• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسب معاش کے حرام ذرائع

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
469
پوائنٹ
209

اسلام نے حصول معاش کے لئے قواعدوضوابط مرتب کیاہے، کسی بھی تاجریامعاشی مسابقت میں حصہ لینے والے کوآزادنہیں چھوڑاکہ جب چاہے اورجس طرح چاہے مال حاصل کر کے اپنی تجوری بھرتاچلاجائےاوردوسرے لوگ اس میدان میں پیچھے رہ جائیں یانقصان اٹھاتے رہیں بلکہ ہرایک کوحق عطاکیاگیاکہ معاش کے لئے کوشش کرے اور جائز قسم کا کوئی بھی ذریعہ معاش اختیار کرے جس میں دھوکہ، خیانت،سود،نقصان، رشوت، کالابازاری، قماربازی،حرام کاری اور بے ایمانی کا دخل نہ ہو۔ ساتھ ہی دو باتوں کا ضرور خیال کرنا چاہئے پہلی تو یہ کہ اگر ذریعہ آمدنی جائزہے تو کسی بھی پیشہ وعمل کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے اور دوسری یہ کہ اللہ تعالی پر روزی کے تئیں مکمل اعتماد کرکے دولت دنیا کی حرص لئے بغیر جائز طریقے سے کسب معاش میں جدوجہد کرنا چاہئے ۔ عام طور سے حصول زر میں ناجائز ذرائع اپنانے کی اہم وجہ دنیا طلبی ہوتی ہے ۔
ان بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سطور میں ان ذرائع کا ادراک کریں جو اسلامی نظام معیشت کے خلاف ہے ۔

سودی کاروبار:
سود قطعی طورپرحرام ہے ‘سود کو قرآن کریم نے اتناسنگین گناہ قراردیا ہے کہ کسی اور گناہ کو اتنا سنگین گناہ قرار نہیں دیا، شراب نوشی، خنزیر کھانا، زناکاری، بدکاری وغیرہ کے لیے قرآن کریم میں ایسی سخت وعید نہیں آئی جو سود کے لیے آئی ہے.
چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ(سورۃ البقرۃ:278/279)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو حصہ بھی رہ گیا ہو اس کو چھوڑ دو، اگر تمہارے اندر ایمان ہے ۔اگر تم سود کو نہیں چھوڑو گے ، تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو یعنی ان کے لیے اللہ کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے-
مسند امام احمد بن حنبل ،سنن دارقطنی ، مشکوة المصابیح اور زجاجة المصابیح میں حدیث پاک ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَنْظَلَۃَ غَسِیلِ الْمَلَائِکَۃِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِرْہَمٌ رِبًا یَأْکُلُہُ الرَّجُلُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلَاثِینَ زَنْیَۃً -
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنھما (جن کے والد حضرت حنظلہ غسیل ملائکہ ہیں ) سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جانتے بوجھتے سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔
اس کی سند کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ( تخريج مشكاة المصابيح:2754)
لہذا ایمان والوں کو ہر اس پیشے سے دور رہناہے جس میں سود کی آمیزش ہو ۔سودی کام پہ کسی کی مدد کرنا بھی ویسے ہی جیسے سودی کاروبار کرنا اس لئے سود پہ کسی طرح کا تعاون بھی نہیں پیش کرنا ہے ۔

جوا کا کاروبار کرنا:
جواایک مذموم کھیل ہے اس کھیل میں ایک کوزبردست خسارہ ہوتاہے جبکہ دوسرافریق بغیرکسی محنت وتعب کے بہت سارامال ومتاع جیت لیتاہے اس میں لوگ نہ جانے کیاکیاہارجاتے ہیں،مال و متاع،گھراوربیوی تک ہارکرشرمندگی اٹھاتے ہیں،یہی شرمندگی اگرابتداء ہی میں محسوس کرے توپھرجواکھیلنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔جواایک طرح کانشہ ہوتاہے جوبمشکل ختم ہوتا ہے یہ نشہ اس وقت تک شیطان بن کراس کی کھوپڑی میں گھسارہتاہے جب تک کہ اس کی لٹیا نہ ڈوب جائے۔یہ ایک طرح کادھوکہ اورفریب کاری ہے اسلام میں فریب کاری توممنوع ہے ہی جواکی بھی منصوص طورپرحرمت ثابت ہے۔
یاایھاالذین اٰمنواانماالخمروالمیسروالانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون(المائدۃ : 90)
ترجمہ : اے ایمان والو!بات یہی ہے کہ شراب اورجوااورتھان اورفال نکالنے کے پانسے کے تیریہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہوتاکہ تم فلاحیاب ہو.
جواکی حرمت کے مندرجہ ذیل مقاصدہیں۔
۱۔اسلام چاہتاہے کہ اکتساب مال کے سلسلہ میں مسلمان سنن الٰہی کامتبع ہواورنتائج کو اسباب کے ذریعہ حاصل کرے اورجواجس کی ایک قسم لاٹری ہے انسان کوبخت واتفاق اورخالی آرزؤں پربھروسہ کرناسکھاتاہے جبکہ اسلام عمل،جدوجہداوران اسباب پربھروسہ کرناسکھاتاہے جنہیں اللہ نے پیدافرمایاہے اوران کواختیارکرنے کاحکم دیاہے۔
۲۔اسلام انسان کے مال کومحترم ٹھہراتاہے اوراس کے لینے کی جائزصورت یہ ہے کہ یا توجائزطریقہ پرلین دین ہویاکوئی شخص اپنی رضامندی سے ہبہ یاصدقہ کرے ۔رہاقمارکے ذریعہ مال حاصل کرناتووہ باطل طریقہ پرمال کھانے کے مترادف ہے۔
۳۔اس سے جواکھیلنے والوں کے درمیان بغض وعداوت پیداہوتی ہے اگرچہ وہ زبانی طورپر رضامندی کااظہارکرتے ہوں کیونکہ ان کامعاملہ ہمیشہ غالب اورمغلوب کے درمیان رہتا ہے اور جب مغلوب خاموشی اختیارکرتاہے تواس کی خاموشی غیظ وغضب لئے ہوئے ہوتی ہے کیونکہ وہ نقصان اٹھاچکاہوتاہے۔
۴۔بازی ہارجانے کی صورت میں مغلوب دوبارہ جواکھیلنے پرآمادہ ہوجاتاہے اس امیدپرکہ شایداب کی بارنقصان کی تلافی ہوگی،اسی طرح غالب کوغلبہ کی لذت دوبارہ بازی لگانے اورمزیدنفع بٹورنے پرآمادہ کرتی ہے۔
۵۔بنابریں یہ شوق جس طرح فردکے لئے خطرہ کاباعث ہے اسی طرح سماج کے لئے بھی خطرہ کاشدیدباعث ہے،یہ ایساشوق ہے جس میں محنت اورقوت کی بربادی ہے۔
غرض یہ کہ یہ کھیل جوئے بازوں کوبالکل معطل کرکے رکھ دیتاہے جوزندگی کی محنت سے تو فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اس کی ذمہ داریوں کوادانہیں کرتے۔
قماربازہمیشہ اپنے رب کی عائدکردہ ذمہ داریوں سے غفلت برتتاہے نیزاپنے نفس اپنے خاندان اوراپنی ملی ذمہ داریوں سے بھی بے پرواہ ہوجاتاہے۔
ایسے لوگوں سے کچھ بعیدنہیں کہ وہ اپنے دین،اپنی عزت اوراپنے وطن کوبھی اپنے مفاد کی خاطربیچ دیں۔(اسلام میں حلال وحرام)
لاٹری بھی جواہی کی ایک قسم ہے مگربعض لوگوں نے اسے ضرورتاًجائزقراردیاہے یہ ان کی بڑی بھول ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ لاٹری جواکی ایک قسم ہی ہے اورجب یہ متحقق ہے کہ لاٹری جواکی قسم ہے توپھراس کی حرمت پرکوئی کلام نہیں۔اسکے ذریعہ کمائی ہوئی دولت بھی حرام ہوگی،اس کی بدولت آدمی اللہ کے عتاب سے نہیں بچ سکتا۔

شراب کا پیشہ اختیار کرنا:
شراب کو”ام الخبائث“کہاگیاہے کیونکہ آدمی شراب کی حالت میں کچھ بھی کرسکتاہے زنا کاری کاارتکاب کرسکتاہے، کسی کی حرمت پرڈاکہ زنی کرسکتاہےاوروہ خودکشی بھی کرسکتاہے۔مشہورواقعہ ہے،ایک آدمی کوتین کاموں میں سے کسی ایک کااختیاردیاگیاچاہے وہ شراب نوشی کرے یازناکری کرے یاایک آدمی کوموت کی گھاٹ اتاردے۔اس نے تین کام میں شراب نوشی کوپسندکیااوروہ جب پی لیاتونشہ کی حالت میں زناکاری کابھی ارتکاب کرلیااورآدمی کو بھی قتل کردیا۔اوریہ حقیقت ہے کہ اس سے بہت ساری خرابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں، بیماریاں بھی وقوع پذیرہوتی ہیں،رسول اکرم ﷺنے اللہ کی طرف سے شراب کی حرمت کااعلان کردیاہے : كلُّ مُسكِرٍ خَمرٌ . وَكُلُّ مُسكِرٍ حَرامٌ(صحيح مسلم:2003)
ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہے اورہرنشہ آورحرام ہے۔
إِنَّ اللهَ حَرَّمَ الخمرَ ، و حَرَّمَ المَيْتَةَ و ثمنَها ، و حَرَّمَ الخِنْزِيرَ و ثَمَنَهُ(صحيح الجامع: 1746)
ترجمہ: اللہ نے شراب حرام کیاہے ،مرداراوراس کی قیمت کوبھی حرام قراردیا،سوراوراس کی قیمت کوحرام قرار دیا ہے۔
لعن اللهُ الخمرَ ، وشارِبَها ، وساقِيَها ، وبائِعَها ، و مُبْتَاعَهَا ، وعاصرَهَا ، ومُعْتَصِرَها ، وحامِلَها ، و المحمولَةَ إليهِ ، وآكِلَ ثَمَنِها(صحيح الجامع: 5091)
ترجمہ: اللہ تعالی نے شراب پہ، اس کے پینے والے،پلانے والے۔اسے نچوڑنے والے،جس کے لیے نچوڑی گئی،اس کے بیچنے والے،خریدنے والے،اٹھانے والے،جس کی طرف اٹھائی گئی ہو،اوراس کی قیمت کھانے والے سب پرلعنت فرمائی ہے۔
شراب پینے سے جہاں اسلامی نقطہ نظرسے بہت ساری خرابیاں ہوتی ہیں وہیں طبی نقطہ نظرسے بھی آدمی متعددخرابیوں اوربیماریوں کاشکارہوتاہے مثلاً۔محنت کرنے کی صلاحیت ولیاقت ختم ہونے لگتی ہے۔مالی حالت خراب ترہوجاتی ہے۔خون کی رفتارکافی تیزہوجاتی ہے۔دل کی دھڑکن بندہوجاتی ہے۔آدمی اپناہوش کھوبیٹھتاہے اوراسے کسی چیزکاعلم نہیں رہ جاتا۔آدمی کے اندرگھبراہٹ پیداہوجاتی ہے۔خاندانی انتشاربڑھ جاتاہے۔دل سے متعلق امراض نمودارہوجاتے ہیں اوراسی شراب کے استعمال سے کینسربھی ہوجاتاہے۔

زناکاری کا دھندا کرنا:
زناکاری ایک بدترین کام ہے،اسلام نے اس فعل کوناجائزاورحرام بتلایا،جوبھی اس کا ارتکاب کرے گااس پراسلامی قانون کی روسے حدجاری کی جائیگی۔
اگروہ شادی شدہ ہے توسنگسارکیاجائے گااورغیرشادی شدہ ہے تواسے سوکوڑاماجائیگا اورایک سال کے لئے شہربدرکیاجائے گایہ قرآن کاحکم ہے۔
الزانیۃوالزانی فاجلدواکل واحدمنھماماءۃجلدۃ(النور:2)
ترجمہ:زناکارعورت اورمردمیں سے ہر ایک کوسوکوڑے لگاؤ۔
دوسری جگہ زناکاری پرضرب کاری لگاتے ہوئے قرآن گویاہے۔
ولاتقربوالزنی فانہ کان فاحشۃوساء سبیلا(الاسراء :32)
ترجمہ: خبردارزناکے قریب بھی نہ بھٹکناکیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اوربہت ہی بری راہ ہے۔
اوررسول اللہ ﷺنے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
إذا زنى الرجلُ خَرَجَ منه الإيمان ُ، كان عليه كالظُّلَّةِ ، فإذا انقَطَعَ رَجَعَ إليه الإيمانُ(صحيح أبي داود:4690)
ترجمہ : جب آدمی زناکاارتکاب کرتاہے تواس کے دل سے ایمان خارج ہوجاتاہے گویااس کے اوپرسایہ کی طرح رہتاہے اورجب اس سے بازآجاتاہے توایمان اسکی طرف لوٹ جاتاہے۔
آج زنا کے لائسنس والے اڈے چلتے ہیں ، اس سے خطیر رقم حاصل کی جاتی ہے ۔ میں مسلمانوں کو اس سنگین و بھیانک جرم کو بطور پیشہ اختیار کرنے سے دور رہنے کی صلاح دیتا ہو۔ زنا کاری سے جیسے دنیا اور آخرت تباہ ہوتی ہے ویسے ہی اس کی کمائی سے دونوں جہاں برباد ہوجائے گا۔

یتیم کا مال ہڑپنا:
رسول اللہ ﷺنے یتیم کی اچھی پرورش وپرداخت کرنے کی تلقین کی اوراس کی اچھی طرح خبرگیری کرنے والے کوجنت کی بشارت سنائی،ساتھ ہی ان لوگوں کے لئے وعیدبھی سنائی جویتیم کے مال پرناجائزقبضہ جمانے کی کوشش کرتے ہیں،ان کامال ہڑپ کرانہیں گھرسے بے گھر کردیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیاہے :ولاتقربوامال الیتیم الابالتی ھی احسن حتی یبلغ اشدہ(الانعام:152)
ترجمہ : اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤمگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے۔
اوررسول اللہ ﷺنے فرمایا:أنا وَكافلُ اليتيمِ في الجنَّةِ هَكَذا . وأشارَ بالسَّبَّابةِ والوُسطى ، وفرَّجَ بينَهما شيئًا .(صحيح البخاري:5304)
ترجمہ: کہ میں اوریتیم کی پرورش وپرداخت کرنے والاجنت میں ایسے رہوں گاجیسے میرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اوردرمیانی انگلی۔

رشوت بازاری کرنا:
رشوت یہ ہے کہ مال صاحب اقتداریاسرکاری ملازم کوپیش کیاجائے تاکہ وہ اس کے حق میں یااس کے حریف کے خلاف فیصلہ یااس کاکام کرے،یااس کے حریف کے کام کومؤخرکردے ۔یہ بھی کسب معاش کے باطل طریقوں میں سے ہے،قرآن میں مذکورہے :ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوابھاالی الحکام لتاکلوافریقامن اموال الناس بالاثم و انتم تعلمون۔(البقرۃ : 188)
ترجمہ:اورایک دوسرے کا مال ناحق طریقہ سے نہ کھاؤ،نہ حاکموں کورشوت پہچاکرکسی کاکچھ مال ظلم وستم سے اپناکرلیاکرو حالانکہ تم جانتے ہو۔
اورنبی کریم ﷺنے فرمایا:لعنَ رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ الرَّاشي والمُرْتَشي في الحكمِ(صحيح الترمذي:1336)
ترجمہ: کسی بھی معاملہ میں رشوت دینے والے اوررشوت لینے والے دونوں پراللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ہے ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں رشوت ستانی کی حرمت میں کوئی امرمشتبہ نہیں رہا،رشوت کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ حکام کے نزدیک جس کاکام پہلے ہوتاہے وہ مؤخرکردیاجاتاہے اوربعدوالے کام کومقدم کردیاجاتاہے اس سے دونوں فریق میں نزاع پیداہوجاتاہے اوراگرپہلے سے دونوں میں کشیدگی کامعاملہ ہوتوپھرباہمی نزاع کارنگ گاڑھاہوجاتاہے۔
یہاں ایک بات اورغورکرنے کی ہے کہ کچھ لوگ رشوت کوہدیہ کے طورپرپیش کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ رشوت ستانی میں داخل نہیں ہے بلکہ یہ توہدیہ ہے اوراسلام ہدیہ دینے کی کلی آزادی دیتاہے،یہ ایک قسم کی منافقانہ چال ہے اس سے اسلامی تعلیمات پرضرب پڑتی ہے،رشوت کانام ہدیہ رکھنے سے کبھی ہدیہ نہیں کہلائے گا،اگرکوئی زہرکوقندسمجھ کرپی جائے تویہ ضروری نہیں کہ اس کا ذائقہ میٹھاہوجائے اورنہ ہی اس کی موت کی کوئی ضمانت ہوگی۔

مال میں خیانت کرنا:
کسی کے مال میں خیانت کرکے اپنی معیشت بڑھانااوراپنے لئے سامان تعیش مہیاکرنا حر ام ہے،اس کوقرآن وحدیث دونوں نے مذموم ٹھہرایاہے قرآن کابیان ہے :فان امن بعضکم بعضافلیؤدالذی أوتمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ(البقرۃ : 283)
ترجمہ: اگرآپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہوتوجسے امانت دی گئی ہے وہ اسے اداکردے اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتارہے جواس کارب ہے۔
اسی مفہوم کوقرآن نے دوسری جگہ بایں الفاظ بیان کیاہے :ومن یغلل یات بماغل یوم القیامۃثم توفی کل نفس ماکسبت(آل عمران :161)
ترجمہ: ہرخیانت کرنے والاخیانت کولئے ہوئے قیامت کے دن حاضرہوگاپھرہرشخص اپنے اعمال کاپوراپورابدلہ دیاجائے گا۔
اوررسول اللہ نے بھی اس کی مذمت بیان کی ہے اورخیانت کرنے والے کے متعلق یہ فرمایا: آيةُ المنافقِ ثلاثٌ : إذا حدَّثَ كذبَ ، وإذا وعَدَ أخلفَ ، وإذا اؤتُمِنَ خان.(صحيح البخاري:33)
ترجمہ:منافق کی تین نشانیاں ہیں پہلی نشانی یہ ہے کہ جب وہ کسی سے وعدہ کرتاہے تووعدہ خلافی کرتاہے اورتیسری نشانی یہ ہے کہ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جاتی ہے توخیانت کرتاہے۔
دوسری حدیث ہے: منِ استعملناهُ على عملٍ فرزقناهُ رزقًا فما أخذَ بعدَ ذلِكَ فَهوَ غُلولٌ(صحيح أبي داود:2943(
ترجمہ: جس کو ہم نے کسی کام ہرمقررکردیااوراس کے معاش کابھی انتظام کردیااسکے بعد جوکچھ لے گاوہ خیانت ہوگی۔
اورخیانت کاانجام توواضح ہے اس کومزیدواضح کرنے کی ضرورت نہیں۔

چوری کرنا:
معیشت کے لئے یہ طریقہ بھی غلط ہے کہ آدمی کسی کے گھرپرشب خوں مارے اورمال و جائدادپرقبضہ جمالے،یارات کی تاریکی کافائدہ اٹھاکرلوگوں کامال لوٹے،ایسے شخص کواسلام مجرمین کی فہرست میں شمارکرتاہے اوراس پرحدجاری کرتاہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : والسارق والسارقۃفاقطعواایدیھماجزاء بماکسبانکالامن اللہ واللہ عزیزحکیم(المائدۃ : 38)
ترجمہ : چوری کرنے والے مرداورعورت کے ہاتھ کاٹ دیاکرویہ بدلہ ہے ا س کاجوانہوں نے کیا،عذاب اللہ کی طرف سے اوراللہ تعالیٰ قوت وحکمت والاہے۔
حدیث رسول میں اس کی صراحت ہے کہ کلائی سے ہاتھ کاٹاجائے گا،اس بارے میں رسول اللہ ﷺبہت سختی کرتے تھے کیونکہ چوری کرلینااوربات ہے اورچوری کاپیشہ اختیارکرلینایہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔جورہزنی اورقزاقی کواپنی صنعت وتجارت بنالے توپھراس سے کسی بھی خیرکی امیدبعیدازقیاس ہے،آپ ﷺکافرمان عالیشان ہے :والذي نفسي بيدِه ! لو أنَّ فاطمةَ بنتَ محمدٍ سرقت لقطعتُ يدَها (صحيح مسلم:1688)
ترجمہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،اگرمیری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تومیں اس کابھی ہاتھ کاٹ لیتا۔
اگرکسی شخص کویہ معلوم ہوجائے کہ فلاں مال چوری کاہے اورپھراس مال کوخریدلے توایسا شخص بھی گنہگارہوگا۔لہذا چوری کا مال بھی کسی سے جانتے بوجھتے نہیں خریدنا چاہئے ۔

رقص وسرود کا پیشہ اختیار کرنا:
موجودہ زمانے میں دولت حاصل کرنے کاایک اچھاراستہ لوگوں کویہ مل گیاہے کہ وہ رقص وسروکی بزم آرائیاں کرتے ہیں اس کے ذریعہ لوگوں کی جنسی خواہشات کاانتظام کرتے ہیں، غلط قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اورلبھانے والے اکٹنگ سے لوگوں کواپنی جانب مائل کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔
طرفہ تماشایہ کہ اسے ”فن“(Art)کانام دیاجاتاہے،ماتم ہے بے غیرت انسانوں پرجو معاشرہ کے تباہ کن عناصرکوترقی کاجزء لاینفک قراردیتے ہیں۔
اس کام میں فاحشہ عورتیں اورذلیل وخوارانسان دونوں مشترک ہیں،مگرصنف نازک کی کثرت ہوتی ہے۔عورتوں کی بہتات کاسبب بھی ظاہرہے ۔قرآن تواس کے قریب بھٹکنے سے بھی منع کرتاہے اورایساکام کرنااسے ذریعہ معاش بناناتودورکی:ومن الناس من یشتری لھوالحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیرعلم ویتخذھاھزوا،اولئک لھم عذاب مھین۔(لقمان :6)
ترجمہ: اوربعض لوگ ایسے بھی ہیں جولغو باتوں کومول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کواللہ کی راہ سے بہکائیں اوراسے ہنسی بنائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے رسواکرنے والاعذاب ہے۔
امام جریرطبری فرماتے ہیں کہ ”لہوالحدیث“سے مرادغنا،رقص اورہروہ کھیل جس کے ذریعہ لوگوں کوگمراہ کیاجاتاہو۔
تفسیرجوناگڈھی میں ہے کہ ”لھوالحدیث“سے مرادگانابجانا،اس کاسازوسامان اورآلات،سازوموسیقی اورہروہ چیزہے جوانسانوں کوخیراورمعروف سے غافل کردے،اس میں رقص کہانیاں،افسانے،ڈرامے،ناول اورجنسی سنسنی خیزلٹریچر،رسالے اوربے حیائی کے پرچارک اخبارات سبھی آتے ہیں،اورجدیدترین ایجادات ریڈیو،ٹی وی،وی سی آر،ویڈیوفلمیں وغیرہ بھی۔مزیدلکھتے ہیں ”عہدرسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصدکے لئے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کادل گانے سناکربہلاتی رہیں تاکہ قرآن اوراسلام سے وہ دوررہیں،اس اعتبارسے گلوکارائیں بھی آجاتی ہیں جوآج کل فنکار،فلمی ستارہ اورثقافتی سفیراورپتہ نہیں کیسے کیسے مہذب،خوشنمااوردلفریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں“۔
قرآن کی دوسری آیت ہے:ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃفی الذین امنوالھم عذاب الیم فی الدنیاوالاخرۃ واللہ یعلم وانتم لاتعلمون۔(النور:19)
ترجمہ: جومسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومندرہتے ہیں ان کے لئے دنیاو آخرت میں دردناک عذاب ہے اللہ سب کچھ جانتاہے اورتم کچھ بھی نہیں جانتے۔
اس آیت میں بھی ”فاحشہ“سے مرادوہی ہے جومذکورہ آیت کے لفظ ”لھوالحدیث“سے مرادہے۔

نرخ چڑھنے پر مال فروخت کرنا:
یہ بھی معیشت کے لئے غلط راہ ہے کہ تاجراس وقت کاانتظارکرے جب بازارمیں اشیاء کی قیمت بڑھنے لگے پھراپنے گھروں سے سامان بازارمیں لائے۔ایسے لوگوں کے متعلق حدیث میں آتاہے کہ وہ محض گنہگارہے۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :لا يَحْتَكِرُ إلَّا خاطئٌ(صحيح مسلم:1605)
ترجمہ: اورذخیرہ اندوزی کرنے والاگنہگارہے۔
بازارمیں مال درآمدکرنے والے کورزق دیاجاتاہے اورذخیرہ اندوزی کرنے والا رزق اور اس کی برکت سے محروم رہتا ہے ۔بڑے سے بڑاتاجرہویہ نہیں کہہ سکتاکہ اس کی روزی اس کے ہاتھ میں ہے اللہ چاہے تومشتری خودبخوددوکاندارتک پہنچ جائے،نہیں چاہے توکسی تاجرکایہ بس نہیں کہ مشتری کواپنی تجا رت گاہ تک کھینچ لائے اورجب یہ متعین ہوگیاکہ روزی دینے والااللہ ہی ہے اس کے سواکسی کے بس میں نہیں کہ روزی دے سکے توپھرتجارت میں امانتداری کامعاملہ کرناچاہئے،اس اما نت داری سے اللہ کی رضامندی بھی ملے گی اورخریدارمیں امانتداری کاشہرہ ہوگاجس سے خریدار پر اچھااثر پڑ ے گااورزیادہ مقدارمیں تجارت کامال فروخت ہوگا،ایسی صورت میں نرخ چڑھنے کا انتظارکرتے ہوئے مال روکے رہنااورضرورت مندلوگوں کوفاقوںپرمجبورکرناخصوصاًمعاشرہ کے غریب ومحتاج اورنادارقسم کے لوگوں پربھوک مری سی حالت وکیفیت طاری کردیناکہاں کی دانشمندی ہے اورکون دانشمنداس حماقت کی تصویب کرے گا؟اس لئے بہترصورت وہی ہے جس کواسلام نے پیش کیاہے۔

کسب محارم کے مہلک اثرات :
جیسے ہی معاشی بھاگ دوڑکی راہ ٹیڑھی ہوتی ہے معاشیات میں پیچ پڑنے لگتے ہیں اخلاقی گراوٹ پیداہوجاتی ہے،سماجی خرابیاں رونماہوجاتی ہیں،اسلام کی معاشی حکمت ومصلحت کاخون ہونے لگتاہے،ساراکاسارامعاشرہ ضلالت کے عمیق غارپرپہنچ جاتاہے اس کے مزیدنقصانات اورمہلک اثرات پرغورکیجئے۔
(1)کسب معاش کیلئے باطل طریقے اختیارکرنے والوں کی دین ودنیادونوں بربادہو جاتی ہیں اوراس کاٹھکانہ جہنم ہوتاہے۔
(2)معاشرے میں چوروں اوررہزنوں کی زیادتی ہوجاتی ہے اورچوروں کاحوصلہ بڑھتا ہے۔
(3)جس نے کبھی چوری نہ کی ہو اس کے اندربھی چوری کرنے کاداعیہ پیداہونے لگتاہے۔
(4)کچھ ایسے بھی پیشے ہیں جن سے متعددامراض پیداہوتے ہیں جوآدمی کے لئے سم قاتل اورزہرہلاہل ہیں۔
(5)باطل طریقے سے مال حاصل کرنادراصل مال ضائع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اس کے بدلے آدمی اپنی عاقبت خراب کرتاہے۔
(6)بازاری حالت میں ابتری پھیل جاتی ہے اوراسکاسارانظام درھم برھم ہوجاتاہے۔
(7)زناکاری ویسے بھی بدترین خصلت ہے مزیداس سے انسانی نسل تباہ ہوجاتی ہے اوراسکے اثرات خاندان پربھی برے ثابت ہوتے ہیں۔
(8)بیع وشراء میں طرفین کے مابین باہمی رنجش وعداوت اوردائمی نفرت پیداہوجاتی ہے ۔
(9)معاشرے میں غلط قسم کے عناصررواج پایاجاتے ہیں اورانہیں پھلنے پھولنے کا بہترین موقع مل جاتاہے۔
(10)حلت وحرمت کامعیارختم ہوجاتاہے اوربغیرکسی تفریق کے لوگ حصول رزق میں سرگرداں رہتے ہیں۔
(11)جنسی شہوت ابھرتی ہے اورصالح افراداس سے بہت زیادہ متاثرہوتے ہیں جوان کی ایمانی پہچان بھی مٹادیتی ہے۔
(12)اسلامی تعلیمات کے فروغ واشاعت میں ایک بڑی رکاوٹ پیداکردیتی ہے۔
حرام طریقے سے کمائے ہوئے مال کا حکم :
لوگوں کی اکثریت حرام کمائی میں ملوث ہےجس کے بھیانک اثرات سماج وسوسائٹی پہ نمایاں ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس حرام طریقے سے کمائی ہوئی دولت ہو اور اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو اسے کیا کرنا چاہئے ؟
اگر مسلمان کو اپنے کئے پہ شرمندگی محسوس ہوجائے تو رب اس کے گناہ کو معاف کردیتا ہے سوائے حقوق العباد کے ۔ اگر ہم نے غبن، چوری، دھوکہ ، رشوت یا کسی دوسرے طریقے سے مال لوٹا ہے تو توبہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے ۔حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد جو پیسہ حرام کمائی کا بچ جائے اسے محتاجوں میں صدقہ کردے ۔اگرحرام کمائی سے سامان خریدایا مکان بنایاہوتواسے بھی بیچ کر صدقہ کردینا چاہئے الا یہ کہ وہ خود اس سامان کے لئے مضطرہو۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حرام طریقے سے مال کمانے سے بچائے اور رزق حلال کی توفیق بخشے ۔ آمین

تحریر: مقبول احمد سلفی
داعی دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد ،شمال طائف(مسرہ)
 
شمولیت
جنوری 23، 2015
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
79
بارک اللہ فیک
چند سوالات ہیں شیخ محترم۔

١ ۔ اگر ایسے دو لوگ مل کر ایک ریسٹورانٹ کھولیں جو سود کھاتے ہیں تو انکے اس ریسٹورانٹ میں کھانے کا کیا حکم ہے؟


٢ ۔ اگر ایک مسلمان سود خور مجھے کوئی تحفہ دے تو میرے لئے اسے قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟

٣ ۔ اگر کھانا اور قبول کرنا جائز نہیں تو ان غیر مسلمین کے ہوٹلوں اور ریسٹورانٹوں میں کھانے اور انکے تحائف قبول کرنے کا کیا حکم ہے جو محض سود کھاتے ہی نہیں بلکہ اسے جائز بھی سمجھتے ہیں۔


یہ سوالات میں نے اسلئے کئے کیونکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے (بشمول بعض اہل حدیث علماء) کہ سود کی رقم صرف سود خور کیلئے حرام ہے اور اسکی دلیل اللہ کے نبی کا سود خور یہودیوں کی دعوتیں قبول کرنا ہے۔


شیخ ہماری راہنمائی فرمائیں ۔اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے اور جزائے خیر عطا کرے۔

Sent from my ASUS_Z010D using Tapatalk
 
شمولیت
جنوری 23، 2015
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
79
بارک اللہ فیک
چند سوالات ہیں شیخ محترم۔

١ ۔ اگر ایسے دو لوگ مل کر ایک ریسٹورانٹ کھولیں جو سود کھاتے ہیں تو انکے اس ریسٹورانٹ میں کھانے کا کیا حکم ہے؟


٢ ۔ اگر ایک مسلمان سود خور مجھے کوئی تحفہ دے تو میرے لئے اسے قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟

٣ ۔ اگر کھانا اور قبول کرنا جائز نہیں تو ان غیر مسلمین کے ہوٹلوں اور ریسٹورانٹوں میں کھانے اور انکے تحائف قبول کرنے کا کیا حکم ہے جو محض سود کھاتے ہی نہیں بلکہ اسے جائز بھی سمجھتے ہیں۔


یہ سوالات میں نے اسلئے کئے کیونکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے (بشمول بعض اہل حدیث علماء) کہ سود کی رقم صرف سود خور کیلئے حرام ہے اور اسکی دلیل اللہ کے نبی کا سود خور یہودیوں کی دعوتیں قبول کرنا ہے۔


شیخ ہماری راہنمائی فرمائیں ۔اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے اور جزائے خیر عطا کرے۔

Sent from my ASUS_Z010D using Tapatalk
@اسحاق سلفی بھائی
@ مقبول احمد سلفى
شيخ@كفايت الله سنابلى
@عمر اثرى بھائی

Sent from my ASUS_Z010D using Tapatalk
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
@عمر اثرى بھائی
محترم بھائ!
میں کوئ عالم نہیں ہوں میں تو صرف ایک طالب علم ہوں.
اگر ایک مسلمان سود خور مجھے کوئی تحفہ دے تو میرے لئے اسے قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟
علماء کرام اسکا بہتر جواب دے سکیں گے. میں صرف ایک فتوی یہاں پوسٹ کر رہا ہوں:

39661: سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا
كيا ميرے ليے سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا جائز ہے ؟

Published Date: 2007-07-07

الحمد للہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہوديوں كے ساتھ خريد و فروخت جيسے معاملات كيا كرتے، اور ان سے ہديہ بھى قبول كرتے تھے، حالانكہ يہودى سودى لين دين كرتے ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ يہوديوں ميں سے ظلم كرنے والوں پر ہم نے وہ پاكيزہ اشياء ان پر حرام كرديں جو ان كے ليے حلال كى گئي تھيں، اور اكثر لوگوں كو اللہ تعالى كى راہ روكنے كے باعث ﴾

﴿ اور ان كے سود لينے كے باعث جس سے انہيں روكا گيا تھا، اور لوگوں كا ناحق مال كھانے كے باعث ﴾النساء ( 160 - 161 ).

اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كا ہديہ قبول فرمايا كرتے تھے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے خيبر ميں اس يہودى عورت كا ہديہ قبول كيا جس نے آپ كو بكرى كا بطور ہديہ پيش كى تھى، اور ان يہوديوں كے ساتھ لين دين كيا، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دنيا سے رخصت ہوئے تو آپ كى درع ايك يہودى كے پاس گروى ركھى ہوئى تھى.

اس ميں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:
وہ چيز جو بطور كمائى حرام ہو، وہ صرف كمانے والے پر حرام ہے، ليكن جو شخص اس حرام كمائى كو جائز اور مباح طريقہ سے حاصل كرتا ہے اس كے ليے وہ حرام نہيں.

اس بنا پر سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا جائز ہے، اور اس كے ساتھ خريدوفروخت كا معاملہ كرنا بھى جائز ہوگا، ليكن اگر اس سے تعلقات منقطع كرنے ميں كوئى مصلحت ہو، يعنى اس كے ساتھ لين دين نہ كرنے، اور اس كا ہديہ قبول نہ كرنے ميں كوئى مصلحت پيش نظر ہو تو پھر لين دين نہيں كرنا چاہيے، تو ہم مصلحت كے پيش نظر اس كے پيچھے چليں گے اور اس سے لين دين نہيں كرينگے.

ليكن جو چيز بعينہ حرام ہو تو وہ لينے اور دوسروں سب پر حرام ہے مثلا شراب حرام ہے، اگر كوئى يہودى يا عيسائى جو اسے مباح اور جائز سمجھتے ہيں وہ مجھے ہديہ ديں، تو ميرے ليے يہ ہديہ قبول كرنا جائز نہيں كيونكہ يہ چيز بعنيہ حرام ہے.

اور اگر كوئى انسان كسى شخص كا مال چورى كرے اور آكر وہ مال مجھے ديتا ہے تو يہ مسروقہ مال لينا مجھ پر حارم ہے، كيونكہ يہ بعنيہ حرام ہے.

يہ قاعدہ اور اصول آپ كو كئى ايك اشكالات سے راحت ديگا، جو بطور كمائى حرام ہو وہ صرف كمانے والے شخص پر حرام ہے، ليكن اسے حلال طريقہ سے حاصل كرنے والے پر حرام نہيں، ليكن اگر اس سے تعلقات منقطع كرنے اور اس سے نہ لينے اور اس كا ہديہ قبول نہ كرنے ميں، اور اس كے ساتھ خريد و فروخت نہ كرنے ميں كوئى مصلحت ہو جو اس عمل سے منع كرتى ہو تو پھر مصلحت كے پيش نظر اس سے تعلقات منتقطع كيے جائينگے.
الاسلام سوال جواب
 
شمولیت
جنوری 23، 2015
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
79
محترم بھائ!
میں کوئ عالم نہیں ہوں میں تو صرف ایک طالب علم ہوں.

علماء کرام اسکا بہتر جواب دے سکیں گے. میں صرف ایک فتوی یہاں پوسٹ کر رہا ہوں:

39661: سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا
كيا ميرے ليے سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا جائز ہے ؟

Published Date: 2007-07-07

الحمد للہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہوديوں كے ساتھ خريد و فروخت جيسے معاملات كيا كرتے، اور ان سے ہديہ بھى قبول كرتے تھے، حالانكہ يہودى سودى لين دين كرتے ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ يہوديوں ميں سے ظلم كرنے والوں پر ہم نے وہ پاكيزہ اشياء ان پر حرام كرديں جو ان كے ليے حلال كى گئي تھيں، اور اكثر لوگوں كو اللہ تعالى كى راہ روكنے كے باعث ﴾

﴿ اور ان كے سود لينے كے باعث جس سے انہيں روكا گيا تھا، اور لوگوں كا ناحق مال كھانے كے باعث ﴾النساء ( 160 - 161 ).

اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كا ہديہ قبول فرمايا كرتے تھے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے خيبر ميں اس يہودى عورت كا ہديہ قبول كيا جس نے آپ كو بكرى كا بطور ہديہ پيش كى تھى، اور ان يہوديوں كے ساتھ لين دين كيا، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دنيا سے رخصت ہوئے تو آپ كى درع ايك يہودى كے پاس گروى ركھى ہوئى تھى.

اس ميں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:
وہ چيز جو بطور كمائى حرام ہو، وہ صرف كمانے والے پر حرام ہے، ليكن جو شخص اس حرام كمائى كو جائز اور مباح طريقہ سے حاصل كرتا ہے اس كے ليے وہ حرام نہيں.

اس بنا پر سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا جائز ہے، اور اس كے ساتھ خريدوفروخت كا معاملہ كرنا بھى جائز ہوگا، ليكن اگر اس سے تعلقات منقطع كرنے ميں كوئى مصلحت ہو، يعنى اس كے ساتھ لين دين نہ كرنے، اور اس كا ہديہ قبول نہ كرنے ميں كوئى مصلحت پيش نظر ہو تو پھر لين دين نہيں كرنا چاہيے، تو ہم مصلحت كے پيش نظر اس كے پيچھے چليں گے اور اس سے لين دين نہيں كرينگے.

ليكن جو چيز بعينہ حرام ہو تو وہ لينے اور دوسروں سب پر حرام ہے مثلا شراب حرام ہے، اگر كوئى يہودى يا عيسائى جو اسے مباح اور جائز سمجھتے ہيں وہ مجھے ہديہ ديں، تو ميرے ليے يہ ہديہ قبول كرنا جائز نہيں كيونكہ يہ چيز بعنيہ حرام ہے.

اور اگر كوئى انسان كسى شخص كا مال چورى كرے اور آكر وہ مال مجھے ديتا ہے تو يہ مسروقہ مال لينا مجھ پر حارم ہے، كيونكہ يہ بعنيہ حرام ہے.

يہ قاعدہ اور اصول آپ كو كئى ايك اشكالات سے راحت ديگا، جو بطور كمائى حرام ہو وہ صرف كمانے والے شخص پر حرام ہے، ليكن اسے حلال طريقہ سے حاصل كرنے والے پر حرام نہيں، ليكن اگر اس سے تعلقات منقطع كرنے اور اس سے نہ لينے اور اس كا ہديہ قبول نہ كرنے ميں، اور اس كے ساتھ خريد و فروخت نہ كرنے ميں كوئى مصلحت ہو جو اس عمل سے منع كرتى ہو تو پھر مصلحت كے پيش نظر اس سے تعلقات منتقطع كيے جائينگے.
الاسلام سوال جواب
جزاك الله خيرا بھائی. اللهم بارك في علمك و تقبل جهدك.

Sent from my ASUS_Z010D using Tapatalk
 
Top