محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
کرسمس اور ہم مسلمان .... اعتدال کی راہ -
تحریر عمر فاروق قدوسی
کرسمس مسیحیوں کا تہوار ہے. اگرچہ معروف یہ ہے لیکن ایسٹر ان کے ہاں زیادہ اہم ہے. دور جدید مسلمانوں کی مغلوبیت کا دور ہے. میڈیا کے غلبے کا دور ہے. اس کے زیر اثر مسلمان بهی دیکها دیکهی غیر مسلموں کی تہذیب و ثقافت اپنا رہے ہیں. اس کو آپ دور جدید کا چیلنج سمجه لیجئے جو آج اسلام کو درپیش ہے. اب وہ لوگ جو صورت حال کی سنگینی کا ادراک رکهتے ہیں، وہ اسلام کے دفاع اور مبادیات اسلام کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو انهیں بعض جاہل مسلمان ہی آڑے ہاتهوں لینا شروع کر دیتے ہیں. یہ وہ طبقہ ہے جس کا کوئی سر پیر نہی. جسے آپ بے پیندے کا لوٹا بهی کہہ سکتے ہیں اور جدید اصطلاح میں لبرل کہہ لیں یا روشن خیال جبکہ درحقیقت یہی لوگے ظاہر کے بهی کالے اور باطن کے بهی سیاہ ہیں.
آج جاہل لوگ پسند ہی نہی کرتے کہ ان تک دین کی کوئی بات پہنچے یا ان تک دین کی کوئی بات پہنچتی بهی ہے تو وہ اسے اپنے لیے بوجهه سمجهتے ہیں. یہ پڑهے لکهے جاہل غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں نہ صرف شرکت کرتے ہیں بلکہ خود بهی مناتے ہیں. ہمارے حکمران بهی کسی سے پیچهے نہی رہتے اور عوام بهی ان کے نقش قدم پر چلنا فرض سمجهتے ہیں مثلا ہمارے ہاں کی معروف بیکریاں کرسمس کی مناسبت سے کرسمس کیک بناتی ہیں اور مقابلے بازی کی فضا میں سستے کیک آفر کرتی ہیں. اسی طرح بعض گارمنٹس کرسمس کی مناسبت سے فروخت ہوتی ہیں. اور لوگ بهی اپنی پراڈکٹس کاروباری منفعت کے پیش نظر سستی کر دیتے ہیں. یہ ایک دن کی فروخت سے کیا فائدہ حاصل کر لیں گے؟ چند لاکه یا چند کروڑ....لیکن یہ کمائی اللہ کے ہاں نعوذ باللہ بیٹے کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے انهیں ہوئی اور ایسی کمائی جو اس وجہ سے حاصل کی جائے، وہ دنیا کی کمائی نہی، جہنم کے انگارے ہیں.
آپ غیر مسلموں کی مذہبی تقریبات کا حصہ بن کر دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کا دین اسلام کی جامعیت و اکملیت پر ایمان نہی. آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنے لیے کافی نہی سمجهتے. یا پهر آپ اسلام کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہیں.
اسلامی نقطہ نظر سے دیکها جائے تو کرسمس کا تہوار اپنے اندر شدید قسم کی سنگینی کو سموئے ہوئے ہے. سورہ مریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
آسمان ٹوٹ پڑے، زمین پهٹ جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں تمہاری اس بات پر جو تم کہتے ہو کہ اللہ تعالی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے.
اور ہم ہیں کہ بے خوفی سے جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسیحیوں کے اس عقیدے کی نشر و اشاعت کا حصہ بن رہے ہیں. جبکہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ
اے ابن آدم تو مجهے گالی دیتا ہے جب تو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے بیٹا جنم دیا ہے.
صحیح بخاری میں یہ حدیث مبارکہ درج ہے. یہ کوئی معمولی بات نہی. وہ لوگ ذرا غور تو کریں جو مسلمان ہیں لیکن اپنے معمولی دنیاوی لالچ یا سیاسی فائدے کے لیے اس مکروہ اور ناپاک عمل کا حصہ بنتے ہیں کہ جو اللہ تعالی کو گالی دینے میں شمار ہوتا ہے. دین کی ہر بات کو مولوی کا نام لے کے مسترد کرنے کی بجائے صاف کہہ دیں کہ ہم اللہ رسول کی بات کا انکار کرتے ہیں.
مجهے مسیحی کمیونٹی کے ساته کافی کام کرنے کا موقع ملا ہے. مسلم کرسچن فیڈریشن انٹرنیشنل سے میرا تعلق ہے اور رہے گا. بین الاقوامی سطح پر امن رواداری باہمی احترام کے خوبصورت اور عظیم مقصد کے لیے کئی ایک مشترکہ پروگراموں میں شرکت کی ہے اور میں پسند کروں گا اگر مجهے آئندہ بهی ایسا کوئی موقع ملا لیکن میں سمجهتا ہوں کہ ہمیں اپنے عقیدے پر کوئی سمجهوتہ نہی کرنا چاهئے نہ مرعوبیت کا شکار ہونا چاهئے.
میں تو وہ ہوں کہ لاہور میں ساندہ میں مسیحیوں کی بستی میں مشتعل مگر جاهل مسلمان حملہ آور ہوئے. بے گناہ مسیحیوں کے ساته سخت زیادتی کی گئی اور بدقسمتی سے مذهب کے نام پر مسلمانوں کی طرف سے کی گئی. جب چرچ پر حملہ کرنے لگے تو میں بهی وہاں تها. میں اس مشتعل ہجوم کے سامنے کهڑا ہوگیا کہ یہ ان کی عبادت گاه ہے. اس کو کوئی نقصان نہی پہنچانا. ایک مسیحی گهر پر حملہ آور مسلمانوں کو یہ کہہ کر دور کیا کہ یہ مسیحی نہی بلکہ مسلمان کا گهر ہے. مجهےآج بهی اپنی اس جرات پر حیرت بهی ہوتی ہے کہ اس جاهلانہ معاشرے میں بپهرے ہوئے ہجوم میں اس طرح کی دلیری میرے اندر کہاں سے آگئی تهی. اور مجهے اس پر فخر ہے کہ میری وجہ سے چرچ پر حملہ کرنے والے باز آ گئے اور مسیحیوں کا گهر شر پسندوں سے محفوظ رہا.
لیکن اپنے اس پس منظر کے باوجود میں سمجهتا ہوں کہ راه اعتدال یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے عقیدے کی حفاظت کریں اور یہ اسی وقت ہوگی جب ہم غیرمسلموں کی مذہبی آزادی کے حق کو تسلیم کرنے کے ساته ساته ان کے مذہبی شعائر کے اپنانے سے اجتناب کریں گے.