کا حکم کیوں اورکس لیے دیتی ہے ۔

میرے سب دوست واحباب مسلمان ہیں اوردین کا التزام کرنےوالوں میں سے ہيں ، لیکن شیطان کی کوشش ہے کہ وہ میرے اورمیرے دوست واحباب کے ایمان کوتباہ کردے ۔

میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ میرا تعاون کرتے ہوۓ اس کا کوئی حل بتائيں اگرچہ وہ حل دنیا کے کسی کونے میں ہو اورمیں وہاں جانے کی تکلیف کروں گا ، اس لیے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ اب دوبارہ اس قبیح اورگندے عمل کودہرا‎ؤں ۔

اورنہ ہی ميں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی کے بندوں میں سے کسی شخص پر خطرہ بنا رہوں ۔

الحمد للہ :

ہم آپ سے اس مسئلہ میں چارنقاط کے اندر رہتے ہوۓ بات کریں گے اس سے زيادہ کوئی بات نہیں ہوگی ، لھذا ہماری آپ سے گزارش ہے کہ آپ پورے دھیان اورغور سے پڑھیں ۔ وہ چار نقاطی فارمولہ یہ ہے :


پہلا معاملہ :

لواطت کی قباحت ورسوائی اورگندگی :

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی قوم لوط کے بارہ میں کہتے ہیں :

اصحاب قول اول جو کہ جمہورعلماء رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ : کئي ایک نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے کہ :

لواطت کے علاوہ کسی اورمعصیت میں فساد عظیم نہيں اورلواطت بھی کفرکے فساد کے ساتھ ہی ملی ہوئی‏ ہے بلکہ ہوسکتا ہے قتل سے بھی زيادہ با‏عث کا باعث ہے جس کا ان شاء اللہ آگے بیان ہوگا ۔

ان کا کہنا ہے : دنیا میں قوم لوط سے قبل اللہ تعالی نے کسی کوبھی اس کبیرہ گناہ میں مبتلا نہیں کیا ، اورپھر انہیں اس جرم کی سزا بھی ایسی دی کہ دنیا میں کسی اورامت کو اس طرح کی سزا نہیں دی گئي ، اوران پر کئي قسم کی سزائيں جمع کردی گئيں مثلا :

ھلاکت وبربادی ، اوران پر ان کے گھروں کوالٹ دیا گيا ، اورانہیں زمین میں دھنسا دیا گيا ، آسمان سے ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئي ، ان کی آنکھوں کو مٹا دیا گیا اورانہیں مستقل عذاب دیا گيا اورانہیں ایسی عبرت سزا دی گئي جوکسی اورامت کونہیں دی گئي ۔

یہ سب کچھ صرف اورصرف اس جرم عظیم کی بنا پر ہی تھا یہ ایسا جرم ہے جس کے کرنے سے زمین کے کناروں میں زلزلہ بپا ہوجاۓ اورجب فرشتے یہ عمل ہوتا دیکھیں تووہ نزول عذاب کے ڈر سےآسمان وزمین کے کناروں سے بھاگنا شروع کردیں اورزمین اپنے رب کے سامنے گڑگڑانے لگے اورقریب ہے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ پر نہ ٹھر سکیں ۔

جس کےساتھ یہ کام کیا جارہا ہے بہتر ہے کہ اسے قتل کردیا جاۓ ، اورجب کوئی مرد اس سے لواطت کرتا ہے اس نے اسے ایسے قتل کردیا کہ وہ اس جرم کے ساتھ زندہ رہنے کی امید ہی نہیں رکھتا ، عمومی قتل کے خلاف کیونکہ جب اسے قتل کیا جاۓ‌ تووہ مظلوم ہوکر قتل ہورہا ہے اورشھید ہے اورہوسکتا ہے اسے یہ آخرت میں فائدہ بھی دے ۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے :

اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کااس کے قتل پر اجماع ہے جس میں کسی بھی دوصحابیوں نے ا ختلاف نہیں کیا ، بلکہ اختلاف صرف اسے قتل کرنے کی کیفیت میں ہے کہ اسے کس طرع قتل کیا جاۓ ۔

