- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
کاپی رائٹس کی شرعی حیثیت :
ابوبکر قدوسی
پچھلے دنوں پی ڈی ایف کے حوالے سے میں نے ایک مضمون لکھا تو اس سے ایک بحث کا سلسلہ شروع ہوا ، جس میں مختلف احباب نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کا اظہار کیا - جو دوست اس کے غلط ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ اب کاپی رائٹس کی شرعی حیثیت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں - ظاہر ہے احباب کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا - کیونکہ اگر کتاب کے کاپی رائٹس ہی ختم ہو جائیں تو پی ڈی ایف کی پھر بھلا کیا ممانعت -
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ
" متقدمین فقہاء کے زمانے میں کاپی رائٹس کا مسلہ ہی نہیں تھا "
لیکن اس وقت پبلشنگ کا کوئی کاروبار بھی تو نہ تھا - تب کتاب چھپتی نہیں تھی مشقت جان گسل کے بعد نقل کی جاتی تھی - کسی سے ادھار کتاب لے کے مہینوں میں نقل کی جاتی اور استعمال کی جاتی -
البتہ اس بات کا سراغ ملتا ہے کہ اس نقل کو لوگ کاروبار کے طور پر بھی کیا کرتے - قران کریم کی کتابت اور کتابت شدہ نسخوں کی خرید و فروخت تب بھی مروج تھی ، بلکہ اورنگ زیب کے بارے میں تو یہ لطیفہ مشہور ہے کہ وہ اسی کمائی سے گھر چلاتے تھے - یہ خرید و فروخت کا سلسلہ تب تک رہا جب تک چھاپہ خانہ ایجاد نہیں ہو گیا -
البتہ اصول حدیث میں ایک ایسا اصول موجود ہے جو ضرور کاپی رائٹس کی طرف رہنمائی کرتا ہے - وہ یہ کہ اگر کوئی استاد یا امام اپنی کتاب کسی کو دیتا ہے بھلے وہ اس کا دوست ہو ، ہم عصر ہو یا شاگرد ہو ، وہ اس کو پڑھ تو سکتا ہے لیکن آگے کسی سے روایت نہیں کر سکتا - اس کو مثال سے یوں سمجھئے :
اگر امام احمد بن حنبل اپنے لائق ترین شاگرد امام بخاری کو اپنی کتاب مسند کا ایک نسخہ بطور مطالعہ مرحمت کرتے ہیں لیکن آگے روایت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تو امام بخاری اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اس میں سے آگے کوئی بات روایت نہیں کریں گے - اب اگر ایسا کرتے ہیں تو ، باوجود انتہائی ثقاہت کے ، امام بخاری کی اس بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا ، بلکہ باوجود اس ثقاہت تمام تر کے امام بخاری کی اس حدیث کو ضعیف کہا جائے گا -
اور یاد رکھئے گا یہ روایت اپنی سند میں عالی ترین بھی ہو ، سلسلہ الذھب ہو ، لیکن اس سونے کی لڑی کو رد کر دیا جائے گا - صرف اس سبب سے کہ صاحب کتاب نے اس کو آگے پھیلانے کی اجازت نہیں دی - میرا نہیں خیال کہ اس کو کاپی رائٹس کے علاوہ کوئی نام دیا جا سکتا ہے - اور اگر اسے کاپی رائٹس شمار نہہ کیا جائے گا تو پھر اسے کتمان علم کہا جا سکتا ہے ؟
ایک دلیل دوست یہ بھی دیتے ہیں کہ علم مال نہیں ہے اور چوری تو مال کی ہی ہوتی ہے -
--------------
فقہاء کا اصل اختلاف مال کی تعریف میں ہے کہ مال کسے کہتے ہیں اور کیا ذہنی اور علمی کدوکاوش مال کہلائی جا سکتی ہے؟ اگر ہم فنی اور ٹیکنیکل تعریفات سے بچتے ہوئے سادہ الفاظ میں وضاحت کریں تو حنفیہ کے نزدیک مال سے مراد وہ شیء ہے کہ جسے محفوظ (preserve) کیا جا سکے تو ظاہری بات ہے کہ یہ مادی شیء ہو گی لہذا علم، مال میں شامل نہیں ہے۔ مالکیہ کے ہاں مال سے مراد وہ شیء ہے کہ جس کی ملکیت (ownership) حاصل ہو سکے۔ اور حنابلہ اور شوافع کے نزدیک مال سے مراد وہ شیء ہے کہ جس میں کسی قسم کی منفعت (benefit) ہو۔
--------------
ہمارے دوست نے مال کی اس فقہی تعریف سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علم مال نہیں ، اور چونکہ مال نہیں سو اس کے حقوق بھی محفوظ نہیں -گو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کا دلیل ہے کہ مال کے سوا دوسری شے کا بنا اجازت سرقہ جائز ہے لیکن اس سوال کو موخر کر کے آگے بڑھتے ہیں -
حنفیہ کی تعریف کے مطابق مال محفوظ ہو جانے والی شے ہے تو اس کا ظاہری نتیجہ یہ ہے کہ محفوظ تو صرف مال ہوتا ہے ..لیکن یہ نتیجہ درست نہیں کیونکہ علم کا محفوظ ہونا ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ محفوظ ہونا صرف مادی اشیاء کی صفت نہیں - علم کے محفوظ ہونے کی کئی صورتیں ہیں - مادی شے تو اصل میں علم کے محفوظ ہونے کی تدبیر ہے - کاغذ ، سیاہی ، ہارڈ ڈسک ، حتی کہ دماغ سب مادی اشیا ہیں لیکن محفوظ علم کو ہی کر رہی ہیں ، سو فقہ حنفیہ کے تحت محفوظ ہونے کی شرط پر علم پورا اترتا ہے -
مالکیہ کے نزدیک مال کی تعریف " اونر شپ " یعنی ملکیت مال ہے اس تعریف پر بھی علم پورا اترتا ہے اوپر امام بخاری اور ابن حنبل کی مثال اونر شپ کی گواہی ہی تو دے رہی ہے - بندہ اپنی ملکیت کسی شے کی نشر و اشاعت سے ہی تو روک سکتا ہے - جو شے بندے کی ملکیت میں ہی نہ ہو وہ اس پر کس طرح پابندی لگا سکتا ہے - سو یہ پابندی بھی ملکیت کے سبب ہی ہے -
حنابلہ اور شوافع کے نزدیک مال وہ ہے جس سے منفعت حاصل ہو سکے ، اور دور حاضر ہی کیا ، دور ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں - قران کی تعلیم کیا علم کی تعلیم نہیں اور اس پر اجرت لینا اور اس اجرت کو بہترین کہنا کیا علم کی ظاہری اور مادی منفعت نہیں؟؟ -
بعض احباب قران کی تعلیم پر لیے گئے معاوضے کو "حق خدمت " کہہ کے اس کے اجرت ہونے سے انکار کرتے ہیں - یہ وہی صورت ہے جو ہمارے دیہات میں گلی گلی چل پھر کے قران بیچنے والے اختیار کرتے ہیں - یہ لوگ اردو بازار سے قران خریدنے آتے ہیں جہاں ان کو پھیری والے کہا جاتا ہے - یہ پھیری والے جب دیہاتوں میں جاتے ہیں تو خواتین ان کا خاص ہدف ہوتی ہیں کہ سادہ لوح جو ہیں - اگر کوئی خاتون " بھولے سے " کہہ اٹھے کہ "بھائی اس کے کتنے پیسے ہیں " تو جھٹ سے بول اٹھتے ہیں :
" توبہ توبہ ..بی بی قران کے پیسے نہیں ہوتے ، ہدیہ ہوتا ہے باجی ہدیہ"
اور پھر چھے گنا زیادہ "ہدیہ " لے کر رخصت ہوتے ہیں - سو احباب پیسے پیسے ہوتے ہیں آپ ان کو "حق خدمت " کہہ لیجئے " ہدیہ " بول لیجئے یا ہماری طرح قیمت کہہ لیجئے -
بہرحال ان فقہی تعریفات سے ثابت یہی ہوتا ہے کہ علم بھی مال کی ہی ایک قسم ہے - جن دلائل سے نتیجہ نکالا گیا کہ علم مال سے الگ کوئی شے ہے حالانکہ انہی دلائل سے علم کا مال ہونا ثابت کیا جا سکتا ہے -
بس فرق اتنا ہے پہلے علم ایسی دولت ہوتا تھا جو چوری نہیں ہوتی تھی ، اب ہو جاتی ہے -(جاری ہے )
ابوبکر قدوسی
پچھلے دنوں پی ڈی ایف کے حوالے سے میں نے ایک مضمون لکھا تو اس سے ایک بحث کا سلسلہ شروع ہوا ، جس میں مختلف احباب نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کا اظہار کیا - جو دوست اس کے غلط ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ اب کاپی رائٹس کی شرعی حیثیت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں - ظاہر ہے احباب کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا - کیونکہ اگر کتاب کے کاپی رائٹس ہی ختم ہو جائیں تو پی ڈی ایف کی پھر بھلا کیا ممانعت -
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ
" متقدمین فقہاء کے زمانے میں کاپی رائٹس کا مسلہ ہی نہیں تھا "
لیکن اس وقت پبلشنگ کا کوئی کاروبار بھی تو نہ تھا - تب کتاب چھپتی نہیں تھی مشقت جان گسل کے بعد نقل کی جاتی تھی - کسی سے ادھار کتاب لے کے مہینوں میں نقل کی جاتی اور استعمال کی جاتی -
البتہ اس بات کا سراغ ملتا ہے کہ اس نقل کو لوگ کاروبار کے طور پر بھی کیا کرتے - قران کریم کی کتابت اور کتابت شدہ نسخوں کی خرید و فروخت تب بھی مروج تھی ، بلکہ اورنگ زیب کے بارے میں تو یہ لطیفہ مشہور ہے کہ وہ اسی کمائی سے گھر چلاتے تھے - یہ خرید و فروخت کا سلسلہ تب تک رہا جب تک چھاپہ خانہ ایجاد نہیں ہو گیا -
البتہ اصول حدیث میں ایک ایسا اصول موجود ہے جو ضرور کاپی رائٹس کی طرف رہنمائی کرتا ہے - وہ یہ کہ اگر کوئی استاد یا امام اپنی کتاب کسی کو دیتا ہے بھلے وہ اس کا دوست ہو ، ہم عصر ہو یا شاگرد ہو ، وہ اس کو پڑھ تو سکتا ہے لیکن آگے کسی سے روایت نہیں کر سکتا - اس کو مثال سے یوں سمجھئے :
اگر امام احمد بن حنبل اپنے لائق ترین شاگرد امام بخاری کو اپنی کتاب مسند کا ایک نسخہ بطور مطالعہ مرحمت کرتے ہیں لیکن آگے روایت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تو امام بخاری اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اس میں سے آگے کوئی بات روایت نہیں کریں گے - اب اگر ایسا کرتے ہیں تو ، باوجود انتہائی ثقاہت کے ، امام بخاری کی اس بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا ، بلکہ باوجود اس ثقاہت تمام تر کے امام بخاری کی اس حدیث کو ضعیف کہا جائے گا -
اور یاد رکھئے گا یہ روایت اپنی سند میں عالی ترین بھی ہو ، سلسلہ الذھب ہو ، لیکن اس سونے کی لڑی کو رد کر دیا جائے گا - صرف اس سبب سے کہ صاحب کتاب نے اس کو آگے پھیلانے کی اجازت نہیں دی - میرا نہیں خیال کہ اس کو کاپی رائٹس کے علاوہ کوئی نام دیا جا سکتا ہے - اور اگر اسے کاپی رائٹس شمار نہہ کیا جائے گا تو پھر اسے کتمان علم کہا جا سکتا ہے ؟
ایک دلیل دوست یہ بھی دیتے ہیں کہ علم مال نہیں ہے اور چوری تو مال کی ہی ہوتی ہے -
--------------
فقہاء کا اصل اختلاف مال کی تعریف میں ہے کہ مال کسے کہتے ہیں اور کیا ذہنی اور علمی کدوکاوش مال کہلائی جا سکتی ہے؟ اگر ہم فنی اور ٹیکنیکل تعریفات سے بچتے ہوئے سادہ الفاظ میں وضاحت کریں تو حنفیہ کے نزدیک مال سے مراد وہ شیء ہے کہ جسے محفوظ (preserve) کیا جا سکے تو ظاہری بات ہے کہ یہ مادی شیء ہو گی لہذا علم، مال میں شامل نہیں ہے۔ مالکیہ کے ہاں مال سے مراد وہ شیء ہے کہ جس کی ملکیت (ownership) حاصل ہو سکے۔ اور حنابلہ اور شوافع کے نزدیک مال سے مراد وہ شیء ہے کہ جس میں کسی قسم کی منفعت (benefit) ہو۔
--------------
ہمارے دوست نے مال کی اس فقہی تعریف سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علم مال نہیں ، اور چونکہ مال نہیں سو اس کے حقوق بھی محفوظ نہیں -گو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کا دلیل ہے کہ مال کے سوا دوسری شے کا بنا اجازت سرقہ جائز ہے لیکن اس سوال کو موخر کر کے آگے بڑھتے ہیں -
حنفیہ کی تعریف کے مطابق مال محفوظ ہو جانے والی شے ہے تو اس کا ظاہری نتیجہ یہ ہے کہ محفوظ تو صرف مال ہوتا ہے ..لیکن یہ نتیجہ درست نہیں کیونکہ علم کا محفوظ ہونا ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ محفوظ ہونا صرف مادی اشیاء کی صفت نہیں - علم کے محفوظ ہونے کی کئی صورتیں ہیں - مادی شے تو اصل میں علم کے محفوظ ہونے کی تدبیر ہے - کاغذ ، سیاہی ، ہارڈ ڈسک ، حتی کہ دماغ سب مادی اشیا ہیں لیکن محفوظ علم کو ہی کر رہی ہیں ، سو فقہ حنفیہ کے تحت محفوظ ہونے کی شرط پر علم پورا اترتا ہے -
مالکیہ کے نزدیک مال کی تعریف " اونر شپ " یعنی ملکیت مال ہے اس تعریف پر بھی علم پورا اترتا ہے اوپر امام بخاری اور ابن حنبل کی مثال اونر شپ کی گواہی ہی تو دے رہی ہے - بندہ اپنی ملکیت کسی شے کی نشر و اشاعت سے ہی تو روک سکتا ہے - جو شے بندے کی ملکیت میں ہی نہ ہو وہ اس پر کس طرح پابندی لگا سکتا ہے - سو یہ پابندی بھی ملکیت کے سبب ہی ہے -
حنابلہ اور شوافع کے نزدیک مال وہ ہے جس سے منفعت حاصل ہو سکے ، اور دور حاضر ہی کیا ، دور ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں - قران کی تعلیم کیا علم کی تعلیم نہیں اور اس پر اجرت لینا اور اس اجرت کو بہترین کہنا کیا علم کی ظاہری اور مادی منفعت نہیں؟؟ -
بعض احباب قران کی تعلیم پر لیے گئے معاوضے کو "حق خدمت " کہہ کے اس کے اجرت ہونے سے انکار کرتے ہیں - یہ وہی صورت ہے جو ہمارے دیہات میں گلی گلی چل پھر کے قران بیچنے والے اختیار کرتے ہیں - یہ لوگ اردو بازار سے قران خریدنے آتے ہیں جہاں ان کو پھیری والے کہا جاتا ہے - یہ پھیری والے جب دیہاتوں میں جاتے ہیں تو خواتین ان کا خاص ہدف ہوتی ہیں کہ سادہ لوح جو ہیں - اگر کوئی خاتون " بھولے سے " کہہ اٹھے کہ "بھائی اس کے کتنے پیسے ہیں " تو جھٹ سے بول اٹھتے ہیں :
" توبہ توبہ ..بی بی قران کے پیسے نہیں ہوتے ، ہدیہ ہوتا ہے باجی ہدیہ"
اور پھر چھے گنا زیادہ "ہدیہ " لے کر رخصت ہوتے ہیں - سو احباب پیسے پیسے ہوتے ہیں آپ ان کو "حق خدمت " کہہ لیجئے " ہدیہ " بول لیجئے یا ہماری طرح قیمت کہہ لیجئے -
بہرحال ان فقہی تعریفات سے ثابت یہی ہوتا ہے کہ علم بھی مال کی ہی ایک قسم ہے - جن دلائل سے نتیجہ نکالا گیا کہ علم مال سے الگ کوئی شے ہے حالانکہ انہی دلائل سے علم کا مال ہونا ثابت کیا جا سکتا ہے -
بس فرق اتنا ہے پہلے علم ایسی دولت ہوتا تھا جو چوری نہیں ہوتی تھی ، اب ہو جاتی ہے -(جاری ہے )