- شمولیت
- جولائی 07، 2014
- پیغامات
- 155
- ری ایکشن اسکور
- 51
- پوائنٹ
- 91
یہ خوابوں کی دنیا کے باسی!!
دنیا میں انسان کی حالتوں میں سے ایک حالت ، حالت منام یعنی خوابوں کی دنیا ہے ۔انسان جو خواب دیکھتا ہے ،اس کی مختلف اقسام ہیں ،کہ بعض خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور بعض خوابوں کوشریعت نے مبشرات قرار دیا ہے۔خوابوں کی تعبیر بھی عظیم علم ہے ،جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔مگر ہم یہاں اس تمام تر تفصیل سے قطع نظر اس مختصر مضمون میں اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ کسی نے اس خوابوں کی دنیا کا سہارا لے کر بڑے جھوٹ بولے ،کسی نے اس خوابوں کی دنیا کا سہارا لے کر اسلام کی اصل ساکھ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ،کسی نے اس راستے سے اپنی شخصیت کو چمکانے کے راستے ڈھونڈے ۔بعض نے خوابوں کی دنیا کو اس قدر وسیع کر دیا اور یہاں تک لکھ ڈالا کہ خواب میں اللہ کا دیدار ہوجاتا ہے اور پھر اس کے لئے طرح طرح کی ریاضتوںاورمن گھڑت وظائف و اوراد کی طرف امت کی اکثریت جو کہ لا علم ہے ،کو پھیر کررکھدیا ۔اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اس راستے سے یہ دعوی کردیا کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ سے9 سال عالم رؤیا میں براہ راست پڑھا ہے اور کہیں کہا کہ15 سے 20 سال خواب میں پڑھا ہے ۔ان کا یہ دعوی جھوٹا ہے اس پر یہی بات کافی ہے کہ ان کے اس قول میں تضاد موجود ہے ۔کہ کبھی 9 سال کہتے ہیں تو کبھی 15 سے20سال۔
دروغ گوراحافظہ نہ باشد
اسی طرح ان کا یہ بھی دعوی منظر عام پر آیا اور ہم نے خود سنا (جیسا کہ یو ٹیوب پہ موجود ہے )کہ انہوں نے کہا کہ امام سیوطی بطریق منام میرے شیوخ میں سے ہیں پندرہ سال انہوں نے اپنے گھر پر مجھے پڑھایا اور انہوں نے اپنا بیٹا بنایا اور وارث بنایا ۔
اب یہاں اولا ًیہ سوال اٹھتا ہے کہ:
کیا ان کا یہ دعوی کوئی شرعی اصل رکھتا ہے ؟؟یعنی کیا قرون اولی سے کوئی ایک مثال ایسی ملتی ہو کہ کسی امام یا محدث نےبطریق منام گذشتہ امام یا محدث کا شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہونے کا دعوی کیا ہو؟؟ اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ انکے اس دعوی کی کوئی شرعی اصل نہیں ملتی ۔عہد نبوی سے لیکر تمام قرون اولی کو کھنگال لیا جائے اور صرف ایک ایسی مثال پیش کی جائے کہ کہ فلاں امام ، محدث وغیرہ نے خواب کے ذریعے سے کسی سےتعلیم حاصل کی ہو اسکی کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ ائمہ نے ایسے راستوں کو بند کیا اور اصول حدیث میں اتصال سند کی شرط لگا کر شاگرد کا استاد سے حالت یقظہ میں ملاقات و سماع کی شرط لگائی ۔
اگر طاہر قادری کے اصول کو لے لیا جائے تو پوری شریعت ہی خطرے میں پڑجائے گی اور اصول حدیث کا تو جنازہ نکل جائے گا کہ ہر شخص یہ کہہ کر جان چھڑالےگا کہ خواب میں اسے تلمذ حاصل ہوگیا ہے لہذا اب حالت ظاہری میں سماع و ملاقات کی کوئی ضرورت نہیں یہ تو اجماع امت کے خلاف ہے۔
