- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
’ حقوق محفوظ ہیں ‘ اور ’ پی ڈی ایف کتب کی تیاری ‘ پر ایک مختصر مباحثہ
علما کے ایک گروپ میں اس مسئلہ پر مختصر تبادلہ خیال ہوا ، اہم اہم میسیجز یہاں نقل کرتا ہوں ، بحت کی ابتدا یہاں سے ہوئی :
علمائے امت و فقیہان ملت ایک سوال هے !
پبلشر یا اہل کتاب کی اجازت کے بغیر کتاب کی پی ڈی ایف تیار کرنا اور اس کو اپ لوڈ کرنا جائز هے؟
عمر فاروق قدوسی صاحب
اس سوال کے جواب میں کچھ اہل علم نے ’ ناجائز ‘ کا فتوی دیا بلکہ کہا کہ یہ ’ اخلاقی و قانونی جرم ‘ ہے ، جس پر ہشام الہی ظہیر صاحب نے لکھا :
’ یہ تو چلو زندہ مصنفین یا زندہ وارثین کی حد تک ہو گیا جو کتب اب امت کا سرمایہ ہیں ایک مکتبہ چھاپے تو کیا صرف وہی حق رکھتا؟ میری رائے میں کتاب کی پی ڈی ایف بنانا درست ہے زندہ والوں کے لیے بھی کیوں کہ اس سے کتاب کی اشاعت میں رتی برابر فرق نہیں آتا بلکہ شاید اضافہ ہوتا پی ڈی ایف اور کتب کے قارئین فرق ہیں۔ ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی صاحب کتاب کتاب خریدنے والے کو فوٹو کاپی کروانے یا مستعار دینے پر پابندی لگائے۔
ہر کتاب کا پی ڈی ایف میں ہونا اب ضروری ہے ،
جس پر عمر قدوسی صاحب نے کہا کہ پی ڈی ایف بن جانے سے اشاعت میں فرق آتا ہے ، جس پر ہشام صاحب دوبارہ گویا ہوئے :
’ اشاعت بڑھتی ہوگی ، کتاب کے قارئین پی ڈی ایف سے حظ نہیں اٹھاتے میرا تو مشاہدہ ہے ، بعض کتب میں نے خریدی ہی پی ڈی ایف پر سرسری مطالعہ کر کے ہیں ۔
پی ڈی ایف تو بعض اوقات نیکی کا کام لگتا جب میں مدارس کے ان طلباء کو دیکھتا ہوں جن میں کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں ہوتی ہے اب سینکڑوں کتابیں موبائل میں لیے پھرتے ہیں۔‘
قدوسی صاحب کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایف دیکھ کر لوگ کتاب خریدتے ہوں ، ایسے بهی ہوتا هے لیکن ایسے کسٹمر نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن مدنی صاحب کا کہنا تھا :
’ شرع میں کتمان علم ناجائز ہے ،کاروبار کی بجائے اشاعت دین کی غرض سے دینی کتب کی اشاعت کے لئے پی ڈی ایف جائز ہے۔
یہی فتوی ہے سعودی عالم ربانی شیخ ابن عثیمین رح اور شیخ ابن باز رحمہم اللہ کا۔
دراصل دینی لٹریچر کے اصل حقوق الطبع اللہ ورسولہ کے نام ہیں جن پر کچھ کام کرکے اس دینی علم کو مادی مقاصد کے لئے محدود کرلینا جائز نہیں۔ ائمہ محدثین وعلما نے یہ کتب خالصتا فروغ علم دین کے لئے لکھیں اور ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ ہے۔
تاہم ناشران کتب کی شائع کردہ کتب کی پی ڈی ایف مادی مقاصد کے لئے بنانا ناجائز ہے۔
فتوی کا متن برادر مکرم حافظ حمزہ مدنی حفظہ اللہ ارسال فرما دیں۔ جزاك الله خيراً ۔‘
