محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
کبھی یاد کرو گےــــــــــــــــــــ اور ہم نہیں ہو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ
مارچ کا مہینہ میری نحیف سی جان پر بہت گراں گزرتا ہے۔ دل غمگین ہو جاتا ہے۔ احساسات جگمگا اُٹھتے ہیں۔ دل کے آنگن میں عجیب سے خیالات رقص کرنے لگتے ہیں۔ اشک بار آنکھیں ساون کا سماں پیدا کر دیتی ہیں۔ ذوق والے ہی جانتے ہیں کہ آنسؤوں کے قطروں کا دل کے تاروں پہ ناچ کتنا دلربا اور دلفریب ہوتا ہے۔
آج سے 23 برس قبل 23 مارچ 1987ء کو فرزندان توحید کا قافلہ لٹا، پاسبانانِ قرآن و سنت کا کارواں تاراج ہوا۔ اور دنیائے اسلام کے مایہ ناز خطیب، بے مثال ادیب، لاکھوں دِلوں کی دھڑکن، شہید راہِ حق، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ ہم سے جدا ہو گئے۔
یہ وہ شخصیت ہے جس نے تیس برس تک مسلمانوں کی خدمت کی، وہ عالم بھی تھا اور مقرر تھی، سپاہی بھی تھا اور قائد بھی۔ پُرامید بھی تھا اور پُر دل بھی۔ اس کی تقریر کے چند فقرے لوگوں میں نئی روح پھونک دیتے تھے۔ وہ ساکن سطح کو طوفانی موجوں میں بدل دیتا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا تھا، یہ اسی کا کام تھا کہ 1970ء سے مرتے دم تک عرب و عجم چھان مارا تھا۔ تقریباً تیس برس کی محنت شاقہ کے بعد موت نے سپاہی کی کمر کھول دی اور وہ ابدی نیند سو گیا۔
یاد ماضی بن گئیں ساغر وہ ساری محفلیں۔۔۔۔۔۔رہ گیا آرزؤں کا کفن میرے لئے
افسوس کہ وہ پُر درد آواز جو 1960ء سے 1987ء تک پاکستان اور دنیائے اسلام کے ہر قیامت آفرین سانحہ میں صدائے صور بن کر بلند ہوتی رہی ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی، وہ بے قرار دل جو اسلام اور مسلمانوں کی ہر مصیبت کے وقت بے تاب ہو جاتا تھا اور اوروں کو بے تاب کرتا تھا۔ صد افسوس کہ قیامت تک کے لئے ساکن ہو گیا۔
وہ اشک آلود آنکھیں جو دین و ملت کے ہر غم میں آنسوؤں کا دریا بن جاتی تھیں، حسرت کہ ان کی روانی ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی، وہ مترنم لب جو ہر بزم میں خوش نوا بلبل بن کر چہکتے تھے، ان کے ترانے اب ہمارے کان نہ سنیں گے، وہ آتش زبان جو ہر رزم میں تیغ براں بن کر چمکتی تھی، اس کی تابش اب کسی معرکہ میں ہماری آنکھوں کو نظر نہ آئے گی۔
یہ پر جوش سینہ جو ہمارے مصائب کے پہاڑوں کو سیلاب بن کر بہا لے جاتا تھا، اس کا تلاطم ہمیشہ کے لئے تھم گیا۔ وہ پر زور دست و بازو جو شب و روز کی خدمت گزاری اور نبرد آزمائی میں مصروف تھے اب ایسے تھکے کہ پھر نہ اُٹھیں گے، افسوس کہ قافلہ حریت کا وہ آخری سپاہی جو دشمن کے نرغے میں تنہا لڑ رہا تھا آخر زخموں سے چور ہو کر ایسا گرا کہ پھر قیامت تک کھڑا نہ ہو گا۔
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں۔۔۔۔۔۔صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کریگی
پاکستان کا ماتم دار، طرابلس کا سوگوار، عراق کے لئے غمزدہ، بلقان کے لئے اشک بار، شام پر گریاں، کشمیر و افغان پر مرثیہ خواں، حجاز کا سوختہ غم اور بیت المقدس کے لئے وقف الم۔ اے وطن پاک کے مسافر۔۔۔! تیرا حق سر زمین اسلام کے چپہ، چپہ پر تھا، مناسب یہی تھا کہ تو جنت البقیع کے دامن میں سما جائے۔
احسانِ الٰہی ظہیرؒ عجم میں پیدا ہوا لیکن عرب کی آب و ہوا میں نشوونما پائی۔ پاکستان کی مٹی سے جنم لیا لیکن حجاز کے ہتھیاروں سے اس نے اپنا جسم سجایا۔ اس کا دماغ پاکستانی مگر دل عربی تھا۔ وہ مشرق کی حمایت میں مغرب سے لڑا۔ بیت المقدس کی محبت میں یہود کو آنکھیں دکھائیں۔ اے مشرق و مغرب کے مالک۔۔۔۔! تو اپنی رضا مندیوں کے پھولوں سے اس کا دامن بھر دے کہ وہ انہی کا طلبگار تھا۔ خداوند۔۔۔! اس دل شکستہ کو جو دین و ملت کے غم سے رنجور تھا اپنی خصوصی نوازشوں سے مسرور فرما کہ ہم اس کی روح سے شرمندہ ہیں۔ اس کی عمر فانی گو ختم ہو گئی۔ لیکن اس ی زندگی کا ہر کارنامہ جاوید نامہ بن کر باقی رہے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
تو کیا گیا کہ رونق بزم چمن گئی۔۔۔۔۔۔رنگِ بہار دید کے قابل نہیں رہا
احسانِ الٰہی ظہیر یگانہ روز اور عبقری زماں تھے، اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ان کا مقدر بنی کہ بچپن ہی میں قرآن مقدس کو حفظ کر لیا تھا۔ ان میں حافظہ اور ذہانت بلا کی تھی۔ نو سال کے تھے کہ احسانِ الٰہی سے حافظ احسان الٰہی بن گئے۔ جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اور پھر جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے ہوتے ہوئے جامعۃ اسلامیہ مدینہ منورہ (مدینہ یونیورسٹی) جا پہنچے،موہاں سے لوٹے تو حافظ احسان الٰہی ظہیر ہو گئے اور پھر مسلکی و مذہبی رسالوں کی ادارت، مختلف زبانوں میں لاجواب تصانیف و نگارش، اور شاہین نگاہ خطابت نے علامہ احسان الٰہی ظہیر بنا دیا۔
وہ واقعی علامہ کہلانے کے سزاوار تھے، مسجد چینیاں والی لاہور سے خطابت کا آغاز کیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک پر چھا گئے، سالہا سال ''اہلحدیث'' اور ''ترجمان اہل حدیث'' کے ایڈیٹر رہے، عرب، عالم اسلام، یورپ اور امریکہ میں براہِ راست پہنچ کر اہل حدیث کا مشن پہنچایا۔ جنوبی ایشیاء کے متعدد ممالک میں تبلیغ اسلام کا مشن لے کر پہنچے۔
وہ بیک وقت ادیب، خطیب، مترجم، مؤلف مصنف، مبلغ سیاستدان اور تاجر انسان تھے، دیانت و امانت، خلوص و للّٰہیت ان کے ماتھے کا جھومر تھے۔
فاضل عربی، فاضل فارسی، فاضل اردو، یعنی السنہ شرقیہ کے عظیم سکالر تھے۔ چھے مضامین میں ایم اے کر چکے تھے۔ لفظ ''علامہ'' ان کے نام کے ساتھ بہت خوبصورت لگتا تھا اور وہ واقعی علامہ تھے۔
علامہ صاحب سیاست میں قدم زن ہوئے تو خدادا صلاحیتوں، جرأت و بے باکی کی وجہ سے ملک کے مرکزی سیاست دانوں میں شمار ہونے لگے۔
سیاست میں نوابزادہ نصر اللہ خاں مرحوم کو اپنا مربی قرار دیتے تھے۔ اور نواب زادہ صاحب کی لاہور میں سیاسی شام غریباں میں پوری باقاعدگی سے شمولیت فرمایا کرتے تھے۔ تحریک استقلال میں رہنے کے باوجود نواب زادہ نصر اللہ خان کا پورا احترام ملحوظ رکھتے تھے۔ ائر مارشل اصغر خان اور ان کے بلند مرتبت رفقاء کار علامہ صاحب کو اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتے تھے۔ کچھ عرصہ تک تحریک استقلال کے جنرل سیکرٹری رہے پھر خود ہی اسے ترک کر دیا۔
بھٹو سے خوب ٹکر لی اور پوری بہادری سے ان کے مقابل ڈٹے رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے حامی بھی رہے اور مخالف بھی۔ امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ کے بعد برصغیر میں بے باک، جرأت مند، عزم و استقلال کا شہسوار حضرت علامہ کے علاوہ کوئی نہیں نظر آتا۔ ضیاء الحق کی حمایت اس لئے کی کہ شاید یہ شخص اسلام کا نفاذ کر دے۔ مخالفت اس لئے کی کہ ضیاء الحق اپنے دس سالہ اقتدار میں اسلام کا نفاذ کر سکا نہ ہی جمہوریت نافذ کر سکا اور نہ ہی فحاشی و عریانی کو بند کر سکا۔ علامہ صاحب کا موقف تھا کہ:
اسلام پہ چلنا سیکھو یا اسلام کا نام نہ لو
اور جنرل ضیاء الحق کی مخالفت اس بے باکی اور جرأت سے کی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور کی کیسٹیں جب ہم سنتے ہیں تو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے علامہ صاحب کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ جب لکھتے تو بے مثال لکھتے، بولتے تو بولتے ہی چلے جاتے۔ بقول شخصے الفاظ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے جس پر جی آتا منتخب کر لیتے۔ اُردو، عربی اور فارسی میں روانی سے بولتے تھے۔ بقول مجیب الرحمٰن شامی وہ آغا شورش کاشمیری کے بعد ایشیاء کے سب سے بڑے خطیب تھے۔
علامہ صرف ایشیاء ہی کے نہیں بلکہ عالم عرب کے بھی بہت عظیم خطیب تھے۔ وہ جب عربی میں تقریر کرتے تو ان کا لب و لہجہ اور زبان و بیان ہر قدر ایک لمحے کے لئے بھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ موصوف عربی ہیں یا عجمی۔۔۔۔!
مدینہ یونیورسٹی میں قیام کے دوران ایک مرتبہ مسجد نبوی کے باب السعود میں نماز مغرب کے بعد عربی میں ایک جاندار تقریر فرمائی۔ فلسطین، کشمیر، اور اریٹریا کے پس منظر میں آپ نے ماضی کو آواز دی۔ بھیڑ بڑھتی اور آنکھیں بھیگتی چلی گئیں۔ سسکیاں آہوں اور کراہوں میں بدل گئیں۔ پورا حرم اُمڈ آیا۔ اذان عشاء نے سلسلہ تقریر منقطع کرنے پر مجبور کر دیا۔ نماز کھڑی ہو گئی۔ ادھر سلام پھری ادھر لوگ پل پڑے۔ اظہارِ محبت میں ماتھے کو چومنے لگے۔ کچھ بھیڑ چھٹی تو عرب دھرتی کے بہت بڑے خطیب، دمشق یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر، اور اسلام کے مایہ ناز فرزند ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی کو سامنے کھڑا پایا۔ فرزند پاکستان کی نظریں ادباً جھک گئیں، ڈاکٹر صاحب آگے بڑھے اور کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ کہاں سے ہو نوجوان؟ (احسانِ الٰہی ظہیر) بولا: پاکستان سے، پاکستان سے۔۔۔؟ انہوں نے حیرت و استعجاب سے سوال دہرایا! جی ہاں پاکستان سے، نوجوان (احسان الٰہی ظہیر) کو سینے سے لگایا اور بولے ''انا اخطب فی العرب ولکن انا اقول انت اخطب منی'' لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں عالم عرب کا سب سے بڑا خطیب ہوں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم مجھ سے بھی بڑے خطیب ہو
(سفر حجاز صفحہ نمبر ۵۳)
علامہ صاحب کی یہ خاصیت تھی کہ جس زبان میں گفتگو کرتے، مدلل گفتگو کرتے۔ ایک آن میں مجمع کو شعلہ بنا دیتے تھے۔ جس عنوان کو چھیڑتے اس کو پورا کرتے تھے۔ سیرت النبی ﷺ اور فضائل صحابہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہوتے تھے۔ جب صحابہ کے ابتدائی حالات اور رسول اللہ ﷺ پر آنے والی مشکلات کا تذکرہ کرتے تو اشک بار ہو جاتے تھے۔ لوگوں کی دھاڑیں نکل جاتی تھیں۔ اور جب حسن مصطفیٰ ﷺ کا تذکرہ کرتے تو محسوس ہوتا کہ بلبل چہک رہا ہے۔ ریاض رسول ﷺ میں غالب جیسے قادر الکلام شاعر نے کہا تھا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
علامہ صاحب قدرت سے جری دل، روشن دماغ، اور جانثارانہ جذبہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ بظاہر حالات کی تنگی سے کبھی مرعوب نہ ہوتے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتے تھے۔ جب فرق ضالہ کا تعارف کراتے تو برجستہ گوئی اور بے باکی و جرأت سے اظہار حق فرماتے تھے۔
وہ جہاں جاتے اہل حدیثیت ان کے ہمراہ جاتی تھی۔ جلسہ ہو یا نجی محفل، عام گفتگو ہو یا سیاسی مجلس، ہر مقام پر اپنا مسلکی تشخص برقرار رکھتے تھے۔ لفظ اہلحدیث پر جرح و نقد برداشت نہ کرتے تھے۔ اگر کہیں کوئی اہل حدیث کے خلاف کوئی بات کر دیتا، تو اُٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور دلائل و براہین سے اہل حدیث کی عظمت و رفعت کو ثابت کرتے اور منواتے تھے۔
علامہ صاحب سید داؤد غزنویؒ، ابراہیم میر سیالکوٹیؒ اور مولانا اسماعیل سلفیؒ کے مشن کو لے کر آگے بڑھے۔ لیکن ہر عظیم شخصیت کی طرح انہوں نے اپنا ایک علیحدہ تعارف بھی قائم کیا۔ جو یقیناً ان کا حق بھی تھا۔ جس طور پر اہل حدیث کے لئے انہوں نے خدمات سر انجام دیں، برصغیر کی پاکستانی تاریخ میں اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے لفظ اہل حدیث کو گالی سمجھ کر قبول کیا اور تیس برس کی جاں بلب محنت کے بعد اسے (لفظ اہلحدیث) سعادت کے طور پر دنیا والوں سے منوایا۔
خود فرمایا کرتے تھے: ۔
گو اپنے دوستوں کے برابر نہیں ہوں میں۔۔۔۔۔۔لیکن کسی حریف سے کم تر نہیں ہوں میں
اللہ تعالیٰ نے بے شمار خصوصیات کے ساتھ ساتھ تالیف و تصنیف کا شاندار ذوق بھی وافر مقدار میں عطا فرمایا تھا۔ مختلف مذاہب و مسالک پر بے شمار کتابیں لکھیں۔ جو لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو کر نہ صرف عالم اسلام، عالم عرب، بلکہ دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں۔ علامہ صاحب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے براہِ راست عربی میں لکھا ہے اگر عمر وفا کرتی تو وہ عیسائیت، یہودیت، بدھ مت اور دیگر ادیان باطلہ پر سیر حاصل لکھتے۔ اسی طرحح دیو بندیت پر بھی مدلل لکھنا ان کے پروگرام میں شامل تھا۔ علامہ صاحب کی بہت سی کتابوں کے اردو، فارسی، انگریزی اور دیگر متعارف عالمی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔
بقول مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ تعالیٰ مذاہب و مسالک پر ان کے عقائد و نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے بڑھ کر کوئی نہیں لکھ سکا۔ اس میدان میں وہ یکتا و تنہا تھے۔ (ہفت اقلیم)
کتابوں کی تصنیف و تالیف، ذاتی کاروبار، غیر ملکی دورے، ملکی سیاسیات، قادیانیوں، شیعوں اور بریلویوں سے آنکھ مچولیاں، جمہوریت کی بحالی میں بھرپور انداز سے شرکت، سب ان کی عزیمیت و حمیت کا برملا ثبوت ہیں۔
یوں معلوم ہوتا ہے۔ جو کام پچاس ساٹھ برس میں ہونا تھا اللہ تعالیٰ نے ان سے چند سالوں میں لے لیا۔ ہائے وہ شعلہ مستعجل ثابت ہوئے۔ حاسدوں کا حسد، شیطانوں کی شیطنت، خبیثوں کی خباثت، سازشیوں کی سازش اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئی۔ ۲۲ اور ۲۳ مارچ ۱۹۸۷ء کی درمیانی شب قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کی اہلحدیث کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے جب موصوف کے منہ سے نکلا۔۔۔۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
یہ الفاظ ابھی ادا نہ ہو پائے تھے کہ تباہی پھیل گئی۔ اہلحدیثوں کی بساط الٹ گئی۔ مولانا قدوسیؒ، مولانا محمد خان نجیبؒ یکے بعد دیگرے اور مولانا حبیب الرحمٰن یزدانیؒ دوسرے روز شہید ہو گئے۔
اور علامہ صاحب شدید زخمی ہو گئے، میو ہسپتال میں علاج معالجہ کے بعد شاہ فہد کی فرمائش پر علامہ صاحب کو ریاض ملٹری ہسپتال (سعودی عرب) پہنچا دیا گیا۔ لیکن قضا و قدر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جنت الفردوس کا راہی اب زیادہ دیر عالم دنیا میں نہیں ٹھہرنا چاہتا تھا۔ آخر موت و حیات کی کشمکش کی چند ساعتوں کے بعد علامہ صاحب نے دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔ بالآخر تھکے ماندے مسافر کو قرار ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے متوالے، توحید کے رکھوالے، اور سنت کے دیوانے کو دیارِ حبیب میں بلوا کر شہادت کے خلعت سے سرفراز فرمایا۔ ۳۰ مارچ ۱۹۸۷ء کو ان کے جسد خاکی سے روح پرواز کر گئی۔ ریاض کی شاہی مسجد میں ان کے مشفق استاذ سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز (رحمۃ اللہ علیہ) نے رو رو کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ریاض میں تاریخی جنازوں میں سے یہ ایک تاریخی جنازہ تھا۔ جس میں ہزاروں اہل علم لوگوں نے شرکت کی تھی۔
دوسرا جنازہ مسجد نبوی کے امام نے لاکھوں کے مجمع میں بڑی آہ و زاری اور رقت قلبی سے پڑھایا۔ اور پھر حضرت علامہ شہیدؒ کو صحابہؓ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، مفسرین، مجاہدین اور اولیاء کرام کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
بے تاب آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ مقام رفیع ہر سچے، صادق اور درد دل رکھنے والے مسلمان کو عطاء فرمائے (آمین) پاکستان کا افتخار، احسان الٰہی ظہیرؒ اسلامی دنیا کا ہیرو، احسان الٰہی ظہیرؒ، فضل و کمال کا پیکر احسان الٰہی ظہیرؒ، حکمت و معرفت کا دانا احسان الٰہی ظہیرؒ، کاروان اہلحدیث کا رہنما احسان الٰہی ظہیرؒ، رخصت، ہوا۔۔۔۔
چھیڑ خوبان سے چلی جائے اسد۔۔۔۔۔۔گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
(مضمون نگار:جناب عدیل احمد اسد)
http://forum.mohaddis.com/threads/حضرت-علامہ-احسان-الہی-ظہیر-شہید-رحمۃ-اللہ-علیہ.340/
اللہ تعالى ان کی قبر کو جنت کا باغ بناے۔
احسان الہی کہ تھا اک مرد قلندرتقریر میں تحریر میں رنگ اس کا نرالااللہ کو پیارا ہوا کس پاک زمیں پروہ دین و سیاست کی قلمرو کا جیالاجناب سلیم تابانی