پی ڈی ایف کتب اور "نالائق ناشرین "
ابوبکر قدوسی
ہفتہ دس دن ہوے ہوں گے کہ ایک وٹس ایپ گروپ میں کچھ احباب کی بحث ہوئی کہ کتابوں کی برقی نقل یعنی "پی ڈی ایف " بنانا جائز ہے یا نہیں - اس پر میں نے ہفتہ پہلے ہی ایک مضمون لکھا جس کا لنک آپ کمنٹ پا سکتے ہیں -
کل برادر رضوان اسد خان نے ایک مضمون پر منشن کیا ، جس کا موضوع پی ڈی ایف بھی کتب تھا - مضمون نگار کے نزدیک کسی بھی کتاب کی بنا اجازت پی ڈی ایف بنانا جائز ہی نہیں بلکہ خدمت دین ہے -
تمہید میں صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ
........
قارئین تک اس برقی کتاب (E-Book) کو مفت پہنچانے کے لیے ادارے کے
لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں مثلا اس کتاب کا نسخہ خریدنا، پھر اس کی اسکیننگ کا خرچہ، پھر سائیٹ پر رکھنے کا مستقل خرچہ وغیرہ۔ تو ایک پوری ٹیم کی تنخواہیں ادارہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔ پس آپ کو ای۔بُک فری میں ملتی ہے لیکن اس پر کافی خرچہ ہوا ہوتا ہے
........
بنا اجازت کسی کی برسوں کی محنت اور لاکھوں کے صرفے کو کوئی علم کی خدمت کے نام پر لے اڑے اور اس پر جواز یہ تلاشے کہ اس سرقے پر اس کے بھی تو پیسے لگے ہیں محنت ہوئی ہے - اس پر ہم یہی تبصرہ کر سکتے ہیں کہ پھر تو ہر چور کو محترم جاننا چاہیے کہ وہ بھی خاصی محنت کرتا ہے -
اس سوچ میں خرابی ہی یہی ہے کہ اس عمل کو ہمارے بعض دوست چوری سمجھتے ہی نہیں - ان کے نزدیک یہ علم ہے اور علم کی چوری نہں ہو سکتی -حالانکہ یہ محض علم تب ہوتا جب یہ صرف سینے میں ہوتا ، جب کاغذ پر اتر آیا تب صرف علم نہ رہا اس کی مادی حیثیت بھی مقرر ہو گئی - جی ہاں مواد کی نہ کہ کاغذ اور سیاہی کی -
بعد از تمہید مضمون میں محترم نے تین نکات بیان کیے ہیں پہلا یہ کہ :
..................
مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اس بات کی شرعی دلیل کیا ہے کہ پی۔ڈی۔ایف شیئر کرنا جائز نہیں ہے؟ میں نے ایک کتاب خریدی یعنی ہارڈ کاپی۔ اب یہ ہارڈ کاپی میری ملکیت ہے، اس ہارڈ کاپی کے حق ملکیت یا حق استعمال پر کوئی ایسی قدغن نہیں لگائی جا سکتی کہ جس سے اس کے حق ملکیت یا حق استعمال ہی پر سوال کھڑا ہو جائے۔ میں اس کی پچاس فوٹو کاپیاں کروا کے اسے لوگوں میں بانٹ دوں۔ میں اس کی ای۔بُک بنا کر کسی کو دے دوں۔ ہاں، اگر کوئی پابندی عائد کی جا سکتی ہے تو وہ یہ کہ میں اس نسخے کی تالیف وتصنیف کی نسبت اس کے اصل مولف ومصنف ہی کی طرف کروں کہ یہ اصلا اسی کی محنت اور اسی کا کام ہے۔
................
لیجئے صاحب مضمون کی عبارت تمام ہوئی :
درج ذیل حدیث ممانعت کی دلیل کے اس مطالبے کو پورا کرتی ہے :
"عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :
" لا ضرر ولا ضرار "
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"نہ نقصان اٹھانا جائز ہے اور نہ نقصان پہنچانا درست ہے "
– (مستدرک علی الصحیحین ، کتاب البیوع ،حدیث نمبر :2305)
جب کسی کے منہ پر آپ مکہ دے ماریں تو اس کے تڑپنے سے چوٹ کا اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے ، لیکن چوٹ کتنی لگی ہے کچھ وہی جانتا ہے کہ جسے لگی ہو - سو نقصان کا فیصلہ بھی وہی کر سکتے ہیں کہ جن کا نقصان ہوا ہے نہ کہ ان کا مال بنا اجازت اپنے تصرف میں لانے والے اب کے نقصان کا فیصلہ بھی کریں گے -
میں نے اسی موضوع پر اپنے پچھلے مضمون میں تفصیل سے لکھا تھا کہ کس طرح زرکثیر ان کتب کی تیاری میں صرف ہوتا ہے - مصنف کا تو محض دماغ خرچ ہوتا ہے جس کے تحفظ کا ہمارے دوست کو فکر ہے کیونکہ آپ خود بھی مصنف ہیں - لیکن اس حدیث نبوی کے بارے میں کیا فرمائیں گے ؟ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے :
لاَ يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ عَنْ طِيبِ نَفْسٍ
کِسی مُسلمان کا مال (لینا)حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنی رضا مندی سے نہ دے -
سُنن الدار قطنی، مسند احمد -
اب اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ کتاب کی سافٹ کاپی مال کی ہی شکل ہوتی ہے - ممکن ہے کوئی دوست کہے کہ سافٹ کاپی مال نہیں ہوتا تو اس پر ہم اگلے حصے میں الگ سے بات کریں گے -
یہ کہنا کہ کتاب خریدی سو ملکیت ہو گئی ، اب جو جی چاہے کیجئے بھلے اس کی پچاس کاپیایاں کروا کے تقسیم کرو ...لیکن صاحب یہاں یہ نکتہ نظر انداز کر گئے کہ اس عمل کو آپ کا اور دنیا بھر کا قانون چوری سمجھتا ہے ..سمجھنے کی بات ہے کہ اگر ایک صاحب فوٹو کاپی سے آگے بڑھ کے اس کی پلیٹیں بنا کے ایک ہزار نسخہ شائع کرتے ہیں اور بانٹنے لگتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کے دیے گئے حلال کے پیمانے کی رو سے یہ غلط نہیں ہو گا - لیکن "اتفاق" سے دنیا بھر میں اسے ایک جرم سمجھا جاتا ہے اور سزا اس " مجاہد " کا مقدر ہو گی - اس لیے یہ مثال بہت کمزور رہی ہے -
محترم آگے فرماتے ہیں کہ :
.................
بلاشبہ ہمارے مذہبی پبلشرز کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے کہ مارکیٹنگ کسے کہتے ہیں لہذا ان سے کتاب فروخت ہوتی ہی نہیں ہے۔ میں نے مکتبہ اسلامیہ سے اپنی کتاب "صالح اور مصلح" 1100 کی تعداد میں پبلش کروائی اور ایک سال میں اس کے 850 نسخے خود سے فروخت کیے، الحمد للہ، اور مکتبہ نے سال بھر میں صرف 150 بھی نہ نکالے تھے۔ اور میرا نہ کوئی چھاپہ خانہ، نہ میں پبلشر، نہ میرا اردو بازار میں کتب خانہ، نہ میری آؤٹ لیٹس، نہ میرا ان کے جیسا کوئی تعارف۔ اور اس کتاب کی پی۔ڈی۔ایف میں نے پبلش کرنے سے پہلے ہی شیئر کر دی تھی۔
...............
آپ نے اپنی کتاب کا حوالہ دے کر مالکان مکتبہ کی نالائقی بیان تو کر دی لیکن تصویر کا دوسرا رخ ہم آپ کو دکھلاتے ہیں - آپ کا یہ کہنا کہ آپ نے آٹھ سو پچاس کتب بیچ دی لیکن مکتبہ والے ڈیڑھ سو سے آگے نہ بڑھ سکے - آپ نے جو اتنی کتب بیچ لیں اس کا سبب یہ رہتا ہے کہ مصنف کے پاس ایک یا دو کتابوں کے سوا کیا ہوتا ہے ، سو وہ اس ایک کتاب کو بغل میں دابے کسی محروم تماشائی کی طرح گاہک ڈھونڈتا ہے یا گاہے مشاعرے سے نکلے کسی شاعر کی مانند ہر نکڑ پر غزل سرا ہونے کو تیار - پھر کبھی گاہک اسے شاگردوں کی شکل میں ملتے ہیں کبھی دوستو کی صورت - جب ان سے کتاب خریدنے کی فرمائش کی جاتی ہے تو کبھی "اخلاقا " اور کبھی جبرا خریدنا تو پڑتی ہے - لیکن یہ موج میلہ اس وقت ختم ہو جاتا ہے کہ جب حلقہ دوستاں ختم ہو جاتا ہے -
