محمد زاہد بن فیض
سینئر رکن
- شمولیت
- جون 01، 2011
- پیغامات
- 1,957
- ری ایکشن اسکور
- 5,787
- پوائنٹ
- 354
لقوله تعالى { يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم ولا تقولوا على الله إلا الحق }
یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا ‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ”کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو“۔
حدیث نمبر: 7299
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " لا تواصلوا ". قالوا إنك تواصل. قال " إني لست مثلكم، إني أبيت يطعمني ربي ويسقيني ". فلم ينتهوا عن الوصال ـ قال ـ فواصل بهم النبي صلى الله عليه وسلم يومين أو ليلتين، ثم رأوا الهلال فقال النبي صلى الله عليه وسلم " لو تأخر الهلال لزدتكم ". كالمنكل لهم.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشام نے ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ تم صوم وصال (افطار وسحر کے بغیر کئی دن کے روزے) نہ رکھا کرو۔ صحابہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم جیسا نہیں ہوں۔ میں رات گزارتا ہوں اورمیرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے لیکن لوگ صوم وصال سے نہیں رکے۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دو دن یا دو راتوں میں صوم وصال کیا ‘ پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند نہ نظر آتا تو میں اور وصال کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انہیں سرزنش کرنا تھا۔
حدیث نمبر: 7300
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثني إبراهيم التيمي، حدثني أبي قال، خطبنا علي ـ رضى الله عنه ـ على منبر من آجر، وعليه سيف فيه صحيفة معلقة فقال والله ما عندنا من كتاب يقرأ إلا كتاب الله وما في هذه الصحيفة. فنشرها فإذا فيها أسنان الإبل وإذا فيها " المدينة حرم من عير إلى كذا، فمن أحدث فيها حدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا ". وإذا فيه " ذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم، فمن أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا ". وإذا فيها " من والى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمارے والد نے ‘ کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا ‘کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا واللہ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھو لا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لغت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک اس کے ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا ‘ اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ‘ اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔
حدیث نمبر: 7301
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا مسلم، عن مسروق، قال قالت عائشة ـ رضي الله عنها ـ صنع النبي صلى الله عليه وسلم شيئا ترخص وتنزه عنه قوم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله ثم قال " ما بال أقوام يتنزهون عن الشىء أصنعه، فوالله إني أعلمهم بالله، وأشدهم له خشية ".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا جس سے بعض لوگوں نے پرہیز کرنا اختیار کیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں۔ واللہ میں ان سے زیادہ اللہ کے متعلق علم رکھتا ہوں اور ان سے زیادہ خشیت رکھتا ہوں۔
حدیث نمبر: 7302
حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا وكيع، عن نافع بن عمر، عن ابن أبي مليكة، قال كاد الخيران أن يهلكا أبو بكر، وعمر، لما قدم على النبي صلى الله عليه وسلم وفد بني تميم، أشار أحدهما بالأقرع بن حابس الحنظلي أخي بني مجاشع، وأشار الآخر بغيره، فقال أبو بكر لعمر إنما أردت خلافي. فقال عمر ما أردت خلافك. فارتفعت أصواتهما عند النبي صلى الله عليه وسلم فنزلت { يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم} إلى قوله { عظيم}. قال ابن أبي مليكة قال ابن الزبير فكان عمر بعد ـ ولم يذكر ذلك عن أبيه يعني أبا بكر ـ إذا حدث النبي صلى الله عليه وسلم بحديث حدثه كأخي السرار، لم يسمعه حتى يستفهمه.
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر نے دی، انہیں نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ امت کے دوبہترین انسان قریب تھا کہ ہلاک ہو جاتے (یعنی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما) جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب (عمر رضی اللہ عنہ) نے بنی مجاشع میں سے اقرع بن حابس حنظلی رضی اللہ عنہ کو ان کا سردار بنائے جانے کا مشورہ دیا (تو انہوں نے یہ درخواست کی کہ کسی کو ہمارا سردار بنا دیجئیے) اور دوسرے صاحب (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے دوسرے (قعقاع بن سعید بن زرارہ) کو بنائے جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر ابوبکرنے عمر سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری نیت آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آوازبلند ہو گئی۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی ”اے لوگوں! جو ایمان لے آئے ہو اپنی آواز کو بلند نہ کرو“ ارشاد خداوندی ”عظیم“ تک ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہا کہتے تھے کہ عمر رضی اللہ نے اس آیت کے اترنے کے بعد یہ طریقہ اختیار کیا اور ابن زبیر نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے ناناکا ذکر کیا وہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ عرض کرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بات سنائی نہ دیتی تو آپ دوبارہ پوچھتے کیا کہا۔
حدیث نمبر: 7303
حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في مرضه " مروا أبا بكر يصلي بالناس ". قالت عائشة قلت إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل. فقال " مروا أبا بكر فليصل بالناس ". فقالت عائشة فقلت لحفصة قولي إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل بالناس، ففعلت حفصة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إنكن لأنتن صواحب يوسف، مروا أبا بكر فليصل للناس ". قالت حفصة لعائشة ما كنت لأصيب منك خيرا.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے جواباً عرض کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی شدت کی وجہ سے اپنی آواز لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیجئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو شدت بکاء کی وجہ سے لوگوں کو سنا نہیں سکیں گے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ تم یوسف پیغمبر کی ساتھ والیاں ہو؟ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعد میں حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے تم سے کبھی کچھ بھلائی نہیں دیکھی۔
حدیث نمبر: 7304
حدثنا آدم، حدثنا ابن أبي ذئب، حدثنا الزهري، عن سهل بن سعد الساعدي، قال جاء عويمر إلى عاصم بن عدي فقال أرأيت رجلا وجد مع امرأته رجلا فيقتله، أتقتلونه به سل لي يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله فكره النبي صلى الله عليه وسلم المسائل وعاب، فرجع عاصم فأخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم كره المسائل فقال عويمر والله لآتين النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء وقد أنزل الله تعالى القرآن خلف عاصم فقال له " قد أنزل الله فيكم قرآنا ". فدعا بهما فتقدما فتلاعنا، ثم قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله، إن أمسكتها. ففارقها ولم يأمره النبي صلى الله عليه وسلم بفراقها، فجرت السنة في المتلاعنين. وقال النبي صلى الله عليه وسلم " انظروها فإن جاءت به أحمر قصيرا مثل وحرة فلا أراه إلا قد كذب، وإن جاءت به أسحم أعين ذا أليتين فلا أحسب إلا قد صدق عليها ". فجاءت به على الأمر المكروه.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے کہا، ہم سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے اور اسے قتل کر دے، کیا آپ لوگ مقتول کے بدلہ میں اسے قتل کر دیں گے؟ عاصم! میرے لیے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متلعق پوچھ دیجئیے۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لیکن آپ نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا اور معیوب جانا۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر انہیں بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا ہے۔ اس پر عویمر رضی اللہ عنہ بولے کہ واللہ! میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا خیر عویمر آپ کے پاس آئے اور عاصم کے لوٹ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے، پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ دونوں آگے بڑھے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اسے اب بھی اپنے پاس رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں چنانچہ اس نے فوری اپنی بیوی کو جدا کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھتے رہو اس کا بچہ لال لال پست قد بامنی کی طرح کا پیدا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ عویمر ہی کا بچہ ہے۔ عویمر نے عورت پر جھوٹا طوفان باندھا اور اور اگر سانولے رنگ کا بڑی آنکھ والا بڑے بڑے چوتڑ والا پیدا ہو، جب میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے پھر اس عورت کا بچہ اس مکروہ صورت کا یعنی جس مرد سے وہ بدنام ہوئی تھی، اسی صورت کا پیدا ہوا۔
حدیث نمبر: 7305
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني مالك بن أوس النصري، وكان، محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذكرا من ذلك فدخلت على مالك فسألته فقال انطلقت حتى أدخل على عمر أتاه حاجبه يرفا فقال هل لك في عثمان وعبد الرحمن والزبير وسعد يستأذنون. قال نعم. فدخلوا فسلموا وجلسوا. فقال هل لك في علي وعباس. فأذن لهما. قال العباس يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين الظالم. استبا. فقال الرهط عثمان وأصحابه يا أمير المؤمنين اقض بينهما وأرح أحدهما من الآخر. فقال اتئدوا أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " لا نورث ما تركنا صدقة ". يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه. قال الرهط قد قال ذلك. فأقبل عمر على علي وعباس فقال أنشدكما بالله هل تعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك. قالا نعم. قال عمر فإني محدثكم عن هذا الأمر، إن الله كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا المال بشىء لم يعطه أحدا غيره، فإن الله يقول { ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم} الآية، فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم ولا استأثر بها عليكم، وقد أعطاكموها وبثها فيكم، حتى بقي منها هذا المال، وكان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق على أهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل النبي صلى الله عليه وسلم بذلك حياته، أنشدكم بالله هل تعلمون ذلك فقالوا نعم. ثم قال لعلي وعباس أنشدكما الله هل تعلمان ذلك قالا نعم. ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضها أبو بكر فعمل فيها بما عمل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنتما حينئذ ـ وأقبل على علي وعباس ـ تزعمان أن أبا بكر فيها كذا، والله يعلم أنه فيها صادق بار راشد تابع للحق، ثم توفى الله أبا بكر فقلت أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر. فقبضتها سنتين أعمل فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، ثم جئتماني وكلمتكما على كلمة واحدة وأمركما جميع، جئتني تسألني نصيبك من ابن أخيك، وأتاني هذا يسألني نصيب امرأته من أبيها فقلت إن شئتما دفعتها إليكما، على أن عليكما عهد الله وميثاقه تعملان فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل فيها أبو بكر وبما عملت فيها منذ وليتها، وإلا فلا تكلماني فيها. فقلتما ادفعها إلينا بذلك. فدفعتها إليكما بذلك، أنشدكم بالله هل دفعتها إليهما بذلك قال الرهط نعم. فأقبل على علي وعباس فقال أنشدكما بالله هل دفعتها إليكما بذلك. قالا نعم. قال أفتلتمسان مني قضاء غير ذلك فوالذي بإذنه تقوم السماء والأرض لا أقضي فيها قضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنها فادفعاها إلى، فأنا أكفيكماها.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر میں مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ سب لوگ اندر آ گئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آکرپوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کردیئجے تاکہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا، پھر آپ علی اور عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم (الآیہ) تو یہ مال خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا، پھر واللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لوگوں کو نظرانداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد بنایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا ‘ یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے ‘ پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا ‘ میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اس میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے۔ آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں خطاکار ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائیداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ‘ پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا۔ کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ!) آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے آئے اور یہ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائیداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائیداد کر دیں۔ چنانچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائیداد کر دی تھی۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہا ں ‘ پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے جائیداد آپ لوگووں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے کہا ‘ کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں ‘ اس میں ‘ اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کر سکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کر لوں گا۔
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ صحیح بخاری
یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا ‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ”کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو“۔
حدیث نمبر: 7299
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " لا تواصلوا ". قالوا إنك تواصل. قال " إني لست مثلكم، إني أبيت يطعمني ربي ويسقيني ". فلم ينتهوا عن الوصال ـ قال ـ فواصل بهم النبي صلى الله عليه وسلم يومين أو ليلتين، ثم رأوا الهلال فقال النبي صلى الله عليه وسلم " لو تأخر الهلال لزدتكم ". كالمنكل لهم.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشام نے ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ تم صوم وصال (افطار وسحر کے بغیر کئی دن کے روزے) نہ رکھا کرو۔ صحابہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم جیسا نہیں ہوں۔ میں رات گزارتا ہوں اورمیرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے لیکن لوگ صوم وصال سے نہیں رکے۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دو دن یا دو راتوں میں صوم وصال کیا ‘ پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند نہ نظر آتا تو میں اور وصال کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انہیں سرزنش کرنا تھا۔
حدیث نمبر: 7300
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثني إبراهيم التيمي، حدثني أبي قال، خطبنا علي ـ رضى الله عنه ـ على منبر من آجر، وعليه سيف فيه صحيفة معلقة فقال والله ما عندنا من كتاب يقرأ إلا كتاب الله وما في هذه الصحيفة. فنشرها فإذا فيها أسنان الإبل وإذا فيها " المدينة حرم من عير إلى كذا، فمن أحدث فيها حدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا ". وإذا فيه " ذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم، فمن أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا ". وإذا فيها " من والى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمارے والد نے ‘ کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا ‘کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا واللہ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھو لا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لغت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک اس کے ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا ‘ اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ‘ اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔
حدیث نمبر: 7301
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا مسلم، عن مسروق، قال قالت عائشة ـ رضي الله عنها ـ صنع النبي صلى الله عليه وسلم شيئا ترخص وتنزه عنه قوم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله ثم قال " ما بال أقوام يتنزهون عن الشىء أصنعه، فوالله إني أعلمهم بالله، وأشدهم له خشية ".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا جس سے بعض لوگوں نے پرہیز کرنا اختیار کیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں۔ واللہ میں ان سے زیادہ اللہ کے متعلق علم رکھتا ہوں اور ان سے زیادہ خشیت رکھتا ہوں۔
حدیث نمبر: 7302
حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا وكيع، عن نافع بن عمر، عن ابن أبي مليكة، قال كاد الخيران أن يهلكا أبو بكر، وعمر، لما قدم على النبي صلى الله عليه وسلم وفد بني تميم، أشار أحدهما بالأقرع بن حابس الحنظلي أخي بني مجاشع، وأشار الآخر بغيره، فقال أبو بكر لعمر إنما أردت خلافي. فقال عمر ما أردت خلافك. فارتفعت أصواتهما عند النبي صلى الله عليه وسلم فنزلت { يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم} إلى قوله { عظيم}. قال ابن أبي مليكة قال ابن الزبير فكان عمر بعد ـ ولم يذكر ذلك عن أبيه يعني أبا بكر ـ إذا حدث النبي صلى الله عليه وسلم بحديث حدثه كأخي السرار، لم يسمعه حتى يستفهمه.
