عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
کتاب کا نام
مصنف
مترجم
ناشر
انسان کی زندگی میں بسااوقات کچھ ایسے لمحات و واقعات پیش آجاتے ہیں، کہ وہ دنیاوی ذرائع اور وسائل کی کثرت کے باوجود اپنے آپ کو بے بس اور مجبور محض محسوس کرتا ہے۔ اس عالم بےساختہ میں اس کے ہاتھ دعا کےلیے اٹھتے ہیں اور اس کی زبان پر چند دعائیہ کلمات اداء ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں اپنے سے کسی بالاتر ہستی کو پکارنا، دعا اورمناجات کے زمرے میں شامل ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں دعا کا یہ تصور موجود رہا ہے، مگر اسلام نے دعا کی حقیقت کو ایک مستقل عبادت کا درجہ عطا کیا ہے۔قرآن مجیدمیں بے شمار دعائیں موجود ہیں۔ سورۃ فاتحہ سے بہتر ین دعا کی اور کیا صورت ہوسکتی ہے، اور آخری دو سورتوں (معوذتین) سے بہتر استعاذہ اور مدد کےلیے کیا اذکار ہوسکتے ہیں۔ حقیقیتِ دعا کو اسلام سے بہتر نداز میں کسی دوسرے مذہب نے پیش نہیں کیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کسی نے اس کے آداب وضوابط اور کلمات عطا نہیں فرمائے۔ مگر افسوس کہ آج بازار میں دعاوں کے نام پربعض ایسی کتب پھیلائی جارہی ہیں ،جن میں مشرکانہ اور جہل آمیز کلمات ملتے ہیں ۔جن کی ادائیگی سے پریشانیاں دور ہونے اور مصیبتیں ٹلنے کے بجائے ہمارے نامہ اعمال کی سیاہی میں کچھ اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے دعا اور اس سے متعلقہ مسائل، آداب، ضوابط اور قبولیت وعدم قبولیت کے اسباب سمیت دعا کے تمام مسائل سمٹ آئے ہیں۔ گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ دعا کے ساتھ منسوب غیر شرعی تصورات، جن میں توسل وغیرہ کو بہت گمراہ کن انداز میں پیش کیا جاتا ہے،کی بھی علمی وتحقیقی انداز میں شرعی دلائل کے ساتھ تردید کی گئی ہے۔ مسنون دعا ایک بندۂ مومن کو عرش الٰہی کے قریب اور قبولیت کے مقام پر فائز کر دیتی ہے، اور غیر مسنون اور من گھڑت دعائیں اسے شرک وبدعات کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گراتی ہیں ۔زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے ہمیں قبولیت دعا کا وہ خزانہ مل جائے گا جس سے زیادہ اس دنیا میں ہماری کوئی اور ضرورت نہیں ہے۔ آئیے اس کتاب کے مطالعے سے ہم استجابت کے خزانوں کو حاصل کریں اورہر نوع کی بریشانیوں سے نجات حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ اس علمی اور تحقیقی کاوش کو عامۃ الناس میں مقبول بنائے۔ آمین۔(ک۔ح)کتاب الدعا
مصنف
ابو عبدالرحمن بن جیلان بن حضر عروسی
مترجم
الشیخ حافظ مبشر حسین
ناشر
نعمانی کتب خانہ،لاہور
تبصرہ
Last edited: