فیاض ثاقب
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 30، 2016
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 29
ڈیجیٹل علماء
موبائل اور انٹرنیٹ کے کثرتِ استعمال نے علماء اور طلبہ کو کام چور اور کاہل بنا دیا ہے.
اب نہ وہ ذوق مطالعہ رہا نہ کتب بینی کی پہلے جیسی طلب اور چاہت. وہ ہمارے اسلاف تھے کہ ایک ایک کتاب کےحصول کے لیے میلوں خاک چھانتے، شہر گاؤں سب ایک کر دیتے اور تب تک انہیں چین نہ ملتا جب تک اپنی مطلوبہ کتاب حاصل نہ کر لیتے اور اس کے مطالعہ سے اپنی علمی پیاس بجھا نہ لیتے.
علم وعمل کا پہاڑ ہونے کے باوجود ان مخلص ہستیوں میں نہ تو کسی قسم کا غرور تھا نہ خودنمائی کا کوئی جذبہ تھا،
تواضع کا یہ عالم کہ کبھی اپنے علم کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا.
بڑے بڑے محدثین کو دیکھا گیا کہ اپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کر رہے ہیں، ان کے سامنے ادب و احترام کی مورت بنے ہوئے ہیں.
یہ وہ اساطین علم وادب تھے کہ جنہوں نے پڑھنے لکھنے کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیا.
تاریخ میں جتنے بھی نامور محدثین ، مفسرین، فقہاء، صاحبان زبان وادب کے تذکرے ملتے ہیں ذرا ان کی زندگیوں کا جائزہ لیجیے مطالعہ ان کی زندگی کا لازمی عنصر اور کتابیں ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں.
اب ہر چیز ڈیجیٹل ہو چکی ہے.
کتابیں بھی اور انہیں پڑھنے والے بھی،
انسان بھی اور اس کا علم و استحضار بھی.
اب ساری لگن، تڑپ، تشنگی ان الکٹرانک ڈیواسز کے لیے وقف ہو کر رہ گئیں.
اب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی متون کے حافظ نہیں ملتے.
البتہ "مکتبہ شاملہ" سے سرچ کر کے مطلوبہ حدیث نکال کر فخر سے اپنے علم کی ڈفلی بجانے والے ہر گلی چوراہے پر تھوک کے بھاؤ مل جائیں گے.
اب جلدی کوئی یہ کہنے والا نہیں ملتا کہ میں نے فلاں کتاب پڑھی ہے. البتہ فخر سے یہ کہنے والے ضرور مل جاتے ہیں کہ میرے موبائل میں فلاں کتاب بھی ہے.
میرے لیپ ٹاپ میں فلاں سافٹویئر بھی ہے.
شب بیداریاں اب بھی ہو رہی ہیں لیکن کتب بینی کے لیے نہیں بلکہ لا یعنی بے مقصد اور لاحاصل مناظرہ بازیوں کے لیے ہو رہی ہیں.
ایک طرف ہمارے وہ اسلاف تھے کہ جو بیچارے اپنے علمی کاموں کے لیے وقت کی قلت کا رونا رویا کرتے تھے، اس کے بعد بھی امت کو ڈھیر سارا علمی ورثہ دے کر گئے،
دوسری طرف ہم ہیں کہ ہمارے پاس وقت کی اتنی افراط اور بہتات ہے کہ ہم دن رات لا یعنی چیزوں میں "ٹائم پاس" کرتے رہتے ہیں.
تکبروتعلی کا عالم یہ ہے کہ کوئی شخص خود کو علامہ دوراں اور مفتی زماں سے کم کہلانے پر راضی نہیں ہے.
علم کی ایسی بے سروسامانی، مطالعے سے ایسا تنفر، علماء خیر کا ایسا قحط، کاغذی شیروں کی ایسی غراہٹ صدیوں سے نہیں دیکھی گئی.
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے.
اور عوام کی کیا بات کی جائے وہ تو رسمی طور پر بھی اسلام کو اپنانے کے لئے تیار نہیں۔
میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ،
بلکہ اعتراف حقیقت اور احساس ذمہ داری بیدار کرنا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں باعمل اور باکردار زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
و اللہ الموفق والمعین ۔۔۔۔۔۔۔ !
موبائل اور انٹرنیٹ کے کثرتِ استعمال نے علماء اور طلبہ کو کام چور اور کاہل بنا دیا ہے.
اب نہ وہ ذوق مطالعہ رہا نہ کتب بینی کی پہلے جیسی طلب اور چاہت. وہ ہمارے اسلاف تھے کہ ایک ایک کتاب کےحصول کے لیے میلوں خاک چھانتے، شہر گاؤں سب ایک کر دیتے اور تب تک انہیں چین نہ ملتا جب تک اپنی مطلوبہ کتاب حاصل نہ کر لیتے اور اس کے مطالعہ سے اپنی علمی پیاس بجھا نہ لیتے.
علم وعمل کا پہاڑ ہونے کے باوجود ان مخلص ہستیوں میں نہ تو کسی قسم کا غرور تھا نہ خودنمائی کا کوئی جذبہ تھا،
تواضع کا یہ عالم کہ کبھی اپنے علم کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا.
بڑے بڑے محدثین کو دیکھا گیا کہ اپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کر رہے ہیں، ان کے سامنے ادب و احترام کی مورت بنے ہوئے ہیں.
یہ وہ اساطین علم وادب تھے کہ جنہوں نے پڑھنے لکھنے کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیا.
تاریخ میں جتنے بھی نامور محدثین ، مفسرین، فقہاء، صاحبان زبان وادب کے تذکرے ملتے ہیں ذرا ان کی زندگیوں کا جائزہ لیجیے مطالعہ ان کی زندگی کا لازمی عنصر اور کتابیں ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں.
اب ہر چیز ڈیجیٹل ہو چکی ہے.
کتابیں بھی اور انہیں پڑھنے والے بھی،
انسان بھی اور اس کا علم و استحضار بھی.
اب ساری لگن، تڑپ، تشنگی ان الکٹرانک ڈیواسز کے لیے وقف ہو کر رہ گئیں.
اب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی متون کے حافظ نہیں ملتے.
البتہ "مکتبہ شاملہ" سے سرچ کر کے مطلوبہ حدیث نکال کر فخر سے اپنے علم کی ڈفلی بجانے والے ہر گلی چوراہے پر تھوک کے بھاؤ مل جائیں گے.
اب جلدی کوئی یہ کہنے والا نہیں ملتا کہ میں نے فلاں کتاب پڑھی ہے. البتہ فخر سے یہ کہنے والے ضرور مل جاتے ہیں کہ میرے موبائل میں فلاں کتاب بھی ہے.
میرے لیپ ٹاپ میں فلاں سافٹویئر بھی ہے.
شب بیداریاں اب بھی ہو رہی ہیں لیکن کتب بینی کے لیے نہیں بلکہ لا یعنی بے مقصد اور لاحاصل مناظرہ بازیوں کے لیے ہو رہی ہیں.
ایک طرف ہمارے وہ اسلاف تھے کہ جو بیچارے اپنے علمی کاموں کے لیے وقت کی قلت کا رونا رویا کرتے تھے، اس کے بعد بھی امت کو ڈھیر سارا علمی ورثہ دے کر گئے،
دوسری طرف ہم ہیں کہ ہمارے پاس وقت کی اتنی افراط اور بہتات ہے کہ ہم دن رات لا یعنی چیزوں میں "ٹائم پاس" کرتے رہتے ہیں.
تکبروتعلی کا عالم یہ ہے کہ کوئی شخص خود کو علامہ دوراں اور مفتی زماں سے کم کہلانے پر راضی نہیں ہے.
علم کی ایسی بے سروسامانی، مطالعے سے ایسا تنفر، علماء خیر کا ایسا قحط، کاغذی شیروں کی ایسی غراہٹ صدیوں سے نہیں دیکھی گئی.
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے.
اور عوام کی کیا بات کی جائے وہ تو رسمی طور پر بھی اسلام کو اپنانے کے لئے تیار نہیں۔
میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ،
بلکہ اعتراف حقیقت اور احساس ذمہ داری بیدار کرنا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں باعمل اور باکردار زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
و اللہ الموفق والمعین ۔۔۔۔۔۔۔ !