• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈھیلا ڈھالا اسلام

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ڈھیلا ڈھالا اسلام

ابوبکر قدوسی
ایک ہوتی ہے عملی کمزوری اور دوسری فکری گمراہی -
عملی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ بندہ مسلمان ہو اور گناہ کرتا جائے - بھلے صبح کرے اور شام کو نادم ہو جائے اور شام کرے اور صبح کو شرمندہ شرمندہ اللہ کی طرف واپس پلٹ آئے .... یہ انسان کی فطرت ہے اور ہم سب ایسے ہی ہیں کہ صبح شام گناہ کرتے ہیں نادم ہوتے ہیں اور واپس پلٹ کے پھر گناہ کرتے ہیں - اللہ ایسے بار بار گناہ کرنے والوں کو بھی محبوب رکھتا ہے اور ہر دم معاف کرتا ہے -
دوسرا طبقہ وہ ہے کہ جو فکری طور پر اسلام سے دور ہے - اسلامی احکام کھلے بندوں مذاق اڑاتا ہے - کبھی مولوی کے بہانے اور کبھی جدت طرازی کی آڑ میں ..لیکن مقصود اسلامی احکامات کی نفی ان سے جان چھڑانا اور اسلامی احکامات کی تضحیک ہوتا ہے -
اس نامناسب اور منافقانہ طرز عمل کے ساتھ ساتھ ان "انوکھے لاڈلوں" کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو "اصلی تے سچا" مسلمان بھی سمجھا جائے -
جہاں تک تعلق ہے ایسے لوگوں پر کوئی فتوی جڑنے کا ، تو بھائی ہم ایسا کوئی کام کرتے ہیں نہ ہم کو فتوی لگانے کی ضرورت ہے ..لیکن اتنا ضرور کہنا ہے کہ اسلام کے کسی ایک واضح حکم کا انکار اور اس کی تضحیک بندے کو اسلام سے نکال باہر کرتی ہے - اس کو کوئی انتہا پسندی کہے یا تشدد پسندی .. لیکن حقیقت یہی ہے -
میں شروع میں کہہ چکا کہ گناہ گار ہونا کوئی برائی نہیں اور نہ ہی کوئی عیب - بلکہ اللہ بھی گناہ گار کو قبول کرتا ہے - لیکن انکار کا معاملہ بالکل ہی الگ ہے - اسلام کا مزاج ہے بلکہ ہر آسمانی مذھب کا یہی مزاج ہے کہ اس میں پورے کے پورے داخل ہوا جائے - اس پر اعتقاد پورا ہی رکھا جائے گا نہ کہ جزوی طور پر -
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں پانچ نمازوں کو وقت کا زیاں سمجھتا ہوں البتہ صبح شام کی نماز کو پڑھنا مناسب سمجھتا ہوں تو اس کو آپ مسلمان نہیں کہہ سکتے نہ ایسا عقیدہ رکھنے والا مسلمان ہو گا - البتہ ہم صرف یہ لحاظ کریں گے کہ جی کفر کا فتوی لگانے کی ہمیں کیا ضرورت ہے - البتہ یہ بھی واضح رہے کہ ایسا عقیدہ کفریہ عقیدہ ہی ہو گا -
اسی طرح آج کل ایک عام چلن ہے کہ مولوی کے بہانے اسلامی عقائد کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور جب کوئی روکتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ جی بندے کو اتنا کٹھ ملّا یا تنگ نظر بھی نہیں ہونا چاہیے - جان لیجئے کہ اسلام کے کسی واضح اور صریح حکم کا مذاق اور تضحیک کھلا کھلا کفر ہے - اور بندے کو خبر ہوتی ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کیا بول رہا ہے -
کل میں نے کمال اتا ترک بارے کچھ لکھا تو دوست متعرض ہوے - اب کمال ترک وہ بندہ تھا کہ جس نے صریح قرانی احکام کا مذاق اڑایا ، ان کی نفی کی اور ان کو بدل دیا - ہم اس پر کوئی فتوی نہیں لگاتے لیکن اپر ہم لکھ چکے کہ ایسے معاملات کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
اور جب کوئی تاویل بھی نہ ہو تو کیا کہیں گے ؟
جیسا کہ عورت کی وراثت کا ایک قرانی ضابطہ ہے ، اس پر اس بندے نے قانون سازی کے ذریعے پابندی عائد کی اور اس کو بدل دیا - اسی طرح اذان پر پابندی لگائی ...واضح رہے کہ یہ پابندی سپیکر پر پابندی نہیں تھی بلکہ عربی میں اذان دینا ممنوع قرار دیا گیا چاہے آپ مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کے بنا سپیکر ایسا کریں - ایسے اعمال کی تائید اور ان کو پسند کرنا بھی دوسرے الفاظ میں اللہ کے دین کا انکار ہی ہو گا -
پچھلے دنوں ایک سابق چیف جسٹس صاحب کا ایک انٹرویو دیکھا جس میں موصوف اجتہاد کی ضرورت پر زور دے رہے تھے اور جہالت کا یہ عالم تھا کہ نماز پر بھی اجتہاد کے آرزو مند تھے - ان کو یہ تو معلوم تھا کہ اجتہاد کیا ہے لیکن یہ خبر تک نہ تھی کہ اجتہاد منصوص امور پر نہیں ہوتا - اس عمل کو ہم جہالت کہہ سکتے ہیں لیکن اگر یہی عمل آگے بڑھ کے انکار پر منتج ہو تو کب تک ایسے لوگوں کو رعایتی نمبر دیے جائیں گے ؟
 
Top