• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کارنامہ سیرت، بے رحم تاریخ کی کسوٹی پر

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
کارنامہ سیرت بے رحم تاریخ کی کسوٹی پر (مولانا ابوالکلام آزاد)

تذکیروتبلیغ اور پسند و قبول
دراصل اعمال انسانی کے تمام گوشوں میں اصل سوال حدود ہی کا ہے اور ہر جگہ انسان نے اسی میں ٹھوکر کھائی ہے، یعنی ہر بات کی جو حد ہے اس کے اندر نہیں رہنا چاہتا۔ دو حق ہیں۔
دونوں کو اپنی اپنی حدود کے اندر رہنا چاہئے۔ ایک حق ہے تذکیر و تبلیغ، کا ایک پسند و قبولیت کا۔ ہر انسان کو اس کا حق ہے کہ جس بات کو درست سمجھتا ہے اسے دوسروں کو بھی سمجھائے لیکن اس کا حق نہیں کہ دوسروں کے حق سے انکار کردے، یعنی یہ بات بھلا دے کہ جس طرح اسے ایک بات کے ماننے نہ ماننے کا حق ہے، ویسا ہی دوسرے کو بھی ماننے نہ ماننے کا حق ہے اور ایک فرد دوسرے کے لئے ذمہ دار نہیں۔
تاریخ کو بارہ صدیوں تک اس بات کا انتظار کرنا پڑا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو محض اختلاف عقائد کی بناء پر ذبح نہ کرے۔ اتنی بات سمجھ لے کہ ‘تذکیر‘ و ‘توکیل‘ میں فرق ہے۔ اب ڈیڑھ سو برس سے یہ بات دنیا کے عقلی مسلمات میں سے سمجھی جاتی ہے، لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس کے اعلان کی تاریخ امریکہ اور فرانس کے ‘اعلان حقوق انسانی‘ سے شروع نہیں ہوئی۔ اس سے بارہ سو برس پہلے (نزول قرآن کے ساتھ) شروع ہوچکی تھی۔
خوف وحُزن
قرآن نے اہل ایمان کی نسبت جو کچھ کہا ہے اس میں کوئی بھی بات اس قدر نمایاں نہیں جس قدر یہ کہ (اور یہ قرآن میں کئی مقامات پر ارشاد ہوا ہے) یعنی وہ خوف اور غم دونوں سے محفوظ ہوجائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی سعادت کے لئے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا اور اس کی شقاوت کی ساری سرگزشت انہی دو لفظوں میں سمٹی ہوئی ہے: خوف اور دکھ۔ جونہی ان دوباتوں سے اسے رہائی مل گئی اس کی ساری سعادتیں اس کے قبضے میں آگئیں۔ زندگی کے جتنے کانٹے بھی ہوسکتے ہیں سب کو ایک ایک کرکے چنو ، خواہ جسم میں چبھے ہوں، خواہ دماغ میں۔ خواہ موجودہ زندگی کی عافیت میں خلل ڈالتے ہوں، خواہ آخرت کی ۔ تم دیکھوگے کہ ان دو باتوں سے باہر نہیں۔ یہ خوف کا کانٹا ہے یا غم کا۔ قرآن کہتا ہے کہ ایمان کی راہ سعادت کی راہ ہے۔ جس کے قدم اس راہ میں جم گئے اس کے لئے دونوں کانٹے بے اثر ہوجاتے ہیں۔ اس کے لئے نہ تو کسی طرح کا اندیشہ ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔
عقل اور ماورائے عقل
قرآن اس بات کی بھی مذمت کرتا ہے کہ علم و بصیرت کے بغیر کوئی بات مان لی جائے اور اس کی بھی کہ محض عدم ادراک کی بناء پر کوئی بات بھلا دی جائے۔ اگر غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی فکری گمراہیوں کا سرچشمہ یہی بات ہے۔ یا تو وہ عقل وبیش سے اس قدر کورا ہوجاتا ہے کہ ہر بات بے سمجھے بوجھے مان لیتا ہے اور ہر راہ میں آنکھیں بند کئے چلتا رہتا ہے‌ یا پھر سمجھ بوجھ کا غلط استعمال کرتا ہے ۔ جہاں کوئی حقیقت اس کی شخصی سمجھ سے بالاتر ہوئی، جھٹلادی۔ اس طرح حقیقت کے اثبات و وجود کا مدار صرف ایک خاص فرد کی سمجھ پر رہ گیا۔
صورتیں 2 ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں۔ ایک یہ کہ کوئی بات عقل کے خلاف ہو۔ ایک یہ کہ تمہاری عقل سے بالاتر ہو۔ بہت سی باتیں ایسی ہوسکتی ہیں، جن کا احاطہ تمہاری سمجھ نہیں کرسکتی، لیکن تم یہ فیصلہ نہیں‌ کرسکتے کہ وہ سرے سے خلاف عقل ہیں۔ اولا افراد کی عقلی قوت یکساں نہیں۔ ثانیا عقل انسانی برابر نشوو ارتقا کی حالت میں ہے۔
(جاری)
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
صبر اور شکر
(گزشتہ سے پیوستہ): “صبر کے معنی ہیں مشکلوں اور مصیبتوں کے مقابلے میں جمے رہنا۔
“شکر“ کے معنی ہیں اللہ کی بخشی ہوئی قوتوں (اور نعمتوں) کی قدر کرنا اور انہیں ٹھیک ٹھیک کام میں لانا۔
خدا کا یہ مقررہ قانون ہے کہ جو قوم (مشکلوں اور مصیبتوں کے مقابلے میں ثبات و استقامت پر استوار رہتی ہے اور ) خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کی قدر بجالاتی ہے اور اُن سے ٹھیک طور پر کام لیتی ہے۔
خدا اُسے اور نعمتیں عطا فرماتا ہے، لیکن جو کفران نعمت کرتی ہے یعنی قدر شناسی نہیں کرتی، محرومی ونامرادی کے عذاب میں گرفتار ہوجاتی ہے اور یہ اللہ کا سخت عذاب ہے، جو کسی انسانی گروہ کے حصے میں آتا ہے۔
غور کرو یہ حقیقت حال کی سچی تعبیر ہے۔ جو فرد یا گروہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کی قدر کرتا ہے۔
مثلا خدا نے اسے فتحمندی و کامرانی عطا فرمائی ہے وہ اُس نعمت کو پہچانتا، اُسے ٹھیک طور پر کام میں لاتا اور اُس کی حفاظت سے غافل نہیں ہوتا، وہ اور زیادہ نعمتوں کے حصول کا مستحق ہوجاتا ہے یا نہیں؟
جو ایسا نہیں کرتا، اُس کی نامرادی وتباہی میں کوئی شک ہوسکتا ہے؟
اکتسابِ مال اور انفاقِ مال
ہر انسان کی ذہنی و جسمانی استعداد یکساں نہیں ہوتی، اس لئے وسائلِ معیشت کے حصول کے اعتبار سے بھی سب کی حالت یکساں نہ ہوئی۔ کسی کو کمانے کے زیادہ مواقع حاصل ہوگئے، کسی کو تھوڑے۔ پہلے قوت میں مقابلہ ہوا۔ طاقتور نے کمزور کو مغلوب کرلیا۔ پھر ذہن و جسم کا مقابلہ شروع ہوا اور ذہنی قوت نے جسمانی قوت کو مقہور کرلیا۔
قرآن اس صورت حال سے تو تعرض نہیں کرتا کہ حیثیت کے اعتبار سے تمام انسانوں کی حالت یکساں نہیں، لیکن یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ حصول رزق کے اعتبار سے لوگوں کی حالت یکساں نہ ہو۔ کسی کو ملے کسی کو نہ ملے۔ وہ کہتا ہے ہر انسان جو دنیا میں‌ پیدا ہوا، دنیا کے سامان رزق سے حصہ پانے کا یکساں طور پر حقدار ہے۔
دراصل قرآن کی اس تہ میں یہ بنیادی اصل کام کررہی ہے کہ وہ نوع انسانی کے مختلف افراد اور جماعتوں کو ایک دوسرے سے الگ اور مقسم تسلیم نہیں کرتا، بلکہ سب کو ایک ہی گھرانے کے مختلف افراد قرار دیتا ہے۔ ایسے افراد جو آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے شریک حال ہیں۔ (قرآن) کہتا ہے کمائی کے حق کا دامن انفاق کی ذمہ داری سے بندھا ہوا ہے۔
یہ دونوں لازم وملزوم ہیں۔ تم انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے۔ یہاں کمائی کرنے کے معنی یہ ہیں کہ خرچ کرنے کی ذمہ داری اٹھائی جائے۔ تم جس قدر کماسکتے ہو کماؤ، بلکہ چاہئے زیادہ سے زیادہ کماؤ، لیکن یہ نہ بھولو کہ زیادہ سے زیادہ کمانا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے افراد کے ہاتھ کمائی کے لئے ہیں، لیکن جماعت کا حق خرچ کرانے کا ہے۔
غرض جہاں تک نظام معیشت کا تعلق ہے، قرآن نے اکتساب مال کا معاملہ انفاق مال کے ساتھ وابستہ کردیا ہے کوئی کمائی جائز نہیں تسلیم کی جاسکتی، اگر انفاق سے انکار کرتی ہو۔ ہر وہ کمائی جو محض اکتناز کے لئے ہو اور انفاق کے لئے دروازہ کھلا نہ رہے قرآن کے نزدیک ناجائز، ناپاک اور مستحق عقوبت ہے۔
(جاری)
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
بد عملی کا بڑا مرکز
انفرادی زندگی میں بد عملی کا بڑا مرکز دنیوی خوشحالی کی زندگی ہے۔ خوشحالی وثروت کی حالت ایک ایسی حالت ہے کہ اگر کسی جماعت میں‌پھیلی ہوئی ہوتو اس سے بڑھ کر کوئی برکت نہیں اور اگر صرف چند افراد میں سمٹی ہوئی ہو تو اُس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں، کیوں کہ جب دولت صرف چند افراد کے قبضے میں آگئی، باقی افراد جماعت محروم رہ گئے تو قدرتی طور پر ہر طرح کا غلبہ و تسلط چند افراد کے ہاتھ میں آجائے گا اور ایسے غلبہ و تسلط کا نتیجہ غرور باطل اور اشکبار عنالحق ہے (اس صورت حال کی الم انگیز مثالیں ہر طرف موجود ہیں)
یہی وجہ ہے کہ قرآن جس جماعتی خوشحالی کو اللہ کا سب سے بڑا فضل قرار دیتا ہے، اُسی کو انفرادی حالت میں “فتنہ“ اور “متاع گرور“ بھی کہتا ہے۔
آج تمام دنیا میں شور مچ رہا ہے کہا انفرادی سرمایہ داری دنیا کے لئے مصیبت ہے، لیکن قرآن چودہ سو برس پہلے اسے “فتنہ“ قرار دے چکا اور اس کے لئے اکتناز لفظ بول چکا ہے۔
اور جو لوگ چاندی اور سونا اپنے ذخیروں میں جمع کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اُسے خرچ نہیں کرتے (سورۃ توبہ 33)
مشکل یہ ہے کہ جب تک قرآن کی صدا قرآن کی صدا ہے تمہاری نظروں میں جچتی نہیں۔ جب وہی بات وقت کے ذہن و فکر سے اٹھنے لگتی ہے تو فورا اُس کی پرستش شروع کردیتے ہو۔
فضیلت و کامرانی کے طریقے
(ائے پیغمبر!) اگر تم اُن لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلاؤ تو ہر گز تمہاری پکار نہ سنیں۔ تمہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تمہاری طرف تک رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دیکھتے نہیں (بہر حال) نرمی و درگزر سے کام لو، نیکی کا حکم دو، جاہلوں کی طرف متوجہ نہ ہو۔
(دیکھئے) چند لفظوں کے اندر زندگی کی اخلاقی مشکلات کا پورا حل اور فضیلت و کامرانی کے تمام طریقے واضح کردئے۔ یعنی ناسمجھوں کی ناسمجھی بخش دینا، نیکی کی دعوت میں سرگرم رہنا اور جاہلوں کے پیچھے نہ پڑنا۔
سرسری نظر میں پتا نہیں لگے گا، اچھی طرح اور بار بار غور کرو۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کون سا گوشہ ہے جس کی ساری عملی مشکلات ان تین اصولوں سے حل نہیں ہوجاتیں؟
آیت 198 میں فرمایا:
حقیقت یہ ہے کہ تجھے دیکھتے نہیں کیوں‌کہ اگر دیکھتے تو کبھی انکار نہ کرتے ۔ سو ایک دیکھنا سلمان فارسی کا تھا، جو پہلی ہی نگاہ میں پکار اُٹھا:
خدا کی قسم یہ صورت جھوٹے آدمی کی ہو نہیں سکتی۔
اور ایک دیکھنا ابو جہل کا تھا کہ (یہ کیسا نبی ہے کہ آدمیوں کی طرح غذا کا محتاج ہے اور بازاروں میں پھرتا ہے؟
(الفرقان:7)
ذات و صفات
خدا کی ہستی کا اعتقاد انسانی فطرت کے اندرونی تقاضوں کا جواب ہے۔ اُسے حیوانی سطح سے بلند ہونے اور انسانیت اعلیٰ تک پہنچنے کے لئے بلندی کے ایک نصب العین کی ضرورت ہے۔
اور اس نصب العین کی طلب بغیر کسی ایسے تصور کے پوری نہیں ہوسکتی جو کسی نہ کسی شکل میں اس کے سامنے آئے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ مطلق کا تصور سامنے آنہیں‌ سکتا (جب تک ) ایجابی صفتوں کے تشخ کا کوئی نہ کوئی نقاب چہرے پر نہ ڈال دے۔
(ترتیب باقی ہے۔جاری۔)
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
ذآت وصفات
(گزشتہ سے پیوستہ):
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے (صفات باری تعالیٰ میں) جو راہ اختیار کی وہ ایک طرف تو تنزیہ کو اس کے کمال کے درجے پر پہنچا دیتی ہے۔ (تنزیہ‘ سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک عقل بشری کی پہنچ ہے، صفات الٰہی کو مخلوقات کی مشابہت سے پاک و بلند رکھا جائے۔)
دوسری طرف “تعطیل“ سے بھی تصور کو بچالیتی ہے۔ (تعطیل“ کے معنی یہ ہیں کہ “تنزیہ“ کے منع و نفی کو اس حد تک پہنچا دیا جائے کہ فکر انسانی کے تصور کے لئے کوئی بات باقی نہ رہے قرآن کا تصور صفات تنزیہ کی تکمیل ہے، تعطیل کا آغاز نہیں۔ اسی طرح قرآن نے تشبیہ و تمثیل و تجسیم کا بھی خاتمہ کردیا۔)
وہ فردا فردا تمام صفات و افعال کا اثبات کرتا ہے مگر ساتھ ہی مشابہت کی قطعی نفی بھی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے خدا حسن و خوبی کی ان تمام صفتوں سے جو انسانی فکر میں آسکتی ہیں، متصف ہے۔ وہ زندہ ہے، قدرت والا ہے، رحمت والا ہے۔ لیکن اسی طرح صاف صاف اور بے لچک کہہ دیتا ہے کہ اس سے مشابہ کوئی چیز نہیں، جو تمہارے تصور میں آسکتی۔ وہ عدیم المثال ہے۔
درمانگیوں کا ایک ہی حل
غرض قرآن کے تصور الٰہی کا یہ پہلو فی الحقیقت اس راہ کی تمام درمانگیوں کا ایک ہی حل ہے اور ساری سرگردانیوں کے بعد باالآخر اسی منزل پر پہنچ کر دم لینا پڑتا ہے۔ یہاں ایک طرف بام حقیقت کی بلندیاور فکر کوتاہ کی نارسائیاں ہوئیں، دوسری طرف ہماری فطرت کا اضطراب طلب اور ہمارے دل کا تقاضا دید ہوا۔ بام اتنا بلند کہ نگاہ تصور تھک تھک کے رہ جاتی ہے تقاضائے دید اتنا سخت کہ بغیر کسی کا جلوہ سامنے لائے چین نہیں پاسکتا۔ اگر ‘تنزیہ‘ کی طرف زیادہ جھکتے ہیں تو ‘تعطیل‘ میں جاگرتے ہیں اگر اثبات صفات کی صورت آرائیوں میں دور نکل جاتے ہیں تو ‘تشبیہ‘ اور تجسیم‘ میں کھوئے جاتے ہیں۔ پس نجات کی راہ صرف یہی ہوئی کے درمیان قدم سنبھالے رہیں۔ ‘اثبات‘ کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، ‘تنزیہ‘ کی باگ بھی ڈھیلی نہ پڑنی پائے۔
محکمات ومتشابہات
قرآن نے مطالب کی دو بنیادی قسمیں قرار دیں۔ ایک کو ‘محکمات‘ سے تعبیر کیا دوسری کو ‘متشابہات‘ سے۔ محکمات سے وہ باتیں مقصود ہیں جو صاف صاف انسان کی سمجھ میں آجاتی ہیں اور اس کی عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اور اس لئے ایک سے زیادہ معانی کا دل میں احتمال نہیں۔ متشابہات وہ ہیں جن کی حقیقت وہ پا نہیں سکتا اور اس کے سوا چارہ نہیں کہ ایک خاص حد تک جاکر رک جائے اور بے نتیجہ باریک بینیاں نہ کرے۔
(ائے پیغمبر) وہی (حیئ وقیوم) ہے جس نے تم پر الکتاب نازل فرمائی ہے۔ اس میں ایک قسم تو محکم آیتوں کی ہے (یعنی ایسی آیتوں کی جو اپنے ایک ہی معنی میں اٹل اور ظاہر ہیں) اور وہ کتاب کی اصل وبنیاد ہیں۔ دوسری قسم متشابہات کی ہے (یعنی ان کا مطلب کھلا اور قطعی نہیں) تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے، وہ (محکم آیتیں چھوڑ کر) ان آیتوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو کتاب اللہ میں متشابہ ہیں، اس غرض سے کہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرلیں حالانکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر جو لوگ علم میں پکے ہیں کہتے ہیں ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیوں کہ یہ سب کچھ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔
(جاری)
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
محکمات و متشابہات
(گزشتہ سے پیوستہ): اور مصیبت یہ ہے کہ (تعلیم حق) سے دانائی حاصل نہیں‌کرتے مگر وہی جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں۔
متشابہات کی حقیقت کا ادراک عقل انسانی کی پہنچ سے باہر ہے۔ وہ خلاف عقل نہیں‌(بلکہ) ماورائے عقل ہیں۔ انسان ان پر یقین کرسکتا ہے، مگر ان کی حقیقت نہیں پاسکتا۔
وفائے عہد اور قرآن
عہد جاہلیت کے عرب وفائے عہد کی اخلاق قدر وقیمت سے بے خبر نہ تھے، اُن میں‌ایسے لوگ بھی تھے، جو اپنے اور اپنے قبیلے کے مفاخر میں سب سے زیادہ نمایاں جگہ وفائے عہد کو دیتے تھے، لیکن جہاں تک جماعتی معاہدوں کا تعلق ہے وفائے عہد کا عقیدہ کوئی عملی قدر و قیمت نہیں‌رکھتا تھا۔ آج ایک قبیلہ ایک قبیلے سے معاہدہ کرتا تھا، کل دیکھتا تھا کہ اُس کے مخالف زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں تو بے دریغ ان سے جاملتا تھا اور معاہدوحلیف پر حملہ کردیتا تھا۔ اگر کسی دشمن فریق سے (عہد جاہلیت کے عرب) امن کا معاہدہ کرتے، پھر دیکھتے کہ اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع پیدا ہوگیا ہے تو ایک لمحے کے لئے بھی معاہدے کا احترام انہیں حملہ کردینے سے نہیں‌روکتا تھا اور بے خبر دشمن پر جاگرتے تھے۔
قرآن راستبازی کی جو روح پیدا کرنا چاہتا تھا وہ ایک لمحے کے لئے بھی ایسی بد اخلاقی گوارا نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے وفائے عہد اور احترام پیمان کا جو معیار قائم کیا ہے وہ اس درجہ بلند، قطعی، بے لچک اور عالمگیر ہے کہ انسانی اعمال کا کوئی بھی گوشہ اس سے باہر نہیں رہ سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ فرد ہو یا جماعت، ذاتی معاملات ہوں یا سیاسی، عزیز ہوں یا اجنبی، ہم قوم و مذہب ہوں یا غیر ہم قوم و مذہب، دوست ہوں یا دشمن، امن کی حالت ہو یا جنگ کی، لیکن کسی بھی حال میں عہد شکنی جائز نہیں، وہ ہر حال میں جُرم ہے، معصیت ہے، اللہ کے ساتھ ایک بات کرکے اُسے توڑ دینا ہے۔ عذاب عظیم کا اپنے کو مستحق ثابت کرنا ہے۔
قرآنی ارشادات
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جابجا وفائے عہد پر زور دیا ہے اور جہاں کہیں مومنوں کے ایمانی فضائل کی تصویر کھینچی ہے یہ وصف سب سے زیادہ ابھرا ہوا نظر آتا ہے:
ترجمہ: اور جب قول و قرار کر لیتے ہیں‌تو اس کا پاس کرتے ہیں۔ نیز جن کی حالت یہ ہے کہ اپنی امانتوں اور عہدوں کا پاس رکھتے ہیں۔ (المومنون:8)۔
احادیث میں منافق کی پہچان بتلائی گئی ہے:
جب وعدہ کرے گا پورانہ کرے گا۔
سورۃ نحل آیت:92 میں فرمایا: تم آپس کے معاملے میں اپنی قسموں کو مکروفساد کا ذریعہ بناتے ہو، اس لئے کہ ایک گروہ کسی دوسرے گروہ سے (طاقت میں) بڑھ چڑھ گیا ہے (یاد رکھو) اس معاملے میں اللہ تمہاری (راست بازی اور استقامت) کی آزمائش کرتا ہے۔
پھر اس طرح کی بدعہدی کی مثال کیا ہے؟
فرمایا(ترجمہ): اس عورت کی سی ہے جس نے بڑی جانفشانی سے سوت کاتا، پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے برباد کردیا) یعنی جب ایک شخص یا ایک گروہ کوئی معاہدہ کرتا ہے تو اس کی پختگی کے لئے بڑی باتیں کرتا ہے۔ ہر طرح دوسرے فریق کو یقین دلاتا ہے۔ پھر اگر ایک بات اتنی کوشش کے بعد بختہ کی گئی ہے تو کیوں کر جائز ہوسکتا ہے کہ جس نے کل بختہ کی تھی وہی آج اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ کر رکھ دے!۔ (جاری)
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
رسول اکرم کی شان رافت و رحمت
سورۃ توبہ کی آخری 2 آیتوں میں عرب کی اس نسل سے خطاب ہے جو اس وقت مخاطب تھی۔ (تمھارے پاس اللہ کا رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے۔ تمہارا رنج وکلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہشمند ہے۔ وہ مومنوں کے لئے شفقت اور رحمت رکھنے والا ہے۔ اگر اس پر بھی یہ لوگ سرتابی کریں تو ان سے کہہ دو “میرے لئے اللہ کا سہارا بس کرتا ہے کوئی معبود نہیں مگر اس کی ذات۔ میں نے اُسی پر بھروسہ کیا وہ تمام عالم ہستی کی جہانداری کے عرش عظیم کا خداوند ہے۔) فرمایا: اللہ کا رسول تم میں آگیا۔ اُس نے اپنا فرض رسالت ادا کردیا۔ وہ کسی دوسری جگہ سے تم میں نہیں آنکلا تھا۔ سنت الٰہی کے مطابق خود تمہیں میں پیدا ہوا، اور چونکہ تمہیں میں سے ہے اس لئے اول سے آخر تک اُس کی ساری باتیں تمہاری نگاہوں کے سامنے رہی ہیں اس کا لڑکپن بھی تم میں گزرا۔ اُس کی جوانی کے دن بھی تم میں بسر ہوئے۔ پھر اُس نے نبوت کا اعلان کیا تو اُس نے تم سے کہیں چھپ کر زندگی بسر نہیں کی۔ اُس کی ساری باتیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ پھر جو کچھ گزرتا تھا، گزرا۔ تم نے مظلومی و بے کسی کے اعلان بھی سن لئے۔ فتح و کامرانی میں اُن کی تصدیق بھی کرلی۔ تم میں کوئی نہیں جو اُس کے بے داغ زندگی کا شاہد نہ ہوا اور کوئی نہیں جس نے اُس کی ایک ایک بات کی سچائی آزمانہ لی ہو۔
پھر (رسول) ایک ایسے وصف پر زور دیا، جو منصب رسالت کے لئے اور ہر اُس انسان کے لئے جو قوم کی رہنمائی وقیادت کا مقام رکھتا ہو، سب سے زیادہ ضروری ہے، یعنی ابنائے جنس کے لئے شفقت و رحمت۔ فرمایا: اس سے زیادہ کوئی بات تمہارے لئے یقینی نہیں ہوسکتی کہ وہ سرتا پا شفقت ورحمت ہے۔ وہ تمہارا دُکھ برداشت نہیں کرسکتا۔ تمہاری ہر تکلیف خواہ جسم کے لئے ہو خواہ روح کے لئے، اُس کے دل کا درد و غم بن جاتی ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کی خواہش سے لبریز ہے۔ وہ اُس کے لئے ایسا مضطرب قلب رکھتا ہے کہ اگر اس کی بن پڑتی تو ہدایت وسعادت کی ساری پاکیاں پہلے ہی دن گھونٹ بنا کر پلالیتا۔ پھر اُس کی یہ شفقت و محبت تمہارے ہی لئے نہیں وہ تو تمام موموں کے لئے خواہ عرب کے ہوں‌یا عجم کے “رؤف و رحیم“ ہے۔ “رؤف“ ‘رافت‘ سے ہے اور اس کا اطلاق ایسی رحمت پر ہوتا ہے جو کسی کی کمزوری اور مصیبت پر جوش میں آئے۔ پس رافت رحمت کی ایک خاص صورت ہے اور رحمت عام ہے۔ دونوں‌کے جمع کردینے سے رحمت کا مفہوم زیادہ قوت وتاثیر کے ساتھ واضح ہوگیا۔ خدا نے یہ دونوں وصف جابجا اپنے لئے فرمائے ہیں اور یہاں اپنے رسول کے لئے بھی فرمائے۔
