• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کافر شخص کی طرف سے سلام کا جواب تین قسموں میں منقسم ہے :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کافر شخص کی طرف سے سلام کا جواب تین قسموں میں منقسم ہے :

سوال:

جب کوئی کافر کسی مسلمان کو سلام کرے تو کیا وہ اسکا جواب دے؟ اور اگر کافر مصافحہ کیلئے ہاتھ بھی بڑھا ئے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور اسی طرح کافر کو چائے وغیرہ پیش کرنے کا کیا حکم ہے اس حال میں کہ وہ کرسی پر بیٹھا ہو؟


الحمد للہ:

اس سوال کے جواب میں شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر کوئی کافر واضح الفاظ میں سلام کہتے ہوئے کہے: "السلام علیکم" تو اس کے جواب میں آپ کہیں: "وعلیکم السلام" اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}

ترجمہ: جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو [النساء : 86]

اور اگر سلام کے الفاظ بالکل واضح نہ ہوں تو آپ اس کے جواب میں کہیں گے: "وعلیکم" اسی طرح اگر کافر کے سلام کے الفاظ واضح طور پر "السام علیکم" یعنی تم پر موت ہو، تو تب بھی اس کے جواب میں کہا جائے گا: "وعلیکم"

لہذا سلام کے جواب کی تین اقسام ہیں:

1- واضح لفظوں میں وہ کہے: "السام علیکم " تو جواب "وعلیکم" کیساتھ دیا جائے گا۔

2- اگر ہمیں سلام کے الفاظ میں شک ہو کہ "السلام" کہا ہے یا "السام" تو تب بھی جواب "وعلیکم" کے ساتھ ہی دیا جائے گا۔

3- بالکل واضح لفظوں میں کہے: "السلام علیکم" تو جواب دیا جائے گا: "وعلیکم السلام" اسکی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}

ترجمہ: جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو [النساء : 86]

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر سننے والے نے سلام کے مکمل الفاظ واضح سنے ہیں، اور اسے سلام کے الفاظ کی بابت کوئی شک بھی نہیں ہے؛ تو کیا وہ جواب میں "وعلیکم السلام" کہے یا پھر "وعلیکم" پر ہی اکتفاء کرے؟

اس بارے میں شرعی قواعد و دلائل اس بات کا تقاضا کرے ہیں کہ "وعلیکم السلام" ہی کہا جائے، کیونکہ عدل کا یہی تقاضا ہے، اور ہمیں اللہ تعالی عدل و احسان کا حکم دیتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}

ترجمہ: جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو [النساء : 86]

چنانچہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے سلام کا بہتر جواب دینے کی ترغیب دلائی ہے، جبکہ سلام کا مساوی جواب دینا واجب قرار دیا، نیز یہ عمل سلام کے متعلق وارد شدہ کسی بھی حدیث کے کسی بھی اعتبار سے متصادم نہیں ہوگا، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کے سلام کا جواب دینے والے کیلئے صرف "وعلیکم" پر اکتفاء کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ کفار کا سلام کرنے کا مقصد ہی غلط ہوتا تھا۔

اس کے بعد ابن قیم رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:

"اصل اعتبار اگرچہ الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے، تاہم عموم اسی جگہ ملحوظ رکھا جائے گا جہاں مذکورہ صورت پوری طرح منطبق ہوگی، لہذا جس جگہ پر مذکورہ صورت پوری طرح منطبق نہ ہو تو وہاں عموم مراد نہیں لیا جائے گا، ان کے سلام کے سبب کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ}

ترجمہ: اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ایسے طریقے سے سلام کہتے ہیں جس طرح اللہ نے آپ کو سلام نہیں کہا، اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ "جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا" [المجادلہ : 8]

چنانچہ اگر سلام سے روک دئیے جانے کا مذکورہ سبب نہ پایا جائے، اور اہل کتاب میں سے کوئی شخص یہ کہے: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ " تو سلام کا جواب دیتے ہوئے عدل یہی ہے کہ انہی الفاظ میں سلام کا جواب دیا جائے" انتہی

"احکام اہل الذمہ" (200 /1)

صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جب تمہیں یہودی سلام کریں تو وہ "السام علیکم" کہتے ہیں، تو تم جواب میں کہو: "وعلیکم" اور "السام" موت کو کہتے ہیں)

اور اگر کافر شخص مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھائے تو آپ بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھا سکتے ہیں لیکن ابتدا نہ کریں۔

جبکہ کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کو چائے پیش کر کے خدمت کرنا مکروہ عمل ہے، اس سے بچنے کیلئے چائے کا کپ میز پر رکھ دیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی

واللہ اعلم.

مجموع فتاوى ابن عثیمین رحمہ الله (36/3)

http://islamqa.info/ur/43154
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کافر شخص کی طرف سے سلام کا جواب تین قسموں میں منقسم ہے :

سوال:

جب کوئی کافر کسی مسلمان کو سلام کرے تو کیا وہ اسکا جواب دے؟ اور اگر کافر مصافحہ کیلئے ہاتھ بھی بڑھا ئے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور اسی طرح کافر کو چائے وغیرہ پیش کرنے کا کیا حکم ہے اس حال میں کہ وہ کرسی پر بیٹھا ہو؟


الحمد للہ:

اس سوال کے جواب میں شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر کوئی کافر واضح الفاظ میں سلام کہتے ہوئے کہے: "السلام علیکم" تو اس کے جواب میں آپ کہیں: "وعلیکم السلام" اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}

ترجمہ: جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو [النساء : 86]

اور اگر سلام کے الفاظ بالکل واضح نہ ہوں تو آپ اس کے جواب میں کہیں گے: "وعلیکم" اسی طرح اگر کافر کے سلام کے الفاظ واضح طور پر "السام علیکم" یعنی تم پر موت ہو، تو تب بھی اس کے جواب میں کہا جائے گا: "وعلیکم"

