مذکورہ بالا حوالہ سے یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ 25دسمبر مسیؑح کی یوم ولادت نہیں اور قاموس الکتاب کے حوالہ سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جشن زحل جورومیوں کا تہوار جو عیاشیوں کی نظر ہو چکا تھا کو ایک مقدس تہوار سے بدل دیا گیا، تاکہ لوگوں کا رجحان مذہب کی طرف ہو جائے، مگر کسے معلوم تھا کہ یہ مقدس تہوار جشن زحل سے بھی خطرناک صورت اختیارکر جائے گا۔
بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس تہوار کا آغاز 336عیسوی میں روم سے ہوا۔ ان دنوں کلیسا اور بادشاہوں کا آپس میں گٹھ جوڑ تھا۔ بادشاہوں کو غیراخلاقی، غیر شرعی احکام کی تصدیق کے لیے چرچ کی مدد درکار ہوتی تھی اور پادری بھی بادشاہ کے ایما پر ایسے احکامات جاری کر دیا کرتے۔ بہرحال کرسمس کے تہوار کو پادریوں نے دربار تک پہنچا ہی دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت اتنی بڑھی کہ دو تین برسوں ہی میں یہ تہوار سرکاری سرپرستی میں منایا جانے لگا۔ روم کے بعد جرمنی دوسرا علاقہ تھا جس میں کرسمس منائی جانے لگی۔ وہاں بھی اس تقریب کو سرکاری تقریب کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس زمانے میں جرمنی کسی خاص ملک یا سلطنت کا نام نہیں تھا۔ یہ رومی سلطنت کا ایک مفتوحہ علاقہ تھا، جس میں چھوٹے چھوٹے سرداروں کی حکومتیں تھیں۔ یہ سردار ابتدا میں کرسمس کا تہوار منانے روم جاتے تھے۔ واپس آکر جب اپنے درباریوں کو واقعات سناتے تو وہ حیرت کا اظہار کرتے۔ بعدازاں جرمنی نے مقامی سطح پر کرسمس کا اہتمام کیا۔ اس دن کے بعد تمام جرمن قبائل اپنے اپنے قبیلے میں کرسمس منانے لگے۔ یوں روم کے بعد اس خطے میں بھی کرسمس منائی جانے لگی، جسے آج کی دنیا جرمنی کا نام دیتی ہے۔
حضرت عیسیٰؑ کی مروجہ تاریخ پیدائش نہ تو انجیل سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی اور مستند ذریعہ سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تین صدیوں تک میلاد مسیؑح منانا مشرکانہ اور بت پرستانہ فعل سمجھا جاتا تھا۔ بعدازاں مختلف چرچوں کی طرف سے اس خودساختہ رسم کی روک تھام کے لئے متعدد احکامات بھی جاری کئے گئے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے Collier,s انسائیکلوپیڈیا)
کرسمس کے دوران ’’کرسمس ٹری‘‘ کا تصور بھی جرمنوں ہی کا پیدا کردہ ہے۔ یہ لوگ کرسمس کے دن حضرت مریمؑ ،حضرت عیسیٰؑ اور جبرائیلؑ کا کردار مختلف اداکاروں کے ذریعے ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے اور تمام واقعہ دہراتے، جو مریمؑ کے ساتھ مسیؑح کی ولادت کے ضمن میں پیش آیا۔ اور اس واقعے کے دوران درخت کو مریم ؑ کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتا۔ وہ اپنی ساری اُداسی اور ساری تنہائی اس ایک درخت کے پاس بیٹھ کر گزار دیتی۔ یہ درخت بھی اسٹیج پر سجایا جاتا تھا اور ڈرامہ کے اختتام پر لوگ اس درخت کی ٹہنیاں تبرک کے طور پر اکھیڑ کر ساتھ لے جاتے اور اپنے گھروں میں ایسی جگہ لگا دیتے جہاں اُن کی نظریں اُن پر پڑتی رہتی۔ یہ رسم آہستہ آہستہ کرسمس ٹری کی شکل اختیار کر گئی اور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں کرسمس ٹری بنانے اور سجانے شروع کر دئیے۔ اس ارتقائی عمل کے دوران کسی ستم ظریف نے اس پر بچوں کے لیے تخائف بھی لٹکا دئیے، جس پر یہ تحائف بھی کرسمس ٹری کا حصہ بن گئے۔ کرسمس ٹری کی بدعت انیسویں صدی تک جرمنی تک محدود رہی۔
