و علیکم السلام
جی بھائی صحیح کہا آپ نے اور پھر کچھ اہل حدیث کی طرف سے بھی ایسا طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے جو مناسب نہیں
اس مسئلہ دلیل کا ہے ۔ دلیل سے صابت کیا جائے کی سلام کرنا جائز ہے یا نہیں۔
جو شخص بدعت مکفر میں مقتلا ہو اسے سلام کر جائز نہیں ہے۔
بدعت کبریٰ والے بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے۔
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا فلاں آدمی آپ کو سلام کہتا ہے تو انہوں نے فرمایا مجھے پتا چلا ہے کہ وہ بدعتی ہو گیا ہے پس اگر وہ بدعتی ہو گیا ہے تو اسے میرا سلام نہ کہنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے میری امت میں خسف(زمین میں دھنس جانا)یا مسخ (شکلوں کا مسخ ہونا)یا قذف(پتھروں کا برسنا)ہو گا اور یہ سب باتیں قدریہ کے بارے میں ہوں گی۔ (ترمذی (۲۱۵۲)ابن ماجہ ۴۰۶۱)
امام احمد رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا میرا ہمسایہ رافضی ہے، کیا میں اسے سلام کہہ سکتا ہوں ؟آپ نے فرمایا :نہیں ،اگر وہ سلام کہے اسے جواب نہ دیا جائے ۔‘‘ (السنۃ للخلال:ج۱:ص:۴۹۴)
مام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
إذا كان جهمياً، أو قدرياً، أو رافضياً داعية، فلا يُصلى عليه، ولا يُسلم عليه.
'
'اگر جہمی، قدری اور رافضی(شیعی) بلانے والا ہو تو اسے نہ سلام کیا جائے اور نہ اس کی نمازہ جنازہ پڑھی جائے۔'' (کتاب السنة، للخلال، اثر روایت نمبر: 785)
3- امام بخاری رحمہ اللہ:
ما أبالي صليت خلف الجهمي والرافضي، أم صليت خلف اليهود والنصارى، لا يُسلم عليهم، ولا يُعادون ولا يُناكحون، ولا يشهدون، ولا تُؤكل ذبائحهم.
''میرے نزدیک جہمی اور رافضی(شیعی) کے پیچھے نماز پڑھنے اور یہود ونصاری کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہیں۔
ان جہمیوں اور رافضیوں(شیعوں) کو نہ سلام کیا جائے، نہ ان سے ملا جائے، نہ ان سے نکاح کیا جائے، نہ ان کی گواہی قبول کی جائے اور نہ ان کے ہاتھوں سے ذبح شدہ جانوروں کا گوشت کھایا جائے۔'' (كتاب خلق افعال العباد، از امام بخاری: صفحہ 125)
بدعت مکفر کی تفصیل
وہ کفریہ بدعت جو لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کے مدلول ہی سے براہ راست متصادم ہو ۔یہ وہ مسائل ہیں جن کو مسلمانوں کے عوام اور علماء سب جانتے ہیں یہ شریعت کے بنیادی عقائد ہیں۔امت کا ان مسائل میں اجماع ہو چکا اس لیے ان بنیادی امور میں تاویل یا غلط مبحث کا کوئی امکان نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف قطعاً قابل برداشت نہیں کیونکہ اس سے دین کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ امور قطعی طور پر ثابت ہیں اس لیئے انہیں قطعیات کہتے ہیں علماء اسلام کا ان پر اتفاق ہے اور یہ تواتر عملی سے امت کے اندر رائج ہیں۔اس لیئے ان کو صرف اور صرف تسلیم کر لینا ہی واجب ہے ۔یہ قطعیات عقائد اور فروع دونوں میں پائے جاتے ہیں ان میں اجتہاد ،رائے یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ شریعت کے وہ عظیم الشان قواعد ہیں جو اٹل ہیں۔جو شخص ان کے تسلیم کرنے میں ہی تردد کرے یا ان کے معاملے کو مشکوک ٹھہرائے وہ ملت اسلامیہ سے خارج یعنی مرتد ہو گا۔اس کو لاعلمی ،جہالت ،شبہ یا تاویل کا عذر نہیں دیا جائے گا۔ان کفریہ بدعات کے حاملین کے بہت سے رخ ہیں کہیں یہ کلمہ پڑھ کر کیمونسٹ‘ سوشلسٹ اور ان سیکولر لوگوں کی شکل میں ہیں جو انسانوں کے بنائے ہوئے نظام جمہوریت اور سوشلزم کو اللہ کے دین سے بہتر سمجھتے ہوئے لوگوں کو زبردستی اس کا پابند بناتے ہیں اور اسلامی احکامات کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے ۔ اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق چور،زانی اور قاتل کی سزائوں کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں۔ اورکہیں ان نام نہاد مسلمانوں کی شکل میں ہیں جو اللہ کے تمام اسماء و صفات کا بغیر کسی تاویل کے انکار کرتے ہیں اور ایمان کو صرف معرفت سے تعبیر کرتے ہیں ان کو غلاۃ الجہمیہ کہا جاتا ہے اورکہیں ان صوفیاء کی شکل میں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر عقیدہ وحدۃ الوجود (ماہیت کے اعتبار سے کائنات عین وجود باری تعالیٰ ہے)کے مبلغ ہیں اور شریعت کو طریقت سے الگ سمجھتے ہیں اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے نور کا حصہ اور مشکل کشا مانتے ہیں ،اپنی مشکلات میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدناعلی، حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو پکارتے ہیں‘ غیر اللہ کو مختار کل جان کر اپنی مشکلات کے حل کے لیے قبروں پرسجدہ کرتے ہیں، اور کہیں یہ احمدیوں کی شکل میں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو رسول کہتے ہیں اور کہیں یہ اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطا‘ مامور من اللہ اور ان کی اطاعت کو واجب قرار دینے اورامامت کو نبوت سے افضل قرار دیتے ہوئے 12 اماموں کی عصمت کا اعتقاد رکھنے ،قرآن کو بدلی ہوئی کتاب ماننے اورصحابہ کو کافر کہنے والے رافضیوں کی شکل میں ہیں ۔
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بالخصوص عصر حاضر میں اسلام کا نام استعمال کرنے اور اس کے پردے میں کفر کی نشرو اشاعت کرنے والے باطل فرقوں کا یہی حکم ہے ۔جیسے البابیہ،بہایہ،قادیانیت، اشتراکیت،سوشلزم ،علمانیت،قومیت، استشراق،وحدۃ الوجود،حلول و اتحاد،مادیت پرستی،روشن خیالی،وحدت ادیان،برابری کی بنیاد پر مکالمہ بین المذاہب وغیرہ۔یہ اہل بدعت نام کی حد تک بدعتی ہیں ، اصلاً یہ سب کفر کی شکلیں ہیں۔جیسے نفاق اور کفر میں صرف لفظی فرق ہے ،اصل میں دونوں ایک ہی ہیں۔ان تمام بدعتوں کے دُعاۃ شر کھلے بندوں ہر قسم کے ذرائع ابلاغ میں کفر کی نشر واشاعت میں مصروف عمل ہیں ۔ بدعت کی اس نوع کے کفر اور اس کے مرتکبین کے کفار ہونے میں کسی تردد کی ضرورت نہیں ہے ۔ اہل ِ ایمان کو ان کے فریب سے نکالنا، سازشوں سے آگاہ رکھنا، ان کا حکم بیان کرنا، ممکن ہوتو انہیں نصیحت کرنا اور حق کی دعوت دینا، استطاعت ہو تو ان سے بحث کرکے حق واضح کرنا،بصورت دیگر ان سے مکمل قطع تعلقی اور اظہار بیزاری حضرات محدثین کا عقائدی منہج ہے، جس کی پیروی ان کی جماعت اہل الحدیث والسنہ کا فرض منصبی ہے ۔‘‘(مقالات تربیت،ص:۱۰۹)
شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:’’ کافر و مشرک سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو مسلمان ہونے کے دعویدار تو ہیں لیکن کسی ایسے کام کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا کفر و شرک علمائِ امت کے نزد یک متفق علیہ ہے ۔ جیسے غیر اللہ کو سجدہ کرنا، دین کی بنیادی باتوں کا انکار کرنا ، اللہ اور اس کے رسول یا اسلام کا مذاق اڑانا۔ بشرطیکہ وہ خود با خبر ہوں یا ان پر حجت قائم ہو چکی ہو۔‘‘(وفاداری یا بیزاری،ص30)
سعودی عرب کی اللّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء (جس کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ تھے)کے چند فتوے ملاحظہ فرمائیں:
’’جو شخص نماز پڑھے ،روزے رکھے اور ارکان اسلام پر عمل کرے مگر اس کے ساتھ وہ مُردوں، غیر حاضر بزرگوں اور فرشتوں وغیرہ کو مدد کے لیے پکارے، وہ مشرک ہے اور اگر وہ نصیحت کو قبول نہ کرے اور مرتے دم تک اس عقیدے پر رہے تو اُسکی موت شرک پرہے۔ اس کا شرک ’’شرک اکبر‘‘ ہے جو اسے اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ اُسے نہ تو مرنے کے بعد غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا اور نہ اس کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے گی اور نہ ہی اس کی اولاد ،والدین اور بھائی، اگر مو ّحدین ہوں، اُس کے وارث ہوں گے۔‘‘ [فتوی نمبر6972]
’’جو شخص اللہ کی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے پس وہ مسلم و مومن ہے۔ اور جو شرکیہ اقوال یا شرکیہ افعال کرتا ہے جو کلمہ کے منافی ہیں پس وہ کافر ہے اگرچہ کلمہ پڑھے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ جیسا کہ مُردوں کو مشکلات میں پکارتا ہے، ان کی تعظیم میں قربانی کرنا ہے ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ ‘‘[فتوی نمبر10685، فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش]