مذکورہ بالا دلائل کا جواب
یہ دلائل اس درجے کے نہیں ہیں کہ ان کے پیش نظر گزشتہ صفحات میں مذکور دلائل سے صرف نظر کیا جا سکے جو چہرے کے پردہ واجب ہونے پر واضح دلالت کرتے ہیں ۔پرے کے وجوب کے دلائل درج ذیل وجوہ کی بنا پر راجح ہیں۔
جن دلائل میں چہرہ ڈھانپنے کا ذکر ہے ان میں ایک مستقل اور نیا حکم ہے۔چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل اپنے اندر کوئی حکم نہیں رکھتے (کیونکہ یہ تو پردے کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا عام معمول تھا۔) علمائے اصول کے ہاں یہ ضابطہ مشہور و معروف ہے کہ عام حالت کے خلاف کوئی دلیل ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ عام حالت کے خلاف جب تک دلیل نہ ملے (اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاتا)اسے برقرار رکھا جاتا ہے اور جب نئے حکم کی کوئی دلیل مل جائےتو اصل اور پہلی حالت کو برقرار رکھنے کے بجائے نئے حکم کے ذریعے سے اس میں تبدیلی کر دی جاتی ہے۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو شخص نئے حکم (چہرہ ڈھانپنے ) کی دلیل دیتا ہے اس کے پاس ایک نئی چیز کا علم ہے ،وہ یہ کہ پہلی اور عمومی حالت بدل چکی ہے اور چہرہ ڈھانپنا فرض ہو گیا ہے۔جب کہ دوسرے فریق کو ئی دلائل نہیں مل سکے،لہذا مثبت کو نافی پر اس کے زائد علم کی وجہ سے ترجیح حاصل ہو گی۔
یہ ان حضرات کے پیش کردہ دلائل کا اجمالی جواب ہے۔بالفرض اگر تسلیم کر لیا جائے کہ فریقین کے دلائل ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے برابر ہیں،پھر بھی اس مسلمہ اصولی قاعدے کے پیش نظر چہرہ ڈھانپنے کی فرضیت کے دلائل مقدم ہوں گے۔
*جب ہم چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ یہ دلائل چرہ کھلا رکھنے کی ممانعت کے دلائل کے ہم پلہ نہیں ہیں جیسا کہ آئندہ صفحات میں ہر ایک دلیل کے الگ الگ جواب سے واضح ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر کے تین جواب ہیں:
ہو سکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پردے کی آیت نازل ہونے سے پہلے کی حالت ذکر کی ہو جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں ابھی گزرا ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد اس زینت کا بیان ہو جس کا ظاہر کرنا منع ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے۔ان دونوں باتوں کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ
کے متعلق منقول تفسیر سے ہوتی ہے،چنانچہ گزشتہ صفحات میں قرآن حکیم کی آیات سے پردے کے دلائل کے ضمن میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔
اگر ہم مذکورہ بالا دونوں احتمالات تسلیم نہ کریں تو تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر صرف اس وقت حجت ہو سکتی ہے جب کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے مقابل نہ ہو۔بصورت دیگر اس قول پر عمل کیا جائے گا جسے دوسرے دلائل کی بدولت ترجیح حاصل ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے بالمقابل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس میں انہوں نے (
إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "
سوائے اس زینت کے جوازخود ظاہر ہو جائے" کی تفسیر چادر اور دوسرے ایسے کپڑوں وغیرہ سے کی ہے جو بہرحال ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے ڈھانپنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ النورآیت :31)
اس صورت میں ضروری ہے کہ ان دونوں اصحاب رضی اللہ عنھما کی تفسیر میں سے ایک کو دلائل کی رو سے ترجیح دی جائے اور جو قول راجح قرارپائے،اس پر عمل کیا جائے۔
*حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث دو وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے:
1. خالد بن دریک نے جس راوی کے واطے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے،اس کا ذکر نہیں کیا ہے،لہذا اس کی سند منقطع ہے جیسا کہ خود امام ابو داود نے اس کی نشاندہی کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ "خالد بن دریک نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست نہیں سنا۔"اس حدیث کے ضعیف ہونے کی یہی وجہ ابو حاتم رازی نے بھی بیان کی ہے۔
