شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,014
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
ماہنامہ ساحل میں ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب نے جاوید احمد غامدی کے رد میں گرانقدر مضامین لکھے۔ کچھ مضامین یہ ہیں:
عربی زبان و ادب کے ساتھ سنگین مذاق
غامدی صاحب کی عربی دانی، اور جدید و قدیم علوم سے واقفیت کا پہلا محاکمہ
جاوید غامدی صاحب اور اُن کی عربی ۔ ایک تنقیدی جائزہ
جاوید احمد غامدی اور سنت
غامدی صاحب کی عربی شرح ’’المفردات‘‘ کا تنقیدی جائزہ
تعال نقتبس من نور اسلافنا
ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کا تعارف بھی پیش کردیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ جاوید احمد غامدی پر تنقید کرنے والے کی اپنی علمی حیثیت کیا ہے۔
ڈاکٹر رضوان کا تعلق حسینی سیّد، حضرت جلال الدّین بخاری مخدوم جہانیاں گشتؒ کے خاندان سے ہے۔ آپ رام پور میں پیدا ہوئے۔ زندگی کی مختصر سرگزشت یا تعارف درج ذیل ہے:
تعلیم:
[۱] Ph.Dکیمبرج یونیورسٹی ۱۹۶۳ء مقالے کا موضوع، ایک قدیم عربی قلمی تفسیری کتاب کی تحقیق۔ جو برٹش میوزیم میں تھی، تمام دنیا میں موجود دوسرے نسخوں کے ساتھ مقابلے کے بعد تحقیقی صحیح متن (عربی) میں اور انگریزی میں مصنف کی زندگی اور تصنیفات پر تحقیقی مقالہ شائع کیا۔ [۲] دمشق یونیورسٹی کے کلیۃ الشریعۃ (شریعت فیکلٹی) سے چار سالہ کورس کے بعد ۱۹۹۵ء میں M.A.کی سند حاصل کی۔ اس زمانے کے مشہور اساتذہ ڈاکٹر معروف الدوالیبی، ڈاکٹر مصطفی احمد السباعی، الاستاذ الشیخ مصطفی احمد الزرقاء، ڈاکٹر زکی شعبان (مصری ازھری)، ڈاکٹر یوسف العش (اسلامی تاریخ) سے استفادہ کیا فقہ حدیث تفسیر تاریخ نحو کے اسباق ڈاکٹر صالح الاشتر، شیخ منتصر الکتانی سے اور تحصیل تفسیر و قرآن ڈاکٹر صبحی صالح سے کی۔ دمشق کے قیام میں پروفیسر محمد المبارک سے بھی استفادہ کیا۔ [۳]دمشق کے سفر سے قبل تین سال حجاز رہ کر وہاں کے اساتذہ حرم مکی و حرمِ مدنی سے استفادہ کیا، جن میں شیخ حسن مشاطؒ (نحو) سیّد علوی مالکیؒ ، شیخ عبدالرزاق حمزہ کے دروس حدیث علی الترتیب صحیح بخاری و معالم السنن للخطابی میں سماعت کی حفظ و قرأت کی تحصیل امام حرم شیخ عبدالمہیمن سے کی۔مدینۂ منورہ میں شیخ محمد امین الشنقبطیؒ کے دروسِ تفسیر سُنے، شیخ عبدالرّحمن الافریقی کے دروس حدیث میں بھی شرکت کی۔
اِس کے بعد مصر میں دو سال کا مطالعاتی و تحریکی سفر رہا۔ (۱۹۵۳۔۱۹۵۵ء)وہاں کے مشہور ادباء و اساتذہ سے ملاقاتیں کیں ادب اور اسلامی تحریک اخوان المسلمین کا قریب سے مطالعہ کیا۔ ادباء میں ڈاکٹر طہٗ حسین، احمد حسن الزیات، ڈاکٹر احمد امین ، ڈاکٹر یوسف موسیٰ، الشیخ الشربامی اور حسن الھضیبی المرشد العام، اخوان المسلمین قابل ذکر ہیں۔
[۴] ندوۃ العلماء میں ابتدائی عربی کے اسباق مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی سے علوم قرآنی کی ترسیل حضرت ابوالحسن علی ندوی سے علم حدیث شاہ حلیم عطا سے شرح وقایہ مولانا اثباط فرنگی محل، ادب عبدالحفیظ بلیاوی اور فارسی برصغیر کے مشہور استاد شاداں بلگرامی سے پڑھی۔ [۵] دارالعلوم ندوۃ العلماء سے ۱۹۵۰ء میں ’’عالمیہ‘‘ کا ڈپلومہ ایک سال کی تعلیم کے بعد حاصل کیا۔ اور اِسی سال حجاز کا تعلیمی سفر ہوا، اسی طرح ہندوستان میں عربی و دینی تعلیم کا عرصہ صرف ایک سال ہے۔ آپ کی بیشتر تعلیم عرب ممالک میں ہوئی۔
[۶] عربی زبان کی طرف توجہّ سے قبل ۱۹۴۵ء میں پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل (آنرز اِن پرشین) کی ڈگری حاصل کی۔ اور اس کے بعد صرف ایک سال ۱۸ برس کی عمر میں رام پور کے ایک ہائی اسکول میں اردو پڑھائی ۱۹۴۷۔ ۱۹۴۸ء اور پھر تین ماہ کا ایک کورس عربی زبان بہ ذریعہ قرآن ادارۂ تعلیمات اسلامی ، لکھنو میں کیا جس کے فوراً بعد ندوہ کے درجۂ عا لمیہ میں داخلہ مل گیا تھا۔[۷] نو سال کی عمر میں سب سے پہلے قرآن حفظ کیا پھر فارسی زبان کی تعلیم رہی۔
تدریسی تجربہ:
[۱]کیمبرج یونیورسٹی میں Ph.Dکے حصول کے دوران ایک سال وہاں بی ۔ اے آنرز کے طلبہ کو فارسی پڑھائی ۱۹۶۱ء ۔ ۱۹۶۲ء ۔ [۲] ۱۹۶۲ء ۔ ۱۹۶۳ء تک مڈل ایسٹ ریسرچ سینٹر میں مشہور صوفی مستشرق پروفیسر A.J. Arberry کے زیر نگرانی ریسرچ اسسٹنٹ کا کام کیا ۔ [۳] کنگ سعود یونیورسٹی ریاض میں سینئر لکچرار ، اسلامی تاریخ و فارسی زبان ۱۹۶۳۔ ۱۹۶۴ء ۔ [۴]کلیۃ التربیۃ مکہ مکرمہ میں ۱۹۶۴ء ۔ ۱۹۶۵ء کے دوران اسی عہدے پر کام کیا۔ [۵] اسسٹنٹ پروفیسر اسلامی تاریخ و تمدن جامعہ بن غاری لیبیا پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۹ء تک۔ اسلامی تاریخ تمدن کے علاوہ یہاں عثمانی تاریخ، فارسی زبان اور اصولِ فقہ کے مضامین بھی پڑھائے۔ [۶] فل پروفیسر اسلامی تاریخ جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ، ریاض ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۷ء۔ خود ریٹائر منٹ لے کر واپس ۱۹۸۷ء میں کراچی تشریف لائے۔ [۷] برہان الدین عربک حیئر پروفیسر جامعہ کراچی ۱۹۹۰۔۱۹۹۳ء
تصنیفات: اردو
[۱] تحریک اخوان المسلمین (اردو) رام پور ۱۹۵۷۔ ترمیم وا ضافے کے ساتھ دوسرا ایڈیشن کراچی ۱۹۹۹[۲]تحقیقات و تاثرات، کراچی۔۔۔۲۰۰۰ء[۳] خانوادۂ نبوی و عہد نبی امیہ۔ کراچی ۲۰۰۴ء[۴]قرآن کی روشنی میں، کراچی ۲۰۰۵ء[۵] عربوں کے علوم و فنون اور عالمی تہذیب کی تمدن و ترقی میں ان کا کردار [زیر طبع]
عربی تصانیف:
[۶]العزّبن عبدالسلام (عربی) دارالفکر اسلامی دمشق ۱۹۶۰ء [۷] فوائد فی مشکل القرآن سلطان العلماء العزبن عبدالسلام تحقیق کویت ۱۹۷۷ء [۸] استنبول و حضارۃ الامبر اطور یۃ العثمانیہ جامعۃ بن غازی ۱۹۷۳ (انگریزی سے عربی ترجمہ و تعلیق)۔ دوسرا ایڈیشن (ترمیم شدہ) الدارالسعودیہ اللنشر جدہ ۱۹۸۲ء [۹] السطان محمد الفاتح ، بطل الفتح الاسلامی فی اوربا، الدارا السعودیۃ، جدہ ۱۹۸۲ء [۱۰] دول العالم الاسلام فی العصر العباسی، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ [۱۱] الُلغۃ العربیۃ وآداب فی شبہ القارۃ الہندیۃ الباکستانیۃ (عربی)، کراچی یونیورسٹی ۱۹۹۵ء[۱۲] العلوم الفنون عندالعرب و دورہم فی الخصارتہ العالمیہ دارالمریخ الریاض ۱۹۸۷ء
[۱۳] Sultan al Ulama Al Izz Bin Abdus Salam, Islamic Research Institute, Islamabad, 1978, 2nd Revised ed. New Delhi, 1999
[۱۴] An article on spread of Islam in the Sub continent published in the III volume of Aspects of Islam by UNESCO in 2003.
عربی زبان و ادب کے ساتھ سنگین مذاق
غامدی صاحب کی عربی دانی، اور جدید و قدیم علوم سے واقفیت کا پہلا محاکمہ
جاوید غامدی صاحب اور اُن کی عربی ۔ ایک تنقیدی جائزہ
جاوید احمد غامدی اور سنت
غامدی صاحب کی عربی شرح ’’المفردات‘‘ کا تنقیدی جائزہ
تعال نقتبس من نور اسلافنا
ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کا تعارف بھی پیش کردیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ جاوید احمد غامدی پر تنقید کرنے والے کی اپنی علمی حیثیت کیا ہے۔
ڈاکٹر سیّد رضوان علی ندوی: مختصر تعارف
ڈاکٹر رضوان کا تعلق حسینی سیّد، حضرت جلال الدّین بخاری مخدوم جہانیاں گشتؒ کے خاندان سے ہے۔ آپ رام پور میں پیدا ہوئے۔ زندگی کی مختصر سرگزشت یا تعارف درج ذیل ہے:
تعلیم:
[۱] Ph.Dکیمبرج یونیورسٹی ۱۹۶۳ء مقالے کا موضوع، ایک قدیم عربی قلمی تفسیری کتاب کی تحقیق۔ جو برٹش میوزیم میں تھی، تمام دنیا میں موجود دوسرے نسخوں کے ساتھ مقابلے کے بعد تحقیقی صحیح متن (عربی) میں اور انگریزی میں مصنف کی زندگی اور تصنیفات پر تحقیقی مقالہ شائع کیا۔ [۲] دمشق یونیورسٹی کے کلیۃ الشریعۃ (شریعت فیکلٹی) سے چار سالہ کورس کے بعد ۱۹۹۵ء میں M.A.کی سند حاصل کی۔ اس زمانے کے مشہور اساتذہ ڈاکٹر معروف الدوالیبی، ڈاکٹر مصطفی احمد السباعی، الاستاذ الشیخ مصطفی احمد الزرقاء، ڈاکٹر زکی شعبان (مصری ازھری)، ڈاکٹر یوسف العش (اسلامی تاریخ) سے استفادہ کیا فقہ حدیث تفسیر تاریخ نحو کے اسباق ڈاکٹر صالح الاشتر، شیخ منتصر الکتانی سے اور تحصیل تفسیر و قرآن ڈاکٹر صبحی صالح سے کی۔ دمشق کے قیام میں پروفیسر محمد المبارک سے بھی استفادہ کیا۔ [۳]دمشق کے سفر سے قبل تین سال حجاز رہ کر وہاں کے اساتذہ حرم مکی و حرمِ مدنی سے استفادہ کیا، جن میں شیخ حسن مشاطؒ (نحو) سیّد علوی مالکیؒ ، شیخ عبدالرزاق حمزہ کے دروس حدیث علی الترتیب صحیح بخاری و معالم السنن للخطابی میں سماعت کی حفظ و قرأت کی تحصیل امام حرم شیخ عبدالمہیمن سے کی۔مدینۂ منورہ میں شیخ محمد امین الشنقبطیؒ کے دروسِ تفسیر سُنے، شیخ عبدالرّحمن الافریقی کے دروس حدیث میں بھی شرکت کی۔
اِس کے بعد مصر میں دو سال کا مطالعاتی و تحریکی سفر رہا۔ (۱۹۵۳۔۱۹۵۵ء)وہاں کے مشہور ادباء و اساتذہ سے ملاقاتیں کیں ادب اور اسلامی تحریک اخوان المسلمین کا قریب سے مطالعہ کیا۔ ادباء میں ڈاکٹر طہٗ حسین، احمد حسن الزیات، ڈاکٹر احمد امین ، ڈاکٹر یوسف موسیٰ، الشیخ الشربامی اور حسن الھضیبی المرشد العام، اخوان المسلمین قابل ذکر ہیں۔
[۴] ندوۃ العلماء میں ابتدائی عربی کے اسباق مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی سے علوم قرآنی کی ترسیل حضرت ابوالحسن علی ندوی سے علم حدیث شاہ حلیم عطا سے شرح وقایہ مولانا اثباط فرنگی محل، ادب عبدالحفیظ بلیاوی اور فارسی برصغیر کے مشہور استاد شاداں بلگرامی سے پڑھی۔ [۵] دارالعلوم ندوۃ العلماء سے ۱۹۵۰ء میں ’’عالمیہ‘‘ کا ڈپلومہ ایک سال کی تعلیم کے بعد حاصل کیا۔ اور اِسی سال حجاز کا تعلیمی سفر ہوا، اسی طرح ہندوستان میں عربی و دینی تعلیم کا عرصہ صرف ایک سال ہے۔ آپ کی بیشتر تعلیم عرب ممالک میں ہوئی۔
[۶] عربی زبان کی طرف توجہّ سے قبل ۱۹۴۵ء میں پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل (آنرز اِن پرشین) کی ڈگری حاصل کی۔ اور اس کے بعد صرف ایک سال ۱۸ برس کی عمر میں رام پور کے ایک ہائی اسکول میں اردو پڑھائی ۱۹۴۷۔ ۱۹۴۸ء اور پھر تین ماہ کا ایک کورس عربی زبان بہ ذریعہ قرآن ادارۂ تعلیمات اسلامی ، لکھنو میں کیا جس کے فوراً بعد ندوہ کے درجۂ عا لمیہ میں داخلہ مل گیا تھا۔[۷] نو سال کی عمر میں سب سے پہلے قرآن حفظ کیا پھر فارسی زبان کی تعلیم رہی۔
تدریسی تجربہ:
[۱]کیمبرج یونیورسٹی میں Ph.Dکے حصول کے دوران ایک سال وہاں بی ۔ اے آنرز کے طلبہ کو فارسی پڑھائی ۱۹۶۱ء ۔ ۱۹۶۲ء ۔ [۲] ۱۹۶۲ء ۔ ۱۹۶۳ء تک مڈل ایسٹ ریسرچ سینٹر میں مشہور صوفی مستشرق پروفیسر A.J. Arberry کے زیر نگرانی ریسرچ اسسٹنٹ کا کام کیا ۔ [۳] کنگ سعود یونیورسٹی ریاض میں سینئر لکچرار ، اسلامی تاریخ و فارسی زبان ۱۹۶۳۔ ۱۹۶۴ء ۔ [۴]کلیۃ التربیۃ مکہ مکرمہ میں ۱۹۶۴ء ۔ ۱۹۶۵ء کے دوران اسی عہدے پر کام کیا۔ [۵] اسسٹنٹ پروفیسر اسلامی تاریخ و تمدن جامعہ بن غاری لیبیا پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۹ء تک۔ اسلامی تاریخ تمدن کے علاوہ یہاں عثمانی تاریخ، فارسی زبان اور اصولِ فقہ کے مضامین بھی پڑھائے۔ [۶] فل پروفیسر اسلامی تاریخ جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ، ریاض ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۷ء۔ خود ریٹائر منٹ لے کر واپس ۱۹۸۷ء میں کراچی تشریف لائے۔ [۷] برہان الدین عربک حیئر پروفیسر جامعہ کراچی ۱۹۹۰۔۱۹۹۳ء
تصنیفات: اردو
[۱] تحریک اخوان المسلمین (اردو) رام پور ۱۹۵۷۔ ترمیم وا ضافے کے ساتھ دوسرا ایڈیشن کراچی ۱۹۹۹[۲]تحقیقات و تاثرات، کراچی۔۔۔۲۰۰۰ء[۳] خانوادۂ نبوی و عہد نبی امیہ۔ کراچی ۲۰۰۴ء[۴]قرآن کی روشنی میں، کراچی ۲۰۰۵ء[۵] عربوں کے علوم و فنون اور عالمی تہذیب کی تمدن و ترقی میں ان کا کردار [زیر طبع]
عربی تصانیف:
[۶]العزّبن عبدالسلام (عربی) دارالفکر اسلامی دمشق ۱۹۶۰ء [۷] فوائد فی مشکل القرآن سلطان العلماء العزبن عبدالسلام تحقیق کویت ۱۹۷۷ء [۸] استنبول و حضارۃ الامبر اطور یۃ العثمانیہ جامعۃ بن غازی ۱۹۷۳ (انگریزی سے عربی ترجمہ و تعلیق)۔ دوسرا ایڈیشن (ترمیم شدہ) الدارالسعودیہ اللنشر جدہ ۱۹۸۲ء [۹] السطان محمد الفاتح ، بطل الفتح الاسلامی فی اوربا، الدارا السعودیۃ، جدہ ۱۹۸۲ء [۱۰] دول العالم الاسلام فی العصر العباسی، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ [۱۱] الُلغۃ العربیۃ وآداب فی شبہ القارۃ الہندیۃ الباکستانیۃ (عربی)، کراچی یونیورسٹی ۱۹۹۵ء[۱۲] العلوم الفنون عندالعرب و دورہم فی الخصارتہ العالمیہ دارالمریخ الریاض ۱۹۸۷ء
[۱۳] Sultan al Ulama Al Izz Bin Abdus Salam, Islamic Research Institute, Islamabad, 1978, 2nd Revised ed. New Delhi, 1999
[۱۴] An article on spread of Islam in the Sub continent published in the III volume of Aspects of Islam by UNESCO in 2003.