• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"کتاب و سنت کے صحیح فہم کی ضرورت "

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
11889424_895863100449916_2602074574797122271_n.png



"کتاب و سنت کے صحیح فہم کی ضرورت "


فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 06 ذو القعدہ1436 کا مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ بعنوان
"کتاب و سنت کے صحیح فہم کی ضرورت " ارشاد فرمایا !

جس کے اہم نکات یہ تھے:

٭ فہم کتاب و سنت عظیم نعمت
٭ فہم اور عمل کا چولی دامن کا ساتھ
٭ شریعت اور بارش کی مثال
٭ فہم قرآن و سنت سے دوری سنگین گمراہی
٭ امت میں فرقہ واریت کی جڑ کتاب و سنت کی غلط تشریحات
٭ تکفیری سوچ کیسے پیدا ہوئی
٭ صحابہ کرام اور فکری انحراف کی سرکوبی
٭ قرون اولی کے بدعتی معاصر بدعتیوں سے قدرے بہتر
٭ فتوی نویسی کی حساسیت
٭ خارجی لوگ دجال کے ہمنوا
٭ خارجیوں کی سنگین غلطی
٭ خوارج کے اوصاف
٭ خوارج کے ہاں دوستی اور دشمنی کا معیار
٭ سلف صالحین کے ہاں فہم کتا ب و سنت کا معیار
٭ فرقہ واریت سے بچنے کا شرعی نسخہ
٭ نوجوانوں کیلئے نصیحتیں
٭ فتنوں سے تحفظ کتاب و سنت کے فہم میں پوشیدہ ہے۔


پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، وہی غالب اور عطا کرنیوالا ہے، نہایت رحم اور توبہ قبول کرنے والا ہے، وہی نیکیاں قبول اور گناہوں کو معاف ، اور اپنی طرف رجوع کرنے والوں کی رہنمائی کرتا ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے، میری گواہی اخلاص سے بھر پور اور شکوک و شبہات سے خالی ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، آپ پر ہی کتاب نازل کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرما۔


حمد و صلاۃ کے بعد!

تقوی الہی اختیار کرو، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو تھامو؛ کیونکہ جو بھی کتاب و سنت کو تھامے تو وہ فتنوں ، بدعات ، اور گمراہی سے بچ جاتا ہے، اور رضائے الہی حاصل کر کے جنت حاصل کر لیتا ہے، نیز دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران رہتا ہے۔

اللہ کے بندو!

انسان کو حاصل ہونے والی سب سے بڑی نعمت اور عظیم ترین بھلائی یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح فہم اور خیر القرون کے سلف صالحین کے مطابق عمل کرے، کیونکہ عمل صالح کے بغیر فہم و علم کا کوئی فائدہ نہیں ، اور اسی طرح سنت، اور وحی کی دلیل کے بغیر کوئی عمل مفید بھی نہیں ۔

مہلک گناہوں سے نجات یافتہ اور بھلائی پانے والا وہی ہے جو علم نافع و عمل صالح کیلئے کوشش کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{أَفَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (19) الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ (20) وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (21) وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (22) جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (23) سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (24)}

بھلا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کی طرف اپنے پروردگار سے اتارا گیا ہے وہ حق ہے اس شخص جیسا ہی ہے جو (اس حقیقت سے) اندھا ہے؟ مگر نصیحت تو دانشمند ہی قبول کرتے ہیں [19] جو اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کرتے ہیں اور مضبوط کئے ہوئے عہد کو توڑ نہیں ڈالتے [20] اور جن روابط کو اللہ نے ملانے کا حکم دیا ہے؛ انھیں ملاتے ہیں، اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور بری طرح حساب لئے جانے سے خوف کھاتے ہیں [21] اور جنہوں نے اپنے پروردگار کی رضا کے لئے صبر کیا، نماز قائم کی اور اللہ نے جو کچھ انھیں دے رکھا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کیا اور برائی کا بھلائی سے جواب دیا یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا گھر ہے [22] وہ گھر جو ہمیشہ قائم رہنے والے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ ان کے آباء و اجداد، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی داخل ہوں گے اور فرشتے (جنت کے) ہر دروازے سے ان کے استقبال کو آئیں گے [23] (اور کہیں گے) تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم (دنیا میں مصائب پر) صبر کرتے رہے۔ سو یہ آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے ۔ [الرعد : 19 - 24]

اسی طرح فرمایا:

{اَلَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ}

جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں پھر اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی اور یہی دانشمند ہیں ۔ [الزمر : 18]

اور ایک جگہ فرمایا:

{أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ }

یا وہ جو رات کے اوقات قیام اور سجدہ میں عبادت کرتے گزارتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے؟ آپ ان سے پوچھئے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ [الزمر : 9]

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے:

(یا اللہ! میں تجھ سے علم نافع، پاکیزہ رزق، اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں) ابن ماجہ نے اسے صحیح سند کیساتھ روایت کیا ہے۔

اور ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جس ہدایت و علم کیساتھ مجھے اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال زمین پر آنیوالی ایک بارش جیسی ہے، جو اچھی زمین پر ہو تو پانی جذب کر کے بہت زیادہ ہریالی پیدا کرتی ہے، جبکہ سخت زمین پانی روک لیتی ہے ، تو لوگ اس سے خود بھی پیتے ہیں اور جانوروں کو بھی بلاتے ہیں، اور کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں، جبکہ کوئی زمین بالکل چٹیل میدان ہوتی ہے جو نہ پانی روکتی ہے اور نہ ہی ہریالی اگاتی ہے، یہ اس شخص کی مثال ہے جو اللہ کا دین سمجھ لے، اور میری لائی ہوئی شریعت کو قبول کرے، اور اس شخص کی مثال بھی ہے جو اس کی طرف توجہ نہ دے اور اللہ کی رہنمائی قبول نہ کرے) بخاری و مسلم

چنانچہ علم نافع اور عمل صالح کے ذریعے اللہ تعالی اپنے بندے کیلئے ہر خیر یکجا فرماتا ہے، اور ہمہ قسم کے شر سے تحفظ دیتا ہے، اسی کی وجہ سے صراطِ مستقیم پر قدم بھی ثابت فرماتا ہے۔

قرآن و سنت کی تعلیمات سے اعراض عظیم ترین گمراہی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ}

اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جسے اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے اور پھر بھی وہ اعراض کرے! بیشک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔[السجدة : 22]

چنانچہ قرآن و سنت سے اعراض ہی واضح گمراہی ہے، اسی طرح قرآن و سنت کی فاسد تاویل بھی وحی الہی سے اعراض کے مترادف ہے۔

حقیقت میں اسی باطل تاویل نے لوگوں کی سوچ کو خراب کیا، امت کو فرقوں میں تقسیم ، اور مسلمانوں کو کمزور کیا، دلوں میں کھوٹ پیدا کی ، اور اسلام میں بدعات ایجاد ہوئیں، جس کی وجہ سے ایک خوشگوار دین کے ماننے والوں میں عداوت اور بغض پیدا ہوا۔

باطل تاویل کرنے والوں نے معصوم جانوں کے قتل ، اور ان کے اموال کو اپنے لئے جائز سمجھ لیا، پھر انہوں نے اپنی مرضی سے لوگوں کو کافر قرار دیا ، من چاہے لوگوں کو اپنے قریب کیا، اور جسے چاہا اسی کو اپنا دشمن بنا لیا، باطل تاویل پوری امت کے خلاف کھلنے والا فتنوں کا دروازہ ہے۔

فکری انحراف، اور خود ساختہ بدعات حقیقت میں قرآن و حدیث کی فاسد و باطل تفسیر پر ہی مبنی ہیں، چنانچہ صحابہ اور تابعین سے تصادم رکھنے والے فرقے تاویل میں ہی اختلاف کرتے ہیں، نزولِ وحی کے بارے میں اختلاف نہیں کرتے، لہذا باطل تاویل ہی بدعات و گمراہی کی جڑ ہے، یہی وجہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل فاسد تاویل کی بنا پر ہوا، علی رضی اللہ عنہ کا قتل فاسد تاویل کی بنا پر ہوا، اور خوارج نے صحابہ کرام کے مال و جان کو حلال فاسد تاویل کی بنا پر ہی سمجھا ، ذو الخویصرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض فاسد تاویل کی بنا پر ہی کیا تھا۔

صحابہ کرام کے آخری دور میں جب سے کتاب و سنت کی باطل تفسیر رونما ہوئی ہے اسی وقت سے صحابہ کرام اس بدعت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، چنانچہ انہوں نے خوارج کا علمی محاکمہ کیا، ان سے جنگیں بھی لڑیں، الغرض جب کبھی بھی کسی باطل تاویل اور فاسد تفسیر کی بنا پر کسی فتنے نے سر اٹھایا تو صحابہ و تابعین اور ان کے بعد آنے والے علمائے کرام نے اس کی سرکوبی کی، ایسے لوگوں کی خوب خبر گیری کیلئے حکمرانوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا، تا کہ امت کے عقائد کو تحفظ ملے اور دنیاوی مصلحتیں حاصل ہوں، امت کا امن و امان اور استحکام مضبوط ہو، مال و جان اور عزت آبرو کی حفاظت کی جا سکے، راستے اور عبادت کی جگہیں پر امن رہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ [40] الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ}

اگر اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے ذریعہ لوگوں کی مدافعت نہ کرتا تو خانقاہیں، گرجے، عبادت گاہیں اور مساجد جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، مسمار کر دی جاتیں، اور اللہ ایسے لوگوں کی ضرور مدد کرتا ہے جو اس (کے دین) کی مدد کرتے ہیں ۔ اللہ یقینا بڑا طاقتور اور سب پر غالب ہے۔ [40] یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین پر اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکاۃ ادا کریں، اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں ، اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ [الحج :40- 41]

کوئی بدعت بانجھ نہیں ہوتی اور بدعتی لوگوں کے ورثاء ہر دور میں موجود ہوتے ہیں، اور آج کل کے وارثین بدعات گزشتہ بدعتی لوگوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں؛ کیونکہ یہ لوگ عہد نبوت سے اُن کی بہ نسبت زیادہ دور ہیں، ان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے اہل علم نے ان سے قطع تعلقی ، ان کی محفلوں و مجلسوں ، ان کے تعلیمی مراکز و جامعات سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔

چونکہ انہوں نے اپنا سربراہ گمراہ اور جاہل لوگوں کو بنایا ہوا ہے اس لیے وہ لا علمی کے باوجود فتوے صادر کرتے ہیں، اور لوگوں کو گمراہی میں دھکیل رہے ہیں، قدیم خارجی کبھی بھی دھوکہ دہی، غلط بیانی، اور خیانت نہیں کرتے تھے، وہ مساجد کا احترام کرتے تھے، لیکن آج کل کے خوارج دھوکہ دہی، خیانت کاری کیساتھ ساتھ مساجد میں رکو ع و سجدہ کی حالت میں مسلمانوں کو قتل بھی کرتے ہیں، یہ لوگ امن و امان کے محافظین کو بھی قتل کرتے ہیں، اور مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، ان کے ان سنگین جرائم اور خطرناک عزائم کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

(خوارج جہنم کے کتے ہیں)

احمد اور حاکم نے اسے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس کی شاہد ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتلایا کہ یہ لوگ یکے بعد دیگرے رونما ہوتے رہیں گے ، لیکن جب بھی ظاہر ہونگے انہیں کاٹ دیا جائے گا، چنانچہ ابو برزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(یہ ایسے ہی رونما ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ ان کا آخری فرد دجال کیساتھ رونما ہوگا) نسائی

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خوارج صرف دنیا حاصل کرنے کیلئے جد و جہد کرتے ہیں، کیونکہ دجال بھی لوگوں کو دنیا کے ذریعے ہی فتنے میں ڈالے گا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ:

"خوارج نے مشرکین کے بارے میں نازل شدہ آیات نکال کر مسلمانوں پر لاگو کر دی ہیں"

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

(وہ قران پڑھتے ہوئے سمجھیں گے کہ یہ ان کے حق میں ہے، حالانکہ وہ انہی کے خلاف ہوگا، ان کی نمازیں ہنسلی سے بھی اوپر نہیں جائیں گی، اسلام سے اس طرح خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان سے لڑائی لڑنے والا لشکر اگر یہ جان لے کہ ان کیلئے ان کے نبی کی زبانی کیا کچھ انعامات کی شکل میں رکھا گیا ہے تو وہ عمل کرنا ہی چھوڑ دیں) مسلم، ابو داود

دشمنی شرک اور مشرکین سے ہو، اور دوستی عقیدہ توحید اور موحدین سے ہونی چاہیے،

فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ [26] إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ}

اور جب ابراہیم نے اپنے والد اور قوم سے مخاطب ہو کر کہا: میں تمہارے معبودوں سے بری ہوں [26] ماسوائے میرے پروردگار کے؛ بیشک وہی میری رہنمائی کریگا۔ [الزخرف :26- 27]

لیکن یہ لوگ دشمنی رکوع و سجود کرنے والوں سے کرتے ہیں، انہیں مساجد یا جہاں کہیں بھی موقع ملے قتل کر دیتے ہیں، اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، جبکہ دوستی گنتی کے ہم نظریہ بھٹکے ہوئے لوگوں سے رکھتے ہیں ، جو کہ قرآن و سنت سے گمراہ ہو چکے ہیں اور اسی گمراہی میں فتوے بھی دے رہے ہیں۔

فتوی نویسی بہت ہی حساس معاملہ ہے، اسی لئے فتوی نویسی وہی کر سکتا ہے جو سلف صالحین کے فہم کے مطابق دلائل کی روشنی میں گفتگو کرے،

چنانچہ خالد بن خداش کہتے ہیں کہ :

"میں اپنے زمانے کے مفتی مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس چالیس مسائل لیکر آیا ، تو انہوں نے ان میں سے صرف پانچ کے جواب دیے"

کچھ اہل علم ایسے بھی گزرے ہیں جو مرتے دم تک کچھ فقہی مسائل کے بارے میں خاموشی اختیار کئے رہے، حالانکہ انہوں نے اپنی ساری عمر حصول علم میں گزاری تھی۔

ایسے مفتی کا جرم کتنا سنگین ہے جو معصوم مال و جان لوٹنے کا فتوی صادر کرے؟ حقیقت میں اسلامی فرقوں کی گمراہی کا اصل سبب ہی یہی ہے کہ وہ نصوص کو سلف صالحین کے انداز سے نہیں سمجھتے۔

حالانکہ سلف صالحین قرآن و سنت کی تفسیر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ، تفسیر بالقرآن، اقوال صحابہ کے ذریعے تفسیر ، پھر تابعین کے اقوال سے تفسیر بیان کرتے ہیں، اس کے بعد عربی لغت سے دلالت مطابقت یا دلالت تضمین کے ذریعے تفسیر کرتے تھے ، اسی طرح راسخ العلم علمائے کرام سے منقول اقوال کی روشنی میں تفسیر بیان کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اتباع کرنے والے تھے بدعتی نہیں تھے،

فرمانِ باری تعالی ہے:

{اِتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ}

تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے جو کچھ بھی نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو، اس کے علاوہ کسی ولی کی اتباع نہ کرو، تم بہت تھوڑی نصیحت پکڑتے ہو۔[الأعراف : 3]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو بیشک وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔


دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں، وہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، وہی جزا کے دن کا مالک ہے، میں اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی سے توبہ مانگتا ہوں اور بخشش طلب کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی معبودِ بر حق ہے، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، وہی طاقتور اور مضبوط ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر آپکی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے۔


حمدو صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو، اسی کی اطاعت کرو، اسی کی طرف رجوع کرو، اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگو، امن و امان ، جسمانی صحت، اور ملکی خوشحالی پر اسی کا شکر ادا کرو۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی کی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد کرو، اور مستقبل میں آنے والی سختیوں کیلئے نیک اعمال کرو، کیونکہ موت اپنے بعد والی سختیاں ساتھ لیکر آتی ہے، یہی موت تمہیں عالیشان محلات سے قبر کے گڑھے میں منتقل کر دے گی، وہاں پر انسان کو اپنے اعمال ہی ملیں گے، یا تو انسان وہاں پر با مراد ہوگا یا نا مراد، نیز گمراہ کن فتنوں اور فتنہ پرور لوگوں سے بچو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی تھی کہ امت میں اختلاف ہوگا، چنانچہ آپ نے اپنی سیرت پر کار بند رہنے کی تلقین فرمائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(یہودی اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے، عیسائی بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور یہ امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی، ایک فرقے کے علاوہ سب کے سب جہنم میں جائیں گے) کہا گیا: "یا رسول اللہ! وہ کون سا فرقہ ہے؟ " آپ نے فرمایا: (جو اس منہج پر ہوا جس پر آج میں اور میرے صحابہ کرام ہیں)

اور اللہ تعالی نے بھی ہمیں اختلافات، فرقہ واریت سے خبر دار کیا اور فرمایا:

{وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ}

نیز تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور روشن دلائل آجانے کے بعد آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ یہی لوگ ہیں جنہیں بہت بڑا عذاب ہوگا [آل عمران : 105]

اسی طرح فرمایا:

{إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ}

جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں ۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے [الأنعام : 159]

اپنے آپ کو مسلمانوں کی جماعت کیساتھ منسلک رکھو، کیونکہ جماعت کیساتھ اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے، اور جو بھی شذوذ اختیار کریگا وہ جہنم میں بھی اکیلا ہی ہو گا۔

ہماری نوجوان نسل کو جہنم اور بدعات کی طرف بلانے والوں سے خبر دار رہنا چاہیے، اسی طرح چکا چوند کر دینے والے ناموں سے بھی بچیں کیونکہ صرف نام رکھنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی، چنانچہ اللہ تعالی نے منافقین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنے آپ کو اصلاح کار کہتے تھے، اسی طرح کچھ لوگوں نے نبوت کا دعوی کرتے ہوئے اپنے آپ کو "رسول اللہ " بھی کہلوایا، لہذا صرف نام رکھنے سے اللہ کے ہاں مقام بلند نہیں ہوتا، بلکہ نبوی سیرت کے مطابق حقائق ، افعال و اقوال ہی قابل اعتبار ہوتے ہیں۔

جہنم کی طرف بلانے والوں اور فتنوں سے تحفظ کتاب و سنت پر کار بند رہنے اور کتاب و سنت کو سمجھنے کیلئے علمائے کرام کے فہم کا سہارا لینے سے ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

{ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}

اہل علم سے پوچھو، اگر تمہیں علم نہیں ہے۔[النحل : 43]

اللہ کے بندو!


}إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

{ یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]،

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔


اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ! ہدایت یافتہ اور عدل و انصاف کیساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی ، سے راضی ہو جا، اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، فضل، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! کفر اور کفار کو ذلیل و رسوا فرما، شرک اور مشرکین کو رسوا فرما، یا اللہ! قیامت کی دیواروں تک بدعات کا خاتمہ فرما، یا اللہ! قیامت کی دیواروں تک بدعات کا خاتمہ فرما، یا اللہ! ہم سب کو تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند رہنے والے ، انہیں کی سیرت پر چلنے والے بنا۔

یا اللہ! تمام مسلمانوں کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں تمام بدعتی لوگوں کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! بدعتی لوگوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! بدعتی لوگوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! قیامت تک کیلئے بدعات کو ذلیل و رسوا فرما دے، یا قوی! یا متین!

یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں میں الفت ڈال دے، آپس میں ناچاقی رکھنے والوں کی صلح فرما دے، نہیں سلامتی کا راستہ دکھا، اور انہیں اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لا کھڑا فرما، نیز ان کی دشمنوں کے خلاف مدد فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنی کتاب اور سنت نبوی کا بول بالا فرما، یا ذا الجلال والاکرام!

یا اللہ! تمام مسلمانوں کے معاملات آسان فرما، مقروض لوگوں کے قرضے چکا دے، بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! مسلمان مریضوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! مسلمان مریضوں کو شفا یاب فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمان مریضوں کو شفا یاب فرما۔

یا اللہ! ہمیں اور ہماری نسل کو ابلیس اور شیطانی چیلوں ، اور لشکروں سے محفوظ فرما ، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں کو ابلیس اور شیطانی چیلوں ، اور لشکروں سے محفوظ فرما ، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہم سب خارجیوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم سب خارجیوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم سب بدعتی اور منافق لوگوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم شریر لوگوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، ہم تیری پناہ میں ان کے شر سے تحفظ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہمیں حق بات صحیح انداز میں سمجھا اور پھر اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں برائی کو برائی سمجھنے کی توفیق عطا فرما، اور پھر اس سے بچنے کی ہمت بھی عطا فرما۔

یا اللہ! ہمارے ملکوں میں امن و امان نصیب فرما، اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما، یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے اور دیگر تمام مسلم ممالک کی حفاظت فرما، اور انہیں ہر قسم کے شر اور منفی اثرات سے تحفظ عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! اپنے بندے خادم الحرمین الشریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی تیری مرضی کے مطابق راہنمائی فرما ، اور ان کے تمام کام اپنی رضا کیلئے مختص فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! یا ذو الجلال والاکرام! انہیں تمام اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ خادم الحرمین کے ذریعے اپنے دین کو غالب فرما، اور کلمہ توحید کو بلند فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے دونوں ولی عہد کو بھی تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں بھی صرف وہی کام کرنے کی توفیق عطا فرما جس میں اسلام اور مسلمانو ں کیلئے خیر و بھلائی ہو، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! انکی قبروں کو ان کیلئے منور فرما، ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما، اور ان کے گناہوں سے در گزر فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!

اللہ کے بندو!


}إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

{ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔ [النحل: 90، 91]

اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی جانتا ہے ۔

والله اعلم. .

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 06 ذو القعدہ1436 کا مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ

https://www.facebook.com/kmnurdu/photos/a.520124531357110.1073741827.476230782413152/895863100449916/?type=1&theater
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
‏هر کام کو سنت کے مطابق کرنے والا‬

=============================

سهل بن عبد الله تستری کهتے هیں :

" تم سنت اور آثار کو لازم پکڑو،،، بلاشبه عن قریب ایک ایسا زمانه آئے گا که جس میں انسان جب هر کام میں نبی صلی الله علیه و سلم کا اور آپ کی پیروی کا ﺫکر کرے گا تو لوگ اس کی مذمت کریں گے، اس سے متنفر هوں گے، اس سے براءت کریں گے، اس کو ﺫلیل اور رسوا کریں گے،،،، "
__________________________

قال سهل بن عبدالله رحمه الله :

(( عليكم بالأثر والسنة فإني أخاف أنه سيأتي عن قليل زمان إذا ذكر إنسان النبي ﷺ والإقتداء به في جميع أحواله ذموه ونفروا عنه وتبرؤوا منه وأذلوه وأهانوه . ))

[ تفسير القرطبي 139/7 ]
 
Top