کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
٭ اِمام ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں:
٭ اسی طرح امام ابن رجب رح فرماتے ہیں:
٭ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:’’ھذا الذی فعلہ سنة لکنہ قال نعمة البدعة ھذہ من حیث المعنی اللغوی لکونھم لم یفعلونہ فی حیاة الرسول! یعنی من الإجتماع علی مثل ھذہ وھی سنة من الشریعة‘‘[فتاویٰ ابن تیمیۃ: ۲۲؍۳۲۴]
’’عمر بن خطاب کا یہ فعل سنت ہے لیکن انہوں نے جو ’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ کہا ہے وہ لغوی معنی کے اعتبار سے کہا ہے کیونکہ اُن کا یہ فعل (نماز تراویح پراجتماع) حیات رسولؐ میں نہ تھا اور درحقیقت یہ مشروع طریقہ ہے۔‘‘
چنانچہ معلوم ہوا کہ’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ باجماعت نماز تراویح کے ساتھ خاص ہے جیساکہ ’’ھذہ‘‘ ضمیر سے پتہ چل رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ باجماعت نماز تراویح ایک اچھی چیز ہے کیونکہ وہ مشروع ہے لہٰذا اس قول سے مروجہ بدعات کو حسنہ ہونے کاسرٹیفیکیٹ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ مروجہ بدعات غیر مشروع اور بے اصل ہیں۔
’’وأما قول عمر:’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ فأکثر المحتجین بھذا: لو أردنا أن نثبت حکما بقول عمر الذی لم یخالف فیہ لقالوا: قول الصاحب لیس بحجة،فکیف یکون حجة لھم فی خلاف قول رسول اﷲ! ومن اعتقد أن قول الصاحب حجة فلا یعتقدہ إذا خالف الحدیث، فعلی التقدیرین: لا تصلح معارضة الحدیث بقول الصاحب نعم، یجوز تخصیص عموم الحدیث بقول الصاحب الذی لم یخالف،علی إحدی الروایتین فیفیدھم ھذا حسن تلک البدعة أما غیرھا فلا،ثم نقول: أکثر ما فی ھذا تسمیة عمر تلک بدعة مع حسنھا وھذہ تسمیة لغویة لا تسمیة شرعیة وذلک أن البدعة فی اللغة تعم کل ما فعل ابتداء من غیر مثال سابق و أما البدعة الشرعیة: فما لم یدل علیہ دلیل شرعی‘‘ [اقتضاء الصراط المستقیم :۲؍۹۵]
’’اور جو عمر بن خطابؓ کا قول ’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ ہے اس سے حجت پکڑنے والوں کی کثرت کا یہ حال ہے کہ جب ہم عمر بن خطابؓ کے ایسے قول سے کوئی حکم ثابت کرتے ہیں جس میں مخالفت کی گنجائش نہیں ہوتی تو فوراً کہتے ہیں: قول صحابی حجت نہیں ہے پھر اُن کے لئے قول صحابی کیسے حجت ہوسکتا ہے جب وہ قول رسولؐ کے خلاف ہو اور جس کا یہ اعتقاد ہے کہ قول صحابی حجت ہے اس کا یہ اعتقاد نہیں ہوتا کہ جب وہ (قول) حدیث رسولؐ کی مخالفت میں ہو (بلکہ وہی قول صحابی حجت ہے جو حدیث رسولؐ کی موافقت میں ہو) لہٰذا قول صحابی کے ساتھ حدیث کی معارضت درست نہیں ہے، ہاں دو روایات میں سے ایک کی بنا پر ایسے قول صحابی کے ساتھ عموم حدیث کی تخصیص ہوسکتی ہے جو حدیث کی مخالفت میں نہ ہو۔ پس اس وقت وہ قول صرف اسی بدعت کے حسنہ ہونے کا فائدہ دے گا اور جو اس کے علاوہ بدعات ہوں گی (وہ سب سیئہ ہوں گی) وہ حسنہ نہیں ہوں گی ۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ عمر بن خطابؓ کا نماز تراویح کو بدعت حسنہ کا نام دینے کے بارے میں اکثر یہی کہا گیا ہے یہ لغوی نام ہے نہ کہ شرعی نام ہے وہ اس لئے کہ لغت میں بدعت ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی سابقہ مثال کے بغیر کیا جائے اور بدعت شرعیہ وہ ہے جس پر کوئی شرعی دلیل دلالت نہ کرے۔‘‘
٭ اسی طرح امام ابن رجب رح فرماتے ہیں:
٭ مزید براں امام ابن کثیر رح فرماتے ہیں:’’وأما ما وقع فی کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلک فی البدع اللغویة لا الشرعیة فمن ذلک قول عمرؓ ’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ و مرادہ:أن ھذا الفعل لم یکن علی ھذا الوجہ قبل ھذا الوقت ولکن لہ أصل فی الشریعة یرجع إلیھا‘‘ [إیقاظ الھمم المنتقی من جامع العلوم والحکم، ص۴۰۲]
’’سلف صالحین کی کلام میں جو بعض بدعات کی تحسین واقع ہے تو وہ بدعات لغویہ کے بارے میں ہے نہ کہ شرعیہ کے بارے میں اور ان میں سے عمر بن خطاب ؓ کا قول ’’نعمت البدۃ ھذہ‘‘ ہے اور ان کی مراد یہ تھی کہ یہ فعل اس صورت میں اس وقت سے پہلے نہیں تھا لیکن شریعت میں اس کی اصل موجود تھی جس کی طرف وہ راجع تھا۔‘‘
٭ چنانچہ امام شاطبی رح فرماتے ہیں:’’البدعة علی قسمین تارة تکون بدعة شرعیة لقولہ ! " فَإنَّ کُلَّ مُحْدَثَة بِدْعَة وَکُلُّ بِدْعَة ضَلَالَة" وتارة تکون بدعة لغویة لقولہ أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب عن جمعہ إیاھم علی صلاۃ التراویح واستمرارھم:’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ [ تفسیر القرآن العظیم:۱؍۱۶۶]
’’بدعت دو طرح کی ہوتی ہے کبھی بدعت شرعی ہوتی ہے جیسے نبی کریمﷺ کا فرمان ہےاور کبھی لغوی بدعت ہوتی ہے جیسے امیرالمومنین عمر بن خطابؓ کا قول ’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ ہے۔ آپ کا صحابہ کو نمازِ تراویح پر جمع کرنااور پھر صحابہ کا اس پر استمرار کرنا‘‘ اس اعتبار سے اس کو بدعت کہہ دیا گیا ہے اور نماز تراویح ہونے کے ناطے اس کو’نعمت‘ کہا گیاہے۔" فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة" (دین) میں ہر محدثہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے
اس بات کا اعتراف ڈاکٹر صاحب بھی کرتے ہیں،’’إنما سمّاھا بدعة باعتبار ظاھر الحال من حیث ترکھا رسول اﷲ! واتفق أن لم تقع فی زمان أبی بکر لا أنھا بدعة فی المعنی،فمن سمّاھا بدعة بھذا لإعتبار فلا بشاحة فی الأسامی و عند ذلک فلا یجوز أن یستدل بھا علی جواز الإبتداع بالمعنی المتکلم فیہ؟ لأنہ نوع من تحریف الکلم عن مواضعہ‘‘ [الإعتصام:۱؍۱۹۵]
’’عمر بن خطاب نے باجماعت نمازِ تراویح کے بارے میں ظاہری حالت کے اعتبار سے بدعت کہا ہے اس لئے کہ باجماعت نماز تراویح کو (فرضیت کے خوف)سے رسول اللہﷺ نے چھوڑ دیا تھا اور اس پر بھی اتفاق ہے یہ ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ میں واقع نہیں ہوئی۔ لیکن اس کو معنوی بدعت نہیں کہیں گے پس جس شخص نے اس اعتبار سے بدعت کہہ لیا تو ناموں میں کوئی اختلاف نہیں لیکن اس سے بدعات کے جواز پر معنی متکلم کے ساتھ استدلال کرنا جائز نہیں اس لئے کہ بدعات، کلمات کو ان کے مقامات و مواضع سے تحریف کرنے کے مترادف متصور ہوں گی۔‘‘
٭ سی طرح شیخ موصلی حنفی (۶۸۳ھ) امام ابویوسف سے نقل کرتے ہیں:وجہ یہی تھی کہ یہ کام اپنی ظاہری حالت اور ہیئت کے حوالے سے تو نیا تھا جسے حضورﷺ نے دوام کے ساتھ اختیار نہیں فرمایا تھا اس لئے ’بدعۃ‘ کہا۔ [لفظ بدعت کا اطلاق، ص۱۴۸]
٭ شارح مشکوٰۃ مولانا نواب قطب الدین لکھتے ہیں:’’سألت أبا حنیفة عن التراویح وما فعلہ عمر فقال التراویح سنة مؤکدہ ولم یخترعہ عمر من تلقاء نفسہ ولم یکن فیہ مبتدعا ولم یأمر بہ إلا عن أصل یدیہ وعہد من رسول اﷲ!‘‘ [الإختیار لتعلیل المختار:۱؍۶۱]
’’میں نے امام ابو حنیفہؒ سے حضرت عمرؓ اور تراویح کے فعل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے اور حضرت عمرؓ نے اس کو اپنی طرف سے اختراع نہیں کیا اور نہ وہ کوئی بدعت ایجاد کرنے والے تھے انہوں نے جو کچھ حکم دیا وہ کسی اصل کی بناء پر تھا جو ان کے پاس موجود تھی اور رسول اللہﷺ کے کسی عہد پر مبنی تھا۔‘‘
٭ سید ابوالاعلی مودودی لکھتے ہیں:’’حق یہ ہے کہ جو کچھ خلفائے راشدین نے کیا سنت ہے پس بدعت کے معنی یہاں باعتبار لغت کے ہیں نہ کہ اصطلاح فقہاء کے۔‘‘ [مظاہر حق:۱؍۴۰۲]
مذکورہ بالا تصریحات سے یہ واضح ہے کہ حقیقت ڈاکٹر صاحب کے تصورِ بدعت کے برعکس ہے۔ عمر بن خطا ب کے اس قول کو ایسے محل پر محمول کیا جائے گا جس سے ’’کل بدعة ضلالة‘‘ سے معارضت و مخالفت لازم نہ آئے اور وہ عمل یہ ہے کہ یہاں ’’بدعت‘‘ لغوی معنی میں مراد لی جائے گی اور یہی کبار آئمہ کا موقف ہے اور جو لوگ سیدنا عمرؓ کے اس ارشاد کو سامنے رکھ کر اپنی مروجہ بدعات کو ’حسنہ‘ کا لیبل دے کر ان کی ترویج و تشہیر چاہتے ہیں وہ درحقیقت ان حضرات گرامی پر بہت بڑا بہتان باندھتے ہیں اور یہ کہتے نہیں ڈرتے کہ معاذ اللہ صحابہ کرام رض بھی بدعتی تھے۔ العیاذ باﷲ’’شرعی اصطلاح میں جس چیز کو بدعت کہتے ہیں اس کی کوئی قسم حسنہ نہیں ہے بلکہ ہر بدعت سیئہ اور ضلالہ ہی ہے جیساکہ حدیث میں اِرشاد نبویﷺ ہے: " کل بدعة ضلالة" البتہ لغوی اعتبار سے محض نئی بات کے معنی میں بدعت حسنہ بھی ہوسکتی ہے اور بدعت سیئہ بھی۔ سیدناعمرﷺنے نمازِ تراویح باجماعت کے بارے میں نعمت البدعة ھذہ کے الفاظ جو فرمائے تھے ان میں بدعت سے مراد اصطلاحی بدعت نہیں بلکہ لغوی بدعت ہی ہوسکتی ہے اس لئے اسے بدعت کی ایک قسم ’’حسنہ‘‘ قرار دینے کے لئے دلیل نہیں بنایا جاسکتا… اس لئے حضرت عمرؓ نے حضورﷺ کے اس منشاء کو پورا کردیا جو آپ کی اس توجیہ میں مضمر تھا یعنی یہ کہ یہ طریقہ رائج تو ہو مگر مشروع اور مسنون طریقہ کی حیثیت سے، نہ کہ فرض کی حیثیت سے، اس پربعض لوگوں کو جب بدعت ہونے کا شبہ ہوا تو حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر اسے ردّ کیا کہ ’’یہ اچھی بدعت ہے‘‘ یعنی یہ نئی بات تو ہے مگر اس نوعیت کی نئی بات نہیں ہے جسے شریعت میں مذموم قرا ر دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہؓ نے بالاتفاق اس طریقہ کے رواج کو قبول کیا اور ان کے بعد ساری امت اس پر عمل کرتی رہی ورنہ کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ شرعی اصطلاح میں جس چیز کو بدعت کہتے ہیں اسے رائج کرنے کا ارادہ حضرت عمرؓ کے دل میں پیدا ہوتا اور صحابہ کی پوری جماعت بھی آنکھیں بند کرے اسے قبول کرلیتی۔‘‘ [ماہنامہ ترجمان القرآن، ص۹۹،۱۰۳،اکتوبر، نومبر ۱۹۵۷ئ]