لہذا سلام کے جواب کی تین اقسام ہیں:

1- واضح لفظوں میں وہ کہے: "السام علیکم " تو جواب "وعلیکم" کیساتھ دیا جائے گا۔

2- اگر ہمیں سلام کے الفاظ میں شک ہو کہ "السلام" کہا ہے یا "السام" تو تب بھی جواب "وعلیکم" کے ساتھ ہی دیا جائے گا۔

3- بالکل واضح لفظوں میں کہے: "السلام علیکم" تو جواب دیا جائے گا: "وعلیکم السلام" اسکی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}

ترجمہ: جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو [النساء : 86]

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر سننے والے نے سلام کے مکمل الفاظ واضح سنے ہیں، اور اسے سلام کے الفاظ کی بابت کوئی شک بھی نہیں ہے؛ تو کیا وہ جواب میں "وعلیکم السلام" کہے یا پھر "وعلیکم" پر ہی اکتفاء کرے؟

اس بارے میں شرعی قواعد و دلائل اس بات کا تقاضا کرے ہیں کہ "وعلیکم السلام" ہی کہا جائے، کیونکہ عدل کا یہی تقاضا ہے، اور ہمیں اللہ تعالی عدل و احسان کا حکم دیتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}

ترجمہ: جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو [النساء : 86]

چنانچہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے سلام کا بہتر جواب دینے کی ترغیب دلائی ہے، جبکہ سلام کا مساوی جواب دینا واجب قرار دیا، نیز یہ عمل سلام کے متعلق وارد شدہ کسی بھی حدیث کے کسی بھی اعتبار سے متصادم نہیں ہوگا، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کے سلام کا جواب دینے والے کیلئے صرف "وعلیکم" پر اکتفاء کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ کفار کا سلام کرنے کا مقصد ہی غلط ہوتا تھا۔

اس کے بعد ابن قیم رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:

"اصل اعتبار اگرچہ الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے، تاہم عموم اسی جگہ ملحوظ رکھا جائے گا جہاں مذکورہ صورت پوری طرح منطبق ہوگی، لہذا جس جگہ پر مذکورہ صورت پوری طرح منطبق نہ ہو تو وہاں عموم مراد نہیں لیا جائے گا، ان کے سلام کے سبب کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ}

ترجمہ: اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ایسے طریقے سے سلام کہتے ہیں جس طرح اللہ نے آپ کو سلام نہیں کہا، اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ "جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا" [المجادلہ : 8]

چنانچہ اگر سلام سے روک دئیے جانے کا مذکورہ سبب نہ پایا جائے، اور اہل کتاب میں سے کوئی شخص یہ کہے: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ " تو سلام کا جواب دیتے ہوئے عدل یہی ہے کہ انہی الفاظ میں سلام کا جواب دیا جائے" انتہی

"احکام اہل الذمہ" (200 /1)

صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جب تمہیں یہودی سلام کریں تو وہ "السام علیکم" کہتے ہیں، تو تم جواب میں کہو: "وعلیکم" اور "السام" موت کو کہتے ہیں)

اور اگر کافر شخص مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھائے تو آپ بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھا سکتے ہیں لیکن ابتدا نہ کریں۔

جبکہ کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کو چائے پیش کر کے خدمت کرنا مکروہ عمل ہے، اس سے بچنے کیلئے چائے کا کپ میز پر رکھ دیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی

واللہ اعلم.

مجموع فتاوى ابن عثیمین رحمہ الله (36/3)
بدعت کبریٰ والے بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے۔
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا فلاں آدمی آپ کو سلام کہتا ہے تو انہوں نے فرمایا مجھے پتا چلا ہے کہ وہ بدعتی ہو گیا ہے پس اگر وہ بدعتی ہو گیا ہے تو اسے میرا سلام نہ کہنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے میری امت میں خسف(زمین میں دھنس جانا)یا مسخ (شکلوں کا مسخ ہونا)یا قذف(پتھروں کا برسنا)ہو گا اور یہ سب باتیں قدریہ کے بارے میں ہوں گی۔ (ترمذی (۲۱۵۲)ابن ماجہ ۴۰۶۱)
امام احمد رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا میرا ہمسایہ رافضی ہے، کیا میں اسے سلام کہہ سکتا ہوں ؟آپ نے فرمایا :نہیں ،اگر وہ سلام کہے اسے جواب نہ دیا جائے ۔‘‘ (السنۃ للخلال:ج۱:ص:۴۹۴)
http://islamqa.info/ur/43154
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم طلحہ بھائی!
آپ سے اقتباس اور جواب باہم مل گئے ہیں. آپ کا مراسلہ علیحدہ کر دیا ہے


بدعت کبریٰ والے بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے۔
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا فلاں آدمی آپ کو سلام کہتا ہے تو انہوں نے فرمایا مجھے پتا چلا ہے کہ وہ بدعتی ہو گیا ہے پس اگر وہ بدعتی ہو گیا ہے تو اسے میرا سلام نہ کہنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے میری امت میں خسف(زمین میں دھنس جانا)یا مسخ (شکلوں کا مسخ ہونا)یا قذف(پتھروں کا برسنا)ہو گا اور یہ سب باتیں قدریہ کے بارے میں ہوں گی۔ (ترمذی (۲۱۵۲)ابن ماجہ ۴۰۶۱)
امام احمد رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا میرا ہمسایہ رافضی ہے، کیا میں اسے سلام کہہ سکتا ہوں ؟آپ نے فرمایا :نہیں ،اگر وہ سلام کہے اسے جواب نہ دیا جائے ۔‘‘ (السنۃ للخلال:ج۱:ص:۴۹۴)
 
Top