• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کرونا وائرس کے خوف سے گھروں میں نماز ادا کرنا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
کرونا وائرس کے خوف سے گھروں میں نماز ادا کرنا

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف (مسرہ)

بعض خلیجی ممالک جن میں سعودی عرب بھی شامل ہےوہاں حکومت کی جانب سے مساجد میں پنچ وقتہ اور نماز جمعہ پر پابندی لگانے سے عوامی حلقہ میں اکثر یہ سوال گردش کررہاہے کہ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے ، کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں مسجد بند کرنے اور فرائض گھروں میں ادا کرنے کی گنجائش ہے ؟
عوام کے درمیان مذکورہ سوال کا گردش کرنا فطری امرہے کیونکہ یہ عبادت کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی تحریر پڑھنے کو ملی ، پاکستان کے چند علماء کی متقفہ قرار دادبھی نظر سے گزری، ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسئلے کو کتاب وسنت کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کررہا ہوں ، اللہ تعالی مجھے حق کی توفیق دے۔
اسلامی تعلیمات میں مشقت کے وقت آسانی اختیار کرنے اورخطرات ونقصانات کے وقت احتیاطی تدابیر اپنانے کا حکم دیا گیا اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں بہت ساری دلیلیں ہیں جو عموما مسلمانوں کومعلوم ہیں بالخصوص ایسا کوئی بھی راستہ اختیار کرنا جس سے ہلاکت کا اندیشہ بھی ہو ممنوع ہے ۔ سعودی عرب کی فتوی کمیٹی "هيئة كبار العلماء"نے مشاورت کے بعد فتوی جاری کیا ہے کہ کرونا وائرس کے اندیشے کے پیش نظر یہاں کی مساجد پنج وقتہ اور نماز جمعہ کے لئے بند رکھی جائے گی ۔ اس فیصلہ کی وجہ سے عرب کے مشائخ اور حکومت عرب پر کچھ لوگ واویلہ اورنامناسب باتیں کرتے نظر آرہے ہیں حالانکہ اس فتوی کا تعلق صرف سعودی عرب سے ہے ، اس کا ہندوپاک یا دنیا کے کسی ملک سے تعلق نہیں ہے،پھر لوگوں کا اس فتوی پر واویلہ کرنا خصوصا مقلدوں کا (جن کے فتاوے کی بنیاد عرب نہیں اپنے متعین امام کے اقوال ہیں)قابل افسوس ہے ۔ آپ اپنے علاقے میں کرونا وائرس سے محفوظ ہیں تو اپنی مساجد کھلی رکھیں ، سعودی حکومت آپ کو اپنی مساجد بند کرنے کا حکم نہیں دیتی ہے ۔
رہا مسئلہ شرعی نقطہ نظر سے کیا وبائی امراض کے خوف سے مساجد کی بجائے گھروں میں فرائض ادا کرسکتے ہیں کہ نہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ متعدد احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شدید بارش یا تیز آندھی طوفان کی وجہ سے لوگوں کو اپنے گھروں میں نماز کا حکم دیا جاسکتا ہے چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا «ألا صلوا في الرحال‏» کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو پھر فرمایا:
إنَّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ يَأْمُرُ المُؤَذِّنَ إذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ ومَطَرٍ، يقولُ: ألَا صَلُّوا في الرِّحَالِ(صحيح البخاري:666)
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔
اسی طرح صحیح بخاری (668) میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے جمعہ کے دن خطبہ سنایا اور بارش وکیچڑ کی وجہ سےموذن کو یہ حکم دیا کہ اذان میں آج «حى على الصلاة‏» کی جگہ یوں پکار دو «الصلاة في الرحال» کہ نماز اپنی قیام گاہوں پرہی ادا کر لو۔
جب لوگوں نے آپ کے اس عمل پر تعجب کیا تو انہوں نے کہا:
كَأنَّكُمْ أنْكَرْتُمْ هذا، إنَّ هذا فَعَلَهُ مَن هو خَيْرٌ مِنِّي، - يَعْنِي النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ - إنَّهَا عَزْمَةٌ، وإنِّي كَرِهْتُ أنْ أُحْرِجَكُمْ۔
ترجمہ: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بیشک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ «حى على الصلاة‏» کہہ کر تمہیں باہر نکالوں (اور تکلیف میں مبتلا کروں)
اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں البتہ انہوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