1847ء کو برطانوی ملکہ وکٹوریا کا خاوند جرمن گیا اور اسے کرسمس کا تہوار جرمنی میں منانا پڑا تو اس نے پہلی مرتبہ لوگوں کو کرسمس ٹری بنانے اور سجاتے دیکھا تو اسے یہ حرکت بہت بھلی لگی۔ لہٰذا وہ واپسی پر ایک ٹری ساتھ لے آیا۔ 1848ء میں پہلی مرتبہ لندن میں کرسمس ٹری بنوایا گیا۔ یہ ایک دیوہیکل کرسمس ٹری تھا جو شاہی محل کے باہر آویزاں کیا گیا تھا۔ 25دسمبر 1848ء کو لاکھوں لوگ یہ درخت دیکھنے لندن آئے اور اُسے دیکھ کر گھنٹوں تالیاں بجاتے رہے۔ اس دن سے لے کر آج تک تقریباً تمام ممالک میں کرسمس ٹری ہر مسیحی گھر میں بنایا جاتا ہے۔ (ایوری مینز انسائیکلو پیڈیا نیو ایڈیشن 1958ئ)
ایک رپورٹ کے مطابق صرف برطانیہ میں 70لاکھ کرسمس ٹری بنائے جاتے ہیں، جس پر 150 بلین پائونڈ خرچ آتا ہے۔ 200بلین پائونڈ کے بلب اور چھوٹی ٹیوب لائٹس بھی نصب کی جاتی ہیں۔ کرسمس ٹری پر جلائی جانے والی لائٹس تقریباً پورا مہینہ جلائی جاتی ہیں۔ یوں صرف ایک ٹری پر ہزار پائونڈ یعنی 1لاکھ روپے تک کی بجلی جلتی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف برطانوی شہر کے ہیں، باقی آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کرسمس کا آغاز ہوا تو اس کی واحد فضول خرچی موم بتیاں تھیں، لیکن پھر کرسمس ٹری آیا، پھر موسیقی، پھر ڈانس اور آخر میں شراب بھی اس میں شامل ہو گئی۔
شراب کے داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیار کر گیا۔ صرف برطانیہ کا یہ حال ہے کہ ہر سال کرسمس پر وہاں 7ارب 30کروڑ پائونڈ کی شراب پی جاتی ہے۔ 25دسمبر 2005ء کو برطانیہ میں جھگڑوں، لڑائی، مار کٹائی کے دس لاکھ واقعات سامنے آئے۔ 25دسمبر 2002ء کو آبرو ریزی اور زیادتی کے 19ہزار کیس درج ہوئے۔ سروے کے مطابق برطانیہ کے ہر 7 میں سے 1نوجوان نے کرسمس پر شراب نوشی کے بعد بدکاری کا ارتکاب کیا۔ امریکہ کی حالت اس سے بھی گئی گزری ہے۔ امریکہ میں ٹریفک قوانین کی اتنی خلاف ورزیاں اس دن ہوتی ہیں کہ پورا سال نہیں ہوتیں۔ 25دسمبر کو ہر شہری کے منہ سے شراب کی بُو آتی ہے۔ شراب کے اخراجات چودہ ارب ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں۔ صرف انٹلانٹک سٹی کے جوا خانوں میں اس روز 10ارب روپوں کا جوا ہوتا ہے۔ لڑائی مار کٹائی کے واقعات کی تقریباً چھ لاکھ اطلاعات آتی ہیں۔ 25 دسمبر 2005ء کثرت شراب نوشی کی وجہ سے حادثوں کے دوران کرسمس کے روز اڑھائی ہزار امریکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ پانچ لاکھ خواتین اپنے بوائے فرینڈز اور خاوندوں سے پیٹیں۔ چنانچہ یورپ میں بھی ایسے قوانین بن رہے ہیں کہ جن کے ذریعے شہریوں کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ کرسمس کی عبادت کے لیے اپنے قریب ترین چرچ میں جائیں، شراب نوشی کے بعد اپنی گلی سے باہر نہ نکلیں۔ خواتین بھی اس خراب حالت میں اپنے بوائے فرینڈز اور خاوندوں سے دور رہیں۔ (مذکورہ بالا اعداد و شمار 2004و 2005کے ہیں)
اب تو عیسائیوں کے اندر بھی ایسے گروہ پیدا ہوچکے ہیں جو کرسمس کو پسند نہیں کرتے۔ یہ لوگ اس تہوار پر مختلف اعتراضات کرتے ہے۔
مثلاً مسیحؑنے اپنی زندگی میں کرسمس نہیں منائی۔ اُن کے بعد بھی 350 سال تک اس تہوار کا نام و نشان نہیں تھا، جس سے کرسمس کی حقیقت مشکوک ہو جاتی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کرسمس کو سپانسر کر کے اسے مذہبی تہوار کی بجائے دوکانداری بنا دیا ہے۔ عیسائی مذہب اور اس کے تہواروں میں درخت کی کوئی گنجائش نہیں۔ انجیل میں واضح الفاظ میں یہ حکم موجود ہے کہ درخت کاٹ کر اور اسے مصنوعی طریقے پر صحن میں نہ گاڑھا جائے۔ بائبل میں تقریبا ً 38مقامات سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ عیسائیت میں شراب نوشی حرام ہے، جبکہ اس روز شراب نوشی اہتمام کے ساتھ کی جاتی ہے۔ (شازشیں بے نقاب)
خلاصہ یہ ہے کہ جناب مسیؑح کی تاریخ پیدائش کا حتمی علم نہ ہونا، اور ابتدائے مسیحیت میں اس دن کے منانے کا عدم ثبوت اِس بات کو تقویت پہنچاتا ہے کہ کرسمس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اِسے خواہ مخواہ اِس کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ کیونکہ اگر کسی بھی مذہب کے مخصوص تہواروں میں ان کے ماننے والے مختلف نظر آئیں تو اس کا لازمی مطلب ہے کہ اس مذہب کے بانی اور اس کے اولین پیروئوں میں یہ ناپید تھا۔ قرآن مجید نے ایسی باتوں کے حوالے سے ہی فرمایا:
’’ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَالِاٰبَآئِھِمْ۱ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ۱ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا ‘‘ (الکہف)
’’نہیں ہے ان کو اس کے متعلق کوئی علم اور نہ ہی ان کے باپ دادا کو، بڑی ہی خطرے کی بات ہے جو نکلتی ہے ان کے مونہوں سے وہ نہیں، کہتے مگر جھوٹ ہی۔‘‘
کرسمس کے حوالے سے ہم مسلمانوں کو بھی اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کرنی چاہیے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مسیح d کا صحیح یوم پیدائش کسی کو معلوم ہی نہیں۔ لہٰذا اس ضمن میں اگر کوئی مسلمان اس دن مسیح d کی پیدائش کی مبارک باد دے تو یہ صریحاًخلاف واقعہ ہے۔ دوسرے یہ کہ مسیحیوں کے نزدیک 25دسمبر کو خدا کا ایک بیٹا پیدا ہوا ہے، جبکہ یہ عقیدہ توحید کی ضد ہے۔ ہمارا دین یہ بتاتا ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ نہ تو وہ کسی سے جنا نہ اُس کی کوئی اولاد ہے۔ لہٰذا
عیسائیوں کو مبارک باد دینا یا اس ضمن میں کسی بھی تقریب میں شرکت کرنا اسلامی نظریہ کے مطابق ہرگز درست نہیں۔ افسوس کہ آج کا ماڈریٹ مسلمان خواہ مخواہ غیروں کی ثقافت اور کلچر سے مرعوب نظر آتا ہے اور بے علمی و جہالت سے نہ صرف کرسمس جیسے تہواروں پر مبارکباد دیتا اور خوشی کا اظہار کرتا ہے، بلکہ اس موقع پر برپا کی جانے والی شراب و شباب کی محفلوں میں شریک ہو کر اظہار یکجہتی کا عملی نمونہ پیش کرکے اسلام سے سراسر انحراف کرتا ہے۔
راقم نے چند سال پہلے اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام سے قبل میری زندگی میں ایک کرسمس ایسا بھی آیا کہ جس کو خوب دھوم دھام سے منایا۔ اس پروگرام میں میرے 20سے 25 ایسے دوستوں نے بھی شرکت کی جو مسلمان تھے بلکہ انہوں نے کرسمس پارٹی کے اخراجات میں میری معاونت بھی کی، مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ اب جبکہ میں مسلمان ہو چکا ہوں اور انہی دوستوں کو گھر میں یا دیگر مقامات پر درس قرآن کی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں تو وہ جو رات 3بجے تک میرے ساتھ کرسمس مناتے رہے، یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے علامہ اقبال نے کہاتھا ؎
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود