• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر حافظ عبدالرشیداظہر :شیخ عبدالمعید مدنی ( پاکستان کے ایک عالم پر ہندستان کے ایک عالم کی تحریر)

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ڈاکٹر حافظ عبدالرشیداظہرؔ

عبدالمعید مدنی
قافلہ حیات انسان کو کہاں کہا ں لے جاتاہے اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کا تعلق عالمی بن جاتا ہے۔ ہرملک اورہرخطے کے لوگوں سے شناسائی ہوجاتی ہے۔
جامعہ اسلامیہ میں ایک بہت ہی ہونہارذی علم زندہ دل باذوق عالم سے شناسائی ہوئی۔ ان کانام حافظ عبدالرشید اظہر تھا۔ تقریب ملاقات بھی یوں ہوئی کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ''الحدیث حجۃ بنفسہ'' کا ترجمہ بدرالزماں نیپالی نے کیا تھا جو ہندوستان میں شائع ہوگئی تھی۔ اس کتاب کا ترجمہ حافظ اظہر نے پاکستان میں کیا تھا اورجامعہ اسلامیہ میں آنے سے پہلے ان کا ترجمہ پاکستان میں چھپ چکا تھا۔ ان کوبدرالزماں کے ترجمے کا پتہ چلا پھریہ طے ہوا کہ دونوں ترجموں کا مقابلہ ہوتا کہ اندازہ ہو کس کا ترجمہ زیادہ بہترہے۔ عبدالواحد مدنی، عبدالرشید اظہر اور خاکسار نے مل کردونوں ترجموں کا موازنہ کیا۔ اس موازنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلاست بدرالزماں کے ترجمے میں ہے اور ترجمانی کا حق ان سے بہتر حافظ اظہر نے ادا کیا ہے۔ اس تقریب ملاقات کے بعد شناسائی توہوگئی لیکن پھر وہی ایک ملاقات ہمارے لیے مستقل ان کو یاد رکھنے کا سبب بن گئی اوروہ ہمیں یاد رکھتے تھے۔
۱۹۸۳ کے اوائل میں جب جامعہ سلفیہ کے سلسلہ تدریس کے ساتھ انسلاک ہوا اور عربی واردوتحریروں کی سرگرمیا ں بڑھیں توملک وبیرون ملک سے بے شمار تہنیتی خطوط ملے۔ افسوس سارے خطوط تلف ہوگئے ان خطو ط کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ گئی تھی۔ انھیں میں سے لاہور سے ڈاکٹر عبدالرشید اظہر کا بھی خط تھا۔ اس علم شناس اور علماء شناس مخلص انسان نے میری عربی اور اردو تحریروں کو دیکھ کر مجھے یاد کیا اوراپنی مسرت کا اظہار کیا اورزبردست ہمت افزائی کی اور دونوں زبانوں میں میرے طرز تحریر کو سراہا۔
پھر ناشادی حالات کی بناء پرمیں علمی پس منظر سے غائب ہوگیا اورفیجی میں جاکر زندگی کے قیمتی اوقات نااہلوں اورفنکار مولویوں کے بیچ میں گنوادیے۔ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ مجھے اپنے علمی ضیاع کا پل پل احساس تھا اورکبھی تمام سہولتوں کے باوجود مجھے ذہنی سکون نہ ملا۔ حیات وموت اوراس کے اسباب کا اختیار اللہ تعالی کے ہاتھ میں کون اپنی تقدیر سے فرار اختیار کرسکتا ہے۔
زمانہ بیت گیا کبھی ان سے ربط نہ قائم ہوسکا۔ اتنا اکثرپڑھنے اورسننے میں آتا کہ وہ مکتب الدعوہ سے وابستہ ہیں۔ کبھی کبھار پاکستانی مجلات میں ان کے مضامین نظرآجاتے۔ ایک بار انٹرنیٹ پر ان کا ایک لکچرسنا۔ پھراچانک ایک دن ماہنامہ محدث اپریل ۲۰۱۲ میں ان کی شہادت کے متعلق خبر پڑھی پھر مئی کے شمارے میں تفصیلات ملیں۔ دل کو ایک دھچکالگا کہ ایک زبردست عالم دین کو نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں ان کا گلا گھونٹ کر شہید کردیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
۱۷؍مارچ ۲۰۱۲ء سنیچر کا دن تھا یوم تعطیل ، اسلام آباد شہر ہرطرف سناٹا دواجنبی شخص حاجت مند بن کر حافظ صاحب کے گھر آئے۔ حافظ صاحب نے اپنی کریمانہ عادت کے بموجب ان کا استقبال کیا اوران کی طلب پوری کی۔ یہ دونوں عادی اور تربیت یافتہ مجرم تھے۔ انہوں نے حافظ صاحب کو دھوکے سے بے ہوش کردیا اورپھر ان کا گلا گھونٹ کر انھیں ان کے گھرہی میں ماردیا۔ انہوں نے احتیاطا کمرے کی کنڈی چڑھادی تھی۔ یوں گھر میں موجود بیوی کو بھی ان کی مجرمانہ حرکت کا پتہ نہ چلا۔ یہ دونوں ان کی گاڑی لے کر فرار ہوگئے۔ ۱۲دن بعد مجرم گرفتار کرلئے گئے اورامید ہے جلدہی وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
حافظ اظہر صاحب خالص علمی آدمی تھے۔ صلح جواور متواضع انسان تھے۔ ان کو چونچلے بازمولویوں کے ناروا ہنگاموں سے کوئی مطلب نہ تھا۔ اس کے باوجود نامعلوم کن خفیہ عناصر کے اشارے پر انھیں شہید کردیا گیا۔ وہ نہ کسی سیاست باز کی راہ کا روڑا تھے، نہ ان کوکسی سے رقابت تھی، نہ وہ کسی جتھے کے آدمی تھے، وہ فقط کتاب وسنت اورعلماء سلف اورمنہج سلف کے پاسدار تھے اورجماعت اہل حدیث کے سپاہی تھے۔ لیکن اب ایساوقت آگیا ہے کہ نفرتوں اور عداوتوں کے شعلے بھڑک رہے ہیں اورمفاد پرستی عام ہوگئی ہے۔ ایسے ماحول میں خالص علم کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے بھی شاطروں کے نشانے سے نہیں بچتے۔
ڈاکٹر عبدالرشیداظہر پوری جماعت اہل حدیث کے عظیم سرمایے تھے اورعلامہ محمد اسماعیل گوجرانوالہ اور علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے علمی اخلاف میں سے تھے اورانھیں کی طرز حیات اور مسلکی سوچ کے تھے جو علم اور مسلک کو جتھ بندیوں سیاست بازیوں سے آلودہ نہیں ہونے دیتے تھے اوراسلاف کے علم کی ترجمانی سب سے بڑا کام اور سرمایہ افتخار سمجھتے تھے۔ فروغ دین اورمنہج حق کے لئے انہوں نے اپنی استطاعت بھر جدوجہد جاری رکھی۔
آٹھویں دہے کے بعد کی علمی جنریشن میں ڈاکٹر عبدالرشید کی علمی حیثیت معتبر حلقوں میں مسلم تھی۔ ان کی نظر حدیث ،علوم حدیث ،فقہ، اصول فقہ پر گہری تھی اور تفسیر قرآن سے بھی انھیں شغف تھا۔ امام بخاری اور صحیح بخاری سے ان کا لگاؤ انتہائی گہرا تھا۔ امام بخاری پر گفتگو فرماتے اور صحیح بخاری کی تشریح کرتے وقت ان کے اوپر سرشاری کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ حدیث ،فقہ اورعقیدہ پر ان کی تحریریں بہت وقیع اور اہم ہوتی تھیں۔
ان کی علمی ودعوتی سرگرمی آخری سانس تک جاری رہی، کبھی تھمی نہیں۔ ان کے علم سے ہرطبقے کے لوگوں نے استفادہ کیا۔ ملک وبیرون ملک ان کے علم کا فیضا ن عام ہوا۔ ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ ان کا علم عام ہو۔ ان کے گھر کا دروازہ مستفیدین کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ان کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ وہ شرح صدر کے ساتھ دعوت کتاب وسنت کی ترقی اور فروغ کے لیے تمام اہل حدیث اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار رہتے تھے اوراپنی شخصی شناخت اور اصالت کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ان کی عملی اور استقلالی شخصیت تھی۔ وہ کسی فرد ادارے اورقائد کے دم چھلہ بن کر جینے کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے علمی ودعوتی کام وقار کے ساتھ کیا اوراسے آبروبخشا۔ ایسے لوگوں کو بھیڑ اوردکھاوا راس نہیں آتا، وہ اپنی ذات میں خودایک انجمن ہوتے ہیں اورعلمی وقار کو ٹھیس لگے توان کا دل زخمی ہوجاتاہے۔
آج کے دور میں زندگی کی تعبیرات وتشریحات بڑی عجیب عجیب قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک خود دار عالم کو مغرور، باوقار انسان کوزود رنج اور فکری استقلال رکھنے والے کوضدی، حق کی آواز اٹھانے والے کو فتنہ پرو ر،مخلص اور بے نفس انسان کو بے وقوف اور پتہ نہیں کیا کیا کہا جاتا ہے اور کن کن خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن جنہیں عالمانہ پوزیشن کا شعور ہوتا ہے وہ ان چونچلے بازیوں کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے وہ فقط راہ استقامت پرچلتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرشید اظہر راہ استقامت کے راہی تھے۔ ان کی اپنی سوچی سمجھی طرز زندگی تھی اسلاف کے طرز ۔ اوریہی طرز زندگی ان کی پسندیدہ طرز زندگی تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے ۵۳ ۱۹تا ۲۰۱۲ کا وقفہ حیات پایا۔ ۵۹سال کی عمر میں نداء الہی کو لبیک کہا۔ اس وقفہ حیات میں انہوں نے ایک بھرپور زندگی گذاری اوراپنے لئے جوراہ چن لی اس سے کبھی ہٹے نہیں ۔ انہوں نے جامعہ سعیدیہ خانیوال اورجامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تعلیم مکمل کی۔ ۱۹۷۹ کے اخیر میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ ملا۔ ۱۹۸۴ میں مدینہ سے واپس لوٹے اور ۳۰ستمبر ۱۹۸۴ سے مکتب الدعوۃ لاہور سے وابستہ ہوگئے۔ ۱۹۸۷میں مکتب الدعوۃ اسلام آباد منتقل ہوگیاتو ان کی خدمات بھی اسلام آباد میں حاصل کرلی گئیں۔ آخری سانس تک وہ مکتب الدعوۃ سے وابستہ رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے جامعہ سلفیہ سعیدیہ، جامعہ سلفیہ خانیوال اورجامعہ اسلامیہ لاہورمیں تدریس کا کام کیا اور استفادہ کرنے والوں کو برابر تعلیم سے نوازتے رہے اوردعوت وتبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اورجامعہ اسلامیہ کے قاضی کو رسز میں ججوں کو اصول فقہ کی تعلیم دی۔ ملک کے باہر برطانیہ ،امریکہ اور انڈونیشیا کا دورہ کیا اورمختلف موضوعات پر لکچردےئے اوراندرون ملک ان کے دروس کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کا مزاج خالص دینی تھا اورسلف کے طرزفکر پران کی سوچ تھی وہ علوم دین پر دوسرے علوم کو قطعا ترجیح نہیں دیتے تھے ۔وہ عربی مدارس میں پیوندکاری کے خلاف ہندوستان میں بعض مدارس میں جاری خچر نصاب کے مضرت رسانی کے وہ قائل تھے۔ یہ خچر نصاب تعلیم ایک روشنی طبع ہے ۔جس نے علوم دینیہ کے مقام مرتبے اوراہمیت کو ختم کرکے رکھ دیا ہے اورخچرنصاب تعلیم پڑھ کر بچے نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ ادھر کے۔
اس وقت میڈیا ئی دعوت وتبلیغ کا بڑا فیشن ہے، جس کو دیکھو میڈیا مولویوں کانام بڑے فخر سے لیتا ہے اورایسا سمجھتا ہے جیسے میڈیا میں آکر مولوی جبریل علیہ السلام بن جاتا ہے اوراس کے پانچ سوپرنکل آتے ہیں اور ہرکوچۂ ودر اس کی پہنچ بن جاتی ہے۔ جس میڈیا سے خالص دین کی دعوت دی جاتی ہے اورعلماء کے یادینی علم کے امانت داروں کے ہاتھ میں ہے ان کی افادیت طے ہے مگروہ میڈیا جو کافروں، گمراہوں اور تاجروں کے ہاتھ میں ہے اوروہ جواپنی دکان میں ہر ایک کو خوش کرنے کا سامان رکھتے ہیں ۔ ایک طرف شرکیہ نعت ہے ،قوالی ہے ،قبرپرستی کی دعوت ہے، فلمی کہانیا ں ہیں، فلمیں گانے ہیں۔ دوسری طرف درس حدیث ہے درس قرآن ہے۔ اس طرح کی میڈیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک شیطانی دکان ہے جس کے ساتھ تعاون کرنا شیطان کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔
میں نے میڈیائی دعوت اورخچر نصاب تعلیم کے متعلق ان کی رائے پڑھی توہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ اس طرح کی حقیقت پسندانہ رائے رکھنے والے بہت سے ذی علم علماء ہیں ۔ بات یہ ہے کہ جن کی نگاہیں مادیت سے خیر ہ ہوگئی ہیں اوروہ مادی ترقی کو زیادہ وزن دیتے ہیں ان کے لئے بڑی مسرت کی بات ہوتی ہے کہ میڈیا سے چپکیں اورمیڈیائی شہرت بانو کی چرنوں میں گریں اور دینی علوم کے ساتھ مادی مسموم کی پیوندکاری کریں اورخوش ہوں کہ ان سے کمالات کا صدور ہورہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے بہت سے علمی کام اورعلمی تحریریں ہیں۔ اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے علمی قائدانہ رول ادا کیا ہے اورنئی نسل کی علمی تربیت کی ہے اورجتھا بندی کی قباحتوں سے قطعا دوررہے۔
اظہر صاحب زندگی کے متعلق بابصیرت اورحکیمانہ رائے رکھتے تھے اورکبھی کسی چونچلے بازی میں نہیں پڑتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت کرے آمین۔
***
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
حافظ اظہر صاحب خالص علمی آدمی تھے۔ صلح جواور متواضع انسان تھے۔ ان کو چونچلے بازمولویوں کے ناروا ہنگاموں سے کوئی مطلب نہ تھا۔ اس کے باوجود نامعلوم کن خفیہ عناصر کے اشارے پر انھیں شہید کردیا گیا۔ وہ نہ کسی سیاست باز کی راہ کا روڑا تھے، نہ ان کوکسی سے رقابت تھی، نہ وہ کسی جتھے کے آدمی تھے، وہ فقط کتاب وسنت اورعلماء سلف اورمنہج سلف کے پاسدار تھے اورجماعت اہل حدیث کے سپاہی تھے۔ لیکن اب ایساوقت آگیا ہے کہ نفرتوں اور عداوتوں کے شعلے بھڑک رہے ہیں اورمفاد پرستی عام ہوگئی ہے۔ ایسے ماحول میں خالص علم کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے بھی شاطروں کے نشانے سے نہیں بچتے۔
ڈاکٹر عبدالرشیداظہر پوری جماعت اہل حدیث کے عظیم سرمایے تھے اورعلامہ محمد اسماعیل گوجرانوالہ اور علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے علمی اخلاف میں سے تھے اورانھیں کی طرز حیات اور مسلکی سوچ کے تھے جو علم اور مسلک کو جتھ بندیوں سیاست بازیوں سے آلودہ نہیں ہونے دیتے تھے اوراسلاف کے علم کی ترجمانی سب سے بڑا کام اور سرمایہ افتخار سمجھتے تھے۔ فروغ دین اورمنہج حق کے لئے انہوں نے اپنی استطاعت بھر جدوجہد جاری رکھی۔
آٹھویں دہے کے بعد کی علمی جنریشن میں ڈاکٹر عبدالرشید کی علمی حیثیت معتبر حلقوں میں مسلم تھی۔ ان کی نظر حدیث ،علوم حدیث ،فقہ، اصول فقہ پر گہری تھی اور تفسیر قرآن سے بھی انھیں شغف تھا۔ امام بخاری اور صحیح بخاری سے ان کا لگاؤ انتہائی گہرا تھا۔ امام بخاری پر گفتگو فرماتے اور صحیح بخاری کی تشریح کرتے وقت ان کے اوپر سرشاری کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ حدیث ،فقہ اورعقیدہ پر ان کی تحریریں بہت وقیع اور اہم ہوتی تھیں۔
ان کی علمی ودعوتی سرگرمی آخری سانس تک جاری رہی، کبھی تھمی نہیں۔ ان کے علم سے ہرطبقے کے لوگوں نے استفادہ کیا۔ ملک وبیرون ملک ان کے علم کا فیضا ن عام ہوا۔ ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ ان کا علم عام ہو۔ ان کے گھر کا دروازہ مستفیدین کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
حافظ عبد الرشید اظہر صاحب اردو ، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں بہترین تقریر و تحریر کی صلاحیت رکھتے تھے ۔
کسی جگہ پڑھا ہے شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کی کتاب ’’ العجالۃ النافعۃ ‘‘ کو ڈاکٹر صاحب نے فارسی سے عربی کے قالب میں ڈھالا ہے ۔
جس سال ہم حضرت الاستاذ حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ سے بخاری پڑھ رہے تھے حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کسی کام سے لاہور آنا ہوا تو جامعہ اسلامیہ ( لاہور ) میں بھی تشریف لائے اور صبح کی نمازکے بعد علم نافع کی اہمیت پر شاندار درس دیا ۔ کچھ دیر بعد حافظ ثناء اللہ صاحب بخاری پڑھانے کے لیے کلاس میں تشریف لاچکے تھے تو حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کو معلوم ہوا تو چل کر حافظ صاحب کو ملنے آئے ۔ کچھ دیر تبادلہ خیال کرنے کے بعد حافظ اظہر صاحب نے حافظ ثناء اللہ صاحب سے اجازت چاہی اور عرض کیا کہ اسلام آباد کے لیے گاڑی کا وقت ہو رہا ہے اور ٹکٹ پہلے ہی بک کروائی ہوئی ہے ۔ حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب نے بڑے پیار اور محبت کے ساتھ کہا کہ آپ ہمارے پاس رہیں کچھ وقت گزاریں اسلام آباد جانے کا بندوبست میں خود آپ کے لیے کروادوں گا ۔ لیکن پھر شیخین کی باہمی رضا سےیہی طے ہوا کہ حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کا اپنی دیگر علمی مصروفیات کی بنا پر ابھی سفر کرنا بہتر ہے ۔
حافظین کریمین کا ایک دوسرے کا حد درجہ اکرام و احترام کرنے سے ہمیں یہی بات سمجھ آئی کہ دونوں ایک دوسرے کی جلالت علمی اور قدر و منزلت کے معترف ہیں ۔
حافظ ثناء المدنی صاحب کا مجموعہ فتاوی کی پہلی جلد شائع ہوئی تو اس کے شروع میں بطور مقدمہ حافظ عبد الرشید اظہر صاحب نے تقریبا ڈیڑھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک پرمغز اور تحقیق و تدقیق سے مملو تحریر بعنوان ’’ مقدمہ اجتہاد و افتاء ‘‘ سپرد قلم کی ۔ حافظ صاحب کی یہ تحریر ( جو اپنے موضوع پر ایک مستقل کتاب ہے ) جہاں ان کی حافظ ثناء اللہ صاحب سے محبت و اخوت کا منہ بولتا ثبوت ہے وہیں ان کی مسائل علمیہ میں رفعت شان اورعلوکعب کی واضح دلیل ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ماشاءاللہ
ڈاکٹر صاحب واقعی بہت اچھے داعی تھے، ڈاکٹر صاحب کے لیکچرز علمی ہوا کرتے تھے، ان کی تقاریر تقریبا ہر سال ہی خان پور میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر ہوا کرتی تھی۔

خان پور سے شائع ہونے والا سہہ ماہی رسالہ "نداء الایمان" جو ابھی اتنا معروف شمارہ نہیں ہے، اس میں ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں لکھا ہے، اور اس دن کا مکمل واقعہ لکھا ہے جس دن ڈاکٹر صاحب کو قتل کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کا ایک آنکھوں دیکھا واقعہ آپ لوگوں کو سناتا چلوں:
"ایک بار خان پور میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس کے موقع پر عصر کی نماز کے بعد وہاں ایک مقامی شخص نے جو شاید خود بھی ٹیچر ہیں، تقریر کی، دوران تقریر انہوں نے جذباتی انداز میں امت کی مجموعی کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر کسی مسئلے پر لفظ "بے غیرت مسلمان" کہہ دیا۔
خیر ان صاحب کی تقریر اختتام پذیر ہوئی، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے، ڈاکٹر صاحب نے تقریر شروع کی اور اس صاحب کے الفاظ "بے غیرت مسلمان" پر تنقید برائے اصلاح کے انداز سے نقد کی کہ بھائی ہمیں ایسے نہیں کہنا چاہئے مسلمان بے غیرت ہیں۔ کیونکہ:
یہ جو اتنا مجمع میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو سننے کے لئے آیا ہوا ہے یہ بے غیرت نہیں ہو سکتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پیغام کو پھیلانے کی خاطر جن لوگوں نے یہ انتظام کئے ہیں وہ بے غیرت نہیں ہو سکتے۔
اور تو اور یہ جو سکیورٹی گارڈ کھڑا ہے جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو سننے والوں پر پہرہ دے رہا ہے یہ بھی بے غیرت نہیں ہو سکتا۔یہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، لہذا مسلمان کو بے غیرت نہ کہیں۔"

ماشاءاللہ، اس اچھے انداز میں انہوں نے مقرر کی اصلاح کر دی۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی مغفرت فرمائے، ان کی دین کے لئے کی گئی خدمت کو قبول فرمائے آمین
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
یہ کتنے افسوس کی بات ہیکہ ہندستان کے علماء وفات پاجاتے تو پاکستان کے بھائیوں کو ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے اور وہاں پاکستان کے علماء وفات پاجاتے ہیں تو یہاں ہندستان والوں کو پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنی بڑی شخصیت تھے ۔
کیاہم ایسا نہیں کرسکتے کہ ہم یہاں کے موجود باحیات علماء کا انٹرویو لیتے ہیں اور آپ پاکستان والوں میں سے کوئی وہاں کے علماء کا انٹرویو لیجیے ۔ ہر مہینہ ہمارے اور آپ کی کی میگزین میں یہ انٹرویو ایک ساتھ شائع ہوں ۔ ایک مہینہ ہندستان کے عالم کا اور دوسرے مہینہ پاکستان کے عالم کا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہ کتنے افسوس کی بات ہیکہ ہندستان کے علماء وفات پاجاتے تو ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے اور وہاں پاکستان کے علماء وفات پاجاتے ہیں تو یہاں ہندستان والوں کو پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنی بڑی شخصیت تھے ۔
کیاہم ایسا نہیں کرسکتے کہ ہم یہاں کے موجود باحیات علماء کا انٹرویو لیتے ہیں اور آپ پاکستان والوں میں سے کوئی وہاں کے علماء کا انٹرویو لیجیے ۔ ہر مہینہ ہمارے اور آپ کی کی میگزین میں یہ انٹرویو ایک ساتھ شائع ہوں ۔ ایک مہینہ ہندستان کے عالم کا اور دوسرے مہینہ پاکستان کے عالم کا۔
محترم رفیق طاھر صاحب رسالہ نکالتے ہیں اسی طرح ان کے پاس انٹرویو وغیرہ کے لیے افراد بھی میسر ہوں گے ان سے رابطہ کرکے دیکھیں شاید یہ خیر کےکام کی ابتداء ہوجائے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ

مختصر حالات زندگی
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ
شھید اسلام ،،عالم دین ،عظیم مذھبی سکالر ،،داعی کتاب وسنت ،عظیم محقق ، مترجم ، چئیرمین المجلس الاسلامی باکستان ، رئیس المرکزالاسلامی الحدیث الجامعہ السعیدیہ خانیوال مشرف الدعاة ، مکتب الدعوہ اسلام آباد
تاریخ وجائے پیدائش : يكم فرورى 1953ء بہاولپور
تعليم :
حفظ قرآن ،
فاضل فارسى (1970ء)
الشھادة العالية (1972ء)
الإجازة العالية ( جامعہ اسلاميہ مدينہ منورة 1983ء) بتقدیرممتاز
الشھادة العالمية ( وفاق المدارس السلفية 1984ء) بتقدیرممتاز
ايم اے علوم اسلاميہ ( جامعہ پنجاب لاھور 1985ء) پہلی پوزیشن
ڈاکٹریٹ شعبہ عربی ( جامعہ پنجاب لاھور 2002ء)
اساتذہ كرام
شيخ الحديث حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالوی،
شيخ الحديث حضرت مولانا ابو الحسنات علی محمد سعیدی ،
شيخ الحديث حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی،
شيخ الحديث مولانا محمد داؤد مسعود،
شيخ الحديث مولانا ثناء اللہ ھوشيارپوری ،
فضيلة الشيخ ابوبکر جابر الجزائری،
فضيلة الشيخ عبدالرؤف اللبدي،
فضيلة الشيخ عبدالمحسن بن حمد العباد ۔
اولاد
تین بیٹے
--1-- ڈاکٹر حافظ مسعود اظھر- رئیس - المجلس الاسلامی باکستان ،
- رئیس -المرکزالاسلامی الحدیث الجامعہ السعیدیہ خانیوال
- مبعوث وزارہ الشوؤن الاسلامیہ والاوقاف والدعوہ - والارشاد سعودی عرب
- ممبر مرکزی مجلس شوری مرکزی جمیعت اھل حدیث باکستان
- ممبر مرکزی مجلس عاملہ مرکزی جمیعت اھل حدیث باکستان
--2-- حافظ محمودعبدالرشید اظھر
- متعلم بالجامعہ الاسلامیہ مدینہ نبویہ
--3--حافظ سعدعبدالرشید اظھر
- متعلم بالجامعہ الاسلامیہ مدینہ نبویہ
بیٹیاں : تين
پوتے
--1-- عبداللہ بن مسعود
--2-- عبدالعزیز بن مسعود
--3--عبدالمعیذ بن مسعود
نواسے
--1-- عبدالرحمان ساجد
--2-- عبدالرحیم ساجد
--3-- عبدالمتین ساجد
--4-- عبدالھادی فھیم
--5-- عبدالمحسن فھیم
نواسیاں 4
علمى مناصب و خدمات
--1-- مدیرالتعلیم بالجامعه السلفيہ فيصل آباد
--2-- تدريس بالجامعه السلفيہ فيصل آباد
--3-- لیکچرر اوریئنٹل کالج لاہور
--4-- تحقيقى نگران ادارة البحوث الاسلاميہ
رئیس المجلس الاسلامی باکستان ،
المرکزالاسلامی الحدیث الجامعہ السعیدیہ خانیوال
ادارتی مناصب
--1-- ریسرچ سکالر مکتب الدعوہ اسلام آباد
--2-- مشرف الدعاہ مکتب الدعوہ اسلام آباد
--3-- سرپرست اعلیٰ مرکزی جمعیت اھلحدیث راولپنڈی
تالیفات
:---1-- الخمینیون والاماکن المقدسہ
----2--مقدمہءتوحید--100
----3--مقدمہ فتاوی ثنائیہ
----4--مقالات تربیت
----5--تحقیقی مقالہ :الدراسة المقارنة بين التفسير المظهري و تفسير فتح البيان 1000 صفحات
----6--الاستصلاح فی الشریعہ الاسلامیہ
تراجم
----7--الشیعہ والتشیع از ڈاکٹر موسوی الموسوی۔بعنوان ،، اصلاح شیعہ،،
----8--؛عقیدہ اھل السنہ والجماعہ، از شيخ محمد بن صالح العثيمين۔۔
----9--الحجاب از شيخ محمد بن صالح العثيمين بعنوان " پردہ "
---10--تحقیقی مقالہ :الدراسة المقارنة بين التفسير المظهري و تفسير فتح البيان 1000 صفحات
---11--نظر ثانى فتح الحميد (ترجمہ قرآن از مولانا فتح محمد جالندھری )
مظلومانہ قتل
17 مارچ 2012 ء بعمر 59 برس
ڈاکٹرحافظ عبد الرشید اظہر کوشھید کر دیا گیا -
الحمد للہ سفاک قاتل گرفتار ھوچکے ھیں
مقدمہ سیشن کورٹ اسلاآباد میں جاری ھے
حوالہ جات :
متفرق كتب ، ويب سائٹس ،
ہفت روزہ الاعتصام لاہور
ہفت روزہ اہل حدیث لاہور
انتباہ :
یہ معلومات فیس بک کے ایک صفحہ بنام (المركز الاسلامي الحديث الجامعة ا لسعيدية خانيوال ) سے لے گئی ہیں جو غالبا حافظ صاحب کے بیٹے حافظ مسعود اظہر کے زیر نگرانی ہے ۔ اس صفحے پر حافظ صاحب کے بارے میں بہت ساری نادر معلومات دستیاب ہیں ۔
 
Top