• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کراچی کے اسکول میں 16 سالہ لڑکے نے لڑکی کو مار کر خود کشی کرلی

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کراچی میں لڑکے لڑکی کی خودکشی پر ماہر نفسیات اور سماجیات کا کہنا ہے کہ انڈین فلمز، ڈرامے اور دیگر پروگرامز سے بچے اس قدر متاثرہوتےہیں کہ وہ کچھ بھی کر گزر جانے سے دریغ نہیں کرتے

Click here to watch this video
http://video.dunyanews.tv/…/Teenage-lovers-commit-suicide-i…


 
شمولیت
اگست 14، 2015
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
2
محترم دوستو اکثر سکول وکالج کے نقصان کا ذکر کرتے رهتے هین کہ ان مین بے حیائی سکهائی جاتی هے ان مراکز مین صوفیت کی تعلیم دی جاتی هے اور اسلام دشمنون کو ہمارا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا هے ہمارے نظام تعلیم مین شراب پینے کی کہانیان اور اب دور جدید مین سیکس کے نام سے اعلی سکولون مین کتابین لگ گئی هین آخر هم یہ سب جانتے هوئے پهر اپنے بچون کو اسی لارڈ میکالے کے نظام مین کیون بهیجهتے هین آخر اس نظام کا انکار کیون نہین کرتے -اس کے مقابلے مین ہمارے مدارس لکهائی پڑهائی کا نظام کیون نہین پیش کرتے جب تک مدارس اس کا حل نہین نکالتے ہر آدمی اپنے طور پر اس لارڈ میکالے کے نظام کا انکار کرے اور اپنے بچون کو اپنی اپنی مساجد مین اپنا نظام مرتب کر کے بچون کو پڑهائین کفر کی ڈگریون کا انکار کرین اور رزق کے معاملے مین اللہ پر یقین کرین اللہ دے گا رزق ان شاءاللہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھٹی بھائی! ان کفر کی ڈگریوں کی فہرست بتلا دیں، تاکہ جو میرے پاس ہیں میں انہیں جلا دوں!
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
طالب علموں کی خود کشی، معاشرتی اقدار پر سوالیہ نشان!
سید عون عباس 4 گھنٹے پہلے
تبصرےصفحہ پرنٹ کریںدوستوں کو بھیجئے


توجہ کرنی ہو گی کہ ثقافتی یلغار کے نتیجے میں ہمارے گھروں میں چلنے والی فلموں کے ذریعے کیا پیغام پہنچ رہا ہے؟ فوٹو :فائل

یکم ستمبر کی صبح کا آغاز اِس اندوہناک خبر کے ساتھ ہوئی کہ کراچی کے اسکول میں دسویں جماعت کے طالبِ علم نے اپنی ہم جماعت طالبہ کو گولی مار کر خودکشی کرلی۔ یہ خبر صرف خبر نہیں بلکہ پاکستان کے اربابِ اختیار، علماء، اساتذہ کرام اور ثقافت کے نام پر کام کرنے والی این جی اوز کے لئے ایک بڑا چیلنچ ہے۔

چیلنج اِس لیے کہ پاکستانی معاشرہ تیزی سے روبہ زوال ہے۔ یہ واقعہ سوال پوچھنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا اساتذہ علم کی ترسیل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں یا پھر علماء نے فقہاء پر کام کرنا چھوڑ دیا ہے؟ کیا اربابِ اختیار کا دھیان جنرل سیلز ٹیکس تک محدود ہوچکا ہے یا والدین بجلی کے نرخوں اور مہنگائی کی چکی میں پِس کر اپنے بچوں سے غافل ہوچکے ہیں، آخر مسئلہ ہے تو کہاں ہے؟

خودکشی کا مذکورہ واقعہ ہماری آئندہ نسل کی ذہنی کیفیت کا عکس لئے ہوئے ہے۔ اِس واقعہ کا منظر نامہ تو یہ ہے کہ دو محبت کرنے والوں نے پستول کے ذریعے خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کرلیا، جبکہ اس واقعہ کا پسِ منظرمعاشرتی ناہمواری اور اجتماعی غفلت کو قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہاں اس واقعہ میں قصور کس کا ہے اس کا تعین کرنا مشکل نہیں، اصل نکتہ اس واقعے میں انسانی حقوق کا غصب ہونا ہے۔ اسلام سے زیادہ انسانی حقوق کسی مذہب نے نہیں دئیے لیکن ان حقوق کے ساتھ اسلام نے کچھ فرائض بھی لازم کئے ہیں، ان حقوق و فرائض کی معرفت ہی تربیت کہلاتی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اس تربیت کے فقدان میں کس کا کردار ہے؟ درسگاہوں میں استاد علم دینے کے بجائے مزدوری کررہا ہے اور رٹے رٹائے اسباق، زبانی کلامی علم، عملی ترغیب کہیں نہیں۔ کیا اسکول کے نصاب میں عقائد سے متعلق اسباق نہیں؟ کیا بچوں کو یہ نہیں سکھایا جانا چاہیے تھا کہ زندگی سب سے عظیم نعمت ہے اور اس تحفہِ خداوندی کا شکر کس طرح ممکن ہے؟

اگر بات کی جائے فقہاء کی تو انہیں نئی نسل کے مسائل، معاشرتی ضروریات اور ان سے جڑے مسائل کا ادراک ہی نہیں۔ معذرت کے ساتھ، لیکن اگر علماء اور فقہا کی تفرقہ بازی اور سیاست سے توجہ ہٹے تو معاشرتی اقدار کی پامالی کا اندازہ ہوسکے۔ سب سے اہم ذمہ داری والدین کی ہے، اللہ نے اولاد کو آزمائش قرار دیا ہے اور اِسی لیے اِس کی تربیت ناگزیر ہے۔ حالاتِ زندگی کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں، اگرچہ معاشی مسائل بھی ہوں لیکن انہیں ہر حال میں اپنی اولاد کی طرف توجہ رکھنی چاہئے، اور ان کی ضروریات، تقاضوں، سرگرمیوں کا خیال رکھنا چاہئے۔

ہمارے معاشرے میں فطرت انسانی پر اثر انداز ہونے والے پہلوؤں کا خیال نہیں رکھا جاتا، بچپن سے ہی مخلوط تعلیمی نظام میں بچوں کو تعلیم کے لئے داخل کرادیا جاتا ہے اور اس کے بعد پھر پیچھے مُڑکر ایک بار بھی نہیں دیکھا جاتا کہ ان تعلیمی اداروں میں کس انداز میں بچوں کی کردار سازی کی جاتی ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ لڑکا اور لڑکی جو کچی عمروں میں اتنا قریب رہتے ہوئے فطرت کے زیرِ اثر ایک دوسرے کی جانب متوجہ نہ ہوں؟ کیا بچپن ہی سے مخلوط تعلیمی نظام میں تعلیم دینی چاہیے یا پھر یہ عمل کالج اور جامعات میں آنے کے بعد ہی ہونا چاہئے، تاکہ طالبعلم شعور کی منزل پر پہنچتے ہوئے جذباتی فیصلوں کے بجائے عقل کا استعمال کرکے فطرت کا ادراک کرسکے۔

حکومت سے میں اس لئے مخاطب ہوں کیونکہ ثقافت کے ہر معاملے کو دیکھنے کے لئے حکومت میں با قاعدہ وزارتیں ہوتی ہیں جو ان معاملات کو دیکھتی ہیں۔ پھر ہمارے اُن اداکاروں کا ذکر کیوں نہ ہو جو سستی شہرت حاصل کرنے کے پاکستان مخالف بننے والی بھارتی فلم کی تو مخالفت کرتے ہیں مگر اُسی بھارت کی جانب سے رام لیلا، عاشقی، اور عشق ذادے جیسی فلموں سمیت وہاں کے کلچر کی پروموشن پر پابندی کی بات کبھی نہیں کرتے، شاید اُس کی وجہ یہ ہو کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو عوام کی طرف سے گالیاں پڑیں گے۔ مگر جناب اگر نئی نسل کو بے راہ روی سے روکنے کے لیے گالی بھی کھانی پڑے تو کھا لیجیے کہ اِس طرح کم از کم کسی کی جانب ضائع ہونے سے بچائی جاسکتی ہے۔

اِس لیے اربابِ اختیار سے التماس ہے کہ تھوڑی توجہ اس طرف بھی کریں کہ ثقافتی یلغار کے نتیجے میں ہمارے گھروں میں چلنے والی فلموں کے ذریعے کیا پیغام پہنچ رہا ہے؟ کیا کہیں بھارتی فلموں سمیت ہمارے اپنے ملک میں بننے والے اشتہارات اور فحش قسم کے ڈراموں نے تو ان نوعمروں کو اس مقام پر لا کھڑا نہیں کردیا کہ اگر وہ زندگی میں نہ مل سکے تو کیا بعد از مرگ ملنے کی امید لیے وہ جلدی دوسرے جنم میں چلے گئے! اگر ہم نے آج نہیں سوچا تو خدشہ ہے کہ کل پھر کوئی ایسی ہی بریکنگ نیوز دیکھنا نصیب نہ ہوجائے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عامر یونس بھائی نے جو تحریر شئیر کی ہے، اس میں ایک مضمون کا لنک دیا ہوا ہے،جس کا عنوان ہے " لیکن انہیں ہر حال میں اپنی اولاد کی طرف توجہ رکھنی چاہئے" اس مضمون میں مصنف نے "شیخ عبدالقادر جیلانی" صاحب کو "غوث الاعظم" کا لقب دیا ہوا ہے، جو کہ قطعی غلط ہے، غوث الاعظم کا مطلب ہے سب سے بڑا فریاد رس، اس کی مزید وضاحت میں جائیں تو ہر مشکل، تنگی اور پریشانی نیز حاجت کی کیفیت میں جس ہستی کو پکارنا ، ندائیں دینا، دعا کرنا، جھولیاں پھیلانا، اور اُس کے سامنے جھکنا چاہئے وہ صرف اکیلا تنہا رب العالمین اللہ تعالیٰ ہے، اگر کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرف ان تمام کیفیات میں رجوع کرے گا یا پکارے گا تو ایسا شخص شرک اکبر کا مرتکب ہے، پس اس لئے غوث الاعظم یعنی سب سے بڑا فریاد رس صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، لہذا شئیر کرتے وقت احتیاط کیا کریں۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے کے بعد سے مجھے محسوس ہوا کہ ہم اب "دیوث" ہو چکے ہیں۔میں نے دل پر جبر کر کے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا۔مجھے علم تھا کہ تعلیم،مطالعے اور حالات حاضرہ سے واقف رہنا کس قدر ضروری تھا مگر مجھے یقین تھا کہ اگر اب بھی اخبار پڑھنا نہ چھوڑا تو "ببلو پٹاخہ عرف پاکستانی" کی عملی صورت تشکیل پا لے گی۔خال خال کوئی خبر پڑھتی،سنتی تو ذہن سنسنا جاتا۔کرائم رپوٹس رپورٹ اورمرتب کرنے والے کس قدر سنگ دل ہو چکے ہیں؟آہستہ آہستہ میں عالمی حالات سے بھی کٹتی چلی گئی۔مجھے علم نہیں تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے؟مگر میں سکون میں تھی۔یہ حقیقت سے فرار نہیں،مجھے علم تھا کہ کون، کیااورکیسا ہے؟مگر پڑھنے کی تاب نہیں تھی۔
خصوصا تب بھی جب کئی سال قبل ایک انتہائی جاہلانہ،ظالمانہ اور اسلام سے دوری کے نتائج پر مبنی ایک دلدوز سانحے کی خبر کو دیکھا۔اعزا کے ہاں پیس ٹی وی دیکھتے دیکھتے چینل بدلا۔رات کے بارہ بجے جس انداز سے اینکر خوفناک دھماکے دار آوازکے ساتھ"سٹوری" سنا اور دکھارہا تھا کہ میں کئی راتیں سو نہ سکی۔خوف کی عجب فضا تھی۔جس خاندان کے ساتھ ظلم ہوا۔ریٹنگ کے چکر میں مظلوم لڑکی کی مکمل تصاویر اور ویڈیو بنا کر اسے تحفظ دینے کے نام پر اس کی عزت کو مزید داغدار کیا گیا۔
آج بھی خواتین نے ایک دو جملوں میں اس خبر کو زیر بحث کیا۔ہمیشہ کی طرح سنی ان سنی کی کوشش مگر یہاں موضوع دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مخلوط تعلیم کو "الزامنے"سے قبل یہ بھی دیکھا جائے کہ فریقین کے والدین خصوصا بچی کی ماں اور بہنیں کہاں گم تھیں؟اس کی کس حد تک ماں کے ساتھ آہنگی تھی؟ماں بچوں کو سونے کا نوالہ کھلانا نہیں بھولی مگر شیر کی آنکھ سے دیکھنا کیوں بھولی؟وہ خود کس "دنیا" میں گم تھی؟بچوں کو آسائیشیں دے کر ان کی نگرانی کیوںمشکل تھی؟بچے اسلام سے کس قدر آگاہ تھے؟بچے کو غیر محارم تو چھوڑیے کسی لڑکی کی عزت کرنے کی گٹی دینا کون بھولا تھا؟
یا رب !!!!!!!!!!!!ہم انتہائی خطا کار ہیں۔یا رب دلوں کے بھید تو بخوبی جانتا تھا۔یا رب!ہم میں ہماری اولاد کے معاملات میں ایسی کوتاہیاں برتنے کی گنجائش نہ رکھیے گا۔یا رب!بہت آگے جانے سے قبل پیچھے دھکیل دیجیے گا۔یا رب! ہمیں اپنے والدین کے لیے قابل اعتماد اور قابل عزت بنا دیجیے۔یا رب!تیری رحیمی کا واسطہ ۔۔۔


رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖوَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عامر یونس بھائی نے جو تحریر شئیر کی ہے، اس میں ایک مضمون کا لنک دیا ہوا ہے،جس کا عنوان ہے " لیکن انہیں ہر حال میں اپنی اولاد کی طرف توجہ رکھنی چاہئے" اس مضمون میں مصنف نے "شیخ عبدالقادر جیلانی" صاحب کو "غوث الاعظم" کا لقب دیا ہوا ہے، جو کہ قطعی غلط ہے، غوث الاعظم کا مطلب ہے سب سے بڑا فریاد رس، اس کی مزید وضاحت میں جائیں تو ہر مشکل، تنگی اور پریشانی نیز حاجت کی کیفیت میں جس ہستی کو پکارنا ، ندائیں دینا، دعا کرنا، جھولیاں پھیلانا، اور اُس کے سامنے جھکنا چاہئے وہ صرف اکیلا تنہا رب العالمین اللہ تعالیٰ ہے، اگر کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرف ان تمام کیفیات میں رجوع کرے گا یا پکارے گا تو ایسا شخص شرک اکبر کا مرتکب ہے، پس اس لئے غوث الاعظم یعنی سب سے بڑا فریاد رس صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، لہذا شئیر کرتے وقت احتیاط کیا کریں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جزاک اللہ خیرا

ارسلان بھائی اس کا لنک بھی شیئر کردے
 
Top