- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عرصہ ہوا کہ کراچی میں جناب مفتی فیصل جاپان والا کے توسط سے غامدی صاحب کے شاگرد معز امجد صاحب سے ایک علمی گفتگو ہوئی تھی کہ جس میں راقم کے ساتھ جناب طاہر الاسلام عسکری صاحب بھی شریک تھے۔ اس مجلس کا کل حاصل میرے لیے ایک جملے میں یہ تھا کہ معز امجد صاحب نے یہ کہا کہ میرے لیے بنیادی ترین سوال یہ ہے کہ کتاب وسنت کا باہمی تعلق کیا ہے؟
یہ امر واقعہ ہے کہ ان سے ملاقات سے پہلے میں نے اس سوال پر غور نہیں کیا تھا لیکن اس نشست کے بعد واقعتا یہ محسوس ہوا کہ دین کے ایک سنجیدہ طالب علم کے لیے یہ بہت ہی بنیادی سوال ہے۔ اس سوال پر مطالعہ اور غور وفکر شروع کیا اور پھر اس موضوع پر کافی کچھ لکھا بھی کہ جس کا خلاصہ ذیل میں بیان کر رہا ہوں۔
سلف صالحین کا اس بارے اختلاف ہے کہ سنت، کتاب کے علاوہ کوئی دین کا مصدر ہے یا یہ دونوں ایک ہی مصدر ہیں۔ یہ بہت باریک نکتہ ہے کہ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جمہور کا موقف یہ ہے کہ کتاب ایک علیحدہ مصدر دین ہے اور سنت ایک علیحدہ مصدر دین ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ نہیں، کتاب وسنت ایک ہی مصدر ہے، یہ دو مصادر نہیں ہیں۔
اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جمہور کے نزدیک سنت، کتاب اللہ کے احکامات کی شرح اور بیان بھی ہے اور اس پر اضافہ بھی ہے کہ سنت میں بعض احکامات ایسے ہیں کہ جن کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ سنت کل کی کل، قرآن مجید کا بیان ہے۔ یعنی سنت کا کوئی حکم ایسا نہیں ہے جو کتاب اللہ کی کسی آیت کی شرح اور بیان نہ ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے ایسی بہت سی احادیث کو کہ جنہیں لوگ کتاب اللہ پر اضافہ سمجھتے تھے، کتاب اللہ کا بیان ثابت کیا ہے۔
راقم کا موقف بھی اس بارے یہی ہے کہ اگرچہ موقف دونوں درست ہیں کہ اصولی طور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی دین کا مصدر ہیں، چاہے کتاب اللہ ہو یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں آپ کی ذات ہی سے صادر ہوتے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو کتاب اللہ سے علیحدہ مصدر ماننے میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں لیکن عملی بات امام شافعی رحمہ اللہ کی زیادہ صحیح ہے کہ سنت، کتاب اللہ کا بیان ہے۔
سنت سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اور تقریر ہے جو حدیث میں موجود ہے۔ اس مجلس کے بعد سے راقم کے سامنے جب بھی کوئی سنت آتی ہے تو فورا ذہن قرآن مجید کی کسی آیت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ یہ سنت اس آیت کا بیان ہے۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث کےذریعے کتاب اللہ کو کھول کر بیان کیا ہے اور ہر حدیث، کسی نہ کسی آیت ہی کا بیان ہے۔
پس قرآن مجید الفاظ ہیں اور سنت ان الفاظ کا معنی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں لفظ اہم ہے اور سنت میں معنی۔ قرآن مجید میں لفظ کی حفاظت پر زور ہے اور سنت میں معنی کی۔ لفظ اور معنی کا تعلق لازم وملزوم کا ہے۔ جو لوگ سنت کا انکار کرتے ہیں، وہ صرف اللہ کے الفاظ کو قبول کرتے ہیں اور ان الفاظ سے اللہ کی مراد کو نکال کر اپنی مراد ڈال دیتے ہیں۔
قادیانیت، رافضیت، باطنیت، خوارجیت، اعتزال وغیرہ جیسی جتنی فکری گمراہیاں ہیں، سب کی بنیاد قرآن مجید ہے۔ اور قرآن مجید اسی وقت گمراہی کی بنیاد بن جاتا ہے جب اس کے معنی یعنی سنت کا انکار کر دیا جائے اور پھر تو صرف الفاظ ہیں، اب آپ ان سے جو کھیل کھیلنا چاہیں، کھیل سکتے ہیں اور اسی لیے خود قرآن مجید نے کہا ہے کہ یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا۔
بشکریہ: محترم @ابوالحسن علوی
کتاب وسنت کا باہمی تعلق
عرصہ ہوا کہ کراچی میں جناب مفتی فیصل جاپان والا کے توسط سے غامدی صاحب کے شاگرد معز امجد صاحب سے ایک علمی گفتگو ہوئی تھی کہ جس میں راقم کے ساتھ جناب طاہر الاسلام عسکری صاحب بھی شریک تھے۔ اس مجلس کا کل حاصل میرے لیے ایک جملے میں یہ تھا کہ معز امجد صاحب نے یہ کہا کہ میرے لیے بنیادی ترین سوال یہ ہے کہ کتاب وسنت کا باہمی تعلق کیا ہے؟
یہ امر واقعہ ہے کہ ان سے ملاقات سے پہلے میں نے اس سوال پر غور نہیں کیا تھا لیکن اس نشست کے بعد واقعتا یہ محسوس ہوا کہ دین کے ایک سنجیدہ طالب علم کے لیے یہ بہت ہی بنیادی سوال ہے۔ اس سوال پر مطالعہ اور غور وفکر شروع کیا اور پھر اس موضوع پر کافی کچھ لکھا بھی کہ جس کا خلاصہ ذیل میں بیان کر رہا ہوں۔
سلف صالحین کا اس بارے اختلاف ہے کہ سنت، کتاب کے علاوہ کوئی دین کا مصدر ہے یا یہ دونوں ایک ہی مصدر ہیں۔ یہ بہت باریک نکتہ ہے کہ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جمہور کا موقف یہ ہے کہ کتاب ایک علیحدہ مصدر دین ہے اور سنت ایک علیحدہ مصدر دین ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ نہیں، کتاب وسنت ایک ہی مصدر ہے، یہ دو مصادر نہیں ہیں۔
اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جمہور کے نزدیک سنت، کتاب اللہ کے احکامات کی شرح اور بیان بھی ہے اور اس پر اضافہ بھی ہے کہ سنت میں بعض احکامات ایسے ہیں کہ جن کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ سنت کل کی کل، قرآن مجید کا بیان ہے۔ یعنی سنت کا کوئی حکم ایسا نہیں ہے جو کتاب اللہ کی کسی آیت کی شرح اور بیان نہ ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے ایسی بہت سی احادیث کو کہ جنہیں لوگ کتاب اللہ پر اضافہ سمجھتے تھے، کتاب اللہ کا بیان ثابت کیا ہے۔
راقم کا موقف بھی اس بارے یہی ہے کہ اگرچہ موقف دونوں درست ہیں کہ اصولی طور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی دین کا مصدر ہیں، چاہے کتاب اللہ ہو یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں آپ کی ذات ہی سے صادر ہوتے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو کتاب اللہ سے علیحدہ مصدر ماننے میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں لیکن عملی بات امام شافعی رحمہ اللہ کی زیادہ صحیح ہے کہ سنت، کتاب اللہ کا بیان ہے۔
سنت سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اور تقریر ہے جو حدیث میں موجود ہے۔ اس مجلس کے بعد سے راقم کے سامنے جب بھی کوئی سنت آتی ہے تو فورا ذہن قرآن مجید کی کسی آیت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ یہ سنت اس آیت کا بیان ہے۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث کےذریعے کتاب اللہ کو کھول کر بیان کیا ہے اور ہر حدیث، کسی نہ کسی آیت ہی کا بیان ہے۔
پس قرآن مجید الفاظ ہیں اور سنت ان الفاظ کا معنی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں لفظ اہم ہے اور سنت میں معنی۔ قرآن مجید میں لفظ کی حفاظت پر زور ہے اور سنت میں معنی کی۔ لفظ اور معنی کا تعلق لازم وملزوم کا ہے۔ جو لوگ سنت کا انکار کرتے ہیں، وہ صرف اللہ کے الفاظ کو قبول کرتے ہیں اور ان الفاظ سے اللہ کی مراد کو نکال کر اپنی مراد ڈال دیتے ہیں۔
قادیانیت، رافضیت، باطنیت، خوارجیت، اعتزال وغیرہ جیسی جتنی فکری گمراہیاں ہیں، سب کی بنیاد قرآن مجید ہے۔ اور قرآن مجید اسی وقت گمراہی کی بنیاد بن جاتا ہے جب اس کے معنی یعنی سنت کا انکار کر دیا جائے اور پھر تو صرف الفاظ ہیں، اب آپ ان سے جو کھیل کھیلنا چاہیں، کھیل سکتے ہیں اور اسی لیے خود قرآن مجید نے کہا ہے کہ یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا۔
بشکریہ: محترم @ابوالحسن علوی