محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
کافرکون...؟
مصنف/مقرر/مولف : الشیخ محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ
کافرکون...؟
مصنف/مقرر/مولف : الشیخ محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ
مقدمہ
آج کل ایک دوسرے کو کافر کہنے کا رواج عام ہوتا چلا جار ہا ہے ۔ اور کیوں نہ ہو ، اس میں تو لطف ہی بہت آتا ہے ۔کیونکہ ابلیس نے اس کام کو مسلمانوں کے لیے بڑا خوشنما بنا کر پیش کیا ہے ۔ ویسے تو ہر گناہ والا ہر کام ہی پر لطف ہوتا ہے ، گوکہ آخرت میں اسکا انجام بہت برا نکلتا ہے ، لیکن گناہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے ویسے ہی اس کی لذت میں اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے ۔ اور چونکہ کسی مسلمان کو کافر قرار دے دینا گناہوں میں سے بہت بڑا گناہ ہے اسی لیے اس گُناہ ِ پُرلذت کے مرتکب بہت ہی محظوظ ہوتے ہیں۔
ویسے اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو کسی کلمہ پڑھنے والے اور ارکان اسلام وایمان پر عمل کرنے والے شخص کو کافر قرار دینا بسا اوقات دینی وشرعی ضرورت بن جاتی ہے ۔ اور اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائے ، اسکے ظاہری اعمال مسلمانوں والے ہوں لیکن پھر اسکے بعد وہ کوئی ایسا عمل کرے جو کسی مسلمان کو مرتد بنادیتا ہے تو اہل علم مکمل تحقیق وتفتیش کے بعد اسکے کافر ہونے کا اعلان کردیں اور مسلمان حاکم اس مرتد کو قتل کر دے تاکہ یہ گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ نہ کردے ۔
اور ماضی میں اس شرعی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اسلام دشمنوں کو کافر قرار دیا گیا ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر کفر کی ترویج شروع کر دی تھی ۔ ماضی قریب میں مرزا غلام احمد قادیانی اس بات کی بہترین مثال ہے ۔ کہ مولانا محمد حسین بٹالوی a نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد اسکے کافر ہونے کا فتوى دیا ، پھر انکے بعد برصغیر کے دیگر علماء کرام نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کردار کو پرکھ کر اس پر کفر کا فتوى لگایا ۔ اور یہ عین اسلام ضروریات میں ہے ، کہ ایسے ظالم شخص پر کفر کا فتوى لگا کر عوام الناس کے سامنے اسکا کفر واضح کیا جائے ۔
لیکن بہر حال جیسا کہ مثل مشہور ہے "جسکا کام اسی کو ساجے ... اور کرے تو ٹھینگا باجے" یہ کام ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا نہیں ہے کہ ہر گاما، ما جا ، شِیدا جو چاہے اٹھے اور کفر کفر کی توپ چلانا شروع کر دے ۔ یہ نہایت حساس معاملہ ہے اور صرف یہ نہیں کہ عوام الناس یہ کام نہیں کر سکتے بلکہ یہ تو چھوٹے موٹے مولویوں کا کام بھی نہیں ہے ۔یہ ایسے کبار علماء کافریضہ ہے جو راسخ فی العلم یعنی علم میں پختہ ہوں ، اور علماء بھی عوام الناس میں عالم دین مشہور ہونے کے باوجود ان کی طرف رجوع کرتے ہوں ، ان سے سیکھتے ہوں ، اور مسائل کا حل دریافت کرتے ہوں ، ایسے ہی لوگوں کو عرف عام میں استاذ العلماء (یعنی علماء کا استاد) یا استاذ الاساتذہ (یعنی استادوں کا استاد)کہا جاتا ہے ۔ الغرض یہ فریضہ جتنا بڑا ، اور معاملہ جتنا حساس ہے ، اسے سرانجام دینے کے لیے بھی اتنے بڑے علم وفضل کے حاملین اور حکمت ودانائی کے پیکر درکار ہیں ۔
اور یہ صرف اسی مسئلہ کی بات نہیں ہے بلکہ دنیا کا ہر کام اسی اصول پر ہی چلتا ہے۔ کسی بھی ملک کی عوام اقتدار کسی مجنون اور دیوانے کے سپرد نہیں کرتی ، بلکہ کسی صاحب علم ودانش کو اپنا حاکم بناتی ہے ۔ کیونکہ نظام حکومت کو چلانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ایسے ہی تقریبا ہر معاملہ میں لیڈر اور رہنما صرف اسے ہی تسلیم کیا جاتا ہے جس میں قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہوں ۔ وگرنہ وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے جو اپنی سیادت وقیادت کسی نا اہل شخص کے سپرد کردے ۔ اور ایک عرب شاعر نے تو کیا خوب کہا ہے :
إذا کان الغراب دِلِّیل قوم ؛ سیہدیہم طریق الہالکین
یعنی جب کسی قوم کا راہنما کوا بن جائے ، تو وہ انہیں ہلاکت کی راہوں پر ہی گامزن کرے گا ۔
یعنی جب کسی قوم کا راہنما کوا بن جائے ، تو وہ انہیں ہلاکت کی راہوں پر ہی گامزن کرے گا ۔
الغرض "لِکلِّ فنٍ رِجالٌ" یعنی ہر فن کے لیے کوئی نہ کوئی ماہرین ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی مسئلہ تکفیر کے لیے بھی ماہرین ِ فن کی ضرورت ہے ، وگرنہ جیسے قوم کو اگر عطائی حکیموں اور ڈاکٹروں کے پلے ڈال دیا جائے تو پھر قبرستان ہی آباد ہوتےہیں ، ویسے ہی اگر مسئلہ تکفیر کو بھی جاہل وکج فہم فتوى بازوں کے سپرد کر دیا جائے تو وہ ساری قوم کو ہی کافر بنا بیٹھتے ہیں ۔ لہذا یہ مسئلہ انہی لوگوں کے سپرد کرنا ضروری ہے جو اسے اسکے اہل ہیں ۔
شریعت اسلامیہ نے بہت سے کاموں کو کفریہ کام قرار دیا ہوا ہے ، لیکن اسکے باوجود دین اسلام کسی خاص آدمی کی طرف اشارہ کرکے یا اسکا نام لے کر اسے کافر قرار دینے سے منع کرتا ہے ، الا کہ اس میں کچھ شرائط پوری ہو جائیں اور اسکے معاملہ کی مکمل طور پر تحقیق کر لی جائے ۔ اس مختصر سے رسالہ میں ہم ان چند قوانین کا ذکر کریں گے کہ جن پر عمل درآمد کرنا اسلام نے کسی بھی شخص کو کافر کہنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے ۔ جو شخص ان اصولوں کو مد نظر رکھے بغیر کافر کافر کی گردان کرتا ہے ، اسے تکفیری کہا جاتا ہے ۔
آج کل بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کوئی زنا کرے تو زانی , شراب پیئے تو شرابی , چور ی کرے تو چور , تو پھر جو کفر کرتا ہے وہ کافر اور جو شرک کرتا ہے وہ مشرک کیوں نہیں ؟ کفر کے مرتکب کو کافر اور شرک کے مرتکب کو مشرک کہنے والوں کو کیوں تکفیری کہا جاتا ہے ۔
اسکا جواب سیدھا سا ہے کہ زنا کرنے والے کو زانی کہنے کا بھی اصول ہے کہ اسے واضح زنا کرتے ہوئے کم از کم چار افراد اپنی آنکھوں سے دیکھیں , اور وہ چاروں عادل ہوں , اور محض شک نہ ہو بلکہ مرد کا آلہ تناسل عورت کی شرمگاہ میں ایسے داخل ہوتا دیکھیں جیسے سرمچو سرمہ دانی میں داخل ہوتا ہے ۔ تو تب انکی گواہی کو قبول کرکے زنا کرنے والے کو زانی قرار دیا جائے گا ۔ یا زانی خود اعتراف کر لے کہ میں نے زنا کیا ہے , تو بھی اسے زانی قرار دے کر اسکی سزا دی جائے گی ۔ اور اگر ان شرطوں میں سے ایک بھی شرط پوری نہ ہو تو کسی کو زانی کہنے والے کو تہمت کی سزا کے طور پر 80 کوڑے مارے جائیں گے ۔ اسی طرح کسی کو چور قرار دینے کا بھی ضابطہ اور اصول ہے کہ اس پر بھی گواہ موجود ہوں , یا اعتراف ہو ۔ اور اسی طرح باقی تمام تر شرعی احکامات میں اصول وضوابط مقرر شدہ ہیں ۔
بالکل اسی طرح جب کوئی شخص کفر یا شرک کا ا رتکاب کرتا ہے تو اسے بھی کافر یا مشرک قرار دینے کا شریعت نے ایک ضابطہ مقرر کیا ہے ۔ اور جو اسکا لحاظ کیے بغیر کسی کو کافر یا مشرک کہے گا تو اسے بھی "تکفیری" ہی کہا جائے گا !
اور وہ ضابطہ ہم نے اس رسالہ میں بیان کر دیا ہے ۔ اسے ضوابط تکفیر یا موانع تکفیر یا شروط تکفیر کہا جاتا ہے ۔ ان قوانین کا لحاظ رکھ کر اگر کسی کی تکفیر کی جاتی ہے تو امت نے کبھی اسے رد نہیں کیا , اور نہ ہی ایسا کرنے والے کو کسی نے آج تک تکفیری قررا دیا ہے ۔
یاد رہے کہ اس رسالہ سے یہ ہر گز مقصود نہیں ہے کہ اسے پڑھ کر ہر شخص لوگوں کو کافر بنانے کی مشق شروع کر دے ، بلکہ مقصود صرف اور صرف اس معاملہ کے بارہ میں وضاحت کرنا ہے کہ یہ کام کن کن مراحل سے گزرنے کے بعد سر انجام دیا جاتا ہے ۔ تاکہ ذی شعور لوگ اسے پڑھتے ہی فورا سمجھ جائیں کہ یہ کام انکی دسترس سے بالا تر ہے ۔ اور اسے ان لوگوں کے ہی سپرد کریں جو یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں ۔
محمد رفیق طاہر
۲۴ شعبان ۱۴۳۴ھ