ابن قاسم
مشہور رکن
- شمولیت
- اگست 07، 2011
- پیغامات
- 253
- ری ایکشن اسکور
- 1,081
- پوائنٹ
- 120
کارنامہ سیرت بے رحم تاریخ کی کسوٹی پر (مولانا ابوالکلام آزاد)
تذکیروتبلیغ اور پسند و قبول
دراصل اعمال انسانی کے تمام گوشوں میں اصل سوال حدود ہی کا ہے اور ہر جگہ انسان نے اسی میں ٹھوکر کھائی ہے، یعنی ہر بات کی جو حد ہے اس کے اندر نہیں رہنا چاہتا۔ دو حق ہیں۔
دونوں کو اپنی اپنی حدود کے اندر رہنا چاہئے۔ ایک حق ہے تذکیر و تبلیغ، کا ایک پسند و قبولیت کا۔ ہر انسان کو اس کا حق ہے کہ جس بات کو درست سمجھتا ہے اسے دوسروں کو بھی سمجھائے لیکن اس کا حق نہیں کہ دوسروں کے حق سے انکار کردے، یعنی یہ بات بھلا دے کہ جس طرح اسے ایک بات کے ماننے نہ ماننے کا حق ہے، ویسا ہی دوسرے کو بھی ماننے نہ ماننے کا حق ہے اور ایک فرد دوسرے کے لئے ذمہ دار نہیں۔
تاریخ کو بارہ صدیوں تک اس بات کا انتظار کرنا پڑا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو محض اختلاف عقائد کی بناء پر ذبح نہ کرے۔ اتنی بات سمجھ لے کہ ‘تذکیر‘ و ‘توکیل‘ میں فرق ہے۔ اب ڈیڑھ سو برس سے یہ بات دنیا کے عقلی مسلمات میں سے سمجھی جاتی ہے، لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس کے اعلان کی تاریخ امریکہ اور فرانس کے ‘اعلان حقوق انسانی‘ سے شروع نہیں ہوئی۔ اس سے بارہ سو برس پہلے (نزول قرآن کے ساتھ) شروع ہوچکی تھی۔
خوف وحُزن
قرآن نے اہل ایمان کی نسبت جو کچھ کہا ہے اس میں کوئی بھی بات اس قدر نمایاں نہیں جس قدر یہ کہ (اور یہ قرآن میں کئی مقامات پر ارشاد ہوا ہے) یعنی وہ خوف اور غم دونوں سے محفوظ ہوجائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی سعادت کے لئے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا اور اس کی شقاوت کی ساری سرگزشت انہی دو لفظوں میں سمٹی ہوئی ہے: خوف اور دکھ۔ جونہی ان دوباتوں سے اسے رہائی مل گئی اس کی ساری سعادتیں اس کے قبضے میں آگئیں۔ زندگی کے جتنے کانٹے بھی ہوسکتے ہیں سب کو ایک ایک کرکے چنو ، خواہ جسم میں چبھے ہوں، خواہ دماغ میں۔ خواہ موجودہ زندگی کی عافیت میں خلل ڈالتے ہوں، خواہ آخرت کی ۔ تم دیکھوگے کہ ان دو باتوں سے باہر نہیں۔ یہ خوف کا کانٹا ہے یا غم کا۔ قرآن کہتا ہے کہ ایمان کی راہ سعادت کی راہ ہے۔ جس کے قدم اس راہ میں جم گئے اس کے لئے دونوں کانٹے بے اثر ہوجاتے ہیں۔ اس کے لئے نہ تو کسی طرح کا اندیشہ ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔
عقل اور ماورائے عقل
قرآن اس بات کی بھی مذمت کرتا ہے کہ علم و بصیرت کے بغیر کوئی بات مان لی جائے اور اس کی بھی کہ محض عدم ادراک کی بناء پر کوئی بات بھلا دی جائے۔ اگر غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی فکری گمراہیوں کا سرچشمہ یہی بات ہے۔ یا تو وہ عقل وبیش سے اس قدر کورا ہوجاتا ہے کہ ہر بات بے سمجھے بوجھے مان لیتا ہے اور ہر راہ میں آنکھیں بند کئے چلتا رہتا ہے یا پھر سمجھ بوجھ کا غلط استعمال کرتا ہے ۔ جہاں کوئی حقیقت اس کی شخصی سمجھ سے بالاتر ہوئی، جھٹلادی۔ اس طرح حقیقت کے اثبات و وجود کا مدار صرف ایک خاص فرد کی سمجھ پر رہ گیا۔
صورتیں 2 ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں۔ ایک یہ کہ کوئی بات عقل کے خلاف ہو۔ ایک یہ کہ تمہاری عقل سے بالاتر ہو۔ بہت سی باتیں ایسی ہوسکتی ہیں، جن کا احاطہ تمہاری سمجھ نہیں کرسکتی، لیکن تم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ سرے سے خلاف عقل ہیں۔ اولا افراد کی عقلی قوت یکساں نہیں۔ ثانیا عقل انسانی برابر نشوو ارتقا کی حالت میں ہے۔
(جاری)