وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ اس مسئلہ کو سمجھنے کیلئے صحیح مسلم شریف متعلقہ باب مکمل پڑھیں :
صحيح مسلم بَابُ النَّهْيِ عَنْ ضَرْبِ الْوَجْهِ (چہرے پر مارنے کی ممانعت کے بیان میں )
عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے لڑے
تو وہ چہرے پر مارنے سے اجتناب کرے۔
اسی روایت کودوسرے رواۃ نے ذیل کے صیغہ سے نقل کیا
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَقَالَ: «إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ»
جناب ابوالزناد سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور اس میں انہوں نے کہا جب تم میں سے کوئی مارے۔
(یعنی ۔۔ قاتل ۔۔ کی جگہ ۔۔ ضرب ۔۔ مروی ہے )
مزید اسناد سے یہی روایت :
عَنْ سُهَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَاتَلَ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ فَلْيَتَّقِ الْوَجْهَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے لڑے تو وہ چہرے پر مارنے سے بچے ۔ (یعنی چہرے کو بچا کر مارے )
ایک اور اسناد سے یوں منقول ہے
سَمِعَ أَبَا أَيُّوبَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلَا يَلْطِمَنَّ الْوَجْهَ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے لڑے تو اسے چاہے کہ وہ چہرے پر ہرگز تھپڑ نہ مارے
عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَفِي حَدِيثِ ابْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔۔
جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے لڑے تو اسے چاہیے کہ وہ چہرے پر مارنے سے بچے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر تخلیق کیا "
ایک اور اسناد سے یہ متن یوں منقول ہے :
حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَالِكٍ الْمَرَاغِيِّ وَهُوَ أَبُو أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ»
قتادہ، ابوایوب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور ابن حاتم کی روایت میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے لڑے تو اسے چاہیے کہ وہ چہرے پر مارنے سے بچے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل توجہ :
حدیث کے ان طرق میں لفظ اخ یعنی بھائی استعمال کیا گیا ہے تو مراد صاف واضح ہے کہ ::
"یہاں کفار قتال ،مقاتلہ مراد نہیں ، بلکہ تادیباً اپنے کسی کو مارنا مراد ہے؛
(قاتَلَ ) بمعنی لڑائی عام مستعمل ہے ، خواہ وہ کسی کو قتل کرنے کی لڑائی ہو ، یا محض ڈرانے ،دھمکانے کی لڑائی سب کیلئے استعمال ہوتا ،
مثلاً ۔۔ نمازی کے آگے سے اگر کوئی گزرنا چاہے ، تو ارشاد پیمبر ﷺ ہے :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ، فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا، وَلَا يَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يَمُرُّ فَلْيُقَاتِلْهُ، فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ» (سنن ابن ماجہ )
ترجمہ :
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی جانب پڑھے، اور اس سے قریب کھڑا ہو، اور کسی کو اپنے سامنے سے گزرنے نہ دے، اگر کوئی گزرنا چاہے تو اس سے لڑے ۱؎ کیونکہ وہ شیطان ہے“
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۸ ( ۵۰۵ ) ، سنن ابی داود/الصلاة ۱۰۸ ( ۶۹۷ ، ۶۹۸ ) ، سنن النسائی/القبلة ۸ ( ۷۵۸ ) ، ( تحفة الأشراف : ۴۱۱۷ ) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ قصر الصلاة ۱۰ ( ۳۳ ) ، مسند احمد ( ۳/۳۴ ، ۴۳ ، ۴۴ ) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۲۵ ( ۱۴۵۱ ) ( حسن صحیح )
وضاحت: ۱؎: «مقاتلہ» سے مراد دفع کرنا اور روکنا ہے، لیکن اسلحے کا استعمال کسی سے بھی منقول نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ، فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا، وَلَا يَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يَمُرُّ فَلْيُقَاتِلْهُ، فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ» (سنن ابن ماجہ )
ترجمہ :
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی جانب پڑھے، اور اس سے قریب کھڑا ہو، اور کسی کو اپنے سامنے سے گزرنے نہ دے، اگر کوئی گزرنا چاہے تو اس سے لڑے ۱؎ کیونکہ وہ شیطان ہے“
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۸ ( ۵۰۵ ) ، سنن ابی داود/الصلاة ۱۰۸ ( ۶۹۷ ، ۶۹۸ ) ، سنن النسائی/القبلة ۸ ( ۷۵۸ ) ، ( تحفة الأشراف : ۴۱۱۷ ) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ قصر الصلاة ۱۰ ( ۳۳ ) ، مسند احمد ( ۳/۳۴ ، ۴۳ ، ۴۴ ) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۲۵ ( ۱۴۵۱ ) ( حسن صحیح )
وضاحت: ۱؎: «مقاتلہ» سے مراد دفع کرنا اور روکنا ہے، لیکن اسلحے کا استعمال کسی سے بھی منقول نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے سختی کے ساتھ ہاتھ سے کسی کو روکنے ، یا ہاتھ کی ضرب کو ۔۔ قتال ۔۔ کہا ہے ،
مطلب یہ کہ قتال ہر جگہ میدانِ جنگ کی لڑائی کو نہیں کہا جاتا ، بلکہ کسی بھی لڑائی ، مارکٹائی کو قتال سے تعبیر کرسکتے ہیں ،
اوپر صحیح مسلم کی حدیث کی شرح کے ضمن میں علامہ نوویؒ لکھتے ہیں :
وَيَدْخُلُ فِي النَّهْيِ إِذَا ضَرَبَ زَوْجَتَهُ أَوْ وَلَدَهُ أَوْ عبده ضرب تأديب فليجتنب الوجه "
یعنی یہاں منہ پر مارنے کی ممانعت میں ۔۔ بیوی ، اولاد اور غلام کو تادیباً مارنے کے دوران چہرہ پر مارنے بھی داخل ہوگا ،
یعنی ان لوگوں کو بھی اگر کبھی اصلاح کیلئے مارنا پڑے تو چہرہ کو بچا مارا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