اور اس اصول کے تحت نبی ﷺ کا خواب میں دیدار کرنے والا ہر شخص صحابی بن جاتا ہے لہذا سب سے بنیادی بات تو یہی ہے کہ خواب میں تلمذ کا دعوی کوئی شرعی اصل نہیں رکھتا ۔البتہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ادیان غیر میں یہ بڑی حیثیت رکھتا ہے ، نیز یہ طریقہ کسی اور مذھب کا تو ہوسکتا ہے مگر اسلام کانہیں ،اسکی مثال کے لئے بائیبل میں پولس کے خطوط کی ضمن میں اس کے خوابوں اور رویا کاذکر ہے اور آج پولس مسیحیت میں ایک رسول کی حیثیت رکھتا ہے ۔اسی طرح ایک کورین امریکن عورت چوتھامس نے بھی 1997 میں کتاب بنام آسمان سچ مچ ایک حقیقت ہے لکھی جس مین اس نے یہ دعوی کیا کہ اس نےخداوند کو دیکھا ہے اس کے ساتھ رہی ہے اور اس کے ساتھ متعدد بار آسمان کی سیر کی ہے اور جو کچھ دیکھا ہے اسے کتاب کی صورت میں لکھنے کا بھی کہا ہے۔اس نے جوجو دعوی اور انکشافات کئے ان کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں اس کتاب کے ٹائیٹل پیج کی پچھلی جانب جو اس کتاب کا تعارف کروایا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:
چوتھامس اپنی چونکا دینے والی شخصی کہانی سناتی ہےکہ اس نے زندہ مسیح کو دیکھا ،وہ جہنم میں گئی اور آسمان کی سیر کی ۔۔ اس کتاب کے ٹائیٹل پیج کی پچھلی جانب ہی پر یہ درج ہے کہ دس مرتبہ اسکی خوابگاہ میں یسوع مسیح اس پر ظاہر ہوئے اور اس نے خداوند کے ساتھ 17 مرتبہ مختلف اوقت میں آسمان کی سیر کی ۔اور خداوند نے اسے دو مرتبہ جہنم بھی دکھایا ۔ خلاصہ یہ کہ اس عورت نے بھی یہ اپنا یہ دعوی خوابوں ہی کے راستے کیا اور مسیحیت نے اسے تسلیم بھی کرلیا۔
اسی طرح اسلام دشمن عناصر نے بھی اسی راستے سے حملے کئے مثلا مرزا قادیانی نے بھی ابتداء خواب ہی کا سہارا لے کر نبوت کا دعوی کیا تھا ۔مندرجہ بالا امثلہ سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ طاہر قادری نے جو روش اختیار کی ہے یہ اصلا کن کی نقالی ہے اور کن سے ماخوذ ہے ۔دوسرے لفظوں میں اس راستے سے امت کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر:
ڈاکٹر طاہر القادری کا عقیدے میں امام ابو حنیفہ اور سیوطی رحمہ اللہ کے مخالف ہونا بھی ان کے اس زعم باطل کی حقیقت کو واضح کر دیتا ہے ۔بہر حال ہم یہاں صرف قارئین کو یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے جس نے ابتدا ہی سے یہ عزم کرلیا ہے کہ ہر ممکن کوشش کرکےانسان کو گمراہ کرنا ہے ، اور اللہ نے بھی اسے مہلت دے رکھی ہے اور بعض اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ انسانی نیز کسی کی بھی صور ت اختیار کر سکتا ہے سوائے نبی ﷺ کی صورت کے ۔چناچہ سطورذیل میں اس کے دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
(1)شیطان شیخ عربی کی شکل میں کفار کی میٹنگ میں شریک ہوا تھا جو نبی ﷺ کے بارے میں تھی ، کہ بعض کی خواہش تھی آپ ﷺ کو قتل کردیا جائے ،بعض کا مشورہ تھا کہ جلاوطن کر دیا جائے جسےاھل سیر نے تفصیل سے بیان کیا ہے نیزاسے مفسرین نے اس آیت کے تحت بیان کیا ہے ۔وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ۭوَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ (انفال :30)
یعنی :اور (اے نبیﷺ وہ وقت یاد کرو) جب کافر آپ کے متعلق خفیہ تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں، یا مار ڈالیں یا جلا وطن کردیں۔ وہ بھی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ ہی سب سے اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔
(2) وَاِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ ۚ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْهِ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰهَ ۭوَاللّٰهُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ 48ۧ (انفال :48)
یعنی : جبکہ شیطان نے انہیں ان کے اعمال خوشنما بنا کر دکھلائے اور کہنے لگا کہ’’آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور میں تمہارا مددگار ہوں‘‘ پھر جب دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو الٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا: ’’میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔ مجھے اللہ سے ڈر لگتا ہے اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔
بہر حال اس آیت سے معلوم ہوا کہ بعض غزوات میں شیطان کفار کو اکسا کے میدا ن میں لایا جب اس نے فرشتوں کو دیکھا تو بھاگ گیا ۔جیسا کہ بدر میں سراقہ بن مالک بن جعثم کی شکل میں آیا ۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت میں ہو رہا ہے ۔
(3)سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی ﷺ نے صدقۃ الفطر کی حفاظت پر ذمہ داری لگادی ، ایک شخص آیا اور اس کھانے میں سے مٹھی بھرنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور میں نے اسے کہا :اللہ کی قسم میں تجھے نبی ﷺ کے پاس لے کر جاو ٔں گا وہ عذر پیش کرنے لگا کہ میں بہت محتاج شخص ہوں ،میرا اہل و عیال ہے مجھے سخت ضرورت ہے میں نے ترس کھا کر اسے چھوڑ دیا ۔صبح ہوئی تو نبی ﷺ نے پوچھا ابو ھریرہ تمہارے قیدی نے کل رات کیاکیا ؟میں نے کہا کہ اللہ کے نبی ﷺ اس نے اپنی سخت حاجت پیش کی میں نے ترس کھا کے اسے چھوڑ دیا ۔نبی ﷺ نے فرمایا کہ وہ جھوٹا ہے وہ کل پھر آئے گا ۔نبی ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور آئے گا ، اور ایسا ہی ہوا کہ وہ پھر آیا اور طعام میں سے اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا ۔اس بار بھی وہ منتیں سماجتیں کرنے لگا اور تنگ حالی کے عذر پیش کرنے لگا اور کہنے لگا کہ آئندہ نہیں کروں گا ۔مجھے اس پر ترس آیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔صبح ہوئی تو نبی ﷺ نے پھر پوچھا:
ابوہریرۃ !تمھارے قیدی نے رات کو کیا کیا ؟میں نے پھر ساری تفصیل بیان کردی کہ اسکی منتوں،سماجتوں کی وجہ سے ترس کھا کے میں نے اسے چھوڑ دیا ۔نبی ﷺ نے فرمایا :کہ وہ جھوٹا ہے دوبارہ آئے گا۔تیسری مرتبہ میں نے اسے دوبارہ پکڑ لیا۔ میں نے کہا کہ اب تو میں تجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس ضرور لیکر جاؤں گا ۔اب یہ آخری مرتبہ ہے تونے کہا تھا کہ میں نہیں آؤں گا اور اب پھر پکڑے گئےہو۔اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاتا ہوں جس کے ذریعے سے اللہ تمہیں فائدہ دے گا ۔میں نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟اس نے کہا : جب بھی بستر پر آرام کے لئے آؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو ۔اللہ تعالی ایک حافظ مقرر فرمادے گا اور صبح تک شیطان بھی تمہارے قریب نہ آسکے گا۔میں نے پھر اس کو چھوڑ دیا۔صبح ہوئی تو نبی ﷺ نے پھر پوچھا کہ تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟ میں نے کہا کہ اس نے مجھے کہا کہ میں تمہیں کچھ کلمات سکھاتا ہوں جن کی وجہ سے اللہ تمہیں فائدہ دے گا ۔ ان کلمات کی وجہ سے میں نے اسے چھوڑ دیا ۔نبی ﷺ نے پوچھا: وہ کلمات کون سے ہیں : میں نے کہا کہ اس نے مجھے کہا کہ جب بھی رات کو بستر پہ آرام کرنے آؤ تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو اللہ تعالی ایک محافط بھی مقرر فرمادے گا اور صبح تک شیطان بھی تمہارے قریب نہ آسکے گا ۔نبی ﷺ نے فرمایا :وہ جھوٹا تھا لیکن یہ بات سچی کر گیا ہے۔پھر نبی ﷺ نے پوچھا :جانتے ہو ابو ھریرہ! یہ تین دن تک تمہارے پاس آنے والا شخص کون تھا ؟ میں نے کہا : نہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ !میں نہیں جانتا۔نبی ﷺ نے فرمایا : وہ شیطان تھا۔
(صحيح البخاري :2311 كِتَاب الوَكَالَةِ، بَابُ إِذَا وَكَّلَ رَجُلًا، فَتَرَكَ الوَكِيلُ شَيْئًا فَأَجَازَهُ المُوَكِّلُ فَهُوَ جَائِزٌ، وَإِنْ أَقْرَضَهُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى جَازَ)
(4) نبی ﷺ نے دجا ل کے فتنے بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَقُولَ لِأَعْرَابِيٍّ أَرَأَيْتَ إِنْ بَعَثْتُ لَکَ أَبَاکَ وَأُمَّکَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَبُّکَ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيَتَمَثَّلُ لَهُ شَيْطَانَانِ فِي صُورَةِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَقُولَانِ يَا بُنَيَّ اتَّبِعْهُ فَإِنَّهُ رَبُّکَ (سنن ابن ماجہ :957)
یعنی :اسکا فتنہ یہ ہوگا کہ ایک گنوار دیہاتی سے کہے گا دیکھ اگر میں تیرے ماں باپ کو زندہ کردوں تو مجھ کو اپنا رب کہے گا؟ وہ دیہاتی کہے گا :بے شک ! میں تجھے اپنا رب مان لوں گا ۔پھر دوشیطان دجال کے حکم سے اس کے ماں باپ کی صورت بن کر آئیں گے اور کہیں گے بیٹا اسکی اطاعت کر یہ تیرا رب ہے۔اس حدیث سے بھی واضح ہے کہ شیطان کسی کے والدین کا روپ دھار کر بھی اس کی گمراہی کا سبب بن سکتا ہے۔
(5)قَالَ عَبْدُ اللَّهِ :إِنَّ الشَّيَاطِينَ لَتَتَمَثَّلُ فِي صُورَةِ رَجُلٍ ثُمَّ تَأْتِي الْقَوْمَ فَتُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مِنَ الْكَذِبِ فَيَتَفَرَّقُونَ فَيَأْتِي الرَّجُلُ الْقَوْمَ فَيَقُولُ سَمِعْتُ رَجُلًا أَعْرِفُ وَجهَهُ وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُهُ يُحَدِّثُ كَذَا وَكَذَا وَمَا ابْتَدَأَهُ إِلَّا الشَّيْطَان
(رَوَاهُ مُسلم فِي مُقَدّمَة صَحِيحه بَاب النَّهْي عَن الرِّوَايَة عَن الضُّعَفَاء وَالِاحْتِيَاط فِي تحملهَا)
یعنی : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شیطان انسانی شکل وصورت میں قوم کے پاس آکر ان سے کوئی جھوٹی بات کہہ دیتا ہے لوگ منتشر ہوتے ہیں ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے ایسے آدمی سے سنا یہ بات سنی ہے جس کی شکل سے واقف ہوں لیکن اس کا نام نہیں جانتا ۔(6) شیطان کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي
(صحیح بخاری : کتاب العلم ،رقم :111،صحیح مسلم :1422،ابوداؤد :1615،ابن ماجہ :781)
یعنی:جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو یقینا اس نے مجھے دیکھ لیا اس لئے کہ شیطان میری صورت نہیں بناسکتا۔خلاصہ کلام ان تمام دلائل کی روشنی میں درج ذیل ہے :
(ا)شیطان انسانی شکل و صورت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
(ب)شیطان کسی کی بھی شکل و صورت اختیار کر سکتا ہے ،سوائے نبی ﷺ کے ۔(ج)شیطان خواب میں آکر بھی گمراہ کرتا ہے اور حالت بیداری میں آکر بھی ۔
(د)بسا اوقات شیطان ایسی چیز بھی بتا دیتا ہے جو بظاہر دینی ہو اور صحیح نظر آرہی ہو کیونکہ جب یہ شیطان آیۃ الکرسی پڑھنے کا وظیفہ بتا سکتا ہے ، جس کی تصدیق نبی ﷺ نے بھی کردی ، تو وہ ایسی چیز بھی بتا سکتا ہے جو بظاہر دینی ہو اصلا عقیدے و ایمان پر حملہ ہو ۔
(ھ)شیطان قریبی عزیزوں تک کا روپ دھار سکتا ہے ۔جیسا کہ حدیث میں گزرا کہ دو شیطانوں نے اعرابی کے والدین کا روپ دھار لیا تھا ۔اب ان دلائل و نکات کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ قادری کا استاد کون ؟ یہاں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی قادری صاحب کو جگائے ، ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔
***