جب کہ اردو بازار میں جب کتاب بکتی ہے تو خریدار گھر سے کتاب لینے آتا ہے اور جب پیسا خرچ کرتا ہے تو پڑھتا بھی ہے ..اس لیے ایسے ڈیڑھ سو افراد شائد فرمائشی ہزار گاہکوں سے بہتر رہتے ہیں - خیر ہمارے محترم کا یہ مثال بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کتاب کی فروخت میں کمی ناشرین کی " نالائقی " کے سبب ہے - لیکن عجیب بات ہے کہ یہی ناشران بہت سی کتب بہت جلد بیچ بھی لیتے ہیں - خود میں نے ایک پانچ سو صفحات کی کتاب لکھی ، صرف دو سال کیں اس کے تین اڈیشن شائع کیے جو معمول کی تعداد گیارہ سو سے زیادہ بھی تھے ، اب یہ کتاب انڈیا میں بھی شائع ہونے جا رہی ہے - سو نہ بکنے والی کتاب کے حوالے سے یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے کتاب میں لوگوں کو ایسی کشش ہی محسوس نہ ہوئی ہو یا معیار تحریر و تحقیق سے مطمئن نہ ہوے ہوں اور مکتبہ باوجود محنت کے ناکام ہو گیا -
دارالسلام کا ذکر بھی آ گیا ، آپ نے لکھا کہ دارالسلام کی کتب بھی اپنے تمام تر ظاہری معیار کے باوجود اب پرانی شراب کی نئی پیکنگ والی بات ہے - میرا خیال ہے کہ دار السلام کی کتب بارے ایسا کہنا کچھ عجیب ہی ہے - اس پر کیا تبصرہ کیا جائے -
ڈاکٹر صاحب کا ناشران پر اس تنقید کا بنیادی مقصد اپنا مقدمہ مضبوط کرنا تھا کہ پی ڈی ایف کی موجودگی کتب کے کاروبار کی کمی کا سبب نہیں بلکہ ناشران خود ہی نالائق ہیں - لیکن موصوف اس پر کیا کہیں گے کہ یہ معاملہ صرف اسلامی کتب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دنیا بھر میں کتابوں کو اس زوال کا سامنا ہے - بیروت کے بڑے بڑے مکتبے اس کساد بازاری کے سبب بند ہو رہے ہیں - یورپ میں بھی بہت سے ادارے ختم ہونے کو ہیں - کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر کے ناشران کتب ایک دم ہی بے صلاحیت ہو گئے ہیں - کتابوں کے تاجران دنیا بھر میں اس موئی پی ڈی ایف کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں - حتی کہ ہندستان میں تو دنیا کی سب سے بڑی ای کتب کی ویب سائٹ کو عدالتی حکم کے تحت بند کر دیا گیا ہے -
ایک پہلو جس کی طرف میں پہلے بھی توجہ دلا چکا وہ یہ ہے کہ پی ڈی ایف علم کی اشاعت کا سبب نہیں بلکہ تحقیق کے دروازے بند کرنے کی راہ ہے - اس کی وضاحت کیے دیتا ہوں - اسلامی کتب ہوں یا معاشرتی کتب ، تحقیق دنیا ہو یا مذھب کی دنیا - کتب کے طبع ہونے کا بنیادی سبب ناشران کتب کا کاروباری مفاد ہی ہے - گو وہ پیسے کے لیے یہ سب کرتے ہیں لیکن فائدہ علم اور اہل علم کا ہوتا ہے - اب جب ان کو یقین ہو گا کہ ان کی کتاب بکے گی ہی نہیں تو ان کو کیا ضرورت ہے کہ اپنا پیسا برباد کریں - اور بربادی بھی ایسی کہ جو لوٹ کے لے جا رہا ہے وہ مجاہد اعظم - جی ہاں یہ ایسی چوری ہے کہ چور چوری کر کے سجدہ شکر بھی بجا لا سکتا ہے - لیکن اس کی اس چوری کے سبب ہو گا یہ کہ اگلی چوری سے محروم ہی رہے گا - وہ ایسے کہ نہ ناشر اگلی کتاب شائع کرے گا نہ "معصوم چور " چوری کر کے علم کی یہ " خدمت " کر سکے گا -
بات طویل تر ہو رہی ہے ، ہم اس کو اگلے حصے میں لے جاتے ہیں ، جس میں ہم بیان کریں گے کہ کہ "علم " کے بھی جملہ حقوق ہوتے ہیں ؟
اور کیا ناشران مصنفین سے ہمیشہ زیادتی ہی کرتے ہیں ؟