• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

'کئی بیویاں، کئی بیماریاں'

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
بہت سے مذاہب اور دنیا کے بہت سے حصوں میں ایک سے زائد شادی کرنے کا رواج بھی ہے۔ تاہم، کئی مذاہب صرف ایک ہی شریک حیات پر زور دیتے ہیں۔ آج بھی ایک سے زائد شادیاں عام ہیں۔ یوکرین میں تین افراد کے مشترکہ بچے کی پیدائش امریکہ میں بھی دو چھوٹے شہر ہیں، جہاں لوگ کئی شادیوں کی پرانی روایت پر عمل پیرا ہیں۔ ان میں سے ایک یوٹا کک پروو شہر ہے
جبکہ دوسرا شارٹ کریک قصبہ ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کے آس پاس آباد ہیں۔ یوٹا کے پروو شہر کے رہائشی ایک عجیب قسم کی بیماری کا شکار ہیں۔ یہاں عیسائیوں کا ایک ایسا فرقہ آباد ہے جو اس مذہب کی اولین ترین روایتوں پر عمل پیرا ہے۔ کولوراڈو میں بھی خانہ بدوش قبائلی افراد آباد ہیں 19ویں صدی میں یہاں کے لوگ پر چرچ آف جیزس کرائسٹ لیٹر ڈے سینٹس یعنی ایل ڈی ایس پر ایمان رکھتے تھے۔ یہ چرچ یہاں کے لوگوں کو کئی شادیوں کا حکم دیتا تھا۔ اس چرچ کے نگران برنگھم ینگ کی 55 بیویوں اور 59 بچے تھے۔
بہر حال بعد میں اس عمل پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن جب تک اس کی اجازت تھی لوگ اپنی خواہش کے حساب سے شادیاں کرتے رہے۔ 19ویں صدی میں یہاں کے باشندوں کی ایک ساتھ کی جانے والی کئی شادیوں کا نتیجہ اب اس شہر میں نظر آرہا ہے۔ یہاں کے لوگ ایک خاص قسم کے جینیاتی مرض کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں بچے جسمانی اور ذہنی طور پر معذور ہیں۔ عام طور پر یہ بیماری 40 لاکھ افراد میں سے ایک میں ہوتی ہے۔ لیکن پروو شہر میں یہ بیماری 20 ماہ سے تقریبا دو سال کی عمر کے تمام بچوں میں تھی۔ اسے فیومرز ڈیفیشیئنسی کہا جاتا ہے۔ چہرہ عجیب سا یہ جینیاتی بیماری ہے یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری میں جسم مکمل طور پر تیار نہیں ہو پاتا اور چہرے کی ساخت بھی عجیب ہوتی ہے۔ پیشانی باہر نکلتی آتی ہے۔ آنکھیں پھٹی پھٹی سی ہوتی ہیں۔ کچھ بچے تو بیٹھنے اور چلنے کے قابل بھی نہیں رہ جاتے۔ اس بیماری کی علامات یوٹا کی سرحد سے ملحق شارٹ کریک قصبے میں بھی پائي گئی ہیں۔
درحقیقت، یہ وہ علاقے ہیں جو 20ویں صدی میں ایل ڈی ایس فرقے سے علیحدہ ہو گئے تھے لیکن یہاں بھی لوگ میں متعدد شادیوں کا رواج تھا۔ فیومرز کی کمی ایک خاص انزائم کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ انزائم کسی بھی جاندار کے لیے انتہائی ضروری ہوتے ہیں اور یہ جسم میں توانائی کی سطح کو برقرار رکھتے ہیں۔ فیومرز کی کمی کے سبب جب انزائم کو توانائی نہیں ملتی تو دماغ کو بھی توانائی نہیں مل پاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے اور جسم کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ بعض لوگوں کی حالت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ انھیں عمر بھر کھانے کی نلیوں کی مدد سے رہنا پڑتا ہے۔
وہ جسم پر بیٹھی مکھی بھی نہیں اڑا سکتے۔ فیومرز کی کمی صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب بچہ اپنی والدہ اور والد دونوں سے ایک ایک خراب جین حاصل کر لے۔ شارٹ کریک میں یہ بیماری کیوں پھیلی یہ جاننے کے لیے ہمیں تاریخ کے صفحات پلٹنا پڑیں گے۔ دراصل کئی کئی شادیوں کی وجہ سے پروو شہر اور شارٹ کریک میں ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگ ہو گئے۔ نتیجے کے طور پر اکثر ایک ہی خاندان کے دو لوگوں میں شادیاں ہو جاتی ہیں جن میں اس بیماری کے جین ہیں۔
اس کی وجہ سے، یہاں بہت سے بچے فیومرز کی کمی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اب جو بچے یہاں ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے خاندان سے منسلک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شارٹ کریک دو خاندانی نام جیسوپ اور بارلو زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کی آبادی کا ایک بڑا حصہ جیمز یا بارلو سے آتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان کی بھی بہت ساری بیویاں تھیں مؤرخ بنجامن بیسٹلائن کا کہنا ہے کہ شارٹ کریک میں 75 سے 80 فیصد آبادی ایک دوسرے کے ساتھ خون کا رشتہ رکھتے ہیں۔ پوری آبادی میں ہر دوسرے شخص کی جین میں کوئی نہ کوئی خرابی ہے۔ بہت سے بچے سن بلوغ تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ایک صحت مند آبادی کے لیے یہ ضروری ہے کہ شادی مختلف برادریوں کے درمیان ہو تاکہ مختلف جین کے لوگوں سے مختلف قسم کی نئی نسل پیدا ہو۔ لیکن کئی بیویاں رکھنے کی وجہ سے شارٹ کریک کے لوگوں کا جین پول چھوٹا ہو گیا ہے۔
اس کی وجہ سے، شہر کے لوگ فیومرز کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مغربی افریقی ممالک میں بھی کئی شادیوں کا رواج عام ہے افریقہ میں بھی ایک سے زیادہ بیویوں کا رواج عام ہے۔ کینیا کی پارلیمنٹ نے سنہ 2014 میں ایک بل منظور کیا تھا اور اس کے لیے ایک قانون نافذ کیا ہے۔ مغربی افریقی ممالک میں تو کئی شادیوں کا رواج ہزاروں سالوں سے برقرار ہے اور یہاں کے لوگوں میں بھی جین کی خرابی پائی گئی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، ایک ہی خاتون کے ساتھ نباہ کر لیں ورنہ آپ کی آنے والی نسل کسی سنگین بیماری کا شکار ہو سکتی ہے۔

بحوالہ:http://www.bbc.com/urdu/science-40990670
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کتاب کا نام
شادی سے شادیوں تک

مصنف کا نام
ام عبدالرحمن ہرش فیلڈر, ام یاسمین رحمن

مترجم
محمد یحیٰ خان

ناشر
مکتبہ دارالسلام،لاہور


تبصرہ

اسلام تعدد ازواج کا پرزور حامی ہے اور مسلم مرد کو بیک وقت چار شادیوں کی رخصت ہے ۔یہ خدائی فیصلہ مردوزن کے لیے نہایت موضوع اور عصمت وعفت کے تحفظ کا بہترین نسخہ ہے۔سو تعدد ازواج فحاشی وبدکاری سے بچاؤ اور نسل انسانی میں ارتقاء کا بہترین ذریعہ ہے۔لیکن دشمنان اسلام بالخصوص مغرب اور اس کے حواری مسلمانوں کو پاکدامن اور جنسی آلائشوں سے پاک دیکھنا کبھی بھی پسند نہیں کرتے۔بلکہ ان کی شروع سے خواہش ہے کہ اہل اسلام بھی اقوام مغرب کی طرح جنسیت زدہ ہو جائیں اور فحاشی وبدکرداری کے گند میں لتھڑ کر بےضمیر وبے غیرت ہو جائیں۔اپنی اسی سوچ کی آبیاری کے لیے کبھی وہ حقوق نسواں کے نام سے اور کبھی تعدد ازواج کے قانون میں نقائص نکال کر سادہ لوح مسلمانوں اور مغربیت زدہ افراد کو اپنے دام تذویر میں لانا چاہتے ہیں۔لیکن اسلام کے قوانین اٹل ہیں اور عقلی اور نقلی دلائل سے شرعی دلائل کا توڑ اور ان کی بے وقعتی ناممکن ہے ۔اور علمائے کرام نے ہر دو رمیں ان شورشوں کی قوی دلائل سے بیخ کنی کی اور حق کو حق ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔تعدد ازواج کے برحق ہونے اور اس پر وارد اعتراضات کا اس کتاب میں خوب جائزہ لیا گیا ہے۔اور تعدد ازواج سے دوچار مسلم بہنوں کی اصلاح کے لیے خاطر خواہ مواد جمع کیا گیا ہے ۔جو ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کافی مواد ثابت ہو گا۔
یہ کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟؟؟؟ -

بنت طاہر قریشی

دین اسلام دین فطرت ہے اور بحیثیت ایک مسلمان ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ اسلام کا کوئی بھی حکم چاہے وہ دینی امور کے متعلق ہو یا دنیاوی امور کے متعلق، اپنے اندر حکمت و فوائد کا ایک سمندر پوشیدہ رکھتا ہے۔ اس حکم کے باطنی فوائد اور حکمتیں تو جو ہوتی ہیں سو ہوتی ہیں مگر اس حکم کے ظاہری فوائد بھی بے انتہا ہوتے ہیں۔ جو اس حکم پر عمل پیرا ہونے کے ذریعے ہمارے مشاہدے میں آتے رہتے ہیں اور اگر اس حکم کو ترک کیا جانے لگے تو پھر اس کے نقصانات بھی ہمیں محسوس ہونے لگتے ہیں۔


ایسے ہی احکامات جنہیں ہم متروک بناچکے ہیں اور اب ہمیں ان کے نقصانات بھگتنا پڑ رہے ہیں
"استطاعت رکھنے والے مسلمان کی ایک سے زائد شادی کا حکم" ہے۔
جو کہ ہمارے معاشرے میں قریباً قریباً متروک بلکہ اب تو سخت ناپسندیدہ اور مکروہ تحریمی سمجھے جانے والا عمل بن چکا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ کوئی فرض یا واجب عمل نہیں ہے بلکہ سنت متواترہ کا بہت اہمیت، افادیت اور خیر والا عمل ہے۔ یعنی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی طرح ایک اچھی اور دین و دنیا کے بیشتر فوائد و ثمرات رکھنے والی انتہائی عظیم سنت۔

آج ہمار مزاج بن چکا ہے کہ ہم دین کے صرف ان احکامات پر عمل کرتے ہیں جو ہماری خواہشات سے مطابقت رکھتے ہیں اور ان احکامات کو ترک کردیتے ہیں جن پر عمل ہمارے نفس پر شاق گزرتا ہے، چاہے وہ احکامات فی نفسہ کتنے ہی اہم اور دینی و معاشرتی اعتبار سے کتنے ہی فائدہ مند کیوں نہ ہوں۔

جی ہاں ایسا ہی ایک حکم جس کو ہم فقط اس لیے چھوڑ چکے ہیں کہ وہ ہماری دنیاوی، نفسانی خواہشات سے میل نہیں کھاتا وہ ہے "ایک سے زائد شادی یعنی مرد کا ایک سے زائد نکاح کرنا"۔ ستم ظریفی تو دیکھیے کہ اس سنت کی سب سے زیادہ مخالفت ہی ہم خواتین کرتی ہیں۔ حالانکە اگر اس سنت پر عمل ہونے لگے تو سب سے زیادہ فائدہ ہی کیا بلکہ فوائد کثیرہ خواتین کو ہی حاصل ہوں گے۔

یہ انتہائی دکھ درد اور افسوس کی بات ہے آج ہم خواتین اسلام کا کلمہ پڑھتی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی بات کرتی ہیں اور جب ہمارے سامنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل کرنے کی کسی کی خبر یا کسی کے شوہر، بیٹے یا داماد تقاضا آتا ہے تو ہم خواتین کا حال یہ ہے کہ شادی شدہ خواتین کو تو چھوڑیے غیر شادی شدہ خواتین بھی دوسری شادی کا ذکر سنتے ہی لاحول ولا قوة پڑھنے لگتی ہیں، گویا کسی گناہ کبیرہ کے بارے میں سن لیا ہے۔

ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے:

"میری امت کے فساد کے زمانے میں میری کسی ایک (متروک ) سنت کو زندہ کرنے والے کو 100 شہیدوں کا اجر ملے گا"

اور ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ: "ایک زمانہ ایسا آئےگا کہ اس میں اسلام کے کسی حکم پر عمل کرنے والا ایسا ہوگا گویا اس نے ہاتھ میں انگارہ پکڑ رکھا ہو"
اور موجودہ زمانہ اس حدیث میں مذکور زمانہ ہی ہے۔

ذرا نہیں، مکمل سوچیے!!!
موجودہ زمانے میں کوئی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ( جیسا کہ ایک سے زائد شادی) پر عمل کرتا ہے تو وہ مفت میں اپنے آخرت کے اکاؤنٹ میں کئی سو شہیدوں کے برابر اجر کا مستحق ہوجاتا ہے۔ کئی سو اس لیے کہ ایک تو شادی کرنا سنت، دوسرا اس پر الگ سو شہیدوں کاثواب۔ پھر ایک سے زائد شادی کرنا یا خواتین کا ایک سے زائد شادی کرنے والے مرد کی دوسری تیسری اور چوتھی بیوی بننے کے لیے آمادہ ہوکر اپنے شوہر کی دلہن بننا یوں گویا ہر سنت پر سو' سو شہیدوں کا ثواب حاصل ہورہا ہوتا ہے۔ پھر نکاح کی سنت، مسجد میں نکاح کی سنت، کھجورو چھوہارے کی تقسیم کی سنت، مہر کی سنت، ایجاب وقبول کی سنت، ولیمے کی سنت، فضول خرچی سے بچنے کی سنت۔ سادگی سے شادی بیاہ کرنے سنت اور مکمل صحیح شرعی طریقے سے شادی کی سنت وغیرہ۔

یوں یہ ایک شادی کرنے پر سینکڑوں سنتیں زندہ ہوجاتی ہیں۔ صرف شادی کے مواقع پر ذرا اندازہ لگائیں ہم اللہ سے کتنا زیادہ اجر اور کتنے زیادہ شہیدوں کی ہزاروں نیکیاں کماتے ہیں۔

اگر ہمارے دل میں اللہ کے حکم اور نبی صلی اللہ علیہ وسکم کی اس عظیم سنت کی عظمت ہوگی اور ہم اپنے مردوں کو ہنسی خوشی اپنے پیارے نبی کی اس مبارک سنت پر عمل کرنے کی راہیں ہموار کریں گی اور انہیں ہر لحاظ سے مکمل سپورٹ کریں گی تو یقین جانیے نیکی و صدقہ جاریہ اور آخرت کے اکاؤ نٹ کو بڑھانے اور نیکیوں کا ذخیرہ کرنے کا یہ کوئی معمولی عمل اور اجرو ثواب نہیں ہے۔ یہ اس دور کی بہت بڑی نیکی ہے اور اس اجروثواب بھی بہت بلندتر ہے۔

دینی نقطہ نظر کے بعد اس اہم مسئلے پر کچھ دنیاوی مشاہدات پہلو سے بات وضاحت سے کرتے ہیں:

اگر ہم حقیقت سے نظریں چرانے کی بجائے حقیقی آنکھ سے دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں دن بدن بڑھتی ہوئی فحاشی اور بے حیائی کا ایک اہم ترین سبب ایک سے زائد شادی کی اس سنت عظیمہ کا ترک بھی ہے۔ حقیقت واضح ہے کہ آج نوجوان لڑکیوں کی جب مناسب وقت پر شادیاں نہ ہوں تو لازماً ان کا میلان برائی کی طرف ہوگا اور یہ فطری بات ہے۔ جس میں قصور ان کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے اور سماج کا رویہ اور رواج ہے۔

ہمارے معاشرے میں چونکہ اولاد کے کرتا دھرتا والدین ہوتے ہیں اور بعض والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے کڑے اور سخت معیار قائم کرتے ہیں۔ ان کو ہوش تب آتا ہے جب بیٹیاں دہلیز پر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہونے لگتی ہیں۔ ان کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے۔ تب ان کا کوئی معیار برقرار نہیں رکھتا۔ پھر ان کو بڑی عمر کے اور شادی شدہ اور طلاق شدہ مرد بھی قبول ہوتے ہیں۔ تو اگر یہی فیصلہ صحیح وقت پر کرلیتے تو بیٹیوں کی زندگی کے اتنے قیمتی سال ضائع نہ ہوتے۔

