سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
ڈاکٹر حافظ عبدالرشیداظہرؔ
عبدالمعید مدنی
قافلہ حیات انسان کو کہاں کہا ں لے جاتاہے اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کا تعلق عالمی بن جاتا ہے۔ ہرملک اورہرخطے کے لوگوں سے شناسائی ہوجاتی ہے۔جامعہ اسلامیہ میں ایک بہت ہی ہونہارذی علم زندہ دل باذوق عالم سے شناسائی ہوئی۔ ان کانام حافظ عبدالرشید اظہر تھا۔ تقریب ملاقات بھی یوں ہوئی کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ''الحدیث حجۃ بنفسہ'' کا ترجمہ بدرالزماں نیپالی نے کیا تھا جو ہندوستان میں شائع ہوگئی تھی۔ اس کتاب کا ترجمہ حافظ اظہر نے پاکستان میں کیا تھا اورجامعہ اسلامیہ میں آنے سے پہلے ان کا ترجمہ پاکستان میں چھپ چکا تھا۔ ان کوبدرالزماں کے ترجمے کا پتہ چلا پھریہ طے ہوا کہ دونوں ترجموں کا مقابلہ ہوتا کہ اندازہ ہو کس کا ترجمہ زیادہ بہترہے۔ عبدالواحد مدنی، عبدالرشید اظہر اور خاکسار نے مل کردونوں ترجموں کا موازنہ کیا۔ اس موازنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلاست بدرالزماں کے ترجمے میں ہے اور ترجمانی کا حق ان سے بہتر حافظ اظہر نے ادا کیا ہے۔ اس تقریب ملاقات کے بعد شناسائی توہوگئی لیکن پھر وہی ایک ملاقات ہمارے لیے مستقل ان کو یاد رکھنے کا سبب بن گئی اوروہ ہمیں یاد رکھتے تھے۔
۱۹۸۳ کے اوائل میں جب جامعہ سلفیہ کے سلسلہ تدریس کے ساتھ انسلاک ہوا اور عربی واردوتحریروں کی سرگرمیا ں بڑھیں توملک وبیرون ملک سے بے شمار تہنیتی خطوط ملے۔ افسوس سارے خطوط تلف ہوگئے ان خطو ط کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ گئی تھی۔ انھیں میں سے لاہور سے ڈاکٹر عبدالرشید اظہر کا بھی خط تھا۔ اس علم شناس اور علماء شناس مخلص انسان نے میری عربی اور اردو تحریروں کو دیکھ کر مجھے یاد کیا اوراپنی مسرت کا اظہار کیا اورزبردست ہمت افزائی کی اور دونوں زبانوں میں میرے طرز تحریر کو سراہا۔
پھر ناشادی حالات کی بناء پرمیں علمی پس منظر سے غائب ہوگیا اورفیجی میں جاکر زندگی کے قیمتی اوقات نااہلوں اورفنکار مولویوں کے بیچ میں گنوادیے۔ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ مجھے اپنے علمی ضیاع کا پل پل احساس تھا اورکبھی تمام سہولتوں کے باوجود مجھے ذہنی سکون نہ ملا۔ حیات وموت اوراس کے اسباب کا اختیار اللہ تعالی کے ہاتھ میں کون اپنی تقدیر سے فرار اختیار کرسکتا ہے۔
زمانہ بیت گیا کبھی ان سے ربط نہ قائم ہوسکا۔ اتنا اکثرپڑھنے اورسننے میں آتا کہ وہ مکتب الدعوہ سے وابستہ ہیں۔ کبھی کبھار پاکستانی مجلات میں ان کے مضامین نظرآجاتے۔ ایک بار انٹرنیٹ پر ان کا ایک لکچرسنا۔ پھراچانک ایک دن ماہنامہ محدث اپریل ۲۰۱۲ میں ان کی شہادت کے متعلق خبر پڑھی پھر مئی کے شمارے میں تفصیلات ملیں۔ دل کو ایک دھچکالگا کہ ایک زبردست عالم دین کو نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں ان کا گلا گھونٹ کر شہید کردیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
۱۷؍مارچ ۲۰۱۲ء سنیچر کا دن تھا یوم تعطیل ، اسلام آباد شہر ہرطرف سناٹا دواجنبی شخص حاجت مند بن کر حافظ صاحب کے گھر آئے۔ حافظ صاحب نے اپنی کریمانہ عادت کے بموجب ان کا استقبال کیا اوران کی طلب پوری کی۔ یہ دونوں عادی اور تربیت یافتہ مجرم تھے۔ انہوں نے حافظ صاحب کو دھوکے سے بے ہوش کردیا اورپھر ان کا گلا گھونٹ کر انھیں ان کے گھرہی میں ماردیا۔ انہوں نے احتیاطا کمرے کی کنڈی چڑھادی تھی۔ یوں گھر میں موجود بیوی کو بھی ان کی مجرمانہ حرکت کا پتہ نہ چلا۔ یہ دونوں ان کی گاڑی لے کر فرار ہوگئے۔ ۱۲دن بعد مجرم گرفتار کرلئے گئے اورامید ہے جلدہی وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے۔