كَرِهْتُ أنْ أُؤَثِّمَكُمْ فَتَجِيئُونَ تَدُوسُونَ الطِّينَ إلى رُكَبِكُمْ.
ترجمہ:مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو۔
صحیح بخاری کی ان دونوں احادیث پر غور کریں تو معلوم ہوتا کہ بارش اور کیچڑ کی وجہ سے بستی اور محلے کے سارے لوگ مسجد کی بجائے اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کرسکتے ہیں ، یہ اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے آسانی ہےتاکہ مشقت سے بچا جا سکے، اسلام آسانی کا نام ہے ۔ان احادیث سے ایک اہم نقطہ یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ جب محض جسمانی مشقت کی وجہ سے شریعت ہمیں شدیدبارش کے وقت گھروں میں نماز ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے تو جہاں جان کا خطرہ ہو وہاں گھروں میں نماز ادا کرنا بدوجہ اولی جائز ہوگابلکہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے عمل کو دیکھا کہ انہوں نےبارش کی وجہ سے نماز جمعہ سے بھی لوگوں کو روکا اور اپنے گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم دیا اور اس عمل کو سنت رسول بتایا۔
جان تو بڑی چیز ہے، اس کو ہلاکت میں ڈالنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور کرونا وائرس سے جان کا خطرہ ہے ۔ اس وجہ سے سعودی عرب کا یہ قدم سنت کے خلاف نہیں ہے ۔ مزید چند باتیں سطور ذیل میں درج کرتا ہوں ۔
٭ کرونا وائرس کے خوف سے محض انہیں مقامات کے لوگ اپنے گھروں میں نماز ادا کریں جہاں اس کا خطرہ ہے اور جوعلاقے مامون ہیں وہاں والے مساجد میں فرائض کا اہتمام کریں ۔
٭ جو لوگ یہ اشکال پیدا کررہے ہیں کہ کروناوائرس کے مریض کو مساجد سے دور رکھا جائے لیکن مساجد بند نہ کی جائے ۔ پیاز کھاکر مسجدآنے والے یا بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں سے دور رکھنے کی دلیل پیش کرتے ہیں ۔ اس بات کے لئے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کرونا وائرس ابتدائی طور پر چودہ دن تک اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں ایسے میں ایک مریض بھی خود کو اچھا ہی سمجھے گا اور چودہ دنوں میں کتنوں کو مرض کی لپیٹ میں لے لے گا، نیز کچھ لوگ عداوت میں جان بوجھ کر وائرس پھیلابھی سکتے ہیں ،اس لئے خصوصا سعودی عرب جو پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے اس کو تمام خدشات وخطرات سے محفوظ رکھنا ازحد ضروری ہے ۔
ایک شخص جس کے متعلق حتمی طور پر معلوم ہے کہ اس کو وہائی مرض ہے اس سے دوری اختیار کی جاسکتی ہے جیساکہ نبی ﷺ نے ایک مجذوم سے بیعت نہیں کی لیکن جب لوگوں کے بارے میں معلوم ہی نہ ہو کہ کون مریض ہے اور کون نہیں وہاں مسئلے کا حل یہی ہے کہ لوگوں کو جمع ہونے سے روکا جائے ۔
٭جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کرونا کے خوف سے مساجد بند کرنا اور گھروں میں نماز پڑھنا ایمان کی کمزوری ہے اور یہ اللہ پر توکل کے خلاف ہے ان سے عرض ہے کہ جہاں ہلاکت کا اندیشہ ہو وہاں ہلاکت سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اپنانا نہ تو ایمان کی کمزوری ہے اور نہ ہی توکل کے خلاف ہے ۔ اس سے نہ تو نماز کی اہمیت گھٹتی ہے اور نہ ہی یہ فریضہ ساقط ہوتا ہے ، نماز تو کسی حال میں معاف ہی نہیں ہے ، پھر نماز پڑھنے والا خود کو کمزورایمان والا کیسے کہہ سکتا ہے اور اس کا توکل اللہ پر کیسے برقرار نہیں رہ سکتا ؟ کیا تدبیر اختیار کرنا توکل کے منافی ہے اور کیا وقتی طور پر چند ایام گھروں میں نماز ادا کرنے سے ایمان کمزور ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں ۔ دراصل کوڑھی سے بھاگنے کا حکم نبوی تدبیر ہی ہے جو توکل کے خلاف نہیں ہے اور "صلوا فی الرحال "عذر کےوقت صحابہ کا عمل ہے جو ایمان کی کمزوری نہیں ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں ہرقسم کے مرض سے بچائے خصوصا آج کے پرفتن دور میں ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ایمان پر ہی خاتمہ نصیب فرمائے ۔آمین
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ


شیخ مقبول صاحب اس مسئلہ سے کہ جان کے خوف یا کسی پریشانی یا مشکل کی وجہ سے مساجد کی بجائے گھروں میں فرائض ادا کرسکتے ہیں میں بالکل اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن یہ موقف رکھنا کہ کرونا وائرس یا کوئی اور بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ جاتی ہے لہاذا لوگوں کو مسجد میں نہ آنے دیا جائے یا
کوئی بھی ایک دوسرے کے پاس نہ جائے یہ سب جلاہت کی باتیں نہیں؟ کیوں کہ آحادیث سے تو ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی بیماری بذات خود متعدی (Infectious Disease) نہیں ہوتی۔ جیسا کہ صحیح البخاری کی روایت ہے: حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا عَدْوَى "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت کی کوئی حقیقت نہیں۔" [صحیح البخاری، حدیث: ۵۷۷۳]

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ، وَلَا هَامَةَ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا بَالُ إِبِلِي تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ فَيَأْتِي الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا، فَقَالَ: فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ، رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَسِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امراض میں چھوت چھات صفر اور الو کی نحوست کی کوئی اصل نہیں اس پر ایک اعرابی بولا کہ یا رسول اللہ! پھر میرے اونٹوں کو کیا ہو گیا کہ وہ جب تک ریگستان میں رہتے ہیں تو ہرنوں کی طرح (صاف اور خوب چکنے) رہتے ہیں پھر ان میں ایک خارش والا اونٹ آ جاتا ہے اور ان میں گھس کر انہیں بھی خارش لگا جاتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی؟ اس کی روایت زہری نے ابوسلمہ اور سنان بن سنان کے واسطہ سے کی ہے۔" [صحیح البخاری، حدیث: ۵۷۱۷]

یہ حدیث واضح طور پر بیماری کے متعدی ہونے کی نفی کر رہی ہے اور یہ بات سرے سے غلط ہے کہ ایک خارش زدہ اونٹ نے باقی اونٹوں کو خارشی بنا دیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام اونٹ خارش زدہ ہو جاتے، حالانکہ ریوڑ میں کتنے ہی اونٹ ہوتے ہیں جو اس مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے جاہلیت کے کاموں میں سے ایک قرار دیا ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوْعاً: أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَنْ يَدَعَهُنَّ النَّاسُ النِّيَاحَةُ وَالطَّعْنُ فِي الْأَحْسَابِ وَالْعَدْوَى أَجْرَبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائةَ بَعِيرٍ مَنْ أَجْرَبَ الْبَعِيرَ الْأَوَّلَ؟ وَالْأَنْوَاءُ مُطِرْنَا بِنَوْءٍ كَذَا وَكَذَا "ابوہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: میری امت میں چار كام جاہلیت سے تعلق رکھتے ہیں، لوگ انہیں كبھی بھی نہیں چھوڑیں گے۔ نوحہ كرنا، حسب نسب میں طعن كرنا، چھوت سمجھنا كہ ایک اونٹ كو خارش ہوئی تو اس نے سو اونٹوں كو خارش زدہ كر دیا۔ بھلا پہلے اونٹ كو كس نے خارش میں مبتلا كیا؟ اور ستارہ پرستی كہ ہم پر فلاں فلاں ستارے كی(گردش كی) وجہ سے بارش ہوئی۔" [سلسلہ احادیث الصحیحہ: ۹۴۳]

اب جو آحادیث سے دلیل ملتی ہے کہ کسی ملک میں طاعون کی وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ جیسے صحیح البخاری کی ہی روایت ہے: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَعَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ فَقَالَ أُسَامَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّاعُونُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ قَالَ أَبُو النَّضْرِ لَا يُخْرِجْكُمْ إِلَّا فِرَارًا مِنْهُ "حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: کیاآپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرض طاعون کے متعلق کچھ سناہے؟ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "طاعون ایک عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا، لہذا جب تم سنو کہ کسی ملک میں طاعون کی وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور جب اس ملک میں پھیلے جہاں تم رہتے ہوتو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ۔ "راوی حدیث ابو نضر نے کہا: "صرف طاعون سے بھاگنے کی نیت سے نہ نکلو۔" [صحیح البخاری، حدیث: ۳۴۷۳]

لیکن ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفي ذلك إباحة الخروج ذلك الوقت، من موضع الطاعون ، للسفر المعتاد ، إذا لم يكن القصد الفرار من الطاعون "اس حدیث میں طاعون کی جگہ سے باہر نکلنے کی اجازت ہے بشرطیکہ کہ اس علاقے سے باہر جانے کا سبب طاعون کا خوف نہ ہو بلکہ کوئی ضرورت یا معمول کا سفر ہو" [التمهيد ۲۱/ ۱۸۳] طاعون اور ہیضے جیسی بیماریاں ایک شہر سے دوسرے شہر میں پھیلتی ہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بیماری بذات خود متعدی ہے اور دوسرے کو منتقل ہوئی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دوسرے شہر یا دوسرے شخص میں بھی پیدا ہوئی ہے، چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک گھر میں کچھ لوگ طاعون یا ہیضے کی بیماری سے لقمہ اجل بن جاتے اور کچھ محفوظ رہتے ہیں اور ایک ہی ہسپتال میں ڈاکٹر حضرات طاعون اور ہیضے کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، انہیں کچھ نہیں ہوتا، اگر بیماری بذات خود متعدی ہوتی تو سب اس سے متاثر ہوتے۔

اور جہاں تک حدیث میں یہ آیا ہے کہ : وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ "جذامی شخص سے ایسے بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔" [صحیح البخاری، حدیث: ۵۷۰۷] تو اس کی وجہ بھی علماء نے یہی بیان کی ہے کہ کمزور عقیدہ رکھنے والوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "مجذوم آدمی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو" تاکہ اللہ کی تقدیر کے سبب بیماری لگ جانے سے ان کے عقیدے میں خرابی نہ آئے ایسا نہ ہو کہ وہ کہنے لگیں یہ بیماری ہمیں فلاں آدمی سے لگی ہے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
مساجد میں ترک جماعت سے متعلق شیخ احمد کوری موریتانی کے مضمون کا تجزیہ
تجزیہ نگار : مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف – مسرہ –سعودی عرب

میرے پاس "کروناوائرس کے ڈر سے ترک جماعت کا حکم" کے نام سے شیخ احمد کوری موریتانی کی ایک تحریر آئی ہے جس میں دس دلائل پیش کئے گئے ہیں اور یہ بتلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کروناوائرس کے ڈر سے مسجد میں جماعت سے نماز نہ پڑھنا جائز نہیں ہے ۔چونکہ میں نے اس حوالے سے ایک مستقل مضمون لکھا ہے کہ کرونا کے خوف سے غیرمامون علاقے والے مسجد کی بجائے گھر پہ نماز ادا کرسکتے ہیں اس لئے تجزیہ میں اختصار سے کام لوں گا ۔

پہلی دلیل: جہاد کے وقت دشمن کے خوف سے جماعت ساقط نہیں ہوئی تو بیماری کے وہم کے ڈر سے جماعت کیسے ساقط ہوگی ؟
جواب : کرونا وائرس کے خوف اور جہاد میں دشمن کےخوف کے درمیان بڑا واضح فرق ہے اس لئے جہادپراس کوقیاس کرنا صحیح نہیں ہے ۔ ذرا غور کریں کہ جہاد کے وقت جان کا خطرہ ہوتے ہوئے بھی رسول اللہ نے وقت پرجماعت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے جبکہ شدید بارش کے وقت جانی نقصان کا خطرہ نہیں ہے محض مشقت ہے پھر بھی گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم دیا ، دونوں حکم نبوی ہے ۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کا خوف ایسی علت ہے جو بارش والی حدیث سے مماثلث کھاتی ہے اس لئے جس طرح شدید بارش کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح کرونا کے ڈر سے بھی گھر میں نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ دونوں میں مماثل علت ہے بارش میں علت ظاہری کیچڑ ہے جبکہ کرونا میں علت باطنی خوف ہے ۔
دوسری دلیل : وبائی مرض اور بیماریوں کا اصل سبب گناہ ومعاصی ہے ، اس کا علاج رجوع الی اللہ ، توبہ واستغفار ، تلاوت ونماز اور دعا ہے یعنی بیماری کا علاج جمعہ اور جماعت ترک کرنے میں نہیں ہے ۔
جواب : بیماری اور وبا کا سبب گناہ بھی ہوسکتا ہے اور آزمائش بھی اور علاج کے بارے میں بتائی گئیں سب باتیں درست ہیں مگر یہ بات محل نظر ہے کہ بیماری یا وباء کی حالت میں جماعت ترک نہیں کی جاسکتی ہے ۔ انفرادی طور پر بیمارولاغر شخص جماعت ترک کرسکتا ہے اور وبائی مرض کے بارے میں اوپر ذکر کیا ہوں ، تفصیل کے ساتھ اس پر مستقل مضمون بھی ہے کہ کروناوائرس کو بارش والی حدیث اور ان تمام دلائل پر قیاس کرتے ہوئے جن میں ہلاکت ونقصان سے بچنے اور وبائی مریض سے دور ی اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے مسجد میں جماعت سے نماز ترک کرکے اپنے اپنے گھروں میں پڑھنا جائز ہے ۔
تیسری دلیل: بیماری اللہ کا فیصلہ اور تقدیر ہے لہذا اللہ پر توکل اختیار کرنا چاہئے اور بیماری کے خوف سے جمعہ اور جماعت ترک نہیں کرنی چاہئے ۔
جواب : بلاشبہ بیماری اللہ کی طرف سے ہے ، یہ تقدیر کا حصہ ہے ہمارا اس پر ایمان ہے مگر تمام بیماریوں کا حکم یکساں نہیں ہے ،بعض بیماریوں کے متعلق اسلام کے احکام مختلف ہیں ،ان میں سےکوڑھ اور طاعون ہے ۔ایسے مریض سے اختلاط ممنوع ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑھی سے ہاتھ نہیں ملایا ، اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ آپ کا یہ عمل توکل کے منافی یا تقدیر کے خلاف ہے۔ جمعہ اور جماعت میں اختلاط پایا جاتا ہے جو انتشار کرونا کا سبب ہے اس وجہ سے ایسے حالات میں ترک جمعہ اور جماعات پر حرج نہیں ہے ۔
چوتھی دلیل: کیا نبی کے ارشاد میں یہ موجود ہے کہ طاعون کے سبب مسجد بند یا جماعت ترک کردی جائے ؟
جواب: نبی کے زمانے میں کبھی طاعون پھیلا ہی نہیں پھر آپ مسجد بند کرنے کا حکم کیوں کر دیتے ، طاعون کا پہلا حادثہ عہد فاروقی میں شام کے علاقہ میں پیش آیا ۔آپ نے اصل چیز کی ممانعت کردی وہ ہے اختلاط لہذا اگر مریض کی تشخیص ہوجائے تو اس کو مسجد سے دور کیا جائے گا لیکن مریض کی تشخیص نہ ہوسکے تو اختلاط سے بچا جائے گا ۔ کرونا کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ ابتدا میں چودہ دن تک مریض میں علامت ظاہر نہیں ہوتی گوکہ وہ مریض ہوتا ہے ایسے عالم میں اس مریض سے انجانے میں کس قدر خطرہ بڑھنے کا امکان ہے ؟۔
پانچویں دلیل : عہد عمر میں طاعون عمواس پھیلا تو آپ نے ترک جماعت کا حکم نہیں دیا۔
جواب : عہد عمر میں مدینہ میں طاعون نہیں پھیلا تھا بلکہ مدینہ سے بہت دور شام کے علاقہ میں پھیلا تھا۔ پھر طاعون کے انتشار اور کرونا کے انتشار میں بھی فرق ہے ۔ کرونا اختلاط سے پھیلتا ہے لہذا اختلاط سے بچا جائے گا۔
چھٹی دلیل : اللہ نے صبر اور نماز سے مدد طلب کا حکم دیا ہے تو کیا مدد طلب کرنا مسجد میں نماز قائم کرنے سے ہوگا یا جمعہ اور جماعتوں کو چھوڑنے سے ؟
جواب : یہ دلیل بہت ہی کمزور ہے اور استدلال باطل ہے ۔ ترک جماعت سے نماز کا ترک کرنا کہاں ہوتا ہے ؟ اللہ نے نماز سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ہمارے لئے اللہ نے پوری سرزمین کو مسجد بنا دیا ہے ۔
ساتویں دلیل : نبی کا فرمان ہے جس نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھی وہ اللہ کے ذمہ میں ہے تو کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ ہم اللہ کے ذمہ میں ہیں ؟
جواب : مذکورہ دلیل سے استدلال بھی سراسر باطل ہے ، اگر اسی طرح استدلال کیا جائے تو نبی کی تعلیم کوڑھ سے دوری اختیار کرنااور آپ کا کوڑھی سے ہاتھ نہ ملانا کس معنی میں ہوگا؟ بلاشبہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اورجائز اسباب اختیار کرنا بھی اسلام ہی کی تعلیم ہے ۔کیا صاحب تحریر اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے فجر کی نماز پڑھ کر کسی کرونا وائرس کے مریض سے ملاقات کرسکتا ہے ؟ اگر وہ یا ان کے کوئی موید ا س بات کے لئے تیار ہیں تو مجھے اس بارے میں فون پر اطلاع دیں اور ایسا نہیں کرسکتے تو براہ کرم غلط پیغام امت کو نہ دیں ۔
آٹھویں دلیل: مدینہ میں ایک نابینا صحابی کو جماعت سے پیچھے رہنے کی نبی نے اجازت نہیں دی تو صحیح سالم حضرات کے لئے جماعت میں شریک نہ ہونے کی اجازت کیسے ہوگی؟
جواب : صحیح بخاری(۶۶۷)میں ایک نابینا عتبان بن مالک کا واقعہ مذکور ہے جو اپنی قوم کے امام تھے انہوں نے نبی سے عرض کی کہ یا رسول اللہ اندھیری اور سیلاب کی راتیں ہوتی ہیں اس لئے آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ لیجئے تاکہ وہیں میں اپنی نماز کی جگہ بنالوں ۔
اس حدیث میں صریح دلیل ہے کہ شرعی عذر کی بنیاد پر نماز گھر میں ادا کی جاسکتی ہے ، یہ نابینا اپنی قوم کے امام تھے ،امام کا گھر میں نماز پڑھنا گویا سب لوگوں کا اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھنا ہے ۔

نویں دلیل : نبی کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو فورا آپ نماز کی طرف متوجہ ہوتے ، آج جب کرونا وائرس کی بیماری آپڑی ہے تو کیا سنت نبوی کی مخالفت کرتے ہوئے جمعہ اور جماعت ترک کردیں ؟
جواب : مذکورہ حدیث نہ تو مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے سے متعلق ہے اور نہ ہی شرعی عذرکرونا وائرس کےڈر سے فرائض اپنے گھروں میں ادا کرنے سے سنت کی مخالفت ہوتی ہے ۔ حدیث میں مذکور نمازعام ہے جو کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے وہ بھی بغیر جماعت کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ویسے بھی نوافل عموما گھرمیں ادا کرتے تھے ۔ جو حدیث نماز باجماعت کی دلیل نہیں ہے اس سے جماعت والی نماز پر استدلال کرنا کارعبث ہے۔
دسویں دلیل: کیا پوری تاریخ اسلامی میں علمائے مسلمین میں سے کسی ایک نے بھی وباء اور طاعون جیسی مہلک بیماریوں کے پھیلنے کی وجہ سے مساجد کو بند کرنے کا فتوی دیا؟
جواب : بالکل تاریخ اسلامی ایسا واقعہ پیش آیا ہے ، علامہ ذہبی نے سیراعلام النبلاء (۱۸/۳۱۱)میں ۴۴۸ ہجری کا واقعہ ذکر کیا ہے جس میں مذکور ہے کہ مصر او ر اندلس میں ایسی وباء پھیلی کے مساجد بغیر مصلیوں کے بند پڑی رہیں ۔
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
حافظ ہشام الٰہی ظہیر صاحب تو فرماتے ہیں باجماعت نماز اور جمعہ کے لئے مساجد بند کرنا اسلام میں حرام ہے-
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
360
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
حافظ ہشام الٰہی ظہیر صاحب تو فرماتے ہیں باجماعت نماز اور جمعہ کے لئے مساجد بند کرنا اسلام میں حرام ہے-
.

فجر کی نماز باجماعت سے اللہ کی حفاظت میں آنے کا مطلب ایسے ہوتا تو صحابہ اور رسول تو جنگوں ہی میں نہ جاتے بیٹھ جاتے کہ اللہ حفاظت کریگا اور دو جماعت نہ کرتے کہ نماز فجر باجماعت پڑھ کر ہم تو اللہ کی حفظ و امان میں ہیں، سخت حالات میں بھی باجماعت نماز مسجد ہی میں ادا کرنا اتنا ضروری ہوتا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ میدان جنگ چھوڑ کر نماز مسجد ہی میں آکر نماز ادا کرتے، میدان جنگ میں نماز نہ ادا کرتے اور نہ ہی دو جماعت کرتے.

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
360
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.
مسجدیں بند کر دیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے | Independent Urdu


.
 
Top