اس سنت عظیمہ کے ترک کا دوسرا نقصان دہ پہلو: بیوہ اور مطلقہ خواتین ہماری ہندومت سے متاثرہ روایات کی وجہ سے معاشرے میں اچھوت سمجھی جاتی ہیں۔ اگرچہ منہ سے ہم ان کو اچھوت نہ کہیں مگر ان کے ساتھ امتیازی رویہ اور سلوک انہیں معاشرے کے ناقابل قبول افراد میں ہی شامل کرتا ہے۔

اگر یہ مطلقہ اور بیوہ خواتین جوان ہوں تو ان کے لئے دوہری پریشانی ہوتی ہے۔ ایک تو عفت و عصمت کی حفاظت اور دوسری اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچانا۔ ان کی پریشانی کا خاتمہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب اس سنت کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اس پر عمل پیرا ہو کر ایسی خواتین سے نکاح کیا جائے اور انہیں معاشرے کے گدھوں کا نوالہ بننے کے لیے نہ چھوڑا جائے۔ ورنہ قیامت کے دن مجرمین کی صفوں میں ان کے ساتھ بہت سارے صاحب حیثیت لوگوں کی گردنوں میں بھی طوق ڈالا جاسکتا ہے۔

مختصر یہ کہ آج اگر ہمارے مسلمان بھائی اس سنت پر عدل و انصاف کے ساتھ مضبوطی سے عمل کی ٹھان لیں اور کم از کم ایک زائد نکاح کرلیں کسی بھی بیوہ، مطلقہ یا بڑی عمر کی غیر شادی شدہ خاتون سے، تو میں حلفاً کہہ سکتی ہوں کہ بے حیائی اور فحاشی کا طوفان اپنے آپ تھمنے لگے گا۔

بس!!! تھوڑی سی ہمت، ارادے کی پختگی اور ان مجبور خواتین سے ہمدردری بلکہ سب سے بڑھ کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کہ فساد امت کے دور میں سنت کو زندہ کرنے والے کو 100 شہیدوں کا اجر ملےگا، ذہن نشین کرنے اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ راہیں خودبخود آسان ہوتی چلی جائیں گی اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ معاشرے میں کوئی سنت معیوب عمل نہیں رہے گی بلکہ اس کے جو فوائد و ثمرات ہمیں حاصل ہوں گے وہ ہمارے وہم و گمان سے بھی بڑھ کر ہوں گے!

https://daleel.pk/2017/04/14/39163
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بہت سے مذاہب اور دنیا کے بہت سے حصوں میں ایک سے زائد شادی کرنے کا رواج بھی ہے۔ تاہم، کئی مذاہب صرف ایک ہی شریک حیات پر زور دیتے ہیں۔ آج بھی ایک سے زائد شادیاں عام ہیں۔ یوکرین میں تین افراد کے مشترکہ بچے کی پیدائش امریکہ میں بھی دو چھوٹے شہر ہیں، جہاں لوگ کئی شادیوں کی پرانی روایت پر عمل پیرا ہیں۔ ان میں سے ایک یوٹا کک پروو شہر ہے جبکہ دوسرا شارٹ کریک قصبہ ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کے آس پاس آباد ہیں۔ یوٹا کے پروو شہر کے رہائشی ایک عجیب قسم کی بیماری کا شکار ہیں۔ یہاں عیسائیوں کا ایک ایسا فرقہ آباد ہے جو اس مذہب کی اولین ترین روایتوں پر عمل پیرا ہے۔ کولوراڈو میں بھی خانہ بدوش قبائلی افراد آباد ہیں 19ویں صدی میں یہاں کے لوگ پر چرچ آف جیزس کرائسٹ لیٹر ڈے سینٹس یعنی ایل ڈی ایس پر ایمان رکھتے تھے۔ یہ چرچ یہاں کے لوگوں کو کئی شادیوں کا حکم دیتا تھا۔ اس چرچ کے نگران برنگھم ینگ کی 55 بیویوں اور 59 بچے تھے۔ بہر حال بعد میں اس عمل پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن جب تک اس کی اجازت تھی لوگ اپنی خواہش کے حساب سے شادیاں کرتے رہے۔ 19ویں صدی میں یہاں کے باشندوں کی ایک ساتھ کی جانے والی کئی شادیوں کا نتیجہ اب اس شہر میں نظر آرہا ہے۔ یہاں کے لوگ ایک خاص قسم کے جینیاتی مرض کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں بچے جسمانی اور ذہنی طور پر معذور ہیں۔ عام طور پر یہ بیماری 40 لاکھ افراد میں سے ایک میں ہوتی ہے۔ لیکن پروو شہر میں یہ بیماری 20 ماہ سے تقریبا دو سال کی عمر کے تمام بچوں میں تھی۔ اسے فیومرز ڈیفیشیئنسی کہا جاتا ہے۔ چہرہ عجیب سا یہ جینیاتی بیماری ہے یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری میں جسم مکمل طور پر تیار نہیں ہو پاتا اور چہرے کی ساخت بھی عجیب ہوتی ہے۔ پیشانی باہر نکلتی آتی ہے۔ آنکھیں پھٹی پھٹی سی ہوتی ہیں۔ کچھ بچے تو بیٹھنے اور چلنے کے قابل بھی نہیں رہ جاتے۔ اس بیماری کی علامات یوٹا کی سرحد سے ملحق شارٹ کریک قصبے میں بھی پائي گئی ہیں۔ درحقیقت، یہ وہ علاقے ہیں جو 20ویں صدی میں ایل ڈی ایس فرقے سے علیحدہ ہو گئے تھے لیکن یہاں بھی لوگ میں متعدد شادیوں کا رواج تھا۔ فیومرز کی کمی ایک خاص انزائم کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ انزائم کسی بھی جاندار کے لیے انتہائی ضروری ہوتے ہیں اور یہ جسم میں توانائی کی سطح کو برقرار رکھتے ہیں۔ فیومرز کی کمی کے سبب جب انزائم کو توانائی نہیں ملتی تو دماغ کو بھی توانائی نہیں مل پاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے اور جسم کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ بعض لوگوں کی حالت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ انھیں عمر بھر کھانے کی نلیوں کی مدد سے رہنا پڑتا ہے۔ وہ جسم پر بیٹھی مکھی بھی نہیں اڑا سکتے۔ فیومرز کی کمی صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب بچہ اپنی والدہ اور والد دونوں سے ایک ایک خراب جین حاصل کر لے۔ شارٹ کریک میں یہ بیماری کیوں پھیلی یہ جاننے کے لیے ہمیں تاریخ کے صفحات پلٹنا پڑیں گے۔ دراصل کئی کئی شادیوں کی وجہ سے پروو شہر اور شارٹ کریک میں ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگ ہو گئے۔ نتیجے کے طور پر اکثر ایک ہی خاندان کے دو لوگوں میں شادیاں ہو جاتی ہیں جن میں اس بیماری کے جین ہیں۔ اس کی وجہ سے، یہاں بہت سے بچے فیومرز کی کمی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اب جو بچے یہاں ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے خاندان سے منسلک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شارٹ کریک دو خاندانی نام جیسوپ اور بارلو زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کی آبادی کا ایک بڑا حصہ جیمز یا بارلو سے آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان کی بھی بہت ساری بیویاں تھیں مؤرخ بنجامن بیسٹلائن کا کہنا ہے کہ شارٹ کریک میں 75 سے 80 فیصد آبادی ایک دوسرے کے ساتھ خون کا رشتہ رکھتے ہیں۔ پوری آبادی میں ہر دوسرے شخص کی جین میں کوئی نہ کوئی خرابی ہے۔ بہت سے بچے سن بلوغ تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ایک صحت مند آبادی کے لیے یہ ضروری ہے کہ شادی مختلف برادریوں کے درمیان ہو تاکہ مختلف جین کے لوگوں سے مختلف قسم کی نئی نسل پیدا ہو۔ لیکن کئی بیویاں رکھنے کی وجہ سے شارٹ کریک کے لوگوں کا جین پول چھوٹا ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے، شہر کے لوگ فیومرز کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مغربی افریقی ممالک میں بھی کئی شادیوں کا رواج عام ہے افریقہ میں بھی ایک سے زیادہ بیویوں کا رواج عام ہے۔ کینیا کی پارلیمنٹ نے سنہ 2014 میں ایک بل منظور کیا تھا اور اس کے لیے ایک قانون نافذ کیا ہے۔ مغربی افریقی ممالک میں تو کئی شادیوں کا رواج ہزاروں سالوں سے برقرار ہے اور یہاں کے لوگوں میں بھی جین کی خرابی پائی گئی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، ایک ہی خاتون کے ساتھ نباہ کر لیں ورنہ آپ کی آنے والی نسل کسی سنگین بیماری کا شکار ہو سکتی ہے۔
مضمون نگار کے نام! ناقل سے معذرت کے ساتھ!
ایک خاتون کے ساتھ نباہ کر کے باقی بچنے والی ضروریات کے لیے بغیر شادی کے خواتین اور لڑکوں سے استفادہ کریں۔ آپ اور آپ کی نسل ایڈز میں نہایت خوش رہے گی۔
سب مردوں کو ایک ایک خاتون دے دی جائے۔ اور باقی بچنے والی خواتین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت مل چکی ہے لہذا وہ ٹینشن فری رہیں۔

جب عقل انسانی وحی الہی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ایسے ہی عمدہ فیصلے وجود میں آتے ہیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وہاں کے مردوں کو دنیا بھر میں تقسیم کردیا جائے تاکہ ان کا جین پول وسیع ہو جائے۔ بات ختم!
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم اشماریہ بھائی
ناقل کو کسی بھی قسم کی تنقید پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اس طرح کے مضامین پوسٹ کرنے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ نام نہاد مہذب دنیا کن خطوط پر سوچ رہی ہے اور اسلام کے قوانین کو کس طرح ایک مخصوص طریقہ کار سے نشانہ بنا رہی ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304

یہ انتہائی دکھ درد اور افسوس کی بات ہے آج ہم خواتین اسلام کا کلمہ پڑھتی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی بات کرتی ہیں اور جب ہمارے سامنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل کرنے کی کسی کی خبر یا کسی کے شوہر، بیٹے یا داماد تقاضا آتا ہے تو ہم خواتین کا حال یہ ہے کہ شادی شدہ خواتین کو تو چھوڑیے غیر شادی شدہ خواتین بھی دوسری شادی کا ذکر سنتے ہی لاحول ولا قوة پڑھنے لگتی ہیں، گویا کسی گناہ کبیرہ کے بارے میں سن لیا ہے۔

ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے:

"میری امت کے فساد کے زمانے میں میری کسی ایک (متروک ) سنت کو زندہ کرنے والے کو 100 شہیدوں کا اجر ملے گا"

https://daleel.pk/2017/04/14/39163


موضوع سے قطع نظر مذکورہ روایت صحیح نہیں ہے -

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تمسك بسنتي عند فساد أمتي فله أجر مائة شهيد
میری امت کے فتنہ و فساد کے وقت جس نے میری سنت کو مضبوط پکڑا ، اس کے لئے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔
(مشکوٰہ)

حدیث کی سند :
رواه ابن عدي في " الكامل " ( 90 / 2 ) و ابن بشران في " الأمالي " ( 93 / 1 و 141 / 2 ) عن الحسن بن قتيبة أنبأنا عبد الخالق بن المنذر عن ابن أبي نجيح عن مجاهد عن ابن عباس مرفوعا

تحقیق :
روایت کی سند ضعیف ہے ، جس کی علت حسن بن قتيبة ہے۔ (بحوالہ : "المیزان" -حافظ ذہبی)
حسن بن قتيبة ، متروک الحدیث ہے۔ (بحوالہ: دارقطنی)
حسن بن قتيبة ، ضعیف ہے۔ (بحوالہ: ابوحاتم)
حسن بن قتيبة ، کثیر الوہم ہے۔ (بحوالہ: العقیلی)

(واللہ اعلم)
 
Top