پیام موعظت کی ضرورت
اس کے بعد مجمع مخاطبین یہ سب کچھ دیکھ لینے اور تجربہ کر لینے کے بعد بھی ادائے مفرض سے اعراض کرے تو ائے پیغمبر! تم آخری اعلان کردو کہ میرے لئے اللہ بس کرتا تھا اور اب بھی بس کرتا ہے۔ وہ اپنے کلمہ حق کا محافظ ہے اور اس کی مشیت نے جو فیصلہ کردیا ہے بہر حال ہوکر رہنے والا ہے۔
اُس کا قیام وعروج کسی خاص ملک اور قوم کی پشت پناہی پر موقف نہیں۔ میرا بھروسہ اللہ ہی پر تھا، اُسی پر ہے، میں اپنے فرض سے سبکوش ہوگیا۔ یہ پیام موعظت یہاں کیوں ضروری ہوا؟
اس کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے دو باتیں سامنے رکھ لی جائیں۔ (جاری)
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
پیام موعظت کی ضرورت
(گزشتہ سے پیوستہ) سورت (یعنی سورۃ توبہ) کے نزول کا وقت اور سورت کے مطالب۔ یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب تمام عرب میں کلمہ حق سربلند ہوچکا تھا اور گو قرآن کی عالمگیر فیروز مندیوں کی خبر دے دی تھی، تاہم اُن لوگوں کے لئے جو کل تک غربت وبے کسی کی اتنہائی مصیبتوں میں رہ چکے تھے۔ تمام عرب کا مسلمان ہوجانا بڑی سے بڑی کامرانی تھی اور اس لئے ناگزیر تھا کہ ایک طرح کی فارغ البالی اور بے پروائی طبیعتوں میں پیدا ہوجائے۔ غزوۃ تبوک کی تیاریوں میں بعض سے جو تساہل ہوا، اس کی تہ میں بھی اس حالت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت میں اس تفصیل اور شدت کے ساتھ استعدادِ کار اور عزم و ہمت کی تلقین کی گئی ہے کہ اس کی نظیر کسی دوسری صورت میں نہیں ملتی۔
تاریخ انسانیت کے نوادر
کوئی شخص کتنے ہی مخالفانہ ارادے سے مطالبہ کرے، لیکن تاریخِ اسلام کے چند واقعات اس درجہ واضح اور قطعی ہیں‌کہ ممکن نہیں اُن سے انکار کیا جاسکے۔ ازاں جملہ یہ کہ جو جماعتیں پیغمبر اسلام کی مخالف تھیں، اُن کے تمام کام اول سے آخر تک ظلم و تشدد، دغا و فریب اور وحشت و تشدد پر مبنی رہے اور پیغمبر اسلام اور اُن کے ساتھیں نے جو کچھ کیا اُس کا ایک ایک فعل، صبر وتحمل، راستی ودیانت اور عفو و بخشش کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ تھا۔
1۔ مظلومی میں صبر، 2۔ مقابلہ میں عزم،
3۔ معاملے میں راست بازی،
4۔ طاقت واختیار میں درگزر۔
تاریخ انسانیت کے وہ نوارد ہیں، جو کسی ایک زندگی کے اندر اس طرح کبھی جمع نہیں ہوئے (جس طرح رسول کی ذات بابرکات کے اندر جمع ہوئے اور پورا عہد مبارک نبوت اُن نوادر کی درخشانیوں سے جگمگا رہا ہے۔ گویا سیرۃ طیبہ کا نچوڑ یہی ہے جو حقیقت میں انسانیت عالیہ و عظمیٰ کی سدرۃ المنتہیٰ ہے)
“نذیر“و“بشیر“
انسان کی ایک عالمگیر گمراہی یہ رہی ہے کہ جب کوئی انسان روحانی عظمت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو چاہتے ہیں کہ اُسے انسانیت و بندگی کی سطح سے بلند کرکے دیکھیں، لیکن قرآن نے پیغمبر اسلام کی حیثیت صاف اور قطعی لفظوں میں واضح کردی کہ ہمیشہ کے لئے اُس گمراہی کا ازالہ ہوگیا۔ صرف یہی ایک بات اُن کی صداقت کے اثبات کے لئے کفایت کرتی ہے۔
جو دنیا پیشواؤں کو خدا اور خدا کا بیٹا بنانے کی خواہشمند تھی، اسلام کے پیغمبر نے اُس سے اتنا بھی نہ چاہا کہ کاہنوں کی طرح مجھے غیب دان تسلیم کرلو۔ زیادہ سے زیدہ اپنی نسبت جو بات سنائی، یہ تھی کہ میں انکار وبد عملی کے نتائج سے خبر کردینے والا (نذیر) اور ایمان و نیک عملی کی برکتوں کی بشارت دینے والا (بشیر) ایک بندہ ہوں، اگر غیب داں ہوتا تو زندگی کا کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا۔
کیا ایسے انسان کی زبان سے سچائی کے سوا کوئی بات نکل سکتی ہے؟
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
سورۃ فاتحہ کی تعلیمی روح
سورۃ فاتحہ “ام القرآن“ ہے “الکافیہ“ ہے “اساس القرآن“ ہے ‘السبع المثانی‘ ہے۔ قرآن کی تمام سورتوں میں دین حق کے جو مقاصد بہ تفصیل بیان کئے گئے ہیں۔ سورۃ فاتحہ میں انہی کا بہ شکل اجمال بیان موجود ہے۔ اُس کا پیرا یہ دعائیہ ہے اور اُسے روزانہ عبادت (نماز پنجگانہ) کا ایک لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ ذرا اُس کی تعلیمی روح کا اندازہ فرمائیے۔
1۔ وہ خدا کی حمد وثنا میں زمزمہ سنج ہے، لیکن اُس خدا کی حمد میں نہیں جو نسلوں، قوموں اور مذہبوں کی گروہ بندیوں کا خدا ہے، بلکہ “رب العالمین“ کی حمد میں جو کائنات خلقت کا پروردگار ہے اور تمام نوع انسانی کے لئے یکساں طور پر پروردگاری ورحمت رکھتا ہے۔
2۔ پھر وہ اُسے (خدا کو) اُس کی صفتوں کے ساتھ پکارنا چاہتا ہے لیکن اُس کی تمام صفتوں‌ میں سے صرف ‘رحمت‘و‘عدالت‘ ہی کی صفتیں اُسے (حمد و ثنا کرنے والے کو) یاد آتی ہیں۔
گویا خدا کی ہستی کی نمود اُس کے لئے سر تا سر رحمت و عدالت کی نمود ہے۔
3۔ وہ اپنا سر نیاز جھکا تا اور اُس کی عبودیت کا اقرار کرتا ہے۔ کہتا ہے صرف تیری ہی ایک ذات ہے جس کے آگے بندگی ونیاز کا سر جھک سکتا ہے اور صرف تو ہی ہے جو ہماری ساری درمانگیوں اور احتیاجوں‌ میں مدد گاری کا سہارا ہے وہ اپنی عبادت اور استعانت دونوں کو صرف ایک ہی ذات کے ساتھ وابستہ کردیتا ہے۔ دنیا کی ساری قوتوں اور ہر طرح کی انسانی فرمانروائیوں سے بے پروا ہوجاتا ہے۔
4۔ پھر وہ خدا سے سیدھی راہ چلنے کی توفیق طلب کرتا ہے۔ یہی ایک مدعا ہے جس سے زبان احتیاج آشنا ہوئی لیکن کون سی سیدھی راہ؟ کسی خاص نسل، خاص قوم یا خاص مذہبی حلقے کی سیدھی راہ؟ نہیں وہ راہ جو دنیا کے تمام مذہبی رہنماؤں اور تمام راستباز انسانوں کی متفقہ راہ ہے۔
5۔ اسی طرح وہ محرومی اور گمراہی کی راہوں سے پناہ مانگتا ہے۔ یہاں بھی ان راہوں سے بچنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمام محروم اور گمراہ انسانوں کی راہیں رہ چکی ہیں۔
6۔ گویا جس بات کا طلبگار ہے وہ بھی نوع انسانی کی عالمگیر اچھائی ہے اور جس بات سے پناہ مانگتا ہے، وہ بھی نوع انسانی کی عالمگیر برائی ہے۔ نسل، قوم ملک یا مذہبی گرو بندی کے تفرقہ و امتیاز کی کوئی پرچائیں اُس کے دل و دماغ پر نظر نہیں آتی۔
غور کرو مذہبی تصور کی یہ نوعیت انسان کے ذہن و عواطف کے لئے کس طرح کا سانچا مہیا کرتی ہے! جس انسان کا دل و دماغ ایسے سانچے میں ڈھل کر نکلے گا وہ کس قسم کا انسان ہوگا! کم از کم دوباتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے، اول اُس کی خدا پرستی خدا کی عالمگیر رحمت وجمال کے تصور کی خدا پرستی ہوگی۔ دوسری یہ کہ کسی معنی میں بھی وہ نسل، قوم یا گروہ بندیوں کا انسان نہ ہوگا۔ عالمگیر انسانیت کا انسان ہوگا۔ دعوت قرآنی کی اصل روح یہی ہے۔
 
Top