ڈاکٹر حمزہ مدنی صاحب نے مزید فرمایا :
’ گزشتہ 14 صدیوں کے علماء وآئمہ کی رقم کردہ تمام دینی وتحریری کاوشوں کے حقوق کس کے پاس محفوظ ھیں؟
یہ حقوق طبع کا نظریہ اصلا اھل مغرب کا عطا کردہ ھے جنہوں نے خود مسلمانوں کے سارے علمی ورثہ اور ایجادات کو مفت کا مال سمجھ کر پہلے ھتھیا لیا اور پھر ان کے حقوق کے مالک بن بیٹھے جبکہ مسلمان علم کے فروغ دینے کے علمبردار ھیں اور اسے الہی مقدس امانت سمجھتے ھیں جو کسی کی جاگیر وجائیداد قطعا نہیں ۔
المختصر اشاعت دین کیلیے پی ڈی ایف ودیگر کام جائز، لیکن مادی منفعت کیلیے پی ڈی ایف بنانا اس کا مادی استعمال ناجائز ھے
شیخ بن باز وابن العثیمین رحمہما اللہ کے یہی فتاوے ھیں جن کی عربی نص ارسال کرتا ھوں، ان شاء اللہ ‘
اس کے بعد انہوں نے ’ حقوق محفوظ ہیں ؟ ‘ کے عنوان سے ایک تحریر بھیجی ، اور اسی طرح حقوق الاختراع و التالیف نامی ایک کتاب کے چند اوراق ارسال کیے ، جن میں شیخ ابن باز اور ابن عثیمین وغیرہم کے فتاوی موجود تھے ۔
حمزہ مدنی صاحب کی رائے سے قدوسی صاحب نے عدم اتفاق کا اظہار کیا ، جبکہ گروپ کے ایک رکن سلمان صاحب حقوق تالیف ایک مغربی قانون کے تناظر میں کہا :
’ دو پہلو اور بھی زیر غور ہیں. ایک تو انتظامی یا ملکی قوانین کی خلاف ورزی جائز نہیں. دوسرا اگر جنیوا کنونشن یعنی غلاموں والے معاملہ کی پاسداری ہو سکتی ہے تو اس بین الاقوامی قانون کی پاسداری پر بھی سوچنا چاہیے ‘
شاید یہ کہنا چاہتے ہیں ، یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ اور اصول ہے ، جس طرح اور بہت سارے قوانین کی پابندی کرتے ہیں ، کتب کے حقوق کے متعلق بھی ان کا التزام کرنا چاہیے ۔
لیکن ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے کہا کہ ’ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ‘ یعنی دین کی نشر و اشاعت پر کسی وضعی قانون سے پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔
لیکن سلمان صاحب کا کہنا تھا کہ ’ شرع نے کہیں بھی صریحا IPR اور اشاعتی حقوق کی نفی نہیں کی. یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے . اس کو شرع کی مخالفت کہنا زیادتی ہو گا. البتہ ملکی اور بین الاقوامی قانون کی مخالفت ضرور ہے اگر آپ اس کی پاسداری نہ کریں ‘
انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ محدثین بعض دفعہ اپنے شاگردوں کو روایت کرنے سے منع کردیتے ہیں ، گویا اس بات کی دلیل ہے کہ دین کی نشر و اشاعت کے کسی ذریعہ پر پابندی لگائی جاسکتی ہے ، لیکن اس میں بھی دیگر اہل علم نے یہ وضاحت فرمائی کہ اس مسئلہ میں کچھ تفصیل ہے لیکن صحیح موقف یہی ہے کہ استاد کے منع کے باوجود روایت کرنا جائز ہے ۔
