• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کبیرہ گناہ! جن کو معمولی سمجھ لیا گیا

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
خطبہ جمعہ حرم مدنی.......9 ربیع الثانی 1433ھ

خطیب فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن القاسم
مترجم: عمران اسلم
پہلا خطبہ:

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهدِه الله فلا مُضِلَّ له، ومن يُضلِل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
بندگان خدا:
اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ خواہشات نفس کو کنٹرول کرنے اور بدبختی ہدایت سے پہلو تہی کرنے کا نام ہے۔
اللہ نے دین اسلام کے ذریعے لوگوں پر احسان کیا ہے۔ جو شخص دین سے تمسک اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے آسانی فراہم کرے گا اور جو اس سے راہ فرار اختیار کرے گا اس کو معصیت کے قریب کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اطاعت اور اہل اطاعت سے محبت کرتا اور اس کا حکم دیتا ہے۔ معصیت اور اہل معصیت سے نفرت کرتا اور اس سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ جب کسی گناہ کا ارتکاب کیا جاتا ہے اس کی غیرت جوش میں آ جاتی ہے۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«إن الله يغارُ، وغيرةُ الله أن يأتي المؤمنُ ما حرَّم اللهُ»؛ رواه البخاري.
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ غیرت والے ہیں۔ اللہ کی غیرت کا تقاضا ہے کہ مؤمن اس کی حرام کردہ چیزوں سے احتراز کرے۔‘‘
گناہوں کے اثرات بالکل اسی طرح ہوتے ہیں جس طر ح زہر کااثر جسم میں ہوتا ہے۔ کچھ گناہ انسان کو مرتبہ ایمان سے نکال کر مرتبہ اسلام تک لے آتے ہیں اور کچھ گناہ تو دائرہ اسلام ہی سے خارج کر دیتے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بہت سی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا ثواب بہت زیادہ رکھا ہے اسی طرح بہت سے گناہ ایسے ہیں جو بظاہر تو معمولی ہیں لیکن ان کا گناہ بہت زیادہ ہے۔ ہم ذیل میں ایسے گناہوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں:
بہت سے لوگ صرف اپنی زبانوں کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔
اللہ کے علاوہ کسی مردے یا بت کو ضرورت کے وقت پکارنا زبان کے استعمال کی قبیح ترین صورت ہے۔ یہ تمام اعمال کی بربادی کا سبب اور نہ ختم ہونے والے عذاب کا پروانہ ہے۔ اورایسا کرنے والے کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ [الأحقاف: 5].
’’اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا ؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بے خبرہوں۔‘‘
اللہ، اس کے رسولﷺ اور دین کا استہزا کرنا بھی اسلام سےخارج کرنے کے لیے کافی ہے۔
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ [التوبة: 65، 66]
’’کہہ دیجئے کہ اللہ،اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق مذاق کے لیے رہ گئے ہیں؟ تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہو گئے۔ اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے در گزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا دیں گے۔‘‘
شیخ عبدالرحمٰن بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ بسا اوقات انسان ایک جملے، ایک عمل حتیٰ کہ صرف دل کے ارادے کے ساتھ ہی کافر ہو جاتا ہے۔ علم اور اہل علم کا احترام نہ کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔‘‘
جو شخص اپنے دل میں غیر اللہ کو جگہ دیتا ہے یا اپنی زبان سے غیراللہ کے لیے تعظیم کا اظہار کرتا ہے تو وہ مشرک ہے۔ نبی کریمﷺ یا اپنے باپ وغیرہ کی قسم اٹھانا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«من حلفَ بغير الله فقد كفرَ أو أشركَ»؛ رواه الترمذي.
’’ جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔‘‘
یاد رکھئے! جس شخص سے کسی معمولی سے شرک کا بھی اظہار ہوا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت میں کسی بھی قسم کا نقص ناقابل قبول ہے۔ اللہ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ [النساء: 48].
’’یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘
جادو سیکھنا بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ جادوگر دین و دنیا کی تباہی کی جڑہے۔ وہ نفع و نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ کو سمجھنے سےقاصر ہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’ جادو سیکھنے اور سکھانے والا ہم میں سے نہیں۔‘‘
تعویذ لٹکانا بھی شرک ہی کی قسم ہے اور اس سے صرف زندگی سے محبت اور موت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
غیب کاعلم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ [النمل: 65]
’’کہہ دیجئے! آسمانوں والوں میں سے زمیں والوں میں سے سوائے اللہ کےکوئی غیب نہیں جانتا۔‘‘
جو شخص کاہن کو علم غیب سے آگاہ سمجھے وہ کافر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’ جو کاہن کے پاس آیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی تو اس نے محمدﷺ پر نازل کردہ سے کفر کیا۔‘‘
اگر انسان کفریہ اقوال و اعمال سے بچ جائے تو شیطان اس کو دیگر کبیرہ گناہوں میں مبتلا کر دیتا ہے، جیسا کہ انسان اپنی زبان کا غلط استعمال کرنے لگ جاتا ہے اور دوسرے مسلمان کی عزت کی بھی پروا نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غیبت سے باز رہنے کا حکم دیا اور غیبت کو مرے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی۔ علاوہ بریں غیبت کرنے والے کے لیے قیامت کے روز تانبے کےناخن ہوں گے جن سے وہ اپنے بدن کو نوچے گا۔
ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریمﷺ کے سامنے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے چھوٹے قد کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«لقد قلتِ كلمةً لو مُزِجَت بماء البحر لمَزَجَته»؛ رواه أبو داود.
’’تمہاری بات کو اگر سمندر میں ڈال دیا جائے تو وہ کڑوا ہو جائے۔‘‘
ہمارے اسلاف نے اہتمام کے ساتھ اپنے آپ کو اس معصیت سے محفوظ رکھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ مجھے امید ہے کہ اللہ اس وجہ سے میرا مواخذہ نہیں کرے گا کہ میں نے کسی کی غیبت کی ہو۔‘‘
چغل خوری بھی غیبت ہی کی طرح ہے۔ اور یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا قبر میں فوراً دی جائیگی۔ اور آخرت میں ایسے شخص کے لیے جنت سے محرومی کا وعدہ ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
«لا يدخلُ الجنةَ قتَّات»
’’ چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘
جس طرح اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان کی عدم موجودگی میں ایسی باتیں کرنے سے منع فرمایا ہے جو اس کو نا پسند ہوں اسی طرح اس کے سامنے بھی زبان درازی سے منع فرمایا۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔‘‘
اور فرمایا:
’’مسلمان پر لعنت کرنا اس کے قتل کے مترادف ہے۔‘‘
جو شخص پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتا ہے اللہ تعالیٰ کی اس پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ایسے شخص کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
علاوہ ازیں مسلمان کا حق چھیننے والے کے لیے اللہ نے آگ کو لازم اور جنت کو حرام قرار دیا ہے۔ ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے پوچھا چاہے کوئی معمولی چیز بھی ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’چاہے وہ مسواک ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
جو شخص دوسروں پر لعنت کرتا ہے اس کے لیے روز قیامت گواہی اور شفاعت نہیں کی جائے گی۔
اسی طرح جھوٹ علاماتِ نفاق میں سے ہے۔ اسلام نے بطور مزاح جھوٹ بولنے سے بھی منع فرمایا۔ فرمایا:
’’لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنے والے کے لیے ویل(جہنم کی وادی) ہے۔ آپﷺ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔‘‘
جو کوئی دعویٰ کرے کہ میں نے فلاں خواب دیکھا ہے لیکن حقیقتاً دیکھا نہ ہو تو اس کو قیامت کےروز ایسا کام کرنے کا حکم دیا جائیگا جو ا س کے بس سے باہر ہوگا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ جس نے جھوٹ موٹ خواب بیان کیا اس کو دو جو کے دانوں کو گانٹھنے کا حکم دیا جائیگا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر پائے گا۔‘‘
ایسا آدمی بھی آگ کامستحق ہو گا جو غنی ہونے کے باوجود لوگوں سے مانگتا ہے۔
اور جس نے لوگوں کی چھپ کے ایسی بات سنی جس کو وہ ناپسند کرتے تھے تو ایسے شخص کے کانوں میں روزِ قیامت سیسہ ڈالا جائے گا۔
ہر مسلمان کا اخلاقی فرض ہے کہ زبان کے ساتھ ساتھ اپنے افعال پر بھی نظر رکھے۔ شرک کے علاوہ اور بہت سے گناہ ایسے ہیں جو بظاہرمعمولی ہیں لیکن اللہ کے ہاں وہ بہت بڑے ہیں۔ ان میں سے ایک، مسلمان کاقتل ہے۔ قاتل کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سخت سزائیں بیان فرمائی ہیں:
وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا [النساء: 93]
’’ اور جوکوئی کسی مومن کو قتل کر ڈالے ، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔‘‘
آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ اگر پوری دنیا بھی ایک مؤمن کے قتل کے لیے اکٹھی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں پھینک دے گا۔‘‘
اور تو اور دین اسلام میں اپنے آپ کو قتل سے کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے، کیونکہ انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت خداوندی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص دنیا میں جس چیز کے ساتھ اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے روز قیامت اسی کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔‘‘
اسلام نے مسلمانوں کی زندگی کے تحفظ کے لیے قتل کے تمام ذرائع کا یہ کہہ کر خاتمہ کر دیا:
کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی طرف کسی لوہے سے اشارہ کرتا ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کی عزت کے تحفظ کے لیے زنا کو حرام ٹھیرایا۔ بلاشبہ زنا میں وہی شخص مبتلا ہوتا ہے جو راندہ درگاہ ہو۔ اللہ نے فرمایا:
إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا [الإسراء: 32]
’’خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے۔‘‘
امام احمد فرماتے ہیں:
"أعظمُ الذنوبِ عند اللهِ: الشركُ، ثم القتلُ، ثم الزنا"
’’اللہ کے ہاں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: شرک، قتل اور زنا کرنا۔‘‘
اس کے علاوہ سود جہاں دولت کے خاتمے کے باعث بنتا ہے وہیں مال میں سے برکت بھی ختم کر دیتا ہے اور اہل سود کو فقر میں مبتلا کر دیتا ہے:
يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا [البقرة: 276]
’’ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سود کھانے والے پر لعنت کی اور اس سے اعلان جنگ کیا۔ جس سے اللہ تعالیٰ جنگ کا وعدہ کریں اس کی بربادی میں کس کو شک ہو سکتا ہے؟
چور کو اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے حقوق چھیننے کی وجہ سے لعنت کا مستحق ٹھیرایا۔ علاوہ بریں جس نے لوگوں کے مال و اسباب کو تلف کیا اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کرے گا۔ اور جو کسی کی ایک انچ بھی زمین ظلماً ہتھیائے گا وہ ساتویں زمین تک دھنسایا جائے گا۔
دین میں بدعت شروع کرنے والے کو بھی لعنت کا مستحق ٹھیرایا گیا ہے۔
جس نے کسی کو ناجائز طریقے سے مال دیا وہ راشی ہے۔ اور رشوت دینے اور لینے والے پر بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’تین طرح کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ جھگڑا کریں گے۔ 1۔ امانت میں خیانت کرنے والے سے۔2۔ آزاد شخص کو غلام بنا کر بیچنے والے سے۔ 3۔ اور اس شخص سے جس نے کسی سے کام کروایا لیکن معاوضہ نہ دیا۔‘‘
شراب پینے والے کی اللہ تعالیٰ چالیس دن تک نماز قبول نہیں کرتے، وہ جنت میں شراب طہور سے محروم رہے گا اور اسے بطور سزا اہل جہنم کا پسینہ پلایا جائے گا۔
لباس اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ لباس میں احکامات خداوندی کو ملحوظ رکھے۔ اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکائے، ورنہ اپنے آپ کو عذاب الہٰی کے لیے تیار رکھے۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«ثلاثةٌ لا يُكلِّمُهم الله يوم القيامةِ ولا ينظُرُ إليهم ولا يُزكِّيهم ولهم عذابٌ أليم: المُسبِلُ، والمَنَّانُ، والمُنفِّقُ سلعتَه بالحلِفِ الكاذِبِ»؛ رواه مسلم.
’’روز قیامت اللہ تعالیٰ تین لوگوں سے کلام نہیں کریں گے، ان کی طرف دیکھیں گے اور نہ ہی ان کو پاک کریں گے۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا: 1. کپڑا ٹخنے سے لٹکانے والے ۔ 2. احسان جتلانے والے اور 3. جھوٹی قسم کھا کر سامان فروخت کرنے والے سے۔‘‘
نقلی بال لگانے اور لگوانے، پلکنگ کروانے اور کروانے والی خاتون پر بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے بیوی پر خاوند کی اطاعت کو لازم قرار دیاہے۔ جب شوہر بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ (بلا وجہ) انکار کر دے تو صبح تک فرشتے بیوی پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔
جب کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے تو ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
عبادات میں بھی کچھ افعال ایسے ہیں جو بظاہر معمولی ہیں لیکن ان کی سزا بہت شدید ہے۔ نبی کریم ﷺ نےفرمایا:
’’نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو اگر اس کی سزا کا ادراک ہو جائے تو وہ چالیس (سال) کھڑے رہنا زیادہ بہتر محسوس کرے۔‘‘
اور
«الذي يُسابِقُ الإمامَ يُخشَى أن يُحوِّلَ الله رأسَه رأسَ حمارٍ أو صورتَه صورةَ حمارٍ»؛ متفق عليه.
’’جو مقتدی اپنے امام سے (دوران نماز) سبقت کرے تو اسے ڈرنا چاہئے کہ اللہ اس کا سر یا صورت گدھے کی بنا دے۔‘‘
اور نبی کریمﷺ نے دوران نماز اوپر دیکھنے پر بھی سخت وعید بیان فرمائی۔
مسلمان کی اس کی زندگی اورموت کے بعد بھی تعظیم از حد ضروری ہے۔ مردے کی ہڈی توڑنا زندہ کی ہڈ ی توڑنے کے مترادف ہے۔ اور اس کی قبر پر بیٹھنا اس کی اہانت ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ تمہارا آگ کے انگارے پر بیٹھنا مسلمان کی قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔‘‘
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جب انسان کوئی نیک عمل کرتا ہے تو شیطان ریا اور نیک نامی کے نام پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے بہکاوے میں آ جانے والے کو اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہئے۔
اور جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوا وہ گمراہ ہو گیا۔
وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [الحجر: 56].
’’ اپنے رب کی رحمت سے صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔‘‘
حسد دل کی تاریکی اور نیکیوں کی موت ہے۔ کبریائی اللہ کی صفت ہے جو اسے چھیننے کی کوشش کرے گا اللہ اس کو عذاب کا مزا چکھائے گا۔ اور جو تکبر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کر دیں گے۔ فرعون نے کہا:
أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى [النازعات: 24]
’’میں تمہارا بلند و بالا رب ہوں۔‘‘
اور جو اپنی صلاحیتوں پر تکبر کا اظہار کرے اللہ اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔ قوم عاد کو اپنی قوت و شوکت پر بہت مان تھا۔ وہ کہتے تھے:
مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً [فصلت: 15]
’’ہم سے زیادہ قوت والا کون ہے؟۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہوا کے ذریعے ان کو تہ و بالا کردیا۔
مسلمانان گرامی!
مسلمان کی اہم ترین چیز اس کا دین ہے۔ اس لیے اسلام نے ضروریات دین کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے۔ فلہٰذا مسلمان کو چاہیئے کہ وہ اپنی زبان اور افعال کی حفاظت کرے۔
انسان ایک کلمے کے ذریعے دین اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔ اسلام کاتقاضا ہے کہ اس کلمے کو عمل کا حصہ بنایا جائے۔ خوش بخت ہے وہ جو اس کے ساتھ تمسک اور محبت کرے اور باقی سب چیزوں کو خیر باد کہہ دے۔ اس پر ثابت قدمی دکھانے والے کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی ہے۔
مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا [النساء: 123]
’’جو برا کرے گا اس کی سزا پائے گا اور کسی کو نہ پائے گا جو اس کی حمایت و مدد، اللہ کے پاس کر سکے۔‘‘
بارك الله لي ولكم في القرآن العظيم، ونفعني الله وإياكم بما فيه من الآياتِ والذكرِ الحكيم، أقول ما تسمعون، وأستغفر الله لي ولكم ولجميع المسلمين من كل ذنبٍ، فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.

خطبہ ثانی

الحمد لله على إحسانه، والشكرُ له على توفيقِهِ وامتِنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له تعظيمًا لشأنه، وأشهد أن محمدًا عبدُه ورسولُه، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا مزيدًا.
اے مسلمانو!
نصیحت دین کی اساس ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
«الدينُ النصيحة»؛ رواه مسلم
’’دین نصیحت (کا نام) ہے۔‘‘
جب ایک مسلمان اپنے بھائی کو نصیحت کرتا ہے تو وہ اس کی بھلائی کا طالب ہوتا ہے۔ نصیحت مسلم معاشرے کی باہمی الفت و محبت میں اضافے کا باعث ہے۔ اور برائی، اگر مخفی ہو تو اس کے اثرات برائی کرنے والے تک محدود رہتے ہیں لیکن اگر وہ علانیہ ہو تو پورے معاشرے پر اس کے اثرات بہت برے اور گھمبیر ہوتے ہیں۔
دل کی زندگی گناہوں کےترک کرنے اور قرآن کریم کا فہم حاصل کرنے میں ہے۔
اخیر میں ذکر کرتا چلوں کہ اللہ نے ہمیں نبی کریمﷺ پر درود کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
إِنَّ اللهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الذِيْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا [الأحزاب: 56].
’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجواور خوب سلام بھیجتے رہا کرو۔‘‘
خطبہ پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
محترم! آپ نے ”دن“ کی قید اپنی طرف سے لگادی جبکہ حدیث میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
 
Top