قارئین کرام!
ہماری مذکورہ بالا گذارشات سے یہ بات کافی حد تک واضح ہوگئی ہو گی کہ مذکورہ حدیث
" مَنْ سَنَّ فِیْ الِاسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة…" سے کسی لحاظ سے بھی بدعت حسنہ کے جواز پر دلیل و اصل نہیں پکڑی جاسکتی۔اس کی مزید تفصیل حسب ذیل ہے:
1-قرآن حکیم کی کسی آیت یا رسول کریمﷺ کی کسی حدیث کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لئے سیاق وسباق کابہت حد تک عمل دخل ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ}کہ نمازیوں کے لئے ہلاکت و بربادی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کا خود حکم دیا ہو پھر خود ہی اس پر ہلاکت و بربادی کی وعید شدید سنائی ہو؟ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں وہ یہ کہ جب ہم اس آیت کریمہ کے سیاق و سباق پرنظر ڈالتے ہیں تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ وعید شدید ان کیلئے ہے جن میں حسب ذیل خامیاں ہوں گی۔
{اَلَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ اَلَّذِیْنَ ھُمْ یُرَائُ ونَ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ}[الماعون :۵،۷]
’’(پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے) جو اپنی نمازوں سے غفلت برتتے ہیں جو ریا کاری کرتے ہیں اور ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘
لہٰذا جب ہم مذکورہ حدیث کے سیاق و سباق کو دیکھتے ہیں تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ اس حدیث میں بدعت حسنہ کا جواز پکڑنے والوں کی تعبیر و تفسیر دُھنی ہوئی روئی کی مانند رہ جاتی ہے متن حدیث پیش خدمت ہے:
’’عن جریر بن عبد اﷲ قال: کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ! فِیْ صَدْرِ النَّہَارِ، قَالَ فَجَائَ ہُ قَوْمٌ حُفَاۃٌ عُرَاۃٌ مُجْتَابِیْ النِّمَارُ أَوِ الْعَبَائُ،مُتَقَلِّدِیْ السُّیُوْفِ،عَامَّتُھُمْ مِنْ مُضَرَ، بَلْ کُلُّھُمْ مِنْ مُضَرَ، فَتَمَعَّرَ وَجْہُ رَسُوْلِ اﷲِ! لِمَا رَأی بِھِمْ مِنَ الْفَاقَة فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ،فَأمَرَ بِلَالًا،فَأذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلّٰی،ثُمَّ خَطَبَ،فَقَالَ{یٰاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَة، إلی آخیر الآیۃ إنَّ اﷲَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا} والآیة التی فی الحشر: { اتَّقُوْا اﷲَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوْا اﷲَ} تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِیْنَارِہِ مِنْ دِرْھَمِہِ مِنْ ثَوْبِہِ مِنْ صَاع بُرِّہِ مِنْ صَاعِ تَمْرِہِ۔ حَتّٰی قَالَ۔ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَة قَالَ: فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ بِصُرَّۃٍ کَادَتْ کَفُّہُ تَعْجِزُ عَنْھَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ قَالَ:ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ، حَتَّی رَأیْتُ کَوْمَیْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِیَابٍ،حَتّٰی رَأیْتُ وَجْہَ رَسُوْلِ اﷲِ! یَتَھَلَّلُ کَأَنَّہُ مُذْھَبَة فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ! "مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة فَلَہُ أَجْرَھَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أنْ یَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِھِمْ شَیْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِِّئَة کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِھِمْ شَیْئٌ" [صحیح مسلم :۱۰۱۷)
’’سیدنا جریر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ ہم شروع دن میں رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ پس کچھ لوگ ننگے پیر، ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنے اور اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ ان کی اکثریت بلکہ سب قبیلہ مضر سے تھے۔ اُن کے اس فقر وفاقہ کو دیکھ کر رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک (غصے سے) بدل گیا۔ اسی (پریشانی) میں آپ اندر داخل ہوئے پھر باہر نکلے پس بلال کو اذان کا حکم دیا، بلالؓ نے اذان کہی اور اقامت کہی پس آپﷺ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
{یٰاَیُّھَا النَّاسُ……} ’’لوگوں، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلادیئے، اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہاہے۔‘‘
اور پھر سورہ الحشر کی یہ آیت پڑھی
{اتَّقُوْا اﷲَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ……} ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو…‘‘
کسی نے دینار دیا، کسی نے درہم دیا ، کسی نے کپڑے دیئے، کسی نے صاع گیہوں کا دیا، کسی نے صاع کھجور کا دیا حتیٰ کہ آپﷺ نے فرمایا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خرچ کرو، پھر انصار میں سے ایک آدمی کھجوروں کی ایک بوری لایا، قریب تھا کہ اس کا بازو تھک جاتا بلکہ تھک گیا تھا۔ جریر فرماتے ہیں پھر دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی تار باندھ دیا حتیٰ کہ میں نے کھانوں اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک چمکنے لگا گویا کہ وہ سونے کا تھا پھر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے لئے اپنے عمل کا بھی اجر ہوگا اور اس کے بعد جو اس پر عمل پیرا ہوں گے ان کا اجربھی اس کو ملے گا اور ان کے اجور میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں بُرا طریقہ جاری کیا تواس کو اس کے عمل کا گناہ بھی ملے گا اور اس کے بعد جو اس بُرے طریقے پر عمل پیرا ہوں گے ان کے گناہ بھی اس کو ملیں گے اور ان کے گناہوں میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
اگر مذکورہ حدیث کے سیاق و سباق اور سبب میں تھوڑا سا تعمق اور تفکر کیا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس واقعہ میں انصاری صحابی نے صدقہ کو جاری کیا تھا اور صدقہ تو بذات خود مشروع امر ہے کیا اس صحابی کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اس نے بدعت حسنہ کو ایجادکیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب کو غوروفکر کرنا چاہئے کہ رسول اللہﷺ نے
"مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة "کس موقع پر ارشاد فرمایا ہے اور آپ کے اس فرمان کا سبب اور سیاق و سباق کیا تھا؟
بات واضح ہے کہ نبی کریمﷺ نے پہلے صدقہ پر ترغیب دی پھر اس انصاری صحابی نے کھجوروں کی بوری صدقہ کردی گویا کہ صدقہ جو مشروع امر تھا اس کو اس صحابی نے اپنے عمل وفعل کے ساتھ جاری کیا پھر لوگوں نے اس صحابی کی اتباع کی۔ لہٰذا یہ واقعی ’سنت حسنہ‘ اچھا طریقہ تھا لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ اس صحابی نے اپنے طر ف سے طریقہ اختراع کیا اور وہ بدعت حسنہ بن گئی بلکہ اس صحابی نے تو ایک مشروع امر کو عملی شکل دے کر جاری کیا تھا۔
امام شاطبی رح فرماتے ہیں:
’’لیس المراد بالحدیث الاستنان بمعنی الاختراع،وإنما المراد بہ العمل بما ثبت بالسنة النبویة وذلک لوجھین: أحدھما: أن السبب الذی جاء لأجلہ الحدیث ھو الصدقة المشروعة … حتی بتلک الصرة فانفتح بسببہ باب الصدقة علی الوجہ الأبلغ فسرّ رسول اﷲ! حتی قال:"مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة " فدل علی أن السنة ھاھنا مثل ما فعل ذلک الصحابی، وھو العمل بما ثبت کونہ سنة فظھر أن السنة الحسنة لیست بمبتدعة والوجہ الثانی،أن قولہ: من سن سنة حسنة… ومن سن سنة سیئة، لایمکن حملہ علی الإختراع من أصل، لأن کونھا حسنة أو سیئة لایعرف إلا من جھة الشرع،لأن التحسین والتقبیح مختص بالشرع لا مدخل للعقل فیہ وھو مذھب جماعة أھل السنة وإنما یقول بہ المبتدعة ، أعنی التحسین والتقبیح بالعقل،فلزم أن تکون ’السنة‘ فی الحدیث: إما حسنة فی الشرع وإما قبیحة بالشرع،فلا یصدق إلا علی مثل الصدقة المذکورۃ وما أشبھھا من السنن المشروعة‘‘ [مأخوذ من البدعۃ وأثرھا السیئ فی الأمۃ: ص۷۰ والإعتصام: ۱؍ ۱۸۲]
مذکورہ حدیث میں استثنان (سنت) اِختراع و اِبتداع (بدعت) کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ایسا عمل ہے جو سنت نبویہ سے ثابت ہو (یعنی مشروع ہو) اور اس کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ وہ سبب جس کی وجہ سے یہ حدیث وارد ہوئی ہے وہ مشروع صدقہ تھا۔ حتیٰ کہ انصاری صحابی نے کھجوروں والی بوری کے ساتھ صدقہ کیا پس اس کے سبب سے اعلیٰ صورت میں صدقہ کا دروازہ کھل گیا اور رسول اللہﷺ کو خوشی ہوئی حتیٰ کہ آپؐ نے فرمایا:
’’جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا‘‘
پس یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں سنت صحابی کے فعل و عمل کے مثل ہے اور وہ عمل بذاتِ خود سنت سے ثابت ہے۔ پس ظاہر ہوا کہ سنت حسنہ، بدعت نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کا فرمان:
" مَنْ سَنَّ سُنَّة حَسَنَة… وَمَنْ سَنَّ سُنَّة سَیِّئَة" کو اصلاً اختراع (بدعت)پر محمول کرنا ناممکن ہے وہ اس لئے کہ کسی طریقے کا اچھا یا برا ہونے کی معرفت صرف شریعت سے ہوتی ہے، کیونکہ تحسین و تقبیح شریعت کے ساتھ خا ص ہے اس میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں اور یہی جماعت اہل السنۃ کا مذہب و موقف ہے۔ جبکہ اہل بدعت کے نزدیک تحسین و تقبیح میں عقل کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ حدیث میں مذکورہ لفظ ’’سنت‘‘ یا تو شرعا حسنہ ہوگا یا شرعا قبیحہ ہوگا ۔ لہٰذا اس کا حسنہ ہونا مذکورہ صدقہ اور اس کے مشابہ مشروع سنن پر صادق آتا ہے۔‘‘
لہٰذا ہماری مذکورہ بالا گذارشات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں
’’سنت حسنہ‘‘ سے مراد کسی مشروع عمل کو جاری کردینا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے اگر کوئی مسلمان عصر حاضر میں نبی کریمﷺ کی کوئی متروکہ سنت کو جاری کرتا ہے یا مہجورہ سنت کو زندہ کرتا ہے تو اس کے اس فعل کو ’سنت حسنہ‘ کہیں گے نہ کہ ’بدعت حسنہ‘ مثال کے طور پر بعض ممالک مثلاً شام اور پاکستان وغیرہ میں کچھ لوگ مساجد میں’نماز عیدین‘ ادا کرتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ یہ سنت رسولﷺ ہے پھر کچھ متبعین سنت ، لواء سنت تھام کر عیدگاہوں، میدانوں، گراؤنڈوں اور پارکوں میں ’عیدین کی نماز ‘ ادا کرتے ہیں اور نبی کریمﷺ کی اس متروکہ و مہجورہ سنت کو جاری و زندہ کرتے ہیں تو ان کے بارے میں یہ کہا جائے گا
’’سنوا في الإسلام سنة حسنة‘‘ کہ انہوں نے اسلام میں سنت حسنہ کو جاری کیا ہے یعنی سنت سے ثابت شدہ عمل کو جاری کیا ہے ان کے اس عمل کو ’بدعت حسنہ‘ موسوم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ سنت حسنہ وہ ہوتی ہے جس کی اصل نص صحیح سے مشروع ہو اور لوگوں نے اس پر عمل کرنا ترک کردیا ہو پھر کوئی لوگوں کے درمیان اس کی تجدید کرتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعت نماز تراویح کی سنت کو جاری اور زندہ کیا تھا۔
اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب اگر اس بات پر مصر ہیں کہ
’سنت حسنہ‘ سے ’بدعت حسنہ‘ ہی مراد ہے تو ہم نہایت ہی ادب سے مندرجہ ذیل جوابات دیں گے:
1۔
’’من سن فی الإسلام سنة حسنة ‘‘ کا قائل بھی وہی ہے جو
’’کل بدعة ضلالة‘‘ کا قائل ہے۔ لہٰذا صادق و مصدوق نبیﷺسے ایسے قول کا صدور ناممکن ہے جو آپ کے دوسرے قول کی تکذیب کرے اور کلام رسول اللہﷺمیں تناقص ابداً ناممکن ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ لائق نہیں کہ ہم نبی کریم1 کی ایک حدیث پرتو عمل پیرا ہوں اور دوسری حدیث سے اعراض کریں۔ اس صورت میں ہم
{ أفَتُؤمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ } کے مصداق ٹھہریں گے۔
2۔نبی کریمﷺ نے
"مَنْ سَنَّ" فرمایا ہے
’’من ابتدع‘‘ نہیں فرمایا۔ سن اور ابتداع میں زمین آسمان کا فرق ہے اور پھر آپؐ نے
" فِیْ الإِسْلَامِ" فرمایا ہے جبکہ بدعات خواہ حسنہ ہی کیوں نہ ہوں ان کا اسلام سے کیا واسطہ؟ پھر آپﷺ نے حسنۃ فرمایا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں کہیں بدعت حسنہ نہیں ہوتی۔
3- سلف صالحین سے کسی سے منقول نہیں کہ انہوں نے ’سنت حسنہ‘ کی تعبیر و تفسیر ’بدعت حسنہ‘ سے کی ہو جس کو بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایجاد کرلیا ہے ۔لہٰذا ڈاکٹر صاحب کا ’سنت حسنہ‘ سے ’بدعت حسنہ‘ پر استدلال باطل و ناحق ہے۔