شفقت الرحمن مغل صاحب نے دو اہم باتیں کہیں ، ایک تو ناشر کا حق کسی صورت تلف نہیں ہونا چاہیے ، دوسرا ناشر کو بھی صرف استحقاق تک محدود رہنا چاہیے ، اگر کتاب کی نشر و اشاعت سے خرچ کے بعد مناسب منافع حاصل ہوجائے تو خود ہی پی ڈی ایف نشر کردینی چاہیے ، اسی طرح انہوں نے پی ڈی ایف سے ناشر کے منافع کی ایک صورت یہ بھی بتائی کہ جس طرح آن لائن اخبارات والے اشتہارات کے ذریعے کماتے ہیں ، پی ڈی ایف کے آخر میں بھی اشتہارات دیے جاسکتے ہیں ، البتہ اس پر محترم اعجاز صاحب کا کہنا تھا کہ یہ عملی طور ممکن نہیں ۔
علامہ ابتسام الہی ظہیر صاحب کا فرمان تھا کہ ’جسطرح مجلد کتابوں کی چوری منع ھے.اسی طرح زندہ مصنف اور ناشر,کی مرضی کے بغیر مواد کی آن لائن چوری بھی منع ھے ۔‘
ڈاکٹر حمزہ مدنی صاحب نے مزید ایک تحریر ارسال کی :
’ کچھ اھم پہلو مزید، جوزیربحث مسئلہ سے ھی متعلق ھیں:
1. یہاں تو سوال صرف پی ڈی ایف کا اٹھایا گیا ھے جبکہ جو لوگ مکتبہ شاملہ استعمال کرتے ھیں ،،، وہ جانتے ھیں کہ اس میں کتاب کی پوری ٹائپنگ تک موجود ھوتی ھے،تو سب لوگ اسے جائز سمجھ کر استعمال کرتے ھیں تو کیا بھی منع کے حکم میں شامل ھوگا
2. اسی طرح بڑے بڑے انٹرنیشنل سوفٹ ویئرز پر مکتبے ھیں جیسے موسوعہ وقفیہ اور مشکوۃ وغیرہ ویب سائٹس (جو کئی ھزاروں کی تعداد پر مشتمل آن لائن کتب کی ویب سائٹس ھیں) سے بلا قیمت استفادہ کرنے کا شرعی حکم بھی انتہائی اھمیت کا حامل ھوگا کیونکہ یہ بھی پی ڈی ایف کتب کی ویب سائٹس ھیں ۔
3. اسی طرح ونڈوز، اردو لکھنے کیلیے ان پیج وغیرہ یہ سب سافٹ ویئرز کے حقوق محفوظ ھیں اور مالکان ان کے بلا قیمت استعمال سے واضح طور پر منع کرتے ھیں لیکن برصغیر وعرب ممالک کے کروڑوں حضرات میں سے شائد ھی انہیں کوئی خرید کر استعمال میں لاتا ھو، سوال ان کے بارے میں پیدا ھوگا کہ ان کا استعمال جائز ھے یا ناجائز ؟
4. اسی طرح وہ لوگ جو واٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا پر کتب یا صفحات کی اسکیننگ عام مانگ لیتے ھیں، اس پر یہی بحث اٹھے گی کہ ان کا بلا قیمت استعمال جائز ھے یا نہیں؟؟
5. بلکہ اس میں تو کتب کو بطور استفادہ ایک دوسرے کو عاریۃ دینے کا مسئلہ بھی زیر بحث آجاتاہے ھے ۔
6. بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مدرسوں اور مسجدوں کی دینی لائبریریاں قائم کرنے کا مسئلہ بھی کھڑا ھوگا کہ ان کا قیام جائز ھوگا یا ناجائز؟؟ کیونکہ ناشران کتب وتاجران تو ھر چیز کو نا پسند کرتے ھیں جو ان کی تجارت میں کچھ بھی کمی کو واقع کریں
یہاں یہ پہلو بھی انتہائی قابل توجہ رھنا چاھیے کہ ان سافٹ ویئرز کا تجارتی استعمال تو بہت عام ھوچکا ھے اور جو میرے خیال میں واقعی قابل بحث ھے کہ ان پروگرامز کا بلا قیمت کاپی استعمال جائز ھے کہ نہیں؟؟
