• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈیجیٹل علماء

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
ڈیجیٹل علماء

موبائل اور انٹرنیٹ کے کثرتِ استعمال نے علماء اور طلبہ کو کام چور اور کاہل بنا دیا ہے.
اب نہ وہ ذوق مطالعہ رہا نہ کتب بینی کی پہلے جیسی طلب اور چاہت. وہ ہمارے اسلاف تھے کہ ایک ایک کتاب کےحصول کے لیے میلوں خاک چھانتے، شہر گاؤں سب ایک کر دیتے اور تب تک انہیں چین نہ ملتا جب تک اپنی مطلوبہ کتاب حاصل نہ کر لیتے اور اس کے مطالعہ سے اپنی علمی پیاس بجھا نہ لیتے.
علم وعمل کا پہاڑ ہونے کے باوجود ان مخلص ہستیوں میں نہ تو کسی قسم کا غرور تھا نہ خودنمائی کا کوئی جذبہ تھا،
تواضع کا یہ عالم کہ کبھی اپنے علم کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا.
بڑے بڑے محدثین کو دیکھا گیا کہ اپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کر رہے ہیں، ان کے سامنے ادب و احترام کی مورت بنے ہوئے ہیں.
یہ وہ اساطین علم وادب تھے کہ جنہوں نے پڑھنے لکھنے کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیا.
تاریخ میں جتنے بھی نامور محدثین ، مفسرین، فقہاء، صاحبان زبان وادب کے تذکرے ملتے ہیں ذرا ان کی زندگیوں کا جائزہ لیجیے مطالعہ ان کی زندگی کا لازمی عنصر اور کتابیں ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں.

اب ہر چیز ڈیجیٹل ہو چکی ہے.
کتابیں بھی اور انہیں پڑھنے والے بھی،
انسان بھی اور اس کا علم و استحضار بھی.
اب ساری لگن، تڑپ، تشنگی ان الکٹرانک ڈیواسز کے لیے وقف ہو کر رہ گئیں.
اب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی متون کے حافظ نہیں ملتے.
البتہ "مکتبہ شاملہ" سے سرچ کر کے مطلوبہ حدیث نکال کر فخر سے اپنے علم کی ڈفلی بجانے والے ہر گلی چوراہے پر تھوک کے بھاؤ مل جائیں گے.
اب جلدی کوئی یہ کہنے والا نہیں ملتا کہ میں نے فلاں کتاب پڑھی ہے. البتہ فخر سے یہ کہنے والے ضرور مل جاتے ہیں کہ میرے موبائل میں فلاں کتاب بھی ہے.
میرے لیپ ٹاپ میں فلاں سافٹویئر بھی ہے.
شب بیداریاں اب بھی ہو رہی ہیں لیکن کتب بینی کے لیے نہیں بلکہ لا یعنی بے مقصد اور لاحاصل مناظرہ بازیوں کے لیے ہو رہی ہیں.

ایک طرف ہمارے وہ اسلاف تھے کہ جو بیچارے اپنے علمی کاموں کے لیے وقت کی قلت کا رونا رویا کرتے تھے، اس کے بعد بھی امت کو ڈھیر سارا علمی ورثہ دے کر گئے،
دوسری طرف ہم ہیں کہ ہمارے پاس وقت کی اتنی افراط اور بہتات ہے کہ ہم دن رات لا یعنی چیزوں میں "ٹائم پاس" کرتے رہتے ہیں.
تکبروتعلی کا عالم یہ ہے کہ کوئی شخص خود کو علامہ دوراں اور مفتی زماں سے کم کہلانے پر راضی نہیں ہے.
علم کی ایسی بے سروسامانی، مطالعے سے ایسا تنفر، علماء خیر کا ایسا قحط، کاغذی شیروں کی ایسی غراہٹ صدیوں سے نہیں دیکھی گئی.
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے.
اور عوام کی کیا بات کی جائے وہ تو رسمی طور پر بھی اسلام کو اپنانے کے لئے تیار نہیں۔
میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ،
بلکہ اعتراف حقیقت اور احساس ذمہ داری بیدار کرنا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں باعمل اور باکردار زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
و اللہ الموفق والمعین ۔۔۔۔۔۔۔ !
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
چھاپہ خانہ کی ایجاد سے قبل ۔۔۔ کتابیں ”قلمی نسخوں“ کی شکل میں ہوا کرتیں تھیں۔ تب طالب علم حسول علم کے لئے ان قلمی نسخوں کے مصنفین یا وارثین کے پاس جا کر ان کتابوں کو خود نقل کیا کرتے تھے اور ”اپنے نسخے“ بقلم خود تیار کیا کرتے تھے۔ وہ بھی اس وقت جب ان کتب کے مصنفین اور وارثین اس کی اجازت دے دیں۔ پھر چھاپہ خانہ کی ایجاد کے بعد یہ سارے طالب علم اور علمائے کرام ’کام چور اور کاہل“ بن گئے۔ انہوں نے بازار سے کتب خرید خرید کر اپنے اپنے گھروں میں جمع کرلیں۔ اور جب چاہا بیٹھ کر اور لیٹ کر ان کتب کا مطالعہ فرمانے لگے
پھر فوٹو اسٹیٹ مشین ایجاد ہوئی۔ اس نے بھی طلباء، علماء اور محققین کو مزید ”کام چور اور کاہل“ بنا دیا ۔ اب ان لوگوں نے کتب خریدنے کی بجائے ایک دوسرے سے کتب مانگ کر، کتب خانوں سے لے کر ان کے مطلوبہ اور مخصوص حصوں کی فوٹو کاپیاں بنوالیں۔ یوں اب انہیں پوری کی پوری کتاب پڑھنے کی بجائے مطلوبہ صفحات کے فوٹو اسٹیٹ کے مطالعہ سے ہی ضروری علم حاصل ہونے لگا۔
پھر آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کی سہولیات منظر عام پر آئیں تو طلباء بڑے بڑے علماء کے خطبات سننے کے لئے دور دراز کا سفر کرنے کی بجائے ان کی ریکارڈنگز منگوا کر سننے اور دیکھنے لگے۔ یوں مزید کاہل بنتے گئے۔
اور اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے تو انہیں مزید کاہل بنادیا، اب طلباء اور علماء کے پاس کم سے کم وسائل میں اور کم سے کم جگہ پر زیادہ سے زیاد علمی مواد یکجا ہونے لگا۔ مطوبہ مواد جو پہلے مہینوں اور دنوں میں ”تلاش کیا جاتا تھا، اب منٹوں اور سیکنڈز میں تلاش کیا جانے لگا۔
آنے والا دور مزید ٹیکنالوجی لائے گا۔ اور ٹیکنالوجی کو نہ سمجھنے والے، اس کا درست استعمال نہ جاننے والے، اسے برا بھلا کہتے رہیں گے۔ دنیا ترقی کرتی رہے گی۔ علم دین سمجھنا اور سمجھانا، ان ٹیکنالوجیز کی مدد سے آسان تر ہوتا جائے گا۔ جو نہیں سمجھین گے وہ معدوم ہوجائیں گے۔ اور اور جو ان پر عبور حاصل کرلیں گے، وہ ان شاء اللہ کامیاب ہوں گے
واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:
Top