کربلا کے صحیح واقعہ کے کو جاننے اور سمجھنے کے لئے اسلام کی بنیاد ی معلومات کا علم ہونا بہت ضروری ہے ۔مثلاً یہ کہ اسلام ہی کیوں دنیا کے تمام مذاہب کے مقابلے میں اﷲ کے ہاں صرف پسندیدہ ہے ؟ انبیاؑ کو اﷲ نے دنیا میں کس مقصد کے لئے بھیجا؟نبیﷺ نے صحابہؓ کی تربیت کیسے کی؟صحابہؓ کن کو کہا جاتا ہے ؟کون لوگ صحابہؓ کے دشمن ہیں؟خلفا راشدین کون تھے؟ کربلا کا واقعہ کب اور کیسے ہوا؟حسین ؓ کو کس نے شہید کیا؟ایسے ہی بنیادی اہم معلومات کو لے کر اس موضوع کو آپ کے سامنے پیش کیا جائیگا جس سے ان شاء۱ﷲ بے اعتمادی جو ہمارے معاشرے میں کربلا کے صحیح واقعہ کے بارے میں پائی جاتی ہے وہ دور ہوجائیگی۔ تقریباً ہر مسلمان اس واقعہ کا نام تو جانتا ہے لیکن اس کی حقیقت کے بارے میں وہ صرف سنی سنائی باتوں پر یقین رکھتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا جو اس واقعہ کی بہت تشہیر کرتا ہے ہر مسلمان اس کو جاننا چاہتا ہے لیکن وہ جان نہیں پاتا ۔ لیکن ان شاء اﷲ آپکو مکمل معلومات ہوجائیگی۔ اب ہم اس موضوع کو ترتیب سے شروع کرتے ہیں ۔
اﷲ نے انسانوں کو کیوں پیدا کیا؟
اﷲ نے دنیا میں انسانوں کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا اس کے بارے میں قرآن میں آتا ہے کہ
ـ"میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں" [الذٰریٰت،پارہ۔27،آیت ۔ 56]
اس آیت میں انسان کی پیدائش اور اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد اﷲ نے بیان فرمادیاکہ عبادت کرنی ہے تو صرف اﷲ کی عبادت کرنی ہے کسی اور کی نہیں ۔
اﷲ نے انبیاؑ کو کیوں بھیجا؟
جب اﷲ نے انسانوں کو پیدا کیا تو پھر ان کی ہدایت کا بندوبست بھی کیا ۔ اس کے لئے اﷲنے انبیاؑ کو اس کام کی ذمداری دی۔ آدم ؑ کی پیدائش سے ہمارے نبیﷺ تک بے شمار انبیاؑ اﷲ نے اس دنیا میں ہم انسانوں کی رہنمائی کے لئے بھیجے۔ ان کی تعداد انداز ًایک لاکھ چوبیس ہزار ہے ۔ان انبیاؑ کی تبلیغ کا بنیادی نکتہ ایک ہی تھا۔ان تمام انبیاؑ نے لوگوں کو صرف اﷲ کی عبادت کی طرف بلایا اور شرک سے روکا۔سب کی دعوت کا بنیادی مقصد "لا الہ الا اﷲ"تھا۔ قرآن میں آتا ہے کہ "آپﷺ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل
فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔ (الانبیآ۔ پارہ ۔17، آیت۔25)
انبیاؑ کا مقام کیا ہے؟
قرآن میں انبیاؑ کا مقام بتایا گیا ہے کہ :آپﷺ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا ان کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی
معبود نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔ (الانبیآ۔ پارہ ۔17، آیت۔25)
اس آیت میں اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ انبیاؑ پر وحی اترتی تھی ان کو اﷲ وحی کے ذریعے آگاہ کردیا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد انبیاؑ کی اس قدر کو نہیں سمجھ پارہی ہے اور وہ اپنے اماموں، پیروں ، نجومیوں اور علماء کو بھی اس صف میں کھڑا کردیتے ہیں۔
چند انبیاؑ کے نام
بد قسمتی سے ہم دنیا کی زندگی میں اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ ہمیں انبیاؑ کے ناموں کے بارے میں بھی علم نہیں ہے ۔اگرچہ قرآن اور احادیث میں تمام انبیا ؑ کے نام نہیں ہیں چند کے ہیں لیکن ہمیں ان چند کے نام بھی مشکل سے معلوم ہیں۔ ان انبیا ؑ میں سے آدمؑ، ابراہیمؑ،اسماعیلؑ، یوسفؑ ، یعقوبؑ، یونس ؑ، ایوبؑ ، لوطؑ، نوحؑ،سلیمانؑ، ادریسؑ، یحیٰؑ ، ذکریاؑ، موسیٰؑ ،عیسیٰؑ ، ہمارے آخری نبی محمدﷺ۔
نبیﷺ سے پہلے عرب کی حالت
عرب کا نام جس کو آج کل سعودی عرب کہتے ہیں ۔ اب سے کوئی ساڑھے چودہ سو سال پہلے وہاں عجیب گمراہیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ اﷲ کے دین کو لوگ بھول گئے تھے اور سینکڑوں بتوں اور انبیا کی مورتیوں کے پجاری تھے، کعبہ جس کو اﷲ نے اپنا گھر قراردیا اس میں 360بت رکھے ہوئے تھے۔ جن میں مریمؑ ، ابراہیم ؑ اور اسمائیل ؑکی شکلیں بھی بت کی صورت میں تراش کر رکھی ہوئی تھیں۔اس شرک اور اﷲ کی توحید کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کو ختم کرنے اور معاشرے کو پرامن بنانے کے لئے اﷲ نے نبیﷺ کو بھیجا ۔آپﷺ کی پیدائش 9یا 12ربیع الاول اور عیسوی کلیکنڈر کے مطابق آپﷺ20 یا 22اپریل سن571 میں پیدا ہوئے ۔آپﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی۔
ہمارے آخری نبیﷺ کی دعوت
اﷲ کے آخری نبی محمد ﷺ پر اﷲ نے 40سال کی عمر میں وحی نازل کی ۔ آپﷺ پر وحی نازل کرنے کے بعداﷲنے آپﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ مکہ کے مشرکین کوکھل کر توحید کی دعوت دیں ۔آپﷺ نے صفا پہاڑ پر تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان سب کو ـ"لا الہ الااﷲ"کی دعوت دی ۔ یہ دعوت سن کر لوگ آپ کے دشمن ہوگئے لیکن چند لوگوں نے آپﷺ کی دعوت کو قبول کیا اور آپ ﷺ کے ساتھی ہوگئے۔ رفتہ رفتہ آپﷺ یہ دعوت دیتے رہے اور آپﷺ کے صحابہ کی تعداد بڑھتی رہی۔ لیکن مکہ کے مشرکین کو آپﷺ کی یہ دعوت ناقابل قبول تھی اور وہ آپﷺ کے جان کے دشمن ہوگئے۔ آپﷺ کواﷲ کے حکم سے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنی پڑی۔
سن ہجری کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
آئیے اب ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ سن ہجری کا آغاز کب اور کیسے ہوا۔اسلامی تاریخ یعنی سن ہجری کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا گیا ہے ۔نبیﷺ نے نبوت کے تیرہویں سال ذوالحجہ یعنی بارہویں مہینے کے آخر میں کافروں کے تنگ کرنے پر مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔اس طرح اسلامی سال یعنی ہجری سال کا پہلا مہینہ محرم طے پایا۔جس طرح عیسوی سال کاآغاز جنوری کے مہینے سے ہوتا ہے اسی طرح اسلامی سال جس کو ہجری سال کہتے ہیں اسکا آغاز محرم کے مہینے سے ہوتا ہے۔عیسوی سال جس کو ہم انگریزی سال کہتے ہیں اس میں 12مہینے ہوتے ہیں اسی طرح ہجری سال یا اسلامی سال میں بھی بارہ مہینے ہوتے ہیںجو کہ محرم الحرام۔ صفر۔ ربیع الاول۔ ربیع الثانی۔ جمادی الاول۔ جمادی الثانی ۔ رجب۔ شعبان۔ رمضان۔ شوال۔ ذی القعد۔ ذی الحج"۔
"لا الہ الااﷲـ"کا مطلب کیا ہے؟
"لا الہ الااﷲـ"کا مطلب ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ یعنی اﷲ کے علاوہ کوئی نبی ، بت، فرشتہ ، جن، وغیرہ عبادت کے لائق نہیں ۔ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت یعنی اﷲ کی صفات میں سے کوئی صفت اگر کسی اور میں مانی گئی تو وہ شرک ہے ۔ مکہ کے مشرکین اﷲ کو مانتے تھے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ "ہاں خالص اﷲ ہی کی بندگی ہے اور وہ جنہوں نے اسکے سوا اور والی بنائے ،کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کیلئے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اﷲکے پاس نزدیک کردیں گے اﷲ ان میں فیصلہ کردے گا اس بات کا جس میں اختلاف کررہے ہیں بیشک اﷲ راہ نہیں دیتا اسے جو جھوٹا بڑا ناشکرا ہو ۔[سورۃالزمر3/39 ] اس آیت کے مطابق مکہ کے مشرکین اﷲ کو مانتے تھے لیکن اس کے لئے بتوں اور انبیاؑا ور بزرگوں کو خوش کرنے کے لئے ان کی عبادت بھی کیا کرتے تھے۔اسی لئے اﷲ کے نبیﷺ نے ان کو اس شرک سے منع کیا لیکن وہ آپﷺ کی جان کے دشمن ہوگئے۔
صحابہ ؓ کا کیا مطلب ہے ؟
وہ مرد یا عورت جنھوں نے آپﷺ کی زندگی میں آپﷺ کو دیکھا اور اﷲ اور آپﷺ پر ایمان لائے اور ایمان کی حالت میں وفات پائی وہ لوگ صحابہؓ کہلاتے ہیں ۔ اگر مرد ہے تو صحابیؓ کہتے ہیں اور اگر عورت تو صحابیہ ؓ کہتے ہیں۔
صحابہؓ کے نام اور فضائل
یوں تو بے شمار صحابہ ؓ نبیﷺ کے دور میں تھے ۔ سب کے سب اﷲ کے ہاں پسندیدہ تھے۔ ۔ جن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں ۔مرد صحابہؓ کے نام ابوبکرؓ۔عمرؓ۔ ؓ۔عثمانؓ۔علیؓ۔ حمزہ ۔ خالد بن ولیدؓ،ابوسفیان ؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ۔بلالؓ۔حسنؓ۔حسینؓ۔ع بداﷲبن عباسؓ۔عبداﷲبن عمرؓ۔معاویہؓ۔طلحہؓ۔زبیرؓ۔
عورتوں میں خدیجہؓ۔فاطمہؓ۔عائشہؓ۔حفصہ ؓ۔ام کلثومؓ۔ام حبیبہؓ۔ثمیہؓ۔ام دردہؓ،
صحابہؓ کے بارے میں قرآن کا فرمان
"محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ (صحابہؓ)ان کے ساتھ ہیںکافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں۔
(محمد، پارہ ۔26، آیت ۔29)
صحابہؓ کے بارے میں احادیث
ان فضائل کو پڑھنے کے بعد ہم ان صحابہؓ کی شان کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کس قدر جلیل القدر صحابہ ؓ تھے۔ اسی لئے اﷲ نے قرآن میں ان کے بارے میں فرمایا "رضی اﷲ عنہ اور رضو عنہ"میں ان سے راضی ہوگیا اور یہ مجھ سے۔
عمرؓکی فضیلت (جو نبیﷺ کی زوجہ مبارکہ حفصہؓ کے والد تھے)
انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ داخل ہوا میں جنت میں یعنی عالم رؤیا میں سو دیکھا میں نے ایک محل سونے کا سو میں نے کہا یہ (محل )کس کا ہے۔فرشتوں نے کہایہ قریش کے ایک جوان کا ہے میں نے خیال کیا کہ میں ہوں پھر کہا میں نے وہ کون ہے فرشتوں نے کہا وہ عمر ؓ ہیں۔
جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔663
ابوبکرؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کی زوجہ مبارکہ عائشہؓ کے والد تھے)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا کسی کا احسان ہم پر ایسا نہیں جس کا بدلہ ہم نے نہ کردیا ہو سو ا ابوبکر ؓ کے۔ابوبکرؓ کا جو احسان ہم پر ہے اس کا بدلہ ان کو اﷲ قیامت میں دے گا ،اور اتنا نفع مجھ کو کسی کے مال نے نہ دیا جتنا نفع میں نے ابوبکرؓ کے مال سے پایا ۔ جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔652
عثمان غنی ؓکی فضیلت (جو نبیﷺ کی دوبیٹیوں کے شوہر تھے)
انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ احد پہاڑ پر چڑھے ،آپﷺ کے ساتھ ابوبکرؓ،عمرؓ اور عثمان ؓ تھے ،پہاڑ ہلنے لگا ،آپﷺ نے لات ماری اور فرمایا احد تھما رہ تجھ پر ہے کون،ایک پیغمبرہیں ایک صدیق(یعنی ابوبکرؓ)اور دو شہید(یعنی عمرؓ اور عثمانؓ )۔
بخاری۔جلد،2،کتاب المناقب،حدیث۔438
عائشہ ؓکی فضیلت(جو نبیﷺ کی زوجہ مبارکہ اور ابوبکرؓ کی بیٹی تھیں)
انسؓ سے روایت ہے کہ کسی نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ آپ کو لوگوں میں کون زیادہ پیارا ہے ۔آپﷺ نے فرمایا عائشہ ؓ لوگوں نے عرض کی کہ مردوں میں آپﷺ نے فرمایا ان کے باپ یعنی ابوبکرؓ۔ جامع ترمذی۔جلد۔2،صفحہ۔732
ابوہریرہ ؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کی سب سے زیادہ حدیثوں کو یاد رکھنے والے صحابیؓ تھے)
عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہؓ نے بہت حدیثیں بیان کیں اور اﷲ جانچنے والا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار ابوہریرہؓ کی طرح حدیثیں بیان نہیں کرتے اور میں تم سے اس کا سبب بیان کرتا ہوں ۔میرے بھائی انصاری جو تھے وہ اپنی زمین کی خدمت میں مشغول رہتے اور جو مہاجرین تھے وہ بازار کے معاملوں میں اور میں اپنا پیٹ بھر کر رسولؓ کے ساتھ رہتا تو میں حاضر رہتا اور وہ غائب ہوتے اور میں یادرکھتاوہ بھول جاتے اور رسولﷺ نے فرمایا ایک دن کون تم میں سے اپناکپڑا بچھاتا ہے اور میری حدیثیں سنتا ہے پھر اس کو اپنے سینے سے لگادے تو جو بات سنے گا وہ نہ بھولے گا ۔میں نے اپنی چادر بچھادی یہاں تک کہ آپ حدیث سے فارغ ہوئے پھر میں نے اس چادر کو سینے سے لگالیا اس دن سے میں کسی بات کو جو آپﷺ نے بیان کی نہیں بھولا ۔اور اگر یہ دو آیتیں نہ ہوتیں جو قرآن میں اتری ہیں تو میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کرتا ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے جو لوگ چھپاتے ہیں جو ہم نے اتاریں نشانیاں او ر ہدایت کی باتیں ان پر لعنت ہے۔
مسلم،جلد۔6،کتاب الفضائل ،صفحہ ۔165
علیؓ کی فضیلت( جو نبیﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے یعنی فاطمہؓ کے شوہر تھے)
جابر ؓسے روایت ہے کہ نبیﷺ نے علیؓ سے فرمایا تم مجھ سے ایسے ہو جیسے ہارون موسٰی سے لیکن اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں یعنی جیسے ہارون تھے۔
جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔685
معاویہؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کی زوجہ مبارکہ ام حبیبہ ؓکے بھائی تھے)
عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے معاویہ ؓ کے لئے دعا کی کہ یا اﷲ اس کو ہدایت پر اور ہدایت یافتہ کردے اور لوگوں کو اس سے ہدایت کر۔ جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔719
فاطمہؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کی بیٹی اور علیؓ کی زوجہ مبارکہ تھیں)
مسوربن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ سنا میں نے رسول اﷲ ﷺ سے اور وہ منبر پر تھے کہ بنی ہشام بن مغیرہ (ابو جہل )نے مجھ سے اجازت چاہی کہ ہم اپنی
لڑکی کو بیاہ دیں سو میں اجازت نہیں دیتا نہیں دیتا نہیں دیتا مگراگرارادہ ہو علیؓ کا تو میری بیٹی کو طلاق دے دے اور ان کی بیٹی سے نکاح کرلے اس لئے کہ میری بیٹی (فاطمہؓ) میرا ٹکڑا ہے ۔برا لگتا ہے مجھے جو اسے برا لگے اور ایذا (تکلیف) ہوتی ہے مجھ کو جس سے اسے ایذا ہو۔
جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔727
حسنؓ اور حسینؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کے نواسے اور علیؓ اور فاطمہؓ کے بیٹے تھے)
ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ حسن ؓ اور حسینؓ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔697
نبیﷺکی کفار و مشرکین سے جنگیں
جب کفار و مشرکین نے نبیﷺ اور انکے صحابہ ؓ کو مدینہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا تو پھر اﷲ نے نبیﷺ کو وحی کے ذریعے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ کفار و مشرکین سے مسلمانوں نے پہلی لڑائی بدر کے مقام پر سن 2ہجری میں لڑئی ۔ اس لڑائی میں مشرکین مکہ کو شکست ہوئی ۔ سن 3ہجری میں جنگ احد ہوئی۔ سن 5ہجری میں خندق کے مقام پر جنگ ہوئی ۔سن 7ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان۔ سن 7ہجری ہی میںغزوہ خیبر ہوئی یہ جنگ یہودیوں سے ہوئی اور یہودیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سن 8ہجری میں مسلمانوں نے نبیﷺ کے ساتھ مل کر مکہ کو بغیر کسی لڑائی کہ فتح کرلیا کیونکہ مشرکین اور کفار جنگیں ہار کہ اپنی ہمت توڑ چکے تھے۔ 9ہجری میں غزوہ تبوک ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی کئی جنگیں مسلمانوں نے مشرکین اور منافقین سے کیں جس میں مشرکین اور منافقین کو نہ صرف عبرت ناک شکستیں ہوئیں بلکہ مکہ ،مدینہ، شام بلکہ تمام جزیرہ عرب مسلمانوں کی زیر اثر آگیا۔ مشرکین مکہ اور کفار نے جب یہ دیکھا کہ اب ہم مسلمانوں کا مقابلہ جنگوں سے نہیں کرسکتے تو پھر انھوں نے سب سے بڑے ہتھیار کا سہارا لیا وہ ہتھیار تھا ـ"منافقت"
منافق کی پہچان؟
شرک کرنے والا چونکہ اﷲ کو بھی مانتا ہے لیکن اس کے ساتھ بے شمار شریک بھی ٹھراتا ہے اسلئے فطری طور کیونکہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو دھوکہ دینے کی عادت بنالیتا ہے اسلئے وہ مومن کو دھوکہ دینے میں کوئی شرم یا گناہ محسوس نہیں کرتا۔ نبیﷺ کے دور میں بھی یہ منافق موجود تھے لیکن اﷲ ہمارے نبیﷺ کو وحی کے ذریعے سے ان منافقوں کی حرکتوں کے بارے میں آگاہ کردیتے تھے۔ لیکن نبیﷺ کے وفات کے بعد یہ منافق زور پکڑگئے اور انہوں نے صحابہؓ کے لئے بڑے مسائل پیدا کئے ۔ ان منافقوں کے بارے میں اﷲ نے قرآن میں فرمایا۔
"اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمھارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔[البقرۃ ۔پارہ1۔آیت نمبر14]
جو منافق ہوگا وہ مشرک بھی ہوگا اور جو مشرک ہوگا وہ منافق بھی ہوگا۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ نبیﷺ کے دور میں جو بھی منافق تھے اﷲ وحی کے ذریعے نبیﷺ کو آگاہ کردیا کرتے تھے۔ اسلئے نبیﷺ نے کبھی کسی منافق کو صحابہ ؓ کا درجہ نہیں دیا اور نہ ہی اس کے فضائل بتائے جبکہ وہ لوگ جو صحابہؓ کو برا کہتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں وہ دراصل اﷲ کی نبیﷺ کی نبوت پر اعتراض کرتے ہیں۔
نبیﷺ کی وفات
12ربیع الاول سن 11ہجری بمطابق 8جون سن 632عیسوی میں آپ ﷺ کی وفات63سال کی عمر میں ہوئی۔ آپﷺ کی وفات کے وقت مشرکین اور منافقین ہر لحاظ سے مسلمانوں سے خوف زدہ تھے ۔لیکن آپﷺ کی وفات کے بعد مشرکین اور منافقین نے صرف منافقت کرنے پر اکتفا کیا کیونکہ اب نبیﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوگیا تھا اور یہ منافق آرام سے مسلمانوں کو دھوکہ دے سکتے تھے۔
خلیفہ اول ابوبکرؓ
جب نبیﷺ کی وفات ہوگئی تو مسلمانوں نے ابوبکر ؓ کو اپنا پہلا خلیفہ منتخب کیا آپ ؓ سن11ہجری سے 13ہجری تک مسلمانوں کے خلیفہ رہے آپؓ نے 2سال 3مہینے اور 10دن تک حکومت کی ۔ آپؓ نے منافقین اور مشرکین کو سر اٹھانے نہ دیا ۔ان دو برسوں میں آپؓ نے بڑی فتوحات حاصل کیں ۔
خلیفہ دوم عمرؓ
عمرؓ اسلام کے خلیفہ دوم تھے ۔آپؓ نے کل ساڑھے دس سال حکومت کی اور 27ذی الحجہ 23ہجری میں شہادت پائی۔ آپؓ کے دور حکومت میں 22511030مربع میل زمین پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کفار اور مشرکین پر کس اچھے انداز سے قابو پایا گیا تھا کہ وہ کسی بھی جنگ کی ہمت نہ رکھتے تھے۔
خلیفہ سوم عثمانؓ
عثمانؓ اسلام کے تیسرے خلیفہ مقرر ہوئے ۔ آپؓ کے دور میں یہودیوں نے "منافقت " کا راستہ بڑے پرعزم طریقے سے اختیار کیا اور "عبداﷲ بن سبامنافق"کو اس کام کے لئے تیار کیا ۔ اس نے مسلمان کا روپ ڈھال کر یہودیوں کے لئے کام کیا اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ جب اس نے دیکھا کہ علیؓ نبیﷺ کے بہت قریبی رشتدار ہیں اگر ان کے نام پر عثمانؓ کے خلاف کام کیا جائے تو بڑا کامیاب ہوگا۔ عرب میں عبداﷲ بن سبا اپنا کام نہ کرسکا کیونکہ یہاں صحابہ ؓ کی کافی بڑی تعداد موجود تھی اسلئے اس نے عراق کے علاقے کا انتخاب کیا کیونکہ یہ علاقہ مسلمانوں نے فتح کرلیا تھا لیکن یہاں پر اب بھی وہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایرانی بادشاہ کی محبت اور مسلمانوں کے خلا ف نفرت تھی۔ وہاں جاکر عبداﷲ بن سبا نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ یہ کیا بات کہ نبیﷺ کے رشتداریعنی علیؓ تو یوں ہی بیٹھے رہیں اور اِدھراُدھر کے لوگ خلیفہ بن جائیں۔ابھی وقت ہے کہ عثمانؓ کو ہٹا کر علیؓ کو خلیفہ بنادو۔لیکن چونکہ بصرہ عراق میں صحابہؓ کی بہت ہی تھوڑی تعداد تھی جو نہ ہونے کے برابر تھی اسلئے کوئی عبداﷲ بن سبا کی باتوں کا جواب نہ دے سکتا اگر وہ ہوتے تو جواب دیتے کہ نبیﷺ اپنے خاندان کو خلافت دلانے نہیں بلکہ دین کو پھیلانے آئے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور لوگ آہستہ آہستہ ا س کی باتوں سے متاثر ہوکر عثمانؓ کے خلاف ہوتے گئے۔ جب بصرہ کے گورنر عبداﷲ بن عامر کو عبدا ﷲ بن سبا کی منافقت کی خبر ملی تو اس کو بصرہ سے نکال دیا اور یہ پھر کوفہ پہنچ گیا۔وہاں سے بھی نکلوادیا گیا پھر یہ شام پہنچا لیکن وہاں معاویہ ؓ گورنر تھے جنھوں نے اس کو وہاں سے بھی نکال دیا۔ عبداﷲ بن سبا کو چونکہ تمام اسلام دشمن لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی اسلئے وہ اس کام کو چلانے کے لئے پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ عبداﷲ بن سبا شام سے نکالے جانے کے بعد مصر پہنچا اور وہاں کام شروع کیا اور ایک اچھی خاصی جماعت بنالی جو عثمانؓ کے خلاف ہوگئے۔
عثمان ؓ بڑے نرم طبیعت کے صحابی تھے۔عثمانؓ کو یہ منافقین عبداﷲ بن سبا کے اشارے پر مختلف علاقوں سے خطوط بھیجتے اور ان علاقوں کے گورنروں اور قاضیوں کی خراب کارکردگی بیان کرتے جو کہ سراسر جھوٹ ہوتی اس طرح آپؓ کو پریشان کرتے اور آپؓ کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے۔ چونکہ عبداﷲ بن سبا منافق اپنے ساتھ دوسرے منافقوں کو بھی شامل کرتے جارہے تھے اور تعداد بڑھاتے جارہے تھے۔ اس طرے عثمان ؓ کے لئے انھوں نے ایک بڑا فتنہ کھڑا کردیا۔
آخر کار عثمان ؓ کو 22دن کے محاصرہ کے بعد 18ذی الحجہ سن 35ہجری کو شہید کردیا ۔آپؓ نے 8سال تک حکومت کی جس میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔
خلیفہ چہارم علیؓ
عثمان ؓ کی شہادت کے بعد صحابہؓ اور دیگر مسلمان بہت پریشان ہوئے۔ شام کے گورنر معاویہؓ نے علیؓ سے مطالبہ کیا کہ وہ باغی اور منافق جنہوں نے عثمانؓ کو شہید کیا ان کو سزا دی جائے جو علیؓ کو خلیفہ منتخب کرنے میں سب سے آگے تھے۔ کیونکہ عبداﷲ بن سبا نے لوگوں کو اسی بات پر جمع کیا تھا کہ علیؓ کا حق خلافت کا زیادہ ہے جبکہ کسی اور کو خلیفہ نہیں ہونا چاہیے۔ علیؓ سے عثمان ؓ کے خون کا قصاص صرف معاویہ ؓ نے نہیں کیا بلکہ ، عائشہؓ، طلحہؓ، زبیرؓ اور دیگر کئی صحابہ نے مختلف علاقوں سے کیا ۔لیکن علیؓ کے لئے مشکل یہ تھی کہ باغی چاروں طرف سے ایسے چھاگئے تھے کہ ان کے خلاف کچھ کرنا تو بڑی بات تھی کچھ کہنا بھی مشکل تھا۔علیؓ چاہتے تھے کہ حالات ذرا ٹھیک ہوں تو پھر ان باغیوں سے نمٹا جائے لیکن معاویہ ؓ ،عائشہؓ ، طلحہؓ اور زبیرؓ اور دیگرصحابہؓ نے یہ دیکھ لیا تھا کہ باغی علیؓ کی بیعت بھی کرچکے ہیں اور علیؓ کی فوج میں بھی شامل ہوچکے ہیں ۔ یہ باغی نہ صرف تمام مسلمانوں کے لئے خطرہ ہیں بلکہ علیؓ کے لئے بھی خطرہ ہیں ۔ یہ باغی صرف مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور یہودی ، مشرکین ، کفار اپنا بدلہ مسلمانوں سے لینا چاہیتے ہیں۔ معاویہ ؓ نے علیؓ کے ہاتھ پر بیعت صرف اسلئے نہیں کی کہ وہ چاہتے تھے کہ باغیوں کواگر سزا دے دی جائے تو آئندہ کسی منافق کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ کسی صحابی ؓ کو شہید کرسکے۔
جنگ جمل اور جنگ صفین
جنگ جمل وہ جنگ تھی جو منافقین اور باغیوں نے بھڑکائی یہ باغی جو علیؓ کی فوج میں موجود تھے انھوں نے عائشہ ؓ اور علیؓ کے درمیان ہونے والی رضامندی کو جنگ میں بدل دیا۔ اس رضامندی کے بعد علیؓ قاتلان عثمان ؓ کو سزا دینے اور عائشہؓ ، طلحہ ؓ اور زبیرؓ اور دیگر صحابہؓ علیؓ کی بیعت کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ لیکن منافقین نے جب یہ اتحاد دیکھا تو آپس میں منصوبہ بنایا کہ دونوں طرف باغی ایک دوسرے پر تیر پھینکیں گے اور علیؓ کی فوج میں شامل باغی شور مچادینگے کہ عائشہؓ کے لوگوں نے تیر پھینکے اور عائشہؓ کی فوج کی طرف تیر پھینکے جائینگے تو جو باغی یہاں سے وہاں گئے وہ شور مچادینگے کہ یہ علیؓ کی فوج نے پھینکے۔ انھوں نے پھراسی طرح کیا اور اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے اور جنگ جمل ہوئی۔
دوسری جنگ جنگ صفین تھی جب علیؓ نے باغیوں کے کہنے پر معاویہؓ کو شام کی گورنری سے ہٹانا چاہا تو معاویہؓ نے انکار کردیا کیونکہ معاویہؓ جانتے تھے کہ علیؓ بے بس ہیں اور وہ ایسا صرف دباؤ میںآکر کررہے ہیں کیونکہ باغیوں نے علی ؓ کی فوج اور اعلٰی عہدوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اگر معاویہ ؓ بھی اپنے عہدہ سے ہٹ گئے تو باغی پورے عرب پر قابض ہوجائینگے اور مسلمانوں کا قتل عام کرینگے اسلئے معاویہ ؓ نے انکار کیا اور کہا کہ اگر آپؓ قاتلان عثمانؓکو سزادینگے تو میں بیعت کرونگا۔ اس طرح علیؓ اور معاویہؓ کے درمیان جنگ صفین ہوئی ۔
علیؓ کی اپنے فوجیوں کے بارے میں رائے
علیؓ کی فوج میں ایک بڑی تعداد باغیوں اور قاتلان عثمانؓ کی تھی اسلئے وہ خود بھی بے بس تھے کہ ان سے کس طرح جان چھڑا سکیں ۔ان فوجیوں اور باغیوں کے بارے میں علیؓ کے الفاظ سنیے جو انہوں نے ـ"نہج البلاغہ "میں لکھیں ہیں۔
ـ "میں روز اول سے تمھاری غداری کے انجام کا انتظار کررہا ہوں اور تمھیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں"(صفحہ 45)
"میں تو تم میں سے کسی کو لکڑی کے پیالہ کا بھی امین بناؤں تو یہ خوف رہے گا کہ وہ کنڈا لے بھاگے"(صفحہ 69)
"اپنے اصحاب کو سرزش کرتے ہوئے(قوم)کب تک میں تمھارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں خد ا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مددگار ہونگے(مدد)۔خدا تمھارے چہروں کو ذلیل کرے۔"(صفحہ 119)
"خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے کہ تم میں سے دس لے کر ایک دیدے۔(صفحہ 189)
اس طرح کے کئی اقوال جو علیؓ سے منسوب ہیں نہج البلاغہ میں بکھرے پڑے ہیں ۔ ان کو پڑھ کر بخوبی اندازا ہوتا ہے کہ علیؓ بھی اپنی فوجوں سے تنگ تھے اور ان کا مکروفریب اور ان کے باغی اور قاتلان عثمان ؓ ہونے کو خوب جانتے تھے لیکن بے بس تھے۔ ان کی اسی بے بسی کی وجہ سے معاویہ ؓ ان کی بیعت نہ کرتے تھے۔
علیؓ کی شہادت
انہی لوگوں نے جو عثمان ؓ کی شہادت میں شریک تھے اور معاویہؓ اور دیگر صحابہؓ جس خطرہ سے ڈر رہے تھے وہی ہوا کہ ان باغیوں نے علیؓ کو بھی شہید کردیا ۔ آپؓ کو 15رمضان 40ہجری کو مسجد میں آپ ؓ کے سر پر باغی منافق نے تلوار ماری اور آپؓ 17رمضان کو شہید ہوگئے۔ عبداﷲ بن سبا کا بنایا ہوا جال علیؓ کو بھی پھنسا گیا اور یوں منافقین نے عثمانؓ کے بعد علیؓ کو بھی شہید کردیا۔ ایسے حالات میں صرف معاویہؓ ہی تھے جو ان منافقین اور مشرکین سے صحیح نمٹ سکتے تھے۔
حسنؓ کی خلافت
علیؓ کی شہادت کے بعد حسن ؓ کو خلیفہ بنایا گیا ۔ حسن ؓ نے 6ماہ کی خلافت کے بعد نبیﷺ کی اس پیشن گوئی کو پورا کیا جس میں آپﷺ نے فرمایاکہ "ابوبکرؓ نے فرمایا کہ سنا میں نے نبیﷺ سے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شائد اﷲ اس کی وجہ سے دو گروہ مسلمان کے درمیان صلح کرادے۔"(بخاری ، جلد3۔صفحہ 889)
معاویہؓ کی خلافت
جب حسن ؓ نے باغیوں کو علیؓ کی شہادت کے بعد مزید بے لگام ہوتے دیکھا تو معاویہؓ سے صلح کرلی اور خلافت معاویہؓ کو دے دی۔حسن ؓ نے خو دبھی اور تمام مسلمانوں نے معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ یوں مسلمان دوبارہ ایک جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ اور مشرکین اور دشمنان اسلام جو منافقت کا لباس پہن کر اپنے آپ کو اہل بیت سے محبت کرنے والا ظاہر کرکے مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے معاویہؓ کی خلافت کے بعد ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ یوں ریبع الاول 41ہجری میں معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔
معاویہؓ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک تو مسلمانوں نے دوبارہ سرحدوں کو مظبوط کیا اور غیر مسلموں کے خلاف جہاد پورجوش جذبہ اور ولولہ سے شروع کیا جو کہ کسی حد تک کم ہوچکا تھا۔ کیونکہ منافقوں نے صحابہؓ کو آپس ہی میں اختلافات میں الجھا دیا۔ معاویہؓ نے 4رجب سن 60 ہجری میں انتقال پایا ۔ آپؓ نے تقریباً 20سال شام کی گورنری کی اور 20سال تقریباً خلافت کی۔ کل 40سال تک آپ ؓ نے حکومت کی۔ اس چالیس سالہ دور میں آپؓ نے منافقین کو اپنی چالیں نہ چلنے دیں۔
یزیدؒ کی خلافت
جس طرح علیؓ کی شہادت کے بعد حسنؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اسی طرح معاویہؓ کے انتقال کے بعد یزید ؒ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ یزیدؒرجب کے مہینے60ہجری سے خلافت پر فائز ہوئے اور جمعرات 14ربیع الاول سن 64ہجری میں انتقال ہوا۔ یزیدؒ تین سال چھ مہینہ خلیفہ رہے۔ یزیدؒ نے بھی اپنے والد معاویہؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے منافقین اور مشرکین کا تعاقب کیا اور مسلمانوں کو متحد رکھا۔یزیدؒ کے ہاتھ پر کئی صحابہ ؓ نے بیعت کی اور مسلمان ایک جھنڈے تلے متحدہوکر یہودی، مشرکین اور منافقین کا تعاقب کررہے تھے لیکن عبداﷲ بن سبا کی پھیلائی ہوئی منافقت نے جس طرح عثمان ؓ اور پھر علیؓ کی جان لی اور ان کو شہید کیا پھر وہ حسن ؓ کو بھی شہید کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کو تتر بتر کیا جاسکے لیکن حسن ؓ نے ان کی چالوں کو جانچ لیا اور فوراً خلافت معاویہؓ کو سونپ دی اور خود بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی کیونکہ حسن ؓ جانتے تھے کہ معاویہؓ ہی ان باغیوں اور منافقوں کو مسلمانوں کی جانیں لینے اور آپس کے اختلافات سے روک سکتے ہیں۔ اب ان منافقوں نے حسین ؓ کو اپنے جال میں پھنسانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ سب کچھ منافقین صرف اس لئے کر رہے تھے کہ وہ جانتے تھے کہ صرف یہی ایک راستہ ہے جس سے مسلمانوں کو جہاد سے روکا جاسکتا ہے ۔ حسین ؓ کو شہید کرنے کے بعد وہ یزید ؒ کا بھی سفایا کرنا چاہتے تھے اور پھر ساری حکومت پر یہودیوں کا قبضہ چاہتے تھے۔ آج بھی حسینؓ کی شہادت کو ایک ایسا افسانوی رنگ دیا گیا ہے جس کی حقیقت کچھ اور ہے اور افسانہ کچھ اور۔ واقعہ کربلا یہاں ایک کتاب "صحیفہ کربلا "سے پیش کیا جائیگا جو کہ علی نظر منفرد کی لکھی ہوئی ہے اور اس کا ترجمہ نثار احمد زین پوری نے کیا ہے اس کتاب کو ادارہ تعلیم و تربیت لاہور نے چھاپا ہے اور یہ کتاب کسی بھی شیعہ کتاب گھر سے بآسانی دستیاب ہے۔
حسنؓ اور حسینؓ کی معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت
معاویہؓ نے حسینؓ کو خط لکھا کہ مجھے آپؓ کی فعالیت کی خبریں پہنچی ہیں کیونکہ میں ایسی باتوں سے آپؓ کو بری سمجھتا ہوں جو عہد آپؓ نے خدا سے کیا ہے اس کو پورا کریں۔(یعنی بیعت جو معاویہؓ سے کی ہے)حسینؓ نے جواب میں لکھا میری طرف جن باتوں کی نسبت دی گئی ہے میں ان سے بری ہوں۔۔( صحیفہ کربلا۔54)
معاویہؓ 41ہجری سے 60ہجری تک خلافت کرتے رہے لیکن کسی عبداﷲ بن سبا کی طرح کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرتا یا معاویہؓ کی خلافت پر اعتراض کرتا۔ منافقین نے جب دیکھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ صحابہؓ کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے تو ان کی نظر اب نواسہ رسولﷺ کی طرف لگی کہ اگر ان کو شہید کردیا جائے تو پھر یزیدؒ کی حکومت مزید کمزور ہوجائیگی اور منافقین حکومت پر کنٹرول کرنے کے اور قریب ہوجائینگے۔
معاویہ ؓ کے بعد جب یزیدؒ نے خلافت سنبھالی تو ان کے ہاتھ پر بھی لوگوں نے متفقہ طور پر بیعت کرلی اور منافقین جو کہ کوفہ میں پھیلے ہوئے تھے ایک مرتبہ پھر متحرک ہوئے اور اس بار انھوں نے عثمانؓ اور علیؓ کے بعد حسین ؓ کو چنا اپنی سازشوں کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے۔
معاویہؓ کے انتقال کے بعد حسینؓ نے فرمایا کہ میں اپنے اندر یزید کی بیعت ٹھکرانے کی جراء ت رکھتا ہوں۔ (صحیفہ کربلا۔71)
اور اس فیصلے کے بعد منافقین نے اپنی سازش کا آغاز کیا۔ یہ منافقین کوفہ میں ایک بڑی تعداد میں موجود تھے
معاویہؓ اور حسینؓ پر بھتان
حسینؓ نے فرمایا میں نے خود نبیﷺ سے سنا کہ ابوسفیان کے بیٹوں ،پوتوں اور ان کے غلاموں پر خلافت حرام ہے نیز فرمایا اگر معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو بے دھڑک اس کا پیٹ چاک کردو ، خدا کی قسم مدینہ والوں نے اسے میرے رسولﷺ کے منبر پر دیکھا لیکن جس کا حکم دیا گیا تھا انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ (صحیفہ کربلا۔74)
پہلی بات تو یہ کوئی حدیث نہیں دوسری بات اگر معاویہؓ پر خلافت حرام ہے تو پھر حسن ؓ نے ان کو خلافت کیوں دی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کیوں کی اور حسینؓ نے خود کیوں اس کی بیعت کی ۔دوسری بات یہ کہ مدینہ والے کون تھے یہا ں تو صحابہؓ کی ایک کثیر تعداد تھی کیا ان سب نے نبیﷺ کی حدیث سنی اور پھر اس پر عمل نہ کرسکے اور خود حسن ؓاور حسینؓ نے یہ کام کیوں نہ کیا۔
حسینؓ کا کربلا جانے کی بنیاد خواب تھی
حسینؓ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ اس خواب پر کیا جو انھوں نے دیکھا جس میں نبی ﷺ نے حسینؓ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا !میرے باپ تم پر قربان جائیں میں تمھیں ان لوگوں کے بیچ اپنے خون میں آغشتہ دیکھ رہا ہوں۔خدا نے جنت میں جو مقام تمھارے لئے معین کیا ہے وہ شہادت کے بغیر نہ مل سکے گا۔ (صحیفہ کربلا۔75)
حسین ؓ کی کربلا جانے کی وجہ یہ خواب اور اس جیسے اور خواب ہیں جو اس کتاب میں لکھے ہیں۔ حالانکہ اﷲ قرآن میں فرماتا ہے کہ "آج میں نے تمھارے لئے دین کو مکمل کردیا۔(سورۃ المائدہ، پارہ ۔6آیت۔3)"اسلئے دین مکمل ہوچکا ہے اور نبیﷺ کسی کے خواب میں آکر کوئی حکم نہیں دیتے بلکہ قرآن اور حدیث میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ یہ وہ من گھڑت باتیں ہیں جو منافقین کے بھیجے ہوئے سازشی خطوط سے توجہ ہٹانے کے لئے بنائی گئی ہیں تاکہ لوگ ان کوفیوں کی بے وفائیوں اور ان کے قاتل ہونے کو نظر انداز کردیں۔
حسینؓ کربلا نہ جانے کا مشورہ
جب حسین ؓ مکہ سے مدینہ جانے لگے تو محمد بن حنفیہ نے ان کو روکا اور پیشکش کی اگر آپ یزید کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تو ادھر ادھر شہروں میں جاتے رہیں اور ان کی بیعت نہ کریں۔ اگر آپؓ سمجھیں کہ لوگ آپؓ کی بیعت کرنا چاہیں تو پھر آپؓ بیعت لے لیں اگر کچھ آپؓ کی بیعت کریں اور کچھ نہ توپھر فتنہ کے شعلے بھڑک اٹھینگے۔ حسینؓ نے کہا بھائی تم ہی بتاؤ ! میں کہاں جاؤں؟(صحیفہ کربلا۔78)
محمد بن حنفیہ حسین ؓ کے بھائی تھے وہ بھی حسین ؓ کو سمجھار ہے ہیں کہ آپ ؓ مکہ نہ جائیں کیونکہ مکہ جانے کے بعد وہ عراق جانے کا ارادہ کررہے تھے۔
حسینؓ نے جواب میں کہا اگر پوری دنیا بھی مجھے کہیں پناہ نہیں لینے دے گی تو تب بھی یزید بن معاویہؓ کی بیعت نہ کرونگا۔محمد بن حنفیہ یہ سن کر رونے لگے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائی حسینؓ نے اس راستہ کا انتخاب جان بوجھ کر کیاہے۔(صحیفہ کربلا۔78)
حسینؓ کی کربلا روانگی
مکہ پہنچنے کے بعد حسینؓ خانہ خد ا کی حرمت کے تحفظ کی خاطر طواف اور سعی کے بعد حج کو عمرہ سے بدلا اور مکہ مکرمہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ (صحیفہ کربلا ۔84)
حج کے دوران ایک کثیر تعداد مسلمانوں کی موجود ہوتی ہے اور اس وقت صحابہؓ بھی ایک بڑی تعداد میں تھے اگر حسینؓ ان بھیجے گئے خطوط کا ان سے ذکر کرتے توایک بڑی تعداد ان کے ساتھ کوفہ جاتی لیکن ایسا نہ ہوا۔
حسینؓ کا اہل بصرہ کے نام خطوط
مکہ سے حسینؓ نے اہل بصرہ کے نام ایک ہی مضمون کے خطوط لکھے ۔ جس میں لکھا باوجودیکہ ہم خلافت کے سب سے زیادہ لائق تھے لوگوں نے ہمارے اس حق کو چھین لیا چونکہ ہمیں اختلاف پسند نہیں ہے اور امت اسلامیہ کی بھلائی کی خاطر اس زمانے میں ہم خاموش رہے ۔ میں اس خط کے ساتھ اپنا نمائندہ بھیج رہا ہوں میں تمھیں کتاب خدا اور سنت رسولﷺ پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہوں اگر تم نے میری بات مان لی تو میں تمھیں صحیح راستہ پر لے جاؤنگا۔ (صحیفہ کربلا ۔89)
اس کتاب کے مطابق حسینؓ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے تو پھر حسن ؓ نے یہ حق کیوں چھوڑا۔ اگر اتنے عرصے سے یہ امت کی بھلائی کی خاطر خاموش تھے تو اب مزید بھی خاموش رہنا چاہیے تھا۔ اور بیعت لینا اگر شروع کرتے تو پہلے مدینہ سے اور پھر مکہ میں حج پورا کرنے کے بعدوہاں بیعت کا سلسلہ شروع کرتے ۔کیونکہ وہاں ان کا پورا خاندان تھا اور صحابہؓ کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ لیکن حسین ؓ نے بصرہ اور کوفہ کا انتخاب کیا جہاں منافقین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔جو صرف اور صرف حسینؓ کو شہید کرکے پھر یزید ؒ کی حکومت کو الٹنے کے بعد پورے عرب پر یہودیوں اور مشرکین کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔
حسینؓ کے خطوط کا جواب
حسینؓ کے خط کے جواب میں یزید بن مسعود نے لکھا کہ خدا کی قسم دین کے تحفظ کے لئے یزیدؒسے جہاد کرنا مشرکین سے جہاد کرنے سے افضل ہے۔ خلافت کا حق صرف انہی کا ہے (صحیفہ کربلا۔91)
میں آپؓ کی مدد کرنے میں اپنی کامیابی دیکھ رہا ہوں (صحیفہ کربلا۔92)
یزیدؒ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور حسینؓ کو مزید ابھارا کہ و ہ عراق آئیں ۔ یہی وہ منافقین تھے جو حسینؓ کو کربلا بلوا کر ان کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے اور کامیاب بھی ہوئے۔ ان لوگوں کو خطوط یزیدؒ سے چھپ کر لکھے گئے تھے یہ لوگ نہ یزیدؒ کے وفادار تھے اور نہ ہی حسینؓ کے خیرخواہ ۔ یہ اگر موقع ملتا تو یزیدؒ کو بھی قتل کردیتے اور حسینؓ کو تو کیا ہی۔بہرحال سب نے حسینؓ کو خطوط لکھے اور اپنی وفاداری اور بیعت کا یقین دلایا۔
حسینؓ کو بھیجے گئے خطوط کا مضمون
حسینؓ کو بھیجے گئے خطوط میں لکھا تھا یہ خط باایمان شیعوں کی طرف سے حسین ؓ کے نام
اما بعد! عراق کی سمت روانگی میں جلدی کیجئے کہ لوگ انتظار کررہے ہیں۔ کیونکہ آپؓ کے سوا ان کا کوئی رہبر نہیں ہے ، جلد ی کیجئے، جلدی کیجئے۔ بھیجے گئے خطوط کا چند بنیادی نکات میں یہ خلاصہ ہے۔
۱۔ معاویہ ؓ کی موت پر مسرت کا اظہار
۲۔ یزید میں حکومت و خلافت کی صلاحیت نہیں ہے
۳۔ حسین ؓ کو کوفہ آنے کی دعوت
۴۔ اہل کوفہ کا راہ امام میں فدا کاری و جانبازی کا عہد۔
(صحیفہ کربلا۔97)
ان خطوط کو دیکھ لیں تو واضح ہوگا کہ یہ خطوط انہی منافقین نے لکھے جو حسینؓ کو کوفہ بلا کر شہید کرنا چاہتے تھے آپؓ کو دھوکہ دیا اور اس بات پر ابھارا کہ آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرینگے۔ ساتھ ہی میں ان منافقین نے معاویہؓ کے خلاف اپنا بغض بھی ظاہر کیا یہ لوگ نہ صرف معاویہؓ بلکہ علیؓ اور تمام صحابہؓ کے بھی دشمن تھے کیونکہ یہ منافق تھے ۔
اہل کوفہ کے خطوط کی تعداد
حسینؓ کے پاس اہل کوفہ کے خطوط کی تعداد 12000سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔(صحیفہ کربلا۔97)
ان تمام خطوط کے جواب میں حسین ؓ نے صرف ایک خط پر اکتفا کیا۔ آپؓ نے اس خط میں لکھا کہ میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو جو کہ میر ے معتمد ہیں تمھارے پاس بھیج رہا ہوں اگر انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ اہل فضل و عقل تمھارے خطوط اور تمھارے قاصدوں کے پیغام کی تائید کرتے ہیں تو میں عنقریب تمھارے پاس پہنچ رہا ہوں۔(صحیفہ کربلا۔98)
حسینؓ کے اس خط سے اندازا لگائیے کہ وہ ان خطوط بھیجنے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ ہی عثمانؓ اور علیؓ کے قاتل ہیں اور اب بھی قابل بھروسہ نہیں ہیں اسی لئے ان کی تصدیق کے لئے مسلم بن عقیل کو بھیجا گیااور جن اہل فضل و عقل والوں کے پاس بھیجا ان کا حال بھی آگے آئیگا۔اور یہاں یہ بھی کہا کہ اگر بات صحیح ہوئی تو وہ آئینگے ورنہ نہیں حالانکہ حسینؓ کی یہ بات سراسر اس خواب کے مخالف ہے جس کی بنا پر آپ ؓ نے عمران بن حنفیہ سے کہا تھا کہ مجھے حکم ہوا ہے جانے کا۔
مسلم بن عقیل کا سفر
مسلم بن عقیل مکہ سے مدینہ آئے اور پھر قبیلہ قیس کے دو آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوگئے ۔مسلم بن عقیل نے سفر میں حسین ؓ کے نام خط لکھا اور کہا میں جو کہ بطن الخبیت جو کہ پانی کے کنارے واقع ہے قیام پذیر ہوں چونکہ اس سفر میں بدشگونی کے آثار نظر آتے ہیں لہٰذا مجھ کو اس سے معاف رکھا جائے اور کسی اور آدمی کو کوفہ روانہ کیا جائے۔ (صحیفہ کربلا۔99)
یہ نبیﷺ کے تربیت یافتہ لوگ اور ان کے ایسے کمزور عقائد کے وہ پانی اور کسی جگہ سے بد شگونی لیں ایسا ہرگز ناممکن ہے یہ بھی ان کی شان کے خلاف ہے۔یہ تاریخ کا تحفہ ہے جو کہ مسلم بن عقیل جیسے دلیر شخص کی یہ تصویر کشی کررہا ہے۔
حسینؓ نے مسلم کو جواب لکھا : اما بعد ! ڈرتا ہوں کہ اس خط کو لکھنے کا محرک کہیں خوف نہ ہو ، جس منزل کی طرف تمھیں بھیجا گیا ہے اس کی طرف روانہ ہوجاؤ۔ (صحیفہ کربلا۔99)
مسلم بن عقیل کی کوفہ آمداور کوفیوں کی بیعت
مسلم بن عقیل نصف رمضان کو مکہ سے روانہ ہوئے اور شوال میں کوفہ پہنچے۔ اور وہاں مختار بن عبید ثقفی کے گھر قیام پذیر ہوئے۔ (صحیفہ کربلا ۔ 100)
مختار کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر کے بہنوئی تھے۔ اسلئے مسلم نے ان کے گھر قیام کیا ۔جب کوفیوں کو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل مختار کے گھر ہیں تو سب وہاں جمع ہوگئے ۔مسلم بن عقیل نے ان سب کے سامنے حسینؓ کا خط پڑھا یہ عظیم جماعت حسینؓ کے پیغام سے بہت متاثر ہوئی 18000افراد نے مسلم کے ہاتھ پر بیعت کی، بعض نے یہ تعداد 40000بیان کی (صحیفہ کربلا ۔100)
اس عظیم جماعت جو کہ منافقین پر مشتعمل تھی اس کا حال آگے آئیگا۔ کہ کس طرح یہ پانی کے بلبلے کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ اور مسلم کو شہید کردیتے ہیں اور حسینؓ کو بلوانے کی تیاری کرتے ہیں۔
حاکم کوفہ کا خطبہ
حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کو جب مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اہل کوفہ کو مخاطب کرکے کہا کہ خدا کے بندو ! خدا سے ڈرو! تفرقہ اندازی اور فتنہ پروری سے بچو کیونکہ اس سے لوگوں کا کشت وخون ہوتا ہے اور ان کے اموال برباد و غارت ہوتے ہیں۔ (صحیفہ کربلا۔103)
جب مسلم بن عقیل ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہوگئے اور بیعت کرنے والوں کی تعداد 25000ہوگئی توآپ نے خروج اور انقلاب کا ارادہ کیا لیکن ہانی نے منع کیا ۔ اور کہا اس کام میں جلد ی نہ کرو۔ (صحیفہ کربلا۔ 111)
خروج کا مطلب کہ یزید کی بیعت سے نکل جانااور یزیدؒ کے خلاف لڑنا تاکہ اس کو خلافت سے ہٹا دیا جائے۔
مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کی بیوفائی
رات ہونے سے پہلے ہی سارا مجمع جو مسلم کے ہاتھ پر بیعت کئے ہوئے تھا پراگندہ ہوگیا اور مسلم بن عقیل تنہا رہ گئے۔ احنف بن قیس نے اہل کوفہ کے بارے میں کہا ہے ، کوفہ والو! تمھاری مثال اس عورت کی سی ہے جسے روز نیا شوہر چاہیے۔ (صحیفہ کربلا۔124)
یہ ویسا ہی الزام ہے جو علیؓ اپنی فوج کے لوگوں پر لگاتے تھے۔ اور یقینا کوفہ والوں کا کام ہی منافقت تھا۔ اسی لئے وہ پہلے حسینؓ کو شہید اور پھر یزید ؒ کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے تھے
رات ہوگئی تو مسلم کے ساتھ کوئی نہ تھا اور گلی کوچوں میں پھر رہے تھے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کس کے در پہ دستک دیں۔(صحیفہ کربلا۔125)
مسلم جاتے جاتے طوعہ کے گھر پہنچے اور اس سے کہا کہ میں مسلم ہوں اہل کوفہ نے مجھ سے دغا بازی اور بے وفائی کی۔ (صحیفہ کربلا۔ 148)
سوچنے کی بات ہے کہ اگر یہ کوفہ والے بیعت کرکے پھر سکتے ہیں تو یہ لوگ مسلم کو قتل کرنے سے کہاں رک سکتے ہیں۔ اسلئے یزیدؒ پر یا کسی اور پر اس کا الزام دھرنا بھی انھی کوفیوں اور منافقوں کا کام ہے اصل میں انہی نے پہلے بیعت ختم کی اور پھر خود ہی مسلم بن عقیل کو شہید کردیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب ان کا اعتماد ختم ہوچکا ہے۔
مسلم ناامید ہوگئے تو ان کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے ۔ عبداﷲ بن عباس نے کہا جو شخص اتنا بڑا کام انجام دیتا ہے اس کو رونا نہیں چاہیے مسلم نے جواب دیا میں حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں پر رورہا ہوں کہ وہ تمھارے خطوط پر اعتماد کرکے کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
(صحیفہ کربلا۔ 145)
اس سے واضح ہوا کہ اگر حسین ؓ کو کوفہ کے منافقین سرداروں اور عوام کے بارے میں خبر ہوجاتی تو وہ کبھی کربلا نہ آتے اور نہ ہی شہید ہوتے۔ لیکن افسوس کہ مسلم بن عقیل کے ساتھ جو بے وفائی ہوئی اسکا علم حسینؓ کو مکہ سے نکلنے سے پہلے نہ ہوسکا اور وہ لا علمی میں کوفہ کی طرف چل پڑے۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ نبیﷺ حسینؓ کے خواب میں آکر یہ تو بتارہے ہیں کہ حسینؓ تمھیں کربلا کی طرف جانا ہے اور اپنا سفر جاری رکھنا ہے لیکن یہ نہ بتایا کہ مسلم بن عقیل کو قتل کردیا یا کوفہ والے لوگ جو خطوط بھیج رہے ہیں وہ جھوٹ ہے ۔ اصل میں خوابوں کی یہ کہانیاں صرف اور صرف تاریخ دانوں کاکمال ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ نہ ہی اس کا شریعت سے کوئی تعلق ہے۔
مسلم بن عقیل کی وصیت او ر شہادت
مسلم نے کہا کیا تم میری طرف سے حسینؓ تک یہ پیغام پہنچاسکتے ہو کہ میرے ماں باپ آپؓ پر قربان آپؓ واپس لوٹ جائیں ، اپنے اہل بیت کو بھی اپنے ہمراہ لے جائیں تاکہ اہل کوفہ کے فریب سے بچے رہیں ، ان لوگوں نے آپؓ کے والد کے مددگاروں کو قتل کردیا۔
(صحیفہ کربلا۔ 136)
یہ بات ثابت ہوگئی کہ کوفہ والوں نے بیعت کرنے کے بعد مسلم کو قتل کیا اور یہی لوگ عثمان ؓ اور علیؓ کے قاتل بھی تھے اور حسینؓ کے لئے میٹھا زہر منافقت کا تیار کررہے تھے۔ پہلے خطوط بھیج کر اور پھر ان کو شہید کرکے الزام یزیدؒ کے سر لگا دیا۔
مسلم بن عقیل تسبیح و استغفار میں مشغول ہوگئے اور فرمایا خدایا: ہمارے اور اس جماعت کے درمیان فیصلہ فرما جس نے ہم سے جھوٹ بولا ہمیں فریب دیا اور ہمیں تنہا چھوڑ دیا اور ہمیں قتل کیاہے ۔ (صحیفہ کربلا۔140)
یہاں مسلم بن عقیل نے ایک مرتبہ پھر دھرایا کہ یہی بیعت کرنے والے ہی ان کے قاتل ہیں ۔
مسلم بن عقیل کو 8ذی الحجہ 60ہجری میں شہید کیا گیا۔ (صحیفہ کربلا۔141)
یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ حسینؓ کو مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر نہ مل سکی اور وہ ایک غلط فہمی کی بنیاد پر کربلا کی طرف نکلے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ کربلا میں ان کے لئے بیعت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔
حسینؓ کی مکہ سے روانگی کی وجوہات
حسینؓ نے مکہ سے روانگی کے وقت یہ خطبہ دیا کہ میری قتل گاہ اور مدفن پہلے منتخب ہوچکا ہے مجھے وہاں پہنچنا ہے ۔ہم اس کے امتحان اور آزمائش پر صبر کرتے ہیں ۔جو ہماری راہ میں قربان ہونا چاہتا ہے اورخود کو خدا سے ملاقات کیلئے آمادہ پاتا ہے وہ ہمارے ساتھ آئے ۔ ان شاء اﷲ میں کل روانہ ہوجاؤنگا۔(صحیفہ کربلا۔145)
یہاں حسینؓ اپنے شہید ہونے کی پیشن گوئی کو پورا کرنے کے لئے مکہ چھوڑ کر جارہے ہیں اور باقی لوگوں کو بھی اپنے ساتھ قربان ہونے کے لئے آمادہ کررہے ہیں۔ اس سفر کا مقصد اور وہاں جانا حسینؓ نے واضح کردیا کہ اس پیشن گوئی کو پورا کرنا ہے جو کہ ان کو خواب میں نبیﷺ نے دی۔یہ دو باتیں متضاد ہیں کہ ایک طرف حسینؓ مسلم بن عقیل کو کوفہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیج رہے ہیں اور اپنے وہاں جانے کے لئے ان کے گرین سگنل سے مشروط کیا اور دوسری طرف یہ کہ کر مکہ میں روکنے والوں کو جواب دیتے ہیں کہ مجھے چونکہ نبیﷺ نے خواب میں بتایا کہ کربلا میں شہید ہونا ہے اسلئے جارہا ہوں ۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ نے یہ افسانہ گڑھا تاکہ کوفہ کے منافقین کو قاتلین عثمان ؓ کے الزام سے بچ سکیں۔
حسینؓ کے کوفہ ہجرت کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ کوفہ والوں نے آپؓ کو وہاں آنے کی دعوت دی تھی واضح رہے کہ معاویہؓ کے زمانہ میں بھی انہوں نے اس سلسلے میںآپکو بہت سے خطوط لکھے تھے۔اور اگر حسین ؓ کوفہ کے علاوہ کہیں اور تشریف لے جاتے تو یہ سوال پیدا ہوتا کہ حسینؓ نے ان لوگوں کے دعوت ناموں کو نظر انداز کرکے دوسری جگہ کو انتخاب کیا کہ نتیجہ میں شہید ہوجائیں۔ (صحیفہ کربلا۔ 147)
ان کوفیوں کی تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے ہر اسلامی حکومت کوکمزور کیا ہے اور معاویہؓ کے زمانے میں بھی حسینؓ کو کوفہ بلانے کیلئے خطوط لکھے لیکن ان کی چالیں ناکام رہیں اور پھر آخر معاویہؓ کے انتقال کے بعد ان کی سازشیں تیز ہوگئیں اور حسینؓ کو کوفہ بلانے میں کامیاب ہوگئے۔
اﷲ نے انسانوں کو کیوں پیدا کیا؟
اﷲ نے دنیا میں انسانوں کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا اس کے بارے میں قرآن میں آتا ہے کہ
ـ"میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں" [الذٰریٰت،پارہ۔27،آیت ۔ 56]
اس آیت میں انسان کی پیدائش اور اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد اﷲ نے بیان فرمادیاکہ عبادت کرنی ہے تو صرف اﷲ کی عبادت کرنی ہے کسی اور کی نہیں ۔
اﷲ نے انبیاؑ کو کیوں بھیجا؟
جب اﷲ نے انسانوں کو پیدا کیا تو پھر ان کی ہدایت کا بندوبست بھی کیا ۔ اس کے لئے اﷲنے انبیاؑ کو اس کام کی ذمداری دی۔ آدم ؑ کی پیدائش سے ہمارے نبیﷺ تک بے شمار انبیاؑ اﷲ نے اس دنیا میں ہم انسانوں کی رہنمائی کے لئے بھیجے۔ ان کی تعداد انداز ًایک لاکھ چوبیس ہزار ہے ۔ان انبیاؑ کی تبلیغ کا بنیادی نکتہ ایک ہی تھا۔ان تمام انبیاؑ نے لوگوں کو صرف اﷲ کی عبادت کی طرف بلایا اور شرک سے روکا۔سب کی دعوت کا بنیادی مقصد "لا الہ الا اﷲ"تھا۔ قرآن میں آتا ہے کہ "آپﷺ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل
فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔ (الانبیآ۔ پارہ ۔17، آیت۔25)
انبیاؑ کا مقام کیا ہے؟
قرآن میں انبیاؑ کا مقام بتایا گیا ہے کہ :آپﷺ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا ان کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی
معبود نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔ (الانبیآ۔ پارہ ۔17، آیت۔25)
اس آیت میں اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ انبیاؑ پر وحی اترتی تھی ان کو اﷲ وحی کے ذریعے آگاہ کردیا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد انبیاؑ کی اس قدر کو نہیں سمجھ پارہی ہے اور وہ اپنے اماموں، پیروں ، نجومیوں اور علماء کو بھی اس صف میں کھڑا کردیتے ہیں۔
چند انبیاؑ کے نام
بد قسمتی سے ہم دنیا کی زندگی میں اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ ہمیں انبیاؑ کے ناموں کے بارے میں بھی علم نہیں ہے ۔اگرچہ قرآن اور احادیث میں تمام انبیا ؑ کے نام نہیں ہیں چند کے ہیں لیکن ہمیں ان چند کے نام بھی مشکل سے معلوم ہیں۔ ان انبیا ؑ میں سے آدمؑ، ابراہیمؑ،اسماعیلؑ، یوسفؑ ، یعقوبؑ، یونس ؑ، ایوبؑ ، لوطؑ، نوحؑ،سلیمانؑ، ادریسؑ، یحیٰؑ ، ذکریاؑ، موسیٰؑ ،عیسیٰؑ ، ہمارے آخری نبی محمدﷺ۔
نبیﷺ سے پہلے عرب کی حالت
عرب کا نام جس کو آج کل سعودی عرب کہتے ہیں ۔ اب سے کوئی ساڑھے چودہ سو سال پہلے وہاں عجیب گمراہیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ اﷲ کے دین کو لوگ بھول گئے تھے اور سینکڑوں بتوں اور انبیا کی مورتیوں کے پجاری تھے، کعبہ جس کو اﷲ نے اپنا گھر قراردیا اس میں 360بت رکھے ہوئے تھے۔ جن میں مریمؑ ، ابراہیم ؑ اور اسمائیل ؑکی شکلیں بھی بت کی صورت میں تراش کر رکھی ہوئی تھیں۔اس شرک اور اﷲ کی توحید کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کو ختم کرنے اور معاشرے کو پرامن بنانے کے لئے اﷲ نے نبیﷺ کو بھیجا ۔آپﷺ کی پیدائش 9یا 12ربیع الاول اور عیسوی کلیکنڈر کے مطابق آپﷺ20 یا 22اپریل سن571 میں پیدا ہوئے ۔آپﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی۔
ہمارے آخری نبیﷺ کی دعوت
اﷲ کے آخری نبی محمد ﷺ پر اﷲ نے 40سال کی عمر میں وحی نازل کی ۔ آپﷺ پر وحی نازل کرنے کے بعداﷲنے آپﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ مکہ کے مشرکین کوکھل کر توحید کی دعوت دیں ۔آپﷺ نے صفا پہاڑ پر تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان سب کو ـ"لا الہ الااﷲ"کی دعوت دی ۔ یہ دعوت سن کر لوگ آپ کے دشمن ہوگئے لیکن چند لوگوں نے آپﷺ کی دعوت کو قبول کیا اور آپ ﷺ کے ساتھی ہوگئے۔ رفتہ رفتہ آپﷺ یہ دعوت دیتے رہے اور آپﷺ کے صحابہ کی تعداد بڑھتی رہی۔ لیکن مکہ کے مشرکین کو آپﷺ کی یہ دعوت ناقابل قبول تھی اور وہ آپﷺ کے جان کے دشمن ہوگئے۔ آپﷺ کواﷲ کے حکم سے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنی پڑی۔
سن ہجری کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
آئیے اب ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ سن ہجری کا آغاز کب اور کیسے ہوا۔اسلامی تاریخ یعنی سن ہجری کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا گیا ہے ۔نبیﷺ نے نبوت کے تیرہویں سال ذوالحجہ یعنی بارہویں مہینے کے آخر میں کافروں کے تنگ کرنے پر مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔اس طرح اسلامی سال یعنی ہجری سال کا پہلا مہینہ محرم طے پایا۔جس طرح عیسوی سال کاآغاز جنوری کے مہینے سے ہوتا ہے اسی طرح اسلامی سال جس کو ہجری سال کہتے ہیں اسکا آغاز محرم کے مہینے سے ہوتا ہے۔عیسوی سال جس کو ہم انگریزی سال کہتے ہیں اس میں 12مہینے ہوتے ہیں اسی طرح ہجری سال یا اسلامی سال میں بھی بارہ مہینے ہوتے ہیںجو کہ محرم الحرام۔ صفر۔ ربیع الاول۔ ربیع الثانی۔ جمادی الاول۔ جمادی الثانی ۔ رجب۔ شعبان۔ رمضان۔ شوال۔ ذی القعد۔ ذی الحج"۔
"لا الہ الااﷲـ"کا مطلب کیا ہے؟
"لا الہ الااﷲـ"کا مطلب ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ یعنی اﷲ کے علاوہ کوئی نبی ، بت، فرشتہ ، جن، وغیرہ عبادت کے لائق نہیں ۔ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت یعنی اﷲ کی صفات میں سے کوئی صفت اگر کسی اور میں مانی گئی تو وہ شرک ہے ۔ مکہ کے مشرکین اﷲ کو مانتے تھے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ "ہاں خالص اﷲ ہی کی بندگی ہے اور وہ جنہوں نے اسکے سوا اور والی بنائے ،کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کیلئے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اﷲکے پاس نزدیک کردیں گے اﷲ ان میں فیصلہ کردے گا اس بات کا جس میں اختلاف کررہے ہیں بیشک اﷲ راہ نہیں دیتا اسے جو جھوٹا بڑا ناشکرا ہو ۔[سورۃالزمر3/39 ] اس آیت کے مطابق مکہ کے مشرکین اﷲ کو مانتے تھے لیکن اس کے لئے بتوں اور انبیاؑا ور بزرگوں کو خوش کرنے کے لئے ان کی عبادت بھی کیا کرتے تھے۔اسی لئے اﷲ کے نبیﷺ نے ان کو اس شرک سے منع کیا لیکن وہ آپﷺ کی جان کے دشمن ہوگئے۔
صحابہ ؓ کا کیا مطلب ہے ؟
وہ مرد یا عورت جنھوں نے آپﷺ کی زندگی میں آپﷺ کو دیکھا اور اﷲ اور آپﷺ پر ایمان لائے اور ایمان کی حالت میں وفات پائی وہ لوگ صحابہؓ کہلاتے ہیں ۔ اگر مرد ہے تو صحابیؓ کہتے ہیں اور اگر عورت تو صحابیہ ؓ کہتے ہیں۔
صحابہؓ کے نام اور فضائل
یوں تو بے شمار صحابہ ؓ نبیﷺ کے دور میں تھے ۔ سب کے سب اﷲ کے ہاں پسندیدہ تھے۔ ۔ جن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں ۔مرد صحابہؓ کے نام ابوبکرؓ۔عمرؓ۔ ؓ۔عثمانؓ۔علیؓ۔ حمزہ ۔ خالد بن ولیدؓ،ابوسفیان ؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ۔بلالؓ۔حسنؓ۔حسینؓ۔ع بداﷲبن عباسؓ۔عبداﷲبن عمرؓ۔معاویہؓ۔طلحہؓ۔زبیرؓ۔
عورتوں میں خدیجہؓ۔فاطمہؓ۔عائشہؓ۔حفصہ ؓ۔ام کلثومؓ۔ام حبیبہؓ۔ثمیہؓ۔ام دردہؓ،
صحابہؓ کے بارے میں قرآن کا فرمان
"محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ (صحابہؓ)ان کے ساتھ ہیںکافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں۔
(محمد، پارہ ۔26، آیت ۔29)
صحابہؓ کے بارے میں احادیث
ان فضائل کو پڑھنے کے بعد ہم ان صحابہؓ کی شان کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کس قدر جلیل القدر صحابہ ؓ تھے۔ اسی لئے اﷲ نے قرآن میں ان کے بارے میں فرمایا "رضی اﷲ عنہ اور رضو عنہ"میں ان سے راضی ہوگیا اور یہ مجھ سے۔
عمرؓکی فضیلت (جو نبیﷺ کی زوجہ مبارکہ حفصہؓ کے والد تھے)
انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ داخل ہوا میں جنت میں یعنی عالم رؤیا میں سو دیکھا میں نے ایک محل سونے کا سو میں نے کہا یہ (محل )کس کا ہے۔فرشتوں نے کہایہ قریش کے ایک جوان کا ہے میں نے خیال کیا کہ میں ہوں پھر کہا میں نے وہ کون ہے فرشتوں نے کہا وہ عمر ؓ ہیں۔
جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔663
ابوبکرؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کی زوجہ مبارکہ عائشہؓ کے والد تھے)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا کسی کا احسان ہم پر ایسا نہیں جس کا بدلہ ہم نے نہ کردیا ہو سو ا ابوبکر ؓ کے۔ابوبکرؓ کا جو احسان ہم پر ہے اس کا بدلہ ان کو اﷲ قیامت میں دے گا ،اور اتنا نفع مجھ کو کسی کے مال نے نہ دیا جتنا نفع میں نے ابوبکرؓ کے مال سے پایا ۔ جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔652
عثمان غنی ؓکی فضیلت (جو نبیﷺ کی دوبیٹیوں کے شوہر تھے)
انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ احد پہاڑ پر چڑھے ،آپﷺ کے ساتھ ابوبکرؓ،عمرؓ اور عثمان ؓ تھے ،پہاڑ ہلنے لگا ،آپﷺ نے لات ماری اور فرمایا احد تھما رہ تجھ پر ہے کون،ایک پیغمبرہیں ایک صدیق(یعنی ابوبکرؓ)اور دو شہید(یعنی عمرؓ اور عثمانؓ )۔
بخاری۔جلد،2،کتاب المناقب،حدیث۔438
عائشہ ؓکی فضیلت(جو نبیﷺ کی زوجہ مبارکہ اور ابوبکرؓ کی بیٹی تھیں)
انسؓ سے روایت ہے کہ کسی نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ آپ کو لوگوں میں کون زیادہ پیارا ہے ۔آپﷺ نے فرمایا عائشہ ؓ لوگوں نے عرض کی کہ مردوں میں آپﷺ نے فرمایا ان کے باپ یعنی ابوبکرؓ۔ جامع ترمذی۔جلد۔2،صفحہ۔732
ابوہریرہ ؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کی سب سے زیادہ حدیثوں کو یاد رکھنے والے صحابیؓ تھے)
عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہؓ نے بہت حدیثیں بیان کیں اور اﷲ جانچنے والا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار ابوہریرہؓ کی طرح حدیثیں بیان نہیں کرتے اور میں تم سے اس کا سبب بیان کرتا ہوں ۔میرے بھائی انصاری جو تھے وہ اپنی زمین کی خدمت میں مشغول رہتے اور جو مہاجرین تھے وہ بازار کے معاملوں میں اور میں اپنا پیٹ بھر کر رسولؓ کے ساتھ رہتا تو میں حاضر رہتا اور وہ غائب ہوتے اور میں یادرکھتاوہ بھول جاتے اور رسولﷺ نے فرمایا ایک دن کون تم میں سے اپناکپڑا بچھاتا ہے اور میری حدیثیں سنتا ہے پھر اس کو اپنے سینے سے لگادے تو جو بات سنے گا وہ نہ بھولے گا ۔میں نے اپنی چادر بچھادی یہاں تک کہ آپ حدیث سے فارغ ہوئے پھر میں نے اس چادر کو سینے سے لگالیا اس دن سے میں کسی بات کو جو آپﷺ نے بیان کی نہیں بھولا ۔اور اگر یہ دو آیتیں نہ ہوتیں جو قرآن میں اتری ہیں تو میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کرتا ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے جو لوگ چھپاتے ہیں جو ہم نے اتاریں نشانیاں او ر ہدایت کی باتیں ان پر لعنت ہے۔
مسلم،جلد۔6،کتاب الفضائل ،صفحہ ۔165
علیؓ کی فضیلت( جو نبیﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے یعنی فاطمہؓ کے شوہر تھے)
جابر ؓسے روایت ہے کہ نبیﷺ نے علیؓ سے فرمایا تم مجھ سے ایسے ہو جیسے ہارون موسٰی سے لیکن اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں یعنی جیسے ہارون تھے۔
جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔685
معاویہؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کی زوجہ مبارکہ ام حبیبہ ؓکے بھائی تھے)
عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے معاویہ ؓ کے لئے دعا کی کہ یا اﷲ اس کو ہدایت پر اور ہدایت یافتہ کردے اور لوگوں کو اس سے ہدایت کر۔ جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔719
فاطمہؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کی بیٹی اور علیؓ کی زوجہ مبارکہ تھیں)
مسوربن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ سنا میں نے رسول اﷲ ﷺ سے اور وہ منبر پر تھے کہ بنی ہشام بن مغیرہ (ابو جہل )نے مجھ سے اجازت چاہی کہ ہم اپنی
لڑکی کو بیاہ دیں سو میں اجازت نہیں دیتا نہیں دیتا نہیں دیتا مگراگرارادہ ہو علیؓ کا تو میری بیٹی کو طلاق دے دے اور ان کی بیٹی سے نکاح کرلے اس لئے کہ میری بیٹی (فاطمہؓ) میرا ٹکڑا ہے ۔برا لگتا ہے مجھے جو اسے برا لگے اور ایذا (تکلیف) ہوتی ہے مجھ کو جس سے اسے ایذا ہو۔
جامع ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔727
حسنؓ اور حسینؓ کی فضیلت(جو نبیﷺ کے نواسے اور علیؓ اور فاطمہؓ کے بیٹے تھے)
ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ حسن ؓ اور حسینؓ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
ترمذی،جلد۔2،صفحہ۔697
نبیﷺکی کفار و مشرکین سے جنگیں
جب کفار و مشرکین نے نبیﷺ اور انکے صحابہ ؓ کو مدینہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا تو پھر اﷲ نے نبیﷺ کو وحی کے ذریعے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ کفار و مشرکین سے مسلمانوں نے پہلی لڑائی بدر کے مقام پر سن 2ہجری میں لڑئی ۔ اس لڑائی میں مشرکین مکہ کو شکست ہوئی ۔ سن 3ہجری میں جنگ احد ہوئی۔ سن 5ہجری میں خندق کے مقام پر جنگ ہوئی ۔سن 7ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان۔ سن 7ہجری ہی میںغزوہ خیبر ہوئی یہ جنگ یہودیوں سے ہوئی اور یہودیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سن 8ہجری میں مسلمانوں نے نبیﷺ کے ساتھ مل کر مکہ کو بغیر کسی لڑائی کہ فتح کرلیا کیونکہ مشرکین اور کفار جنگیں ہار کہ اپنی ہمت توڑ چکے تھے۔ 9ہجری میں غزوہ تبوک ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی کئی جنگیں مسلمانوں نے مشرکین اور منافقین سے کیں جس میں مشرکین اور منافقین کو نہ صرف عبرت ناک شکستیں ہوئیں بلکہ مکہ ،مدینہ، شام بلکہ تمام جزیرہ عرب مسلمانوں کی زیر اثر آگیا۔ مشرکین مکہ اور کفار نے جب یہ دیکھا کہ اب ہم مسلمانوں کا مقابلہ جنگوں سے نہیں کرسکتے تو پھر انھوں نے سب سے بڑے ہتھیار کا سہارا لیا وہ ہتھیار تھا ـ"منافقت"
منافق کی پہچان؟
شرک کرنے والا چونکہ اﷲ کو بھی مانتا ہے لیکن اس کے ساتھ بے شمار شریک بھی ٹھراتا ہے اسلئے فطری طور کیونکہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو دھوکہ دینے کی عادت بنالیتا ہے اسلئے وہ مومن کو دھوکہ دینے میں کوئی شرم یا گناہ محسوس نہیں کرتا۔ نبیﷺ کے دور میں بھی یہ منافق موجود تھے لیکن اﷲ ہمارے نبیﷺ کو وحی کے ذریعے سے ان منافقوں کی حرکتوں کے بارے میں آگاہ کردیتے تھے۔ لیکن نبیﷺ کے وفات کے بعد یہ منافق زور پکڑگئے اور انہوں نے صحابہؓ کے لئے بڑے مسائل پیدا کئے ۔ ان منافقوں کے بارے میں اﷲ نے قرآن میں فرمایا۔
"اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمھارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔[البقرۃ ۔پارہ1۔آیت نمبر14]
جو منافق ہوگا وہ مشرک بھی ہوگا اور جو مشرک ہوگا وہ منافق بھی ہوگا۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ نبیﷺ کے دور میں جو بھی منافق تھے اﷲ وحی کے ذریعے نبیﷺ کو آگاہ کردیا کرتے تھے۔ اسلئے نبیﷺ نے کبھی کسی منافق کو صحابہ ؓ کا درجہ نہیں دیا اور نہ ہی اس کے فضائل بتائے جبکہ وہ لوگ جو صحابہؓ کو برا کہتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں وہ دراصل اﷲ کی نبیﷺ کی نبوت پر اعتراض کرتے ہیں۔
نبیﷺ کی وفات
12ربیع الاول سن 11ہجری بمطابق 8جون سن 632عیسوی میں آپ ﷺ کی وفات63سال کی عمر میں ہوئی۔ آپﷺ کی وفات کے وقت مشرکین اور منافقین ہر لحاظ سے مسلمانوں سے خوف زدہ تھے ۔لیکن آپﷺ کی وفات کے بعد مشرکین اور منافقین نے صرف منافقت کرنے پر اکتفا کیا کیونکہ اب نبیﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوگیا تھا اور یہ منافق آرام سے مسلمانوں کو دھوکہ دے سکتے تھے۔
خلیفہ اول ابوبکرؓ
جب نبیﷺ کی وفات ہوگئی تو مسلمانوں نے ابوبکر ؓ کو اپنا پہلا خلیفہ منتخب کیا آپ ؓ سن11ہجری سے 13ہجری تک مسلمانوں کے خلیفہ رہے آپؓ نے 2سال 3مہینے اور 10دن تک حکومت کی ۔ آپؓ نے منافقین اور مشرکین کو سر اٹھانے نہ دیا ۔ان دو برسوں میں آپؓ نے بڑی فتوحات حاصل کیں ۔
خلیفہ دوم عمرؓ
عمرؓ اسلام کے خلیفہ دوم تھے ۔آپؓ نے کل ساڑھے دس سال حکومت کی اور 27ذی الحجہ 23ہجری میں شہادت پائی۔ آپؓ کے دور حکومت میں 22511030مربع میل زمین پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کفار اور مشرکین پر کس اچھے انداز سے قابو پایا گیا تھا کہ وہ کسی بھی جنگ کی ہمت نہ رکھتے تھے۔
خلیفہ سوم عثمانؓ
عثمانؓ اسلام کے تیسرے خلیفہ مقرر ہوئے ۔ آپؓ کے دور میں یہودیوں نے "منافقت " کا راستہ بڑے پرعزم طریقے سے اختیار کیا اور "عبداﷲ بن سبامنافق"کو اس کام کے لئے تیار کیا ۔ اس نے مسلمان کا روپ ڈھال کر یہودیوں کے لئے کام کیا اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ جب اس نے دیکھا کہ علیؓ نبیﷺ کے بہت قریبی رشتدار ہیں اگر ان کے نام پر عثمانؓ کے خلاف کام کیا جائے تو بڑا کامیاب ہوگا۔ عرب میں عبداﷲ بن سبا اپنا کام نہ کرسکا کیونکہ یہاں صحابہ ؓ کی کافی بڑی تعداد موجود تھی اسلئے اس نے عراق کے علاقے کا انتخاب کیا کیونکہ یہ علاقہ مسلمانوں نے فتح کرلیا تھا لیکن یہاں پر اب بھی وہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایرانی بادشاہ کی محبت اور مسلمانوں کے خلا ف نفرت تھی۔ وہاں جاکر عبداﷲ بن سبا نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ یہ کیا بات کہ نبیﷺ کے رشتداریعنی علیؓ تو یوں ہی بیٹھے رہیں اور اِدھراُدھر کے لوگ خلیفہ بن جائیں۔ابھی وقت ہے کہ عثمانؓ کو ہٹا کر علیؓ کو خلیفہ بنادو۔لیکن چونکہ بصرہ عراق میں صحابہؓ کی بہت ہی تھوڑی تعداد تھی جو نہ ہونے کے برابر تھی اسلئے کوئی عبداﷲ بن سبا کی باتوں کا جواب نہ دے سکتا اگر وہ ہوتے تو جواب دیتے کہ نبیﷺ اپنے خاندان کو خلافت دلانے نہیں بلکہ دین کو پھیلانے آئے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور لوگ آہستہ آہستہ ا س کی باتوں سے متاثر ہوکر عثمانؓ کے خلاف ہوتے گئے۔ جب بصرہ کے گورنر عبداﷲ بن عامر کو عبدا ﷲ بن سبا کی منافقت کی خبر ملی تو اس کو بصرہ سے نکال دیا اور یہ پھر کوفہ پہنچ گیا۔وہاں سے بھی نکلوادیا گیا پھر یہ شام پہنچا لیکن وہاں معاویہ ؓ گورنر تھے جنھوں نے اس کو وہاں سے بھی نکال دیا۔ عبداﷲ بن سبا کو چونکہ تمام اسلام دشمن لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی اسلئے وہ اس کام کو چلانے کے لئے پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ عبداﷲ بن سبا شام سے نکالے جانے کے بعد مصر پہنچا اور وہاں کام شروع کیا اور ایک اچھی خاصی جماعت بنالی جو عثمانؓ کے خلاف ہوگئے۔
عثمان ؓ بڑے نرم طبیعت کے صحابی تھے۔عثمانؓ کو یہ منافقین عبداﷲ بن سبا کے اشارے پر مختلف علاقوں سے خطوط بھیجتے اور ان علاقوں کے گورنروں اور قاضیوں کی خراب کارکردگی بیان کرتے جو کہ سراسر جھوٹ ہوتی اس طرح آپؓ کو پریشان کرتے اور آپؓ کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے۔ چونکہ عبداﷲ بن سبا منافق اپنے ساتھ دوسرے منافقوں کو بھی شامل کرتے جارہے تھے اور تعداد بڑھاتے جارہے تھے۔ اس طرے عثمان ؓ کے لئے انھوں نے ایک بڑا فتنہ کھڑا کردیا۔
آخر کار عثمان ؓ کو 22دن کے محاصرہ کے بعد 18ذی الحجہ سن 35ہجری کو شہید کردیا ۔آپؓ نے 8سال تک حکومت کی جس میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔
خلیفہ چہارم علیؓ
عثمان ؓ کی شہادت کے بعد صحابہؓ اور دیگر مسلمان بہت پریشان ہوئے۔ شام کے گورنر معاویہؓ نے علیؓ سے مطالبہ کیا کہ وہ باغی اور منافق جنہوں نے عثمانؓ کو شہید کیا ان کو سزا دی جائے جو علیؓ کو خلیفہ منتخب کرنے میں سب سے آگے تھے۔ کیونکہ عبداﷲ بن سبا نے لوگوں کو اسی بات پر جمع کیا تھا کہ علیؓ کا حق خلافت کا زیادہ ہے جبکہ کسی اور کو خلیفہ نہیں ہونا چاہیے۔ علیؓ سے عثمان ؓ کے خون کا قصاص صرف معاویہ ؓ نے نہیں کیا بلکہ ، عائشہؓ، طلحہؓ، زبیرؓ اور دیگر کئی صحابہ نے مختلف علاقوں سے کیا ۔لیکن علیؓ کے لئے مشکل یہ تھی کہ باغی چاروں طرف سے ایسے چھاگئے تھے کہ ان کے خلاف کچھ کرنا تو بڑی بات تھی کچھ کہنا بھی مشکل تھا۔علیؓ چاہتے تھے کہ حالات ذرا ٹھیک ہوں تو پھر ان باغیوں سے نمٹا جائے لیکن معاویہ ؓ ،عائشہؓ ، طلحہؓ اور زبیرؓ اور دیگرصحابہؓ نے یہ دیکھ لیا تھا کہ باغی علیؓ کی بیعت بھی کرچکے ہیں اور علیؓ کی فوج میں بھی شامل ہوچکے ہیں ۔ یہ باغی نہ صرف تمام مسلمانوں کے لئے خطرہ ہیں بلکہ علیؓ کے لئے بھی خطرہ ہیں ۔ یہ باغی صرف مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور یہودی ، مشرکین ، کفار اپنا بدلہ مسلمانوں سے لینا چاہیتے ہیں۔ معاویہ ؓ نے علیؓ کے ہاتھ پر بیعت صرف اسلئے نہیں کی کہ وہ چاہتے تھے کہ باغیوں کواگر سزا دے دی جائے تو آئندہ کسی منافق کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ کسی صحابی ؓ کو شہید کرسکے۔
جنگ جمل اور جنگ صفین
جنگ جمل وہ جنگ تھی جو منافقین اور باغیوں نے بھڑکائی یہ باغی جو علیؓ کی فوج میں موجود تھے انھوں نے عائشہ ؓ اور علیؓ کے درمیان ہونے والی رضامندی کو جنگ میں بدل دیا۔ اس رضامندی کے بعد علیؓ قاتلان عثمان ؓ کو سزا دینے اور عائشہؓ ، طلحہ ؓ اور زبیرؓ اور دیگر صحابہؓ علیؓ کی بیعت کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ لیکن منافقین نے جب یہ اتحاد دیکھا تو آپس میں منصوبہ بنایا کہ دونوں طرف باغی ایک دوسرے پر تیر پھینکیں گے اور علیؓ کی فوج میں شامل باغی شور مچادینگے کہ عائشہؓ کے لوگوں نے تیر پھینکے اور عائشہؓ کی فوج کی طرف تیر پھینکے جائینگے تو جو باغی یہاں سے وہاں گئے وہ شور مچادینگے کہ یہ علیؓ کی فوج نے پھینکے۔ انھوں نے پھراسی طرح کیا اور اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے اور جنگ جمل ہوئی۔
دوسری جنگ جنگ صفین تھی جب علیؓ نے باغیوں کے کہنے پر معاویہؓ کو شام کی گورنری سے ہٹانا چاہا تو معاویہؓ نے انکار کردیا کیونکہ معاویہؓ جانتے تھے کہ علیؓ بے بس ہیں اور وہ ایسا صرف دباؤ میںآکر کررہے ہیں کیونکہ باغیوں نے علی ؓ کی فوج اور اعلٰی عہدوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اگر معاویہ ؓ بھی اپنے عہدہ سے ہٹ گئے تو باغی پورے عرب پر قابض ہوجائینگے اور مسلمانوں کا قتل عام کرینگے اسلئے معاویہ ؓ نے انکار کیا اور کہا کہ اگر آپؓ قاتلان عثمانؓکو سزادینگے تو میں بیعت کرونگا۔ اس طرح علیؓ اور معاویہؓ کے درمیان جنگ صفین ہوئی ۔
علیؓ کی اپنے فوجیوں کے بارے میں رائے
علیؓ کی فوج میں ایک بڑی تعداد باغیوں اور قاتلان عثمانؓ کی تھی اسلئے وہ خود بھی بے بس تھے کہ ان سے کس طرح جان چھڑا سکیں ۔ان فوجیوں اور باغیوں کے بارے میں علیؓ کے الفاظ سنیے جو انہوں نے ـ"نہج البلاغہ "میں لکھیں ہیں۔
ـ "میں روز اول سے تمھاری غداری کے انجام کا انتظار کررہا ہوں اور تمھیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں"(صفحہ 45)
"میں تو تم میں سے کسی کو لکڑی کے پیالہ کا بھی امین بناؤں تو یہ خوف رہے گا کہ وہ کنڈا لے بھاگے"(صفحہ 69)