تواس سے بعض لوگ اس کے قتل میں اخلاف سمجھ رہے ہيں ، اوراسے انہوں صحابہ کے درمیان ایک نزاعی مسئلہ بیان کردیا ہے ، حالانکہ اس مسئلہ میں تو ان کے درمیان اجماع پایا جاتا ہے ۔

جوشخص بھی مندرجہ ذیل فرمان باری تعالی کے متعلق غور فکر اورسوچ وبچار کرتا ہے اس کے لیے ان دونوں کے درمیان فاصلہ اوربعد واضح ہوجاۓ گا ۔

فرمان باری تعالی ہے :

{ خبردار زنا کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ وہ بڑی بے حیائي اورفحش کام ہے اوربہت ہی بری راہ ہے } الاسراء ( 32 ) ۔

اورلواطت کے بارہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ تم ایسا فحش کام کرتے ہوجس کو تم سے پہلے کسی نے بھی دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا } الاعراف ( 80 ) ۔
توان آیات پرغور کرنے والے کویہ فرق ظاہر ہوجاۓ گا ، بلاشبہ اللہ تعالی نے لفظ فاحشہ کونکرہ بیان کیا ہے یعنی وہ فحش کاموں میں سے ایک فحاشی ہے ، اورلواطت والی آیت میں الفاحشۃ کومعرفہ ذکر کیا ہے ، جوکہ اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ لواطت ایسی فحاشی ہے جواسم فحش کے تمام معانی کواپنے اندر سموۓ ہوۓ ہے ۔۔۔۔

پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے اس فحاشی کی حالت بیان کرکے تاکید بیان کی ہے کہ یہ ایسی فحاشی ہے جودنیا میں پہلے کسی نے بھی نہیں کی فرمان باری تعالی ہے :

{ جس کو تم سے پہلے کسی نے بھی دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا }
پھراللہ تعالی نے تاکید میں زور پیدا کیا اور ایسی صراحت بیان کی جس سے دل دور بھاگتے ہیں اورکان سننے سے کتراتے اورشدید قسم کی نفرت کرتے ہیں ، وہ یہ کہ جس طرح کوئي مرد کسی عورت سے جماع کرتا ہے اسی طرح کوئی اپنی طرح کے مرد کے ساتھ یہ فعل کرے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

{ تم مردوں کے ساتھ شہوت زنی کرتے ہو } ، ۔۔۔
پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کی قباحت کی تاکید بیان کی کہ لواطت ایسا کام ہے جو مردوں کی فطرت کے برعکس ہے جس پراللہ تعالی نے انہیں پیدا فرمایا ہے ، اورانہوں نے اس طبعیت کوبھی بدل کررکھ دیا جواللہ تعالی نے مردوں میں رکھی ہے کہ اللہ تعالی نے جوطبعیت رکھی ہے وہ عورتوں کی خواہش ہے مردوں کی نہيں لیکن انہوں نے معاملہ الٹ کر رکھ دیا اورفطرت وطبعیت کے برعکس چلنے لگے اورمردوں سے مرد تعلقات استوار کرنا شروع ہوگۓ ۔

تواللہ تعالی نے اسی لیے ان پر ان کے گھروں کوالٹ کر رکھ دیا اوران کے نچلے حصہ کواوپر کردیا اوراسی طرح انہیں پلٹا اورعذاب میں انہیں سرکے بل گرا دیا ۔

پھر اللہ تعالی نے اس کی قباحت کی تاکید کرتے ہوۓ اس پرحکم لگا یا کہ یہ اسراف اورحد سے تجاوز ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

{ بلکہ تم تو اسراف وزيادتی کرنے والی اورحد سے بڑھی ہوئي قوم ہو } ۔
آپ ذرا غورو فکر توکریں کہ زنا میں بھی اس طرح یا پھر اس کے قریب کے فرامین آۓ ہیں ، اوراللہ تعالی نے ان کے لیے یہ فرمان بھی جاری کیا :

{ اورہم نے اسے اس بستی والوں سے نجات دی جو خباثتوں اورفحش کام کرتے تھے } ۔

پھر اللہ تعالی نے ان کی مذمت کرتے ہوۓ انہیں ایک انتہائي اورآخری قبیح وصف سے نوازتے ہوۓ فرمایا :

{ بلاشبہ وہ فاسق اوربرائی کرنے والی قوم تھی } الانبیاء ( 74 ) ۔

اورانہیں ان کے نبی کے قول میں فسادیوں کے نام سے نوازا :

{ میرے رب مجھے میری فسادی قوم کے خلاف مدد وتعاون عطا فرما } الانبیاء ( 75 )۔

اورفرشتوں کی زبان سے ابراھیم علیہ السلام کے سامنے انہيں ظالم کہا :

{ بلاشبہ ہم اس بستی والوں کوھلاک کرنے والے ہيں بلاشبہ اس کے رہنے والے ظالم قسم کے لوگ ہیں } العنکبوت ( 31 ) ۔
آپ غورکریں کہ اس جیسی سزا کسے دی گئي اوراس طرح کی مذمت کس کی گئي ہے ؟

لذتیں ختم ہوجاتی ہیں اورحسرت ویاس باقی رہتی ہے ، شھوات ختم ہوجاتی ہيں اپنے پیچھے شقاوت و بدبختی وراثت میں چھوڑ جاتی ہے ، یہ کام کرنے والے فائدہ توبہت کم حاصل کرتے ہیں لیکن ایک طویل عذاب کا شکارہوجاتے ہیں ۔

وہ مضر اورردی قسم کی زندگی گـزارتے رہے جس کی سزا میں انہیں عذاب الیم کا سامنا کرنا پڑا ، انہیں شھوات کے نشہ نے مدہوش کردیا اورجب انہیں ہوش آیا تووہ عذاب والوں کے ساتھ تھے ، وہ اس غفلت میں سوۓ رہے اورجب بیدارہوۓ تو ھلاکت والے گھر میں تھے ۔

اللہ کی قسم وہ بہت زیادہ ندامت کرنے لگے لیکن اس وقت اس ندامت نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا ، اوروہ اپنے کیے پرآنسؤوں کے بدلے خون کے آنسو روتے رہے ۔

اگرآپ اس گروہ کے اوپر نیچے دیکھیں توجہنم کی گھرائیوں میں ان کے مونہوں اورجسموں سے آگ نکل رہی ہوگی اوروہ وہاں لذیذ شراب کی جگہ کھولتے ہوۓ گرم پانی پی رہے ہوں گے اورانہیں چہروں کے بل گھسیٹتے ہوۓ کہا جاۓ گا : جوکچھ تم کمائی کرتے رہے ہواس کا بدلہ چکھو ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ جاؤ دوزخ میں اب تمہارا صبر کرنا اورنہ کرنا تمہارے لیے یکساں ہے تمہیں فقط تہمارے کیے کا بدلہ دیا جاۓ گا } الطور ( 16 ) ۔
دیکھیں الجواب الکافی ص ( 240 - 245 ) یہ اختصار کے ساتھ بیان کیا گيا ہے ۔


دوسرا نقطہ اورمعاملہ :
اس فحش کام سے جسمانی اورصحت کونقصان :

ڈاکٹر محمود حجازي اپنی کتاب " الامراض الجنسیۃ والتناسلیۃ " ( جنسی اورتناسلی امراض ) میں لواطت کی بنا پر ہونے والے بعض خطرات اورنقصانات بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں :

وہ امراض جولواطت جنسی سے متقل ہوتے ہیں وہ مندرجہ ذيل ہیں :

1 - ایڈز ، یہ ایک ایسا مرض ہے جس سے قوت مناعت جاتی رہتی ہے جس سے عادتا موت واقع ہوجاتی ہے ۔

2 - جگرکی بیماری -

3 - زھری کا مرض ۔

4 - مرض سیلان ۔

5 - جرثومی میلان کی جلن ۔

6 - ٹائیفائڈ ۔

7 - ایمیاء کا مرض ۔

8 - انتڑیوں میں کیڑے پڑنا ۔

9 - خارش ( چنبل ) ۔

10 - زيرناف جوؤں کا پڑنا ۔

11 - سائٹومگلک وائرس جو سرطان کا با‏عث بنتا ہے ۔

12 - تناسلی امراض ۔



تیسرا نقطہ :


اوپر جوکچھ بیان ہوچکا ہے اس سے اس برے فعل کی قباحت اورگندگی اورفحاشی واضح ہوتی ہے ، اورجوکچھ اس قبیح فعل کے ارتکاب سے نقصان دہ امراض پیدا ہوتے ہیں وہ بھی واضح ہوتے ہیں ، لیکن اس کے باوجودگنہگاروں اورمعصیت کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اوراللہ سبحانہ وتعالی ان کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے ۔

آپ اللہ سبحانہ وتعالی کے اس فرمان پر غوروفکر کریں :

{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔

اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے } الفرقان ( 68 – 70 ) ۔

اوراللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان پر غور کرنے سے آپ کو علم ہوگا کہ اللہ تعالی کا بہت بڑا اورفضل عظیم ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

{ توایسے لوگوں کے گناہوں کواللہ تعالی نیکیوں سے بدل ڈالتے ہیں }
مفسرین نے تبدیل کے دومعنی بیان کیے ہيں :

اول :

بری صفات کواچھی صفات میں تبدیل کرنا ، مثلا ان کے شرک کو ایمان کے ساتھ اورزنا کوعفت عصمت کے ساتھ اورکذب وجھوٹ کوسچائ کے ساتھ اورخیانت کوامانت کے ساتھ اور اسی طرح دوسری صفات بھی ۔

دوم :

جوبرائياں کی ہيں انہیں قیامت کے دن نیکیوں میں بدلنا ۔

توآپ پر ضروری اورواجب ہے کہ آپ جتنی جلدی ہوسکے اللہ تعالی کے ہاں توبہ عظیم کریں ، اوریہ بات علم میں رکھیں کہ آپ کا اللہ تعالی کی طرف رجوع اورتوبہ کرنا آپ کے لیے اپنے اہل عیال اوردوست واحباب اورپورے معاشرہ سے بھی بہتر اوراچھا ہے ۔

آپ کے علم میں ہونا چاہيۓ کہ زندگی بہت ہی کم ہے اورآخرت ہی باقی رہنے والی اوربہتر ہے ، اورآپ یہ بھی نہ بھولیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے قوم لوط کو ایسے عذاب اورطریقے سے ھلاک کیا تھا جس کے ساتھ کسی اورکو ھلاک نہیں کيا گیا ۔



چوتھا نقطہ :


اس مصیبت میں مبتلا شخص کا علاج :

1 - ان اسباب سے دور رہيں جواس معصیت وگناہ میں وقوع کی آسانی کا باعث بنتے ہیں اورآپ کویاد دلاتے ہیں مثلا :

- آپ نظریں نيچی رکھیں ، عورتوں اور ڈش وغیرہ دیکھنے سے باز رہيں ۔

- کسی عورت یا مرد سے خلوت نہ کرنا ۔

2 - آپ ہمیشہ ایسے کام میں مشغول رہیں جوآپ کودینی یا دنیاوی فائدہ دیں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورجب توفارغ ہو توعبادت میں محنت کر } ۔

جب آپ دنیا کے کام سے فارغ توآخرت کے عمل کرنے میں کوشش کریں مثلا تلاوت قرآن اورطلب علم اوراچھی اورنفع مند کیسٹیں سننے میں وقت گزاریں ۔۔۔

اورجب آپ ایک اطاعت سے فارغ ہوں تودوسری میں مشغول ہو جائيں اورجب دنیا کے کاموں سے فارغ ہوں توآخرت کی تیاری میں لگ جائيں ۔۔۔ اوراسی طرح چلتے رہیں ۔

اس لیے کہ اگر آپ اپنے آپ کوحق میں مشغول نہيں کریں گے تووہ آپ کوباطل میں مشغول کردے گا لھذا آپ اپنے نفس کوفرصت ہی نہ دیں کہ وہ یہ کام کرے اورنہ ہی اس کے لیے وقت مہیا کریں کہ وہ اس فحش کام کے بارہ میں سوچ ہی نہ سکے ۔

3 - آپ اس فحش کام کی لذت اوراس کے بعد ہونے والی ندامت و پریشانی اورہمیشہ کے لیے چمٹی رہنے والی حیرت کے درمیان موازنہ کریں ، پھر آپ دیکھیں کہ آخرت میں ملنے والے عذاب کا بھی اندازہ کریں ، توکیا آپ کے خیال میں کچھ دیر میں ہی ختم ہوجانے والی لذت کوکوئی عقل مند ہمیشہ رہنےوالی ندامت و عذاب پر مقدم کرسکتا ہے ۔

آپ کواس معاملہ سے بچنے کے لیے قوت دینے اوربچنے پر راضي کرنے والی چيز پر ابھارنے کے لیے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی کتاب " الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی ) کا مطالعہ کرنا چاہیۓ ، جسے حافظ رحمہ اللہ نے آپ جیسے لوگوں کی حالت کے بارہ میں لکھی ہے ، اللہ تعالی ہمیں اورآپ کوکامیابی نصیب فرماۓ ۔

4 - عقل مند کسی بھی محبوب چيز کونہيں چھوڑتا مگر اس سے بھی اعلی اورمحبوب چيز کے لیے اسے چھوڑ سکتا ہے یا پھر وہ اس کے مکروہ کے ڈر سے ترک کرتا ہے ۔

تویہ فحاشی آپ پر دنیاوآخرت کی نعمتوں کومحروم کررہی ہے اوراس سے اللہ تعالی کی محبت بھی جاتی رہتی ہے اوراس کے مقابلہ میں اللہ تعالی کے عذاب اوراس کی ناراضگي و غضب کا مستحق ٹھرے گا ۔

تواس فحاشی کی بنا پرآپ آپنے آپ سے فوت ہوجانے والی خیروبھلائی اورجوکچھ آپ کوشروبرائی حاصل ہوتی ہے اس کے درمیان مقارنہ و موازنہ کریں ، اورعقل مند کوعلم ہے کہ وہ ان دونوں چيزوں میں سے کسے مقدم رکھے ۔

5 - اورپھران سب اشیاء سے بھی اہم یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی سے دعاکریں اوراس سے تعاون کی درخواست کریں کہ وہ آپ سے یہ برائي دور کردے ، اورآپ قبولیت کے اوقات کوغنیمت جانتے ہوۓ سجدہ اور نماز کے اندر تشھد میں اوررات کے آخری حصہ میں اوربارش کے نازل ہونے کے اوقات اورسفر اورروزے کی حالت اورروزہ افطاری کے اوقات میں خاص طور پر دعا کریں ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ آپ کورشدو ھدایت سے نوازے اورآپ کی توبہ قبول فرماۓ ، اورآپ کو ہر قسم کے برے اعمال اور اخلاق سے بچاۓ ، آمین یا رب العالمین ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد


http://islamqa.info/ur/27176
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میرا ایک سوال ہے خضر حیات بھائی کہ ھم اس طرح کی معلومات یعنی یہ آرٹیکل اپنے بچوں کو پڑھنے کے لئے دے سکتے ہیں جن کی عمر 13 سے 16 سال کے درمیان ہو -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میرا ایک سوال ہے خضر حیات بھائی کہ ھم اس طرح کی معلومات یعنی یہ آرٹیکل اپنے بچوں کو پڑھنے کے لئے دے سکتے ہیں جن کی عمر 13 سے 16 سال کے درمیان ہو -
شرعی اعتبار سے تو کوئی قباحت نہیں ہے ۔ لیکن اس میں نفسیاتی پیچیدگی محسوس ہورہی ہے ، اس لیے کوئی رائے نہیں دے سکتا ۔ کسی بڑے عالم دین سے پوچھیں جو عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہوں مثلا کسی مسجد کے امام یا مدرسے کے استاذ صاحب کیونکہ وہ بچوں کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں ۔
ویسے تو بچے کے باپ یا بڑے بھائی کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ بچے کا ذہن کیسا ہے ۔؟ اس کی دلچسپیاں کیسی ہیں ۔؟
ایک عمومی سا جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’ اس دور کے بچے سب کچھ جانتے ہوتے ہیں ‘‘ اگر یہ بات درست ہے تو پھر بچوں کو اسلامی رہنمائی پر مشتمل ایسے مضامین اور مواد کا مطالعہ کروانے میں نہ صرف کے کوئی حرج نہیں بلکہ انہیں ضرور ایسی چیزوں سے آگاہ رکھنا چاہیے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شرعی اعتبار سے تو کوئی قباحت نہیں ہے ۔ لیکن اس میں نفسیاتی پیچیدگی محسوس ہورہی ہے ، اس لیے کوئی رائے نہیں دے سکتا ۔ کسی بڑے عالم دین سے پوچھیں جو عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہوں مثلا کسی مسجد کے امام یا مدرسے کے استاذ صاحب کیونکہ وہ بچوں کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں ۔
ویسے تو بچے کے باپ یا بڑے بھائی کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ بچے کا ذہن کیسا ہے ۔؟ اس کی دلچسپیاں کیسی ہیں ۔؟
ایک عمومی سا جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’ اس دور کے بچے سب کچھ جانتے ہوتے ہیں ‘‘ اگر یہ بات درست ہے تو پھر بچوں کو اسلامی رہنمائی پر مشتمل ایسے مضامین اور مواد کا مطالعہ کروانے میں نہ صرف کے کوئی حرج نہیں بلکہ انہیں ضرور ایسی چیزوں سے آگاہ رکھنا چاہیے ۔

کفایت اللہ بھائی آپ بھی اس مسلے میں رہنمائی کریں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
معاشرتی آلودگی سے متعلق ایک راہنما مختصر تحریر :

سوال !
قاری صاحب اگر بیوی شوھر کو بتائے کہ فلاں شخص میری عزت پر حملہ آور ھونا چاھتا ھے اور شوھر ثبوت مانگے تو بیوی کیا کرے ،، ؟
الجواب !
عموماً ایسا گھر کے افراد کے بارے میں ھوتا ھے ،، جہاں شوھر ثبوت کا معاملہ اٹھاتا ھے ، باھر کے آدمی کو روکا بھی جا سکتا ھے اور سردمہری کے ساتھ اس کو پیغام بھی دیا جا سکتا ھے کہ اس کی شکایت ٹھیک جگہ پہنچا دی گئ ھے ،بدلے ھوئے رویئے سے وہ خود بھی محسوس کر لیتا ھے اور اس گھر کا رخ نہیں کرتا ،،
البتہ جب بات شوھر کے بھائی ،، باپ ، بھانجے ،بھتیجے یا بہنوئی کے بارے میں شکایت ھو تو پھر چونکہ یہ وہ رشتے ھیں جن کو کسی ٹھوس وجہ کی بنیاد پر ھی توڑا جا سکتا ھے لہذا شوھر شکایت کی تفصیل طلب کرتا ھے ، اگر ایک آدھ بار کا کوئی معاملہ ھو تو اس کو غلط فہمی بھی سمجھا جا سکتا ھے ، لیکن اگر یہ کوشش بار بار کی گئ ھے ، بول کر مطالبہ کیا گیا ھے ، یا رات کو اچانک چارپائی کی یاترا کی گئ ھے یا ھاتھ سے بدن کے کسی حصے کو چھوا گیا ھے تو پھر کافی سنجیدہ معاملہ ھے ، بہنوئی کے معاملے میں شوھر کی بجائے شوھر کی بہن کو ھی بتایا جائے کہ وہ اپنے شوھر کو لگام دے ورنہ اس کے بھائی کو بتا دیا جائے گا ،، دیور یا سسر کے معاملے میں شوھر کو اپنی ماں سے رابطہ کر کے ابا جی کی انٹرٹین منٹ کا بندوبست کروانا چاھئے ، بھائی کی شادی کا بندوبست کرے اور بیوی کو الگ کر دے یا جب تک الگ گھر نہیں بناتا اسے میکے میں رھنے دے ،، یہ شکایت عموماً بیرون ملک رھنے والوں کی بیویوں کو درپیش ھوتی ھے جہاں دیور ،جیٹھ اور سسر اس کے شوھر کی کمائی بھی کھاتے ھیں اور اس کی بیوی کی عزت کے گرد گدھ کی طرح منڈلاتے ھیں ،، لہذا بیرون ملک والوں کو اپنی بیوی کی شکایت کو زیادہ سیریس لینا چاھئے ،،
اس کے علاوہ بچی کی عزت کو خطرہ اس کے والد اور بھائی سے بھی ھو سکتا ھے ، یو ٹیوب اور ڈیلی موشن نے لوگوں کو حیوان بنا دیا ھے اور محرم رشتے بھی خطرناک ھوتے جا رھے ھیں ،، وہ مائیں جن کی بیٹیاں جوان ھیں وہ روٹھ کر میکے جانے کی رسم ترک کر دیں ، اگرچہ شوھر کے مظالم برداشت کریں مگر اپنے گھر میں ھی رھیں ، اور اگر میکے جانا ضروری ھو تو جوان بیٹی کو ساتھ لے کر جائیں باپ کے پاس چھوڑ کر مت جائیں ، یوں بھی اگر دن بھر کے لئے آگے پیچھے جانا ھو تو بھی بیٹی کو ساتھ لے کر جانا چاھئے اور ساتھ ھی لے کر آنا چاھئے ،، نہ جوان بیٹوں پہ اعتبار کرے اور نہ شوھر پر ،، نہ ھی بچی کو میکے میں اپنے والدین کے گھر اکیلا چھوڑا کرے کہ وھاں اس کے ماموں کے بیٹے موجود ھوتے ھیں ،،، ایسے واقعات عام ھیں جہاں بچیاں اپنے والد یا بھائی کے ھاتھوں عزت لٹا بیٹھی ھیں۔
(یہ تحریر فیس بک سے نقل کردہ ہے )
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بالا تحریر پر کچھ تبصرے :
بالکل اب وقت آگیا یہ کہ اشاروں اور کنایوں کی زبان ترک کر دی جاۓ اور دو ٹوک انداز میں بات کی جاۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلامت رہیں۔
۔۔۔
شوھرثبوت نہ مانگے بلکہ آنکھیں کھلی رکھے ، شوہر کے ہوتے ہوئے ایسا وقت ہی کیوں آیا کہ بیوی کو اپنا آپ غیر محفوظ لگا اور وہ ثبوت کیوں دے اس کا شوہر چلو بھر پانی میں ڈوب مرے ۔
۔۔۔
ہمارے معاشرے میں incest پر کوئی باقاعدہ تحقیق شاید نہیں کی گئی مگر خوفناک حد تک عام لعنت ہے یہ,, مشترکہ عائلی نظام,, چھوٹے گھر,, میڈیا اور نیٹ کے ذریعے بیہودگیوں تک عام رسائی....
اللہ پاک سب پر رحم کرے, قریبی رشتوں میں یہ معاملات بہت حساس ہوا کرتے, ذرا سی بے احتیاطی یا بے تدبیری سے پورا گھرانہ اجڑ سکتا ہے,, زنابالرضا پر چار گواہوں کی شرط کا شاید یہی مقصد تھا کہ ایسی باتوں کے عام ہونے سے صرف دو ملوث افراد نہیں بلکہ دو گھر تباہ ہوسکتے ہیں-
اللہ پاک سب کی عزتیں محفوظ رکھے۔
۔۔۔
جو چاهتا هے کہ انکی خواتین پاکیزہ رهے انکو سچی توبہ کرنا اور خود پاکیزہ رهنا چاهیئے. بصورت دیگر زنا اک قرض هے جو انکی اولاد سے وصول کی جایئگی. امام شافعی رح ۔
۔۔۔
یہ کوئی اصول نہیں ھے ،، غالباً جو بدکار اپنی بیویوں پہ ذھنی مرض کی حد تک شک کرتے ھیں ان کے دل میں یہی امام شافعی والا قول کھٹکتا ھو گا کہ اگر میں کرتا ھوں یا کرتا رھا ھوں تو میری بیوی کیسے پاک صاف ھو سکتی ھے ،، یہ ایک سطحی بات ھے ۔
۔۔۔
قاری صاحب معزرت کیساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساری مشکیں اور مشقتیں پھر بھی عورت کے گلے میں ڈال دیں کہ وہ یہ کرے وہ کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرد حضرات اپنی اوقات میں کیوں نہیں رہتے کیا پردہ یا حیا صرف عورت کی ذمہ داری ہے یا پھر مرد کی بھی اتنی ہی زمہ داری ہے ۔۔۔۔۔ میرے خیال میں پچھلے چودہ سو سال سے عورتوں کو لگام ڈالنے اور قید کرنے سے نتیجہ صفر پر ہی کھڑا ہے تو ذرا اب مردوں کو انکی کمینگی کی طرف متوجہ کرنے اور انکو حد میں رکھنے کی تبلیغ کی جائے تو شاید مساویانہ صورت میں مثبت نتیجہ کا امکان موجود ہے۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ عورت کی آزادی کا سیاسی استعمال کیا ہے مزہب نے ، حالانکہ ان سے اتنا نقصان نہیں ہوا، جتنا مرد کو بے لگام کرنے کی وجہ سے ہوا ہے ، ہو رہا ہے ۔
۔۔۔
ھم نے مظلوم کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہا ھے ،، یہ معاملات اچانک ھوتے ھیں اور پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ھاتھ نہیں آتا ،یہاں کوئی مردوں اور عورتوں کی جنگ نہیں چل رھی ،، کیا اللہ پاک نے انسانوں کو احتیاط اور تقوی اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا ؟ اسی کو کہہ دیجئے کہ شیطان کو ھی مار کیوں نہیں دیتا ؟
۔۔۔
جی ہاں ویسے بھی کسی ایک کے کئے کی سزا دوسرے کو ملنا....شاید اللہ سے ایسی توقع رکھنا درست نہ ہو,, یہ البتہ ہوسکتا کہ ایک بدکار باپ, بھائی یا والد اپنی مکروہ سرگرمیوں کے باعثاپنے اہل و عیال کی درست تربیت نہ کرپائے یا ان کی سرگرمیوں سے باخبر نہ رہ سکے جس کے نتیجے میں وہ بھی بھٹک جائیں, اور ایسا ہوتا بھی ہے
جنس, بھوک کے بعد سب سے طاقتور جبلت ہے اور اس کا کوئی بھی شکار ہوسکتا ہے,, کسی بھی وقت, کسی بھی موڑ پر ..اسی لئے دینِ فطرت نے ہر وہ طریقہ بتا دیا جس سے ہم برائی سے بچ سکتے ہیں ۔
۔۔۔
میاں بیوی کا رشتہ ھی اعتماد کا ھے. اگر دونوں اک دوسرے کو جان گئے ہیں تو بیوی محض یہ کہ دے کہ یہ شخص ( چاھے خاوند کا باپ ہو یا بھائی، بہنوئی ہو یا کزن، قریبی دوست ہو یا کولیگ ) آئندہ گھر آئے گا اور نہ آپ اس سے میل ملاپ رکھیں گے، تو آپ حکمت سے پہلے انکو روکیں
اگر متعلقہ فرد آپکا یا بیوی کا خونی رشتہ دار ھو تو مناسب وقت کے بعد بیوی کو اعتماد میں لے کر مزید اقدامات کئے جاسکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کچھ سن گھن بھی لی جاسکتی ھے.
بحرحال ایسے حالات ماضی کی کسی غلطی کا نتیجہ بھی ھو سکتے ہیں یا بلیک میل یا حفط ماتقدم بھی.
میاں بیوی ایک دوسرے کے لباس ہیں اور عزت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں. بیوی کی حفاظت جبکہ وہ خطرے کا الارم بجا چکی ھو تو خاوند پر لازم ھے.
۔۔۔
 

حسیب

رکن
شمولیت
فروری 04، 2012
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
75
پہلی پوسٹ کی ویڈیو ڈیلیٹ ہو چکی ہے
 
Top