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر نے دی، انہیں نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ امت کے دوبہترین انسان قریب تھا کہ ہلاک ہو جاتے (یعنی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما) جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب (عمر رضی اللہ عنہ) نے بنی مجاشع میں سے اقرع بن حابس حنظلی رضی اللہ عنہ کو ان کا سردار بنائے جانے کا مشورہ دیا (تو انہوں نے یہ درخواست کی کہ کسی کو ہمارا سردار بنا دیجئیے) اور دوسرے صاحب (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے دوسرے (قعقاع بن سعید بن زرارہ) کو بنائے جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر ابوبکرنے عمر سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری نیت آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آوازبلند ہو گئی۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی ”اے لوگوں! جو ایمان لے آئے ہو اپنی آواز کو بلند نہ کرو“ ارشاد خداوندی ”عظیم“ تک ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہا کہتے تھے کہ عمر رضی اللہ نے اس آیت کے اترنے کے بعد یہ طریقہ اختیار کیا اور ابن زبیر نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے ناناکا ذکر کیا وہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ عرض کرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بات سنائی نہ دیتی تو آپ دوبارہ پوچھتے کیا کہا۔
حدیث نمبر: 7303
حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في مرضه " مروا أبا بكر يصلي بالناس ". قالت عائشة قلت إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل. فقال " مروا أبا بكر فليصل بالناس ". فقالت عائشة فقلت لحفصة قولي إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل بالناس، ففعلت حفصة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إنكن لأنتن صواحب يوسف، مروا أبا بكر فليصل للناس ". قالت حفصة لعائشة ما كنت لأصيب منك خيرا.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے جواباً عرض کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی شدت کی وجہ سے اپنی آواز لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیجئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو شدت بکاء کی وجہ سے لوگوں کو سنا نہیں سکیں گے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ تم یوسف پیغمبر کی ساتھ والیاں ہو؟ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعد میں حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے تم سے کبھی کچھ بھلائی نہیں دیکھی۔
حدیث نمبر: 7304
حدثنا آدم، حدثنا ابن أبي ذئب، حدثنا الزهري، عن سهل بن سعد الساعدي، قال جاء عويمر إلى عاصم بن عدي فقال أرأيت رجلا وجد مع امرأته رجلا فيقتله، أتقتلونه به سل لي يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله فكره النبي صلى الله عليه وسلم المسائل وعاب، فرجع عاصم فأخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم كره المسائل فقال عويمر والله لآتين النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء وقد أنزل الله تعالى القرآن خلف عاصم فقال له " قد أنزل الله فيكم قرآنا ". فدعا بهما فتقدما فتلاعنا، ثم قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله، إن أمسكتها. ففارقها ولم يأمره النبي صلى الله عليه وسلم بفراقها، فجرت السنة في المتلاعنين. وقال النبي صلى الله عليه وسلم " انظروها فإن جاءت به أحمر قصيرا مثل وحرة فلا أراه إلا قد كذب، وإن جاءت به أسحم أعين ذا أليتين فلا أحسب إلا قد صدق عليها ". فجاءت به على الأمر المكروه.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے کہا، ہم سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے اور اسے قتل کر دے، کیا آپ لوگ مقتول کے بدلہ میں اسے قتل کر دیں گے؟ عاصم! میرے لیے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متلعق پوچھ دیجئیے۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لیکن آپ نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا اور معیوب جانا۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر انہیں بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا ہے۔ اس پر عویمر رضی اللہ عنہ بولے کہ واللہ! میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا خیر عویمر آپ کے پاس آئے اور عاصم کے لوٹ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے، پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ دونوں آگے بڑھے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اسے اب بھی اپنے پاس رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں چنانچہ اس نے فوری اپنی بیوی کو جدا کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھتے رہو اس کا بچہ لال لال پست قد بامنی کی طرح کا پیدا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ عویمر ہی کا بچہ ہے۔ عویمر نے عورت پر جھوٹا طوفان باندھا اور اور اگر سانولے رنگ کا بڑی آنکھ والا بڑے بڑے چوتڑ والا پیدا ہو، جب میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے پھر اس عورت کا بچہ اس مکروہ صورت کا یعنی جس مرد سے وہ بدنام ہوئی تھی، اسی صورت کا پیدا ہوا۔