2. اس حدیث کی سند میں سعید بن بشیر البصری نزیل دمشق نامی راوی ہے۔ابن مدی نے اسے ناقابل اعتماد سمجھ کر ترک کیا۔امام احمد،ابن معین،ابن مدینی نسائی رحمۃ اللہ علیھم جیسے اساطین علم حدیث نے اسےضعیف قرار دیا ہے ۔لہذا یہ حدیث ضعیف ہے اور متذکرہ صدر صحیح احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
علاوہ ازیں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کی عمر ہجرت کے وقت ستائیس سال تھی۔یہ نا ممکن ہے کہ اس بڑی عمر میں وہ نبی ﷺ کے سامنے ایسے کپڑے پہن کر جائیں جن سے ان کے ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ بدن کے اوصاف ظاہر ہو رہے ہوں۔بالفرض اگر حدیث صحیح بھی ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور پردہ واجب کرنے والی نصوص نے اس حکم کو بدل دیا ہے،لہذا وہ ان پر مقدم ہوں گی۔واللہ اعلم۔
*حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کا جواب یہ ہے کہ اس میں غیر محرم عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر سکوت نہیں فرمایا بلکہ اس کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا،اسی لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ اس حدیث سے ثابت ہونے والے مسائل میں سے یہ بھی ہے کہ "غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔"
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس حدیث کے فوائد میں یہ بھی ذکر کیا ہے: "اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا شرعا ممنوع اور نگاہ نیچی کرنا واجب ہے۔"قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "بعض کا خیال ہے کہ نظر نیچی رکھنا صرف اس صورت میں واجب ہے کہ جب فتنے کا اندیشہ ہو۔(اس لیے کہ آپ ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو منع نہیں کیا) لیکن میرے نزدیک نبی ﷺ کا یہ عمل، بعض روایات کے مطابق،کہ آپ (ﷺ) نے فضل کا چہرہ ڈھانپ دیا،زبانی منع کرنے سے کہیں زیادہ تاکید کا حامل ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ آپ ﷺ نے اس عورت کو پردہ کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حالت احرام میں تھی اور احرام میں عورت کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جب غیر محرموں میں سے کوئی اسے نہ دیکھ رہا ہو تو چہرہ کھلا رکھے۔یہ بھی امکان ہے کہ نبی ﷺ نے بعد میں اسے یہ حکم بھی دیا ہو۔کیونکہ راوی کا اس بات کا ذکر نہ کرنا اس امر کی نہیں ہے کہ آپ (ﷺ) نے اس عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہیں دیا۔کسی بات کے نقل نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔
حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق عرض کیا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
"
اصرف بصرک"(صحیح مسلم،الآداب و سنن ابی داود،النکاح)
*رہی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ،تو اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کس سال کا واقعہ ہے۔یا تو وہ خاتون بوڑھی عورتوں میں سے ہو گی جنہیں نکاح سے کوئی سروکار نہیں ہوتا،تو ایسی خواتین کے لیے چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے اس سے دوسری عورتوں پر حجاب کا وجوب ختم نہیں ہو سکتا۔
یا پھر یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے کا ہے کیونکہ سورۃ الاحزاب (جس میں پردے کے احکام ہیں) 5 ہجری یا 6 ہجری میں نازل ہوئی اور نماز عید 2 ہجری سے مشروع چلی آتی ہے۔
واضح رہے کہ اس مسئلہ میں تفصیل کے ساتھ کلام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس اہم معاشرتی مسئلے میں عام لوگوں کے لیے شرعی حکم کا جاننا ضروری ہے اور بہت سے ایسے لوگ اس پر قلم اٹھا چکے ہیں جو بے پردگی کو رواج دینا چاہتے ہیں۔ان لوگوں نے اس مسئلے میں کماحقہ تحقیق کی نہ غورو فکر سے کام لیا،حالانکہ اہل تحقیق کی ذمہ داری ہے کہ عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیں اور ضروری معلومات حاصل کیے بغیر ایسے مسائل میں گفتگو کرنے سے اجتناب کریں۔
محقق کا فرض ہے کہ مختلف دلائل کے درمیان منصف جج کی طرح عدل و انصاف کے ساتھ غیر جانبدارانہ جائزہ لے اور حق کے مطابق فیصلہ کرے۔کسی ایک جانب کی دلیل کے بغیر راجح قرار نہ دے بلکہ تمام زاویوں سے غور کرے۔ایسا نہ ہو کہ وہ ایک نظریہ رکھتا ہو اور مبالغہ سے کام لے کر اس کے دلائل کو محکم اور مخالف کے دلائل کو بلاوجہ کمزور اور ناقابل توجہ قرار دے۔اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ اعتقاد رکھنے سے پہلے اس کے دلائل کا بغور جائزہ لینا چاہیے تاکہ اس کا عقیدہ دلیل کے تابع ہو نہ کہ دلیل اس کے عقیدے کے تابع،یعنی دلائل کا جائزہ لینے کے بعد عقیدہ بنائے نہ کہ عقیدہ قائم کر کے دلائل کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔کیونکہ جو شخص دلائل دیکھنے سے پہلے عقیدہ بنا لیتا ہے وہ اپنے عقیدے کے مخالف دلائل کو عموما رد کرتا ہے۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ان کی تحریفات کا مرتکب ہوتا ہے۔
عقیدہ قائم کر لینے کے بعد دلائل کی تلاش کے نقصانات ہمارے بلکہ سب کے مشاہدے میں ہیں کہ ایسا کرنے والا کس طرح ضعیف احادیث کو بتکلف صحیح قرار دیتا ہے یا نصوص سے ایسے معانی کشید کرنے کی سعی میں مصروف نظر آتا ہے جو اس میں پائے نہیں جاتے،لیکن صرف اپنی بات کو ثابت و مدلل کرنے کے لیے یہ سب کچھ اسے کرنا پڑتا ہے۔
مثلا راقم نے ایک صاحب کا رسالہ "پردے کے عدم وجوب" کے موضوع پر پڑھا ۔اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو سنن ابی داود میں ہے جس میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا باریک کپڑوں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آنا اور آپ ﷺ کا فرمانا کہ "جب عورت سن بلوغت کو پہنچ جائے تو ان اعضاء کے سوا کچھ نظر نہیں آنا چاہیےاور ہاتھوں اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔" یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ حدیث متفق علیہ ہے،یعنی امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیھم اس کے صحیح ہونے پر متفق ہیں،حالانکہ ایسا نہیں ہے۔امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق کہاں؟خود اسے روایت کرنے والے امام ابو داود نے اسے مرسل ہونے کے سبب معطل قرار دیا ہے اور اس کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جسے امام احمد اور دوسرے آئمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔(تفصیل گزر چکی ہے)
لیکن برا ہو تعصب اور جہالت کا کہ انسان کو ہلاکت و مصیبت میں گرفتار کرا دیتے ہیں۔شیخ الاسلام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے "القصیدۃ النونیۃ" میں کیا خوب کہا ہے:
"ان دو کپڑوں سے اپنے آپ کو آزاد کرلو،جو انہیں پہن لیتا ہے ذلیل و خوار ہو کر ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے،ایک کپڑا تو جہ مرکب ہے اور دوسرا تعصب۔یہ دونوں کپڑے بہت ہی برے ہیں۔عدل و انصاف کا لباس زیب و تن کرو کہ یہی خلعت فاخر ہ ہے۔جس سے شانے اور بدن کا ایک ایک حصہ مزین ہو جاتا ہے۔"
ہر مولف اور مقالہ نگار کو دلائل کی تلاش اور ان کی چھان بین میں کوتاہی کے ارتکاب سے ڈرنا چاہیے اور بغیر علم کے محض جلد بازی میں کوئی بات کہنے سے کامل اجتناب کرنا چاہیے وگرنہ وہ ان لوگوں میں سے ہو گا جن کے متعلق قرآن حکیم میں یہ وعید شدید وارد ہے:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًۭا لِّيُضِلَّ ٱلنَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿144﴾
ترجمہ: تو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرے تاکہ اِز راہ بے دانشی لوگوں کو گمراہ کرے کچھ شک نہیں کہ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (سورۃ الانعام،آیت 144)
اور ایسا بھی نہ کرے کہ ایک طرف دلائل کی تلاش اور تحقیق میں کوتاہی کا مرتکب ہو اور دوسری طرف ثابت شدہ دلائل کو ٹھکرا کر عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق بنے اور اس زمرے میں داخل ہو جائے جس کے متعلق فرمان ربانی ہے:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَبَ عَلَى ٱللَّهِ وَكَذَّبَ بِٱلصِّدْقِ إِذْ جَآءَهُۥ ۚ أَلَيْسَ فِى جَهَنَّمَ مَثْوًۭى لِّلْكَٰفِرِينَ ﴿32﴾
ترجمہ: پھر اس سے کون زیادہ ظالم ہے جس نے الله پرجھوٹ بولا اور سچی بات کو جھٹلایا جب اس کے پاس آئی کیا دوزخ میں کافروں کا ٹھکانا نہیں ہے (سورۃ الزمر،آیت 32)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق کو حق سمجھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،نیز باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے مکمل طور پر اجتناب کی ہمت دے اور اپنی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دے کہ وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
وصلی اللہ وسلم و بارک علی نبیہ ولی الہ واصحابہ واتباعہ اجمعین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