"اپنے اصحاب کو سرزش کرتے ہوئے(قوم)کب تک میں تمھارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں خد ا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مددگار ہونگے(مدد)۔خدا تمھارے چہروں کو ذلیل کرے۔"(صفحہ 119)
"خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے کہ تم میں سے دس لے کر ایک دیدے۔(صفحہ 189)
اس طرح کے کئی اقوال جو علیؓ سے منسوب ہیں نہج البلاغہ میں بکھرے پڑے ہیں ۔ ان کو پڑھ کر بخوبی اندازا ہوتا ہے کہ علیؓ بھی اپنی فوجوں سے تنگ تھے اور ان کا مکروفریب اور ان کے باغی اور قاتلان عثمان ؓ ہونے کو خوب جانتے تھے لیکن بے بس تھے۔ ان کی اسی بے بسی کی وجہ سے معاویہ ؓ ان کی بیعت نہ کرتے تھے۔
علیؓ کی شہادت
انہی لوگوں نے جو عثمان ؓ کی شہادت میں شریک تھے اور معاویہؓ اور دیگر صحابہؓ جس خطرہ سے ڈر رہے تھے وہی ہوا کہ ان باغیوں نے علیؓ کو بھی شہید کردیا ۔ آپؓ کو 15رمضان 40ہجری کو مسجد میں آپ ؓ کے سر پر باغی منافق نے تلوار ماری اور آپؓ 17رمضان کو شہید ہوگئے۔ عبداﷲ بن سبا کا بنایا ہوا جال علیؓ کو بھی پھنسا گیا اور یوں منافقین نے عثمانؓ کے بعد علیؓ کو بھی شہید کردیا۔ ایسے حالات میں صرف معاویہؓ ہی تھے جو ان منافقین اور مشرکین سے صحیح نمٹ سکتے تھے۔
حسنؓ کی خلافت
علیؓ کی شہادت کے بعد حسن ؓ کو خلیفہ بنایا گیا ۔ حسن ؓ نے 6ماہ کی خلافت کے بعد نبیﷺ کی اس پیشن گوئی کو پورا کیا جس میں آپﷺ نے فرمایاکہ "ابوبکرؓ نے فرمایا کہ سنا میں نے نبیﷺ سے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شائد اﷲ اس کی وجہ سے دو گروہ مسلمان کے درمیان صلح کرادے۔"(بخاری ، جلد3۔صفحہ 889)
معاویہؓ کی خلافت
جب حسن ؓ نے باغیوں کو علیؓ کی شہادت کے بعد مزید بے لگام ہوتے دیکھا تو معاویہؓ سے صلح کرلی اور خلافت معاویہؓ کو دے دی۔حسن ؓ نے خو دبھی اور تمام مسلمانوں نے معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ یوں مسلمان دوبارہ ایک جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ اور مشرکین اور دشمنان اسلام جو منافقت کا لباس پہن کر اپنے آپ کو اہل بیت سے محبت کرنے والا ظاہر کرکے مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے معاویہؓ کی خلافت کے بعد ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ یوں ریبع الاول 41ہجری میں معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔
معاویہؓ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک تو مسلمانوں نے دوبارہ سرحدوں کو مظبوط کیا اور غیر مسلموں کے خلاف جہاد پورجوش جذبہ اور ولولہ سے شروع کیا جو کہ کسی حد تک کم ہوچکا تھا۔ کیونکہ منافقوں نے صحابہؓ کو آپس ہی میں اختلافات میں الجھا دیا۔ معاویہؓ نے 4رجب سن 60 ہجری میں انتقال پایا ۔ آپؓ نے تقریباً 20سال شام کی گورنری کی اور 20سال تقریباً خلافت کی۔ کل 40سال تک آپ ؓ نے حکومت کی۔ اس چالیس سالہ دور میں آپؓ نے منافقین کو اپنی چالیں نہ چلنے دیں۔
یزیدؒ کی خلافت
جس طرح علیؓ کی شہادت کے بعد حسنؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اسی طرح معاویہؓ کے انتقال کے بعد یزید ؒ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ یزیدؒرجب کے مہینے60ہجری سے خلافت پر فائز ہوئے اور جمعرات 14ربیع الاول سن 64ہجری میں انتقال ہوا۔ یزیدؒ تین سال چھ مہینہ خلیفہ رہے۔ یزیدؒ نے بھی اپنے والد معاویہؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے منافقین اور مشرکین کا تعاقب کیا اور مسلمانوں کو متحد رکھا۔یزیدؒ کے ہاتھ پر کئی صحابہ ؓ نے بیعت کی اور مسلمان ایک جھنڈے تلے متحدہوکر یہودی، مشرکین اور منافقین کا تعاقب کررہے تھے لیکن عبداﷲ بن سبا کی پھیلائی ہوئی منافقت نے جس طرح عثمان ؓ اور پھر علیؓ کی جان لی اور ان کو شہید کیا پھر وہ حسن ؓ کو بھی شہید کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کو تتر بتر کیا جاسکے لیکن حسن ؓ نے ان کی چالوں کو جانچ لیا اور فوراً خلافت معاویہؓ کو سونپ دی اور خود بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی کیونکہ حسن ؓ جانتے تھے کہ معاویہؓ ہی ان باغیوں اور منافقوں کو مسلمانوں کی جانیں لینے اور آپس کے اختلافات سے روک سکتے ہیں۔ اب ان منافقوں نے حسین ؓ کو اپنے جال میں پھنسانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ سب کچھ منافقین صرف اس لئے کر رہے تھے کہ وہ جانتے تھے کہ صرف یہی ایک راستہ ہے جس سے مسلمانوں کو جہاد سے روکا جاسکتا ہے ۔ حسین ؓ کو شہید کرنے کے بعد وہ یزید ؒ کا بھی سفایا کرنا چاہتے تھے اور پھر ساری حکومت پر یہودیوں کا قبضہ چاہتے تھے۔ آج بھی حسینؓ کی شہادت کو ایک ایسا افسانوی رنگ دیا گیا ہے جس کی حقیقت کچھ اور ہے اور افسانہ کچھ اور۔ واقعہ کربلا یہاں ایک کتاب "صحیفہ کربلا "سے پیش کیا جائیگا جو کہ علی نظر منفرد کی لکھی ہوئی ہے اور اس کا ترجمہ نثار احمد زین پوری نے کیا ہے اس کتاب کو ادارہ تعلیم و تربیت لاہور نے چھاپا ہے اور یہ کتاب کسی بھی شیعہ کتاب گھر سے بآسانی دستیاب ہے۔
حسنؓ اور حسینؓ کی معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت
معاویہؓ نے حسینؓ کو خط لکھا کہ مجھے آپؓ کی فعالیت کی خبریں پہنچی ہیں کیونکہ میں ایسی باتوں سے آپؓ کو بری سمجھتا ہوں جو عہد آپؓ نے خدا سے کیا ہے اس کو پورا کریں۔(یعنی بیعت جو معاویہؓ سے کی ہے)حسینؓ نے جواب میں لکھا میری طرف جن باتوں کی نسبت دی گئی ہے میں ان سے بری ہوں۔۔( صحیفہ کربلا۔54)
معاویہؓ 41ہجری سے 60ہجری تک خلافت کرتے رہے لیکن کسی عبداﷲ بن سبا کی طرح کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرتا یا معاویہؓ کی خلافت پر اعتراض کرتا۔ منافقین نے جب دیکھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ صحابہؓ کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے تو ان کی نظر اب نواسہ رسولﷺ کی طرف لگی کہ اگر ان کو شہید کردیا جائے تو پھر یزیدؒ کی حکومت مزید کمزور ہوجائیگی اور منافقین حکومت پر کنٹرول کرنے کے اور قریب ہوجائینگے۔
معاویہ ؓ کے بعد جب یزیدؒ نے خلافت سنبھالی تو ان کے ہاتھ پر بھی لوگوں نے متفقہ طور پر بیعت کرلی اور منافقین جو کہ کوفہ میں پھیلے ہوئے تھے ایک مرتبہ پھر متحرک ہوئے اور اس بار انھوں نے عثمانؓ اور علیؓ کے بعد حسین ؓ کو چنا اپنی سازشوں کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے۔
معاویہؓ کے انتقال کے بعد حسینؓ نے فرمایا کہ میں اپنے اندر یزید کی بیعت ٹھکرانے کی جراء ت رکھتا ہوں۔ (صحیفہ کربلا۔71)
اور اس فیصلے کے بعد منافقین نے اپنی سازش کا آغاز کیا۔ یہ منافقین کوفہ میں ایک بڑی تعداد میں موجود تھے
معاویہؓ اور حسینؓ پر بھتان
حسینؓ نے فرمایا میں نے خود نبیﷺ سے سنا کہ ابوسفیان کے بیٹوں ،پوتوں اور ان کے غلاموں پر خلافت حرام ہے نیز فرمایا اگر معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو بے دھڑک اس کا پیٹ چاک کردو ، خدا کی قسم مدینہ والوں نے اسے میرے رسولﷺ کے منبر پر دیکھا لیکن جس کا حکم دیا گیا تھا انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ (صحیفہ کربلا۔74)
پہلی بات تو یہ کوئی حدیث نہیں دوسری بات اگر معاویہؓ پر خلافت حرام ہے تو پھر حسن ؓ نے ان کو خلافت کیوں دی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کیوں کی اور حسینؓ نے خود کیوں اس کی بیعت کی ۔دوسری بات یہ کہ مدینہ والے کون تھے یہا ں تو صحابہؓ کی ایک کثیر تعداد تھی کیا ان سب نے نبیﷺ کی حدیث سنی اور پھر اس پر عمل نہ کرسکے اور خود حسن ؓاور حسینؓ نے یہ کام کیوں نہ کیا۔
حسینؓ کا کربلا جانے کی بنیاد خواب تھی
حسینؓ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ اس خواب پر کیا جو انھوں نے دیکھا جس میں نبی ﷺ نے حسینؓ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا !میرے باپ تم پر قربان جائیں میں تمھیں ان لوگوں کے بیچ اپنے خون میں آغشتہ دیکھ رہا ہوں۔خدا نے جنت میں جو مقام تمھارے لئے معین کیا ہے وہ شہادت کے بغیر نہ مل سکے گا۔ (صحیفہ کربلا۔75)
حسین ؓ کی کربلا جانے کی وجہ یہ خواب اور اس جیسے اور خواب ہیں جو اس کتاب میں لکھے ہیں۔ حالانکہ اﷲ قرآن میں فرماتا ہے کہ "آج میں نے تمھارے لئے دین کو مکمل کردیا۔(سورۃ المائدہ، پارہ ۔6آیت۔3)"اسلئے دین مکمل ہوچکا ہے اور نبیﷺ کسی کے خواب میں آکر کوئی حکم نہیں دیتے بلکہ قرآن اور حدیث میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ یہ وہ من گھڑت باتیں ہیں جو منافقین کے بھیجے ہوئے سازشی خطوط سے توجہ ہٹانے کے لئے بنائی گئی ہیں تاکہ لوگ ان کوفیوں کی بے وفائیوں اور ان کے قاتل ہونے کو نظر انداز کردیں۔
حسینؓ کربلا نہ جانے کا مشورہ
جب حسین ؓ مکہ سے مدینہ جانے لگے تو محمد بن حنفیہ نے ان کو روکا اور پیشکش کی اگر آپ یزید کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تو ادھر ادھر شہروں میں جاتے رہیں اور ان کی بیعت نہ کریں۔ اگر آپؓ سمجھیں کہ لوگ آپؓ کی بیعت کرنا چاہیں تو پھر آپؓ بیعت لے لیں اگر کچھ آپؓ کی بیعت کریں اور کچھ نہ توپھر فتنہ کے شعلے بھڑک اٹھینگے۔ حسینؓ نے کہا بھائی تم ہی بتاؤ ! میں کہاں جاؤں؟(صحیفہ کربلا۔78)
محمد بن حنفیہ حسین ؓ کے بھائی تھے وہ بھی حسین ؓ کو سمجھار ہے ہیں کہ آپ ؓ مکہ نہ جائیں کیونکہ مکہ جانے کے بعد وہ عراق جانے کا ارادہ کررہے تھے۔
حسینؓ نے جواب میں کہا اگر پوری دنیا بھی مجھے کہیں پناہ نہیں لینے دے گی تو تب بھی یزید بن معاویہؓ کی بیعت نہ کرونگا۔محمد بن حنفیہ یہ سن کر رونے لگے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائی حسینؓ نے اس راستہ کا انتخاب جان بوجھ کر کیاہے۔(صحیفہ کربلا۔78)
حسینؓ کی کربلا روانگی
مکہ پہنچنے کے بعد حسینؓ خانہ خد ا کی حرمت کے تحفظ کی خاطر طواف اور سعی کے بعد حج کو عمرہ سے بدلا اور مکہ مکرمہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ (صحیفہ کربلا ۔84)
حج کے دوران ایک کثیر تعداد مسلمانوں کی موجود ہوتی ہے اور اس وقت صحابہؓ بھی ایک بڑی تعداد میں تھے اگر حسینؓ ان بھیجے گئے خطوط کا ان سے ذکر کرتے توایک بڑی تعداد ان کے ساتھ کوفہ جاتی لیکن ایسا نہ ہوا۔
حسینؓ کا اہل بصرہ کے نام خطوط
مکہ سے حسینؓ نے اہل بصرہ کے نام ایک ہی مضمون کے خطوط لکھے ۔ جس میں لکھا باوجودیکہ ہم خلافت کے سب سے زیادہ لائق تھے لوگوں نے ہمارے اس حق کو چھین لیا چونکہ ہمیں اختلاف پسند نہیں ہے اور امت اسلامیہ کی بھلائی کی خاطر اس زمانے میں ہم خاموش رہے ۔ میں اس خط کے ساتھ اپنا نمائندہ بھیج رہا ہوں میں تمھیں کتاب خدا اور سنت رسولﷺ پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہوں اگر تم نے میری بات مان لی تو میں تمھیں صحیح راستہ پر لے جاؤنگا۔ (صحیفہ کربلا ۔89)
اس کتاب کے مطابق حسینؓ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے تو پھر حسن ؓ نے یہ حق کیوں چھوڑا۔ اگر اتنے عرصے سے یہ امت کی بھلائی کی خاطر خاموش تھے تو اب مزید بھی خاموش رہنا چاہیے تھا۔ اور بیعت لینا اگر شروع کرتے تو پہلے مدینہ سے اور پھر مکہ میں حج پورا کرنے کے بعدوہاں بیعت کا سلسلہ شروع کرتے ۔کیونکہ وہاں ان کا پورا خاندان تھا اور صحابہؓ کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ لیکن حسین ؓ نے بصرہ اور کوفہ کا انتخاب کیا جہاں منافقین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔جو صرف اور صرف حسینؓ کو شہید کرکے پھر یزید ؒ کی حکومت کو الٹنے کے بعد پورے عرب پر یہودیوں اور مشرکین کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔
حسینؓ کے خطوط کا جواب
حسینؓ کے خط کے جواب میں یزید بن مسعود نے لکھا کہ خدا کی قسم دین کے تحفظ کے لئے یزیدؒسے جہاد کرنا مشرکین سے جہاد کرنے سے افضل ہے۔ خلافت کا حق صرف انہی کا ہے (صحیفہ کربلا۔91)
میں آپؓ کی مدد کرنے میں اپنی کامیابی دیکھ رہا ہوں (صحیفہ کربلا۔92)
یزیدؒ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور حسینؓ کو مزید ابھارا کہ و ہ عراق آئیں ۔ یہی وہ منافقین تھے جو حسینؓ کو کربلا بلوا کر ان کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے اور کامیاب بھی ہوئے۔ ان لوگوں کو خطوط یزیدؒ سے چھپ کر لکھے گئے تھے یہ لوگ نہ یزیدؒ کے وفادار تھے اور نہ ہی حسینؓ کے خیرخواہ ۔ یہ اگر موقع ملتا تو یزیدؒ کو بھی قتل کردیتے اور حسینؓ کو تو کیا ہی۔بہرحال سب نے حسینؓ کو خطوط لکھے اور اپنی وفاداری اور بیعت کا یقین دلایا۔
حسینؓ کو بھیجے گئے خطوط کا مضمون
حسینؓ کو بھیجے گئے خطوط میں لکھا تھا یہ خط باایمان شیعوں کی طرف سے حسین ؓ کے نام
اما بعد! عراق کی سمت روانگی میں جلدی کیجئے کہ لوگ انتظار کررہے ہیں۔ کیونکہ آپؓ کے سوا ان کا کوئی رہبر نہیں ہے ، جلد ی کیجئے، جلدی کیجئے۔ بھیجے گئے خطوط کا چند بنیادی نکات میں یہ خلاصہ ہے۔
۱۔ معاویہ ؓ کی موت پر مسرت کا اظہار
۲۔ یزید میں حکومت و خلافت کی صلاحیت نہیں ہے
۳۔ حسین ؓ کو کوفہ آنے کی دعوت
۴۔ اہل کوفہ کا راہ امام میں فدا کاری و جانبازی کا عہد۔
(صحیفہ کربلا۔97)
ان خطوط کو دیکھ لیں تو واضح ہوگا کہ یہ خطوط انہی منافقین نے لکھے جو حسینؓ کو کوفہ بلا کر شہید کرنا چاہتے تھے آپؓ کو دھوکہ دیا اور اس بات پر ابھارا کہ آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرینگے۔ ساتھ ہی میں ان منافقین نے معاویہؓ کے خلاف اپنا بغض بھی ظاہر کیا یہ لوگ نہ صرف معاویہؓ بلکہ علیؓ اور تمام صحابہؓ کے بھی دشمن تھے کیونکہ یہ منافق تھے ۔
اہل کوفہ کے خطوط کی تعداد
حسینؓ کے پاس اہل کوفہ کے خطوط کی تعداد 12000سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔(صحیفہ کربلا۔97)
ان تمام خطوط کے جواب میں حسین ؓ نے صرف ایک خط پر اکتفا کیا۔ آپؓ نے اس خط میں لکھا کہ میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو جو کہ میر ے معتمد ہیں تمھارے پاس بھیج رہا ہوں اگر انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ اہل فضل و عقل تمھارے خطوط اور تمھارے قاصدوں کے پیغام کی تائید کرتے ہیں تو میں عنقریب تمھارے پاس پہنچ رہا ہوں۔(صحیفہ کربلا۔98)
حسینؓ کے اس خط سے اندازا لگائیے کہ وہ ان خطوط بھیجنے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ ہی عثمانؓ اور علیؓ کے قاتل ہیں اور اب بھی قابل بھروسہ نہیں ہیں اسی لئے ان کی تصدیق کے لئے مسلم بن عقیل کو بھیجا گیااور جن اہل فضل و عقل والوں کے پاس بھیجا ان کا حال بھی آگے آئیگا۔اور یہاں یہ بھی کہا کہ اگر بات صحیح ہوئی تو وہ آئینگے ورنہ نہیں حالانکہ حسینؓ کی یہ بات سراسر اس خواب کے مخالف ہے جس کی بنا پر آپ ؓ نے عمران بن حنفیہ سے کہا تھا کہ مجھے حکم ہوا ہے جانے کا۔
مسلم بن عقیل کا سفر
مسلم بن عقیل مکہ سے مدینہ آئے اور پھر قبیلہ قیس کے دو آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوگئے ۔مسلم بن عقیل نے سفر میں حسین ؓ کے نام خط لکھا اور کہا میں جو کہ بطن الخبیت جو کہ پانی کے کنارے واقع ہے قیام پذیر ہوں چونکہ اس سفر میں بدشگونی کے آثار نظر آتے ہیں لہٰذا مجھ کو اس سے معاف رکھا جائے اور کسی اور آدمی کو کوفہ روانہ کیا جائے۔ (صحیفہ کربلا۔99)
یہ نبیﷺ کے تربیت یافتہ لوگ اور ان کے ایسے کمزور عقائد کے وہ پانی اور کسی جگہ سے بد شگونی لیں ایسا ہرگز ناممکن ہے یہ بھی ان کی شان کے خلاف ہے۔یہ تاریخ کا تحفہ ہے جو کہ مسلم بن عقیل جیسے دلیر شخص کی یہ تصویر کشی کررہا ہے۔
حسینؓ نے مسلم کو جواب لکھا : اما بعد ! ڈرتا ہوں کہ اس خط کو لکھنے کا محرک کہیں خوف نہ ہو ، جس منزل کی طرف تمھیں بھیجا گیا ہے اس کی طرف روانہ ہوجاؤ۔ (صحیفہ کربلا۔99)
مسلم بن عقیل کی کوفہ آمداور کوفیوں کی بیعت
مسلم بن عقیل نصف رمضان کو مکہ سے روانہ ہوئے اور شوال میں کوفہ پہنچے۔ اور وہاں مختار بن عبید ثقفی کے گھر قیام پذیر ہوئے۔ (صحیفہ کربلا ۔ 100)
مختار کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر کے بہنوئی تھے۔ اسلئے مسلم نے ان کے گھر قیام کیا ۔جب کوفیوں کو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل مختار کے گھر ہیں تو سب وہاں جمع ہوگئے ۔مسلم بن عقیل نے ان سب کے سامنے حسینؓ کا خط پڑھا یہ عظیم جماعت حسینؓ کے پیغام سے بہت متاثر ہوئی 18000افراد نے مسلم کے ہاتھ پر بیعت کی، بعض نے یہ تعداد 40000بیان کی (صحیفہ کربلا ۔100)
اس عظیم جماعت جو کہ منافقین پر مشتعمل تھی اس کا حال آگے آئیگا۔ کہ کس طرح یہ پانی کے بلبلے کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ اور مسلم کو شہید کردیتے ہیں اور حسینؓ کو بلوانے کی تیاری کرتے ہیں۔
حاکم کوفہ کا خطبہ
حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کو جب مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اہل کوفہ کو مخاطب کرکے کہا کہ خدا کے بندو ! خدا سے ڈرو! تفرقہ اندازی اور فتنہ پروری سے بچو کیونکہ اس سے لوگوں کا کشت وخون ہوتا ہے اور ان کے اموال برباد و غارت ہوتے ہیں۔ (صحیفہ کربلا۔103)
جب مسلم بن عقیل ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہوگئے اور بیعت کرنے والوں کی تعداد 25000ہوگئی توآپ نے خروج اور انقلاب کا ارادہ کیا لیکن ہانی نے منع کیا ۔ اور کہا اس کام میں جلد ی نہ کرو۔ (صحیفہ کربلا۔ 111)
خروج کا مطلب کہ یزید کی بیعت سے نکل جانااور یزیدؒ کے خلاف لڑنا تاکہ اس کو خلافت سے ہٹا دیا جائے۔
مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کی بیوفائی
رات ہونے سے پہلے ہی سارا مجمع جو مسلم کے ہاتھ پر بیعت کئے ہوئے تھا پراگندہ ہوگیا اور مسلم بن عقیل تنہا رہ گئے۔ احنف بن قیس نے اہل کوفہ کے بارے میں کہا ہے ، کوفہ والو! تمھاری مثال اس عورت کی سی ہے جسے روز نیا شوہر چاہیے۔ (صحیفہ کربلا۔124)
یہ ویسا ہی الزام ہے جو علیؓ اپنی فوج کے لوگوں پر لگاتے تھے۔ اور یقینا کوفہ والوں کا کام ہی منافقت تھا۔ اسی لئے وہ پہلے حسینؓ کو شہید اور پھر یزید ؒ کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے تھے
رات ہوگئی تو مسلم کے ساتھ کوئی نہ تھا اور گلی کوچوں میں پھر رہے تھے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کس کے در پہ دستک دیں۔(صحیفہ کربلا۔125)
مسلم جاتے جاتے طوعہ کے گھر پہنچے اور اس سے کہا کہ میں مسلم ہوں اہل کوفہ نے مجھ سے دغا بازی اور بے وفائی کی۔ (صحیفہ کربلا۔ 148)
سوچنے کی بات ہے کہ اگر یہ کوفہ والے بیعت کرکے پھر سکتے ہیں تو یہ لوگ مسلم کو قتل کرنے سے کہاں رک سکتے ہیں۔ اسلئے یزیدؒ پر یا کسی اور پر اس کا الزام دھرنا بھی انھی کوفیوں اور منافقوں کا کام ہے اصل میں انہی نے پہلے بیعت ختم کی اور پھر خود ہی مسلم بن عقیل کو شہید کردیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب ان کا اعتماد ختم ہوچکا ہے۔
مسلم ناامید ہوگئے تو ان کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے ۔ عبداﷲ بن عباس نے کہا جو شخص اتنا بڑا کام انجام دیتا ہے اس کو رونا نہیں چاہیے مسلم نے جواب دیا میں حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں پر رورہا ہوں کہ وہ تمھارے خطوط پر اعتماد کرکے کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
(صحیفہ کربلا۔ 145)
اس سے واضح ہوا کہ اگر حسین ؓ کو کوفہ کے منافقین سرداروں اور عوام کے بارے میں خبر ہوجاتی تو وہ کبھی کربلا نہ آتے اور نہ ہی شہید ہوتے۔ لیکن افسوس کہ مسلم بن عقیل کے ساتھ جو بے وفائی ہوئی اسکا علم حسینؓ کو مکہ سے نکلنے سے پہلے نہ ہوسکا اور وہ لا علمی میں کوفہ کی طرف چل پڑے۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ نبیﷺ حسینؓ کے خواب میں آکر یہ تو بتارہے ہیں کہ حسینؓ تمھیں کربلا کی طرف جانا ہے اور اپنا سفر جاری رکھنا ہے لیکن یہ نہ بتایا کہ مسلم بن عقیل کو قتل کردیا یا کوفہ والے لوگ جو خطوط بھیج رہے ہیں وہ جھوٹ ہے ۔ اصل میں خوابوں کی یہ کہانیاں صرف اور صرف تاریخ دانوں کاکمال ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ نہ ہی اس کا شریعت سے کوئی تعلق ہے۔
مسلم بن عقیل کی وصیت او ر شہادت
مسلم نے کہا کیا تم میری طرف سے حسینؓ تک یہ پیغام پہنچاسکتے ہو کہ میرے ماں باپ آپؓ پر قربان آپؓ واپس لوٹ جائیں ، اپنے اہل بیت کو بھی اپنے ہمراہ لے جائیں تاکہ اہل کوفہ کے فریب سے بچے رہیں ، ان لوگوں نے آپؓ کے والد کے مددگاروں کو قتل کردیا۔
(صحیفہ کربلا۔ 136)
یہ بات ثابت ہوگئی کہ کوفہ والوں نے بیعت کرنے کے بعد مسلم کو قتل کیا اور یہی لوگ عثمان ؓ اور علیؓ کے قاتل بھی تھے اور حسینؓ کے لئے میٹھا زہر منافقت کا تیار کررہے تھے۔ پہلے خطوط بھیج کر اور پھر ان کو شہید کرکے الزام یزیدؒ کے سر لگا دیا۔
مسلم بن عقیل تسبیح و استغفار میں مشغول ہوگئے اور فرمایا خدایا: ہمارے اور اس جماعت کے درمیان فیصلہ فرما جس نے ہم سے جھوٹ بولا ہمیں فریب دیا اور ہمیں تنہا چھوڑ دیا اور ہمیں قتل کیاہے ۔ (صحیفہ کربلا۔140)
یہاں مسلم بن عقیل نے ایک مرتبہ پھر دھرایا کہ یہی بیعت کرنے والے ہی ان کے قاتل ہیں ۔
مسلم بن عقیل کو 8ذی الحجہ 60ہجری میں شہید کیا گیا۔ (صحیفہ کربلا۔141)
یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ حسینؓ کو مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر نہ مل سکی اور وہ ایک غلط فہمی کی بنیاد پر کربلا کی طرف نکلے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ کربلا میں ان کے لئے بیعت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔
حسینؓ کی مکہ سے روانگی کی وجوہات
حسینؓ نے مکہ سے روانگی کے وقت یہ خطبہ دیا کہ میری قتل گاہ اور مدفن پہلے منتخب ہوچکا ہے مجھے وہاں پہنچنا ہے ۔ہم اس کے امتحان اور آزمائش پر صبر کرتے ہیں ۔جو ہماری راہ میں قربان ہونا چاہتا ہے اورخود کو خدا سے ملاقات کیلئے آمادہ پاتا ہے وہ ہمارے ساتھ آئے ۔ ان شاء اﷲ میں کل روانہ ہوجاؤنگا۔(صحیفہ کربلا۔145)
یہاں حسینؓ اپنے شہید ہونے کی پیشن گوئی کو پورا کرنے کے لئے مکہ چھوڑ کر جارہے ہیں اور باقی لوگوں کو بھی اپنے ساتھ قربان ہونے کے لئے آمادہ کررہے ہیں۔ اس سفر کا مقصد اور وہاں جانا حسینؓ نے واضح کردیا کہ اس پیشن گوئی کو پورا کرنا ہے جو کہ ان کو خواب میں نبیﷺ نے دی۔یہ دو باتیں متضاد ہیں کہ ایک طرف حسینؓ مسلم بن عقیل کو کوفہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیج رہے ہیں اور اپنے وہاں جانے کے لئے ان کے گرین سگنل سے مشروط کیا اور دوسری طرف یہ کہ کر مکہ میں روکنے والوں کو جواب دیتے ہیں کہ مجھے چونکہ نبیﷺ نے خواب میں بتایا کہ کربلا میں شہید ہونا ہے اسلئے جارہا ہوں ۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ نے یہ افسانہ گڑھا تاکہ کوفہ کے منافقین کو قاتلین عثمان ؓ کے الزام سے بچ سکیں۔
حسینؓ کے کوفہ ہجرت کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ کوفہ والوں نے آپؓ کو وہاں آنے کی دعوت دی تھی واضح رہے کہ معاویہؓ کے زمانہ میں بھی انہوں نے اس سلسلے میںآپکو بہت سے خطوط لکھے تھے۔اور اگر حسین ؓ کوفہ کے علاوہ کہیں اور تشریف لے جاتے تو یہ سوال پیدا ہوتا کہ حسینؓ نے ان لوگوں کے دعوت ناموں کو نظر انداز کرکے دوسری جگہ کو انتخاب کیا کہ نتیجہ میں شہید ہوجائیں۔ (صحیفہ کربلا۔ 147)
ان کوفیوں کی تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے ہر اسلامی حکومت کوکمزور کیا ہے اور معاویہؓ کے زمانے میں بھی حسینؓ کو کوفہ بلانے کیلئے خطوط لکھے لیکن ان کی چالیں ناکام رہیں اور پھر آخر معاویہؓ کے انتقال کے بعد ان کی سازشیں تیز ہوگئیں اور حسینؓ کو کوفہ بلانے میں کامیاب ہوگئے۔