حدیث نمبر: 7305
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني مالك بن أوس النصري، وكان، محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذكرا من ذلك فدخلت على مالك فسألته فقال انطلقت حتى أدخل على عمر أتاه حاجبه يرفا فقال هل لك في عثمان وعبد الرحمن والزبير وسعد يستأذنون. قال نعم. فدخلوا فسلموا وجلسوا. فقال هل لك في علي وعباس. فأذن لهما. قال العباس يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين الظالم. استبا. فقال الرهط عثمان وأصحابه يا أمير المؤمنين اقض بينهما وأرح أحدهما من الآخر. فقال اتئدوا أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " لا نورث ما تركنا صدقة ". يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه. قال الرهط قد قال ذلك. فأقبل عمر على علي وعباس فقال أنشدكما بالله هل تعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك. قالا نعم. قال عمر فإني محدثكم عن هذا الأمر، إن الله كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا المال بشىء لم يعطه أحدا غيره، فإن الله يقول { ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم} الآية، فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم ولا استأثر بها عليكم، وقد أعطاكموها وبثها فيكم، حتى بقي منها هذا المال، وكان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق على أهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل النبي صلى الله عليه وسلم بذلك حياته، أنشدكم بالله هل تعلمون ذلك فقالوا نعم. ثم قال لعلي وعباس أنشدكما الله هل تعلمان ذلك قالا نعم. ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضها أبو بكر فعمل فيها بما عمل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنتما حينئذ ـ وأقبل على علي وعباس ـ تزعمان أن أبا بكر فيها كذا، والله يعلم أنه فيها صادق بار راشد تابع للحق، ثم توفى الله أبا بكر فقلت أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر. فقبضتها سنتين أعمل فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، ثم جئتماني وكلمتكما على كلمة واحدة وأمركما جميع، جئتني تسألني نصيبك من ابن أخيك، وأتاني هذا يسألني نصيب امرأته من أبيها فقلت إن شئتما دفعتها إليكما، على أن عليكما عهد الله وميثاقه تعملان فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل فيها أبو بكر وبما عملت فيها منذ وليتها، وإلا فلا تكلماني فيها. فقلتما ادفعها إلينا بذلك. فدفعتها إليكما بذلك، أنشدكم بالله هل دفعتها إليهما بذلك قال الرهط نعم. فأقبل على علي وعباس فقال أنشدكما بالله هل دفعتها إليكما بذلك. قالا نعم. قال أفتلتمسان مني قضاء غير ذلك فوالذي بإذنه تقوم السماء والأرض لا أقضي فيها قضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنها فادفعاها إلى، فأنا أكفيكماها.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر میں مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ سب لوگ اندر آ گئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آکرپوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کردیئجے تاکہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا، پھر آپ علی اور عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم (الآیہ) تو یہ مال خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا، پھر واللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لوگوں کو نظرانداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد بنایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا ‘ یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے ‘ پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا ‘ میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اس میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے۔ آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں خطاکار ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائیداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ‘ پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا۔ کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ!) آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے آئے اور یہ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائیداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائیداد کر دیں۔ چنانچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائیداد کر دی تھی۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہا ں ‘ پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے جائیداد آپ لوگووں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے کہا ‘ کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں ‘ اس میں ‘ اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کر سکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کر لوں گا۔
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ صحیح بخاری