لیکن ھمارا زیر بحث مسئلہ جو ھے وہ ان پی ڈی ایف کے دعوتی استعمال کا ھے، جس کے متعلق عربی کبار مشائخ کے فتاوی اوپر ارسال کیے گئے ھیں
باحثین بحث کے دوران ان تمام پہلوؤں کا فقہی جواب بھی زیر بحث لائیں۔ ‘
عمر قدوسی صاحب نے مزید سوال اٹھایا : ناشر لاکھوں روپے لگا کر کتاب چھاپتا ہے ، یا مصنف خون جگر سے کتاب تحریر کرکے مارکیٹ میں لاتا ہے ، ان کا کوئی حق نہیں ؟ کتاب چھپنے کے بعد پبلک پراپرٹی بن جائے گی ؟
حسن مدنی صاحب لکھتے ہیں : ’ دینی خدمات کے حقوق ،کاروبار کے لئے ناجائزاور اشاعت دین کے لئے جائز ہیں۔
سعودی مفتیان کا فتوی بصیرت افروز ہے۔
کیا بخاری کا ترجمہ صرف مادی منفعت کے لئے کرنا جائز ہے؟ کوئی مترجم اور دینی محقق صرف دنیا کے لئے یہ مغز ماری نہیں کرتا۔ یہ علم دین کی ثمنا قلیلا ہے۔ ‘
حمزہ مدنی صاحب رقمطراز ہوئے ’ امام بخاری کی صحیح بخاری و امام مسلم کی صحیح مسلم اور تمام کتب تفسیر وحدیث وقراءات وغیرہ کی تالیفات سے استفادہ تو آپ سمیت پوری امت کیلیے مباح ھے، جبکہ ان کی کتابت میں ناشران و تاجران کا ایک روپیہ صرف نہیں ھوا تو اب اگر ان سے بلا قیمت ادائیگی کے بغیر کمائی کرسکتے ھیں تو دعوتی وعلمی ابلاغ کیلیے اس کو روکنے کا جواز آپ کس طرح روک سکتے ھیں ۔۔۔ فتفکر وتدبر ۔‘
اسی سلسلے میں مزید یہ باتیں بھی زیر بحث آئیں کہ خود ناشرین کتب بھی کتابوں کی طباعت کے سلسلے میں کئی ایک حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں ، مثلا کتابیں کمپیوٹر کے ذریعے کمپوز ہوتی ہیں ، تو اس میں ونڈوز ، ان پیچ ، ورڈ ، فانٹس وغیرہ کی ملکیت کا مسئلہ زیربحث آجاتا ہے ۔ دوسری بات ، ناشرین طباعت میں خرچہ اٹھاتے ہیں ، یہ بات درست ، لیکن بہرصورت اس طرح کوئی کسی تفسیر قرآن ، یا شرح حدیث کا مالک نہیں بن جاتا کہ اس کی نشرو اشاعت پر پابندی کا اسے مکمل حق ہو ۔
عمر فاروق قدوسی صاحب نے شگفتہ انداز میں ایک اور پتہ پھینکا ، ملاحظہ کیجیے :
’ میں آج ایک ویب سایٹ بناوں محدث سایٹ کا تمام ڈیٹا کاپی کر کےاس پر ڈال دوں آپ کبهی بهی پسند نه کریں بلکه شاید ........... ‘
جس پر حسن مدنی صاحب کا جواب تھا :
’ ضرور کریں ،دعوت اہل حدیث ہی پھیلے گی ،محدث ویب سائٹ سے دسیوں ویب سائٹ پہلے ہی یہ کام کر رہی ہیں۔ اور ہمیں اس پر مسرت ہے۔ ‘
اس پر قدوسی صاحب کا کہنا تھا کہ ’شیخ محترم ! محسوس نہ کیجیے گا ، لیکن عملی صورت شاید ایسی نہ ہو ‘ ۔
ایک سوال ’ کیا بخاری و مسلم ، ابن کثیر و ابن حجر نے کتابیں مادی فائدہ کے لیے لکھی تھیں ‘ ، شفقت مغل صاحب کہتے ہیں :
’اس وقت بات کتاب لکھنے پر نہیں بلکہ کتاب کی نشر و اشاعت کا خرچہ برداشت کرنے والے کے بارے میں ہے۔
نیز اس وقت بھی نساخ کو اجرت دے کر کتاب لکھوائی جاتی تھی تا کہ علم پھیلے۔ یہی بات اب ہو رہی ہے کہ ناسخ یعنی آج کل کا ناشر وہ اپنا حق رکھتا ہے یا نہیں؟
لیکن میں اس بات کا بھی حامی نہیں کہ علم کی نشر و اشاعت کیلیے پی ڈی ایف کا دروازہ بالکل بند کر دیا جائے، کیونکہ اس کا بھی بہت فائدہ ہوتا ہے۔اسی لیے ناشرین کے لیے عرض ہے کہ کوئی ایسی راہ نکالیں کہ ان کی حق تلفی بھی نہ ہو اور علم کی برکھا بھی برستی رہے۔ ‘
اس پر حمزہ مدنی صاحب نے یوں اتفاق رائے کا اظہار کیا : ’بارک اللہ فیکم ۔۔۔۔ اب آپ درست بحث کا تعین کر رھے ھیں ۔آپ کے سوال کا جواب وہی ھے جو اوپر شیخ بن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ نے دیا ھے، وھی معاملہ کا درمیانی حل ھے یعنی تجارتی مقاصد کیلیے پی ڈی ایف کا استعمال ناجائز اور چوری ھے اور محض دعوتی مقاصد کیلیے طبع شدہ کتاب کو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں چھاپنا جائز بلکہ ایک عظیم دعوتی کاوش ھے ۔۔۔۔ جس کے اجر میں مصنف، ناشر اور پی ڈی ایف بنانے والی تمام جہات شامل ھیں۔ ‘
شفقت صاحب کی ’ نساخ کو اجرت دینے ‘ والی بات پر ڈاکٹر فیض الابرار صاحب کا تبصرہ یوں تھا : ’عباسی دور حکومت میں بغداد اور دیگر شہروں میں اردو بازاروں میں ایک بہت بڑا کاروبار یہی تھا کہ پروفیشنل نساخ بیٹھے ہوتے تھے جو معاوضہ لے کر کتب کی نقل تیار کرتے تھے اور ان تاریخی مرویات میں معاوضہ وغیرہ کی تفصیلات تو ملتی ہیں لیکن صاحب نسخہ یا کتاب کی اجازت کا کوئی ذکر نہیں ملتا البتہ یہ ضرورملتا ہے کہ بغیر اجازت بھی نسخہ تیارکیے جاتے تھے۔ ‘
شفقت صاحب کی بات پر عمر قدوسی صاحب نے ایک اہم بیان دیا : ’ ہم نے تو اپنی کتب کی پی ڈی ایف کی کهلی اجازت دی ہوئی هے جناب۔ ‘
جو مسئلہ قدوسی صاحب نے شروع کیا تھا ، وہ تقریبا قدوسی صاحب کے بیان پر بھی اختتام پذیر ہوا ، البتہ جاتے جاتے قدوسی صاحب ایک اور سوال کر گئے : ’ اچها پهر یہ سوال پیدا هوگا کہ مصنفین جو هزاروں لاکهوں روپے کتب کی تصنیف و تالیف کا معاوضہ وصول کرتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا هے؟ ‘
اس سوال کے جواب کے لیے شاید ایک اور مباحثہ ہوگا ، کیونکہ اس کو ’ بلاجواب ‘ ہی چھوڑ کر بات دیگر مسائل کی طرف چلی گئی ، کتب کی نشر و اشاعت کے حوالے سے ، مکتبہ قدوسیہ ، دار السلام ، مکتبہ بیت السلام ، دار الاندلس ، مکتبۃ البشری اور بریلوی مکتب فکر کے کچھ مکاتب کا تذکرہ شروع ہوا ، لب لباب یہ تھا کہ دین حق کی نشر و اشاعت کے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ، جس طرح کہ کچھ مکتبے مکمل تندہی سے یہ کام سر انجام دے رہے ہیں ۔
Last edited: