• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی اہل حدیث کو سلام کرنا کیسا ہے ؟؟ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کسی بریلوی یا کسی اہل حدیث کو سلام کرنا کیسا ہے اور اگر وہ سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے یا گناہ ہے یا کفرہے؟

Feb 20,2015
Answer: 57916
Fatwa ID: 257-222/Sn=4/1436-U


سلام میں ایک پہلو تعظیم کا بھی ہے، بریلوی اور غیرمقلدین لوگ اپنی بدعت اور گمراہی کی وجہ سے اہل حق کی طرف سے تعظیم کے مستحق نہیں ہیں؛ اس لیے انھیں سلام کرنا فی نفسہ مکروہ ہے، باقی اگر کسی بریلوی یا غیر مقلد شخص کے ساتھ ملنے جلنے یا رشتے داری کا تعلق ہو یا انہیں سلام نہ کرنے سے فتنے کا ا ندیشہ ہو یا ان لوگوں تک حق بات پہنچانے میں رکاوٹ پیش آسکتا ہو تو پھر انھیں سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ بہ طور تعظیم انہیں سلام کرنے میں بہل نہ کرنا چاہیے؛ لیکن اگر یہ لوگ سلام کریں تو جواب دینا بہرحال ضروری ہے

وفي فصول العلامي :

ولا یسلم علی الشیخ المازح الکذاب․․․ ولا علی الفاسق المعلن الخ (شامي: ۹/۵۹۱) وفیہ ص: ۵۹۰․․․ لأن النہي عن السّلام لتوقیرہ ولا توقیر إذا کان السّلام لحاجة، وفي رد المحتار (۲/۳۷۶ ط: زکریا) وینبغي وجوب الردّ علی الفاسق: لأن کراہة السّلام علیہ للزجر فلا تنافی الوجوب علیہ تأمل (۲/۳۷۶، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا) وراجع ”أحسن الفتاوی“ تحت عنوان ”بدعتی اور فاسق کو سلام کہنا“ (۸/۱۳۵، ط: زکریا، دیوبند)

واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=57916&limit=1&idxpg=0&qry=<c>FAB</c><s>ISS</s><l>ur</l>
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کسی بریلوی یا کسی اہل حدیث کو سلام کرنا کیسا ہے اور اگر وہ سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے یا گناہ ہے یا کفرہے؟

Feb 20,2015
Answer: 57916
Fatwa ID: 257-222/Sn=4/1436-U


سلام میں ایک پہلو تعظیم کا بھی ہے، بریلوی اور غیرمقلدین لوگ اپنی بدعت اور گمراہی کی وجہ سے اہل حق کی طرف سے تعظیم کے مستحق نہیں ہیں؛ اس لیے انھیں سلام کرنا فی نفسہ مکروہ ہے، باقی اگر کسی بریلوی یا غیر مقلد شخص کے ساتھ ملنے جلنے یا رشتے داری کا تعلق ہو یا انہیں سلام نہ کرنے سے فتنے کا ا ندیشہ ہو یا ان لوگوں تک حق بات پہنچانے میں رکاوٹ پیش آسکتا ہو تو پھر انھیں سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ بہ طور تعظیم انہیں سلام کرنے میں بہل نہ کرنا چاہیے؛ لیکن اگر یہ لوگ سلام کریں تو جواب دینا بہرحال ضروری ہے

وفي فصول العلامي :

ولا یسلم علی الشیخ المازح الکذاب․․․ ولا علی الفاسق المعلن الخ (شامي: ۹/۵۹۱) وفیہ ص: ۵۹۰․․․ لأن النہي عن السّلام لتوقیرہ ولا توقیر إذا کان السّلام لحاجة، وفي رد المحتار (۲/۳۷۶ ط: زکریا) وینبغي وجوب الردّ علی الفاسق: لأن کراہة السّلام علیہ للزجر فلا تنافی الوجوب علیہ تأمل (۲/۳۷۶، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا) وراجع ”أحسن الفتاوی“ تحت عنوان ”بدعتی اور فاسق کو سلام کہنا“ (۸/۱۳۵، ط: زکریا، دیوبند)

واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=57916&limit=1&idxpg=0&qry=<c>FAB</c><s>ISS</s><l>ur</l>
@ابو حمزہ
@اشماریہ
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
@ابن قدامہ
آپ خود ہمیں السلام کرنا اور اس کا جواب دینا جائز نہیں سمجھتے یہ پھر بھی جواب دینا ضروری خیال کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

میرہ خیال ہے کہ ہر مسلمان کو السلام کرنا چاہئے دیوبندی ، اہل حدیث یا بریلوی
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@ابو حمزہ بھائی! یقین کریں آپ نے مجھے دلی سکون فراہم کیا ہے!
یہ ہے حق بات! اللہ ہم سب کو حق بات قبول کرنے اور بیان کرنے کی توفیق دے!
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
بہت عرصہ قبل ایک جاننے والے نے بتایا تھا کہ ان کا سامنا ایک دیوبندی تنظیم کے رکن سے ہوا، سلام کیا اور مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ میں غیر مقلدوں کو سلام کرتا ہوں نہ مصافحہ کرتا ہوں۔ یہ تعصب ایسے ہی فتاویٰ کی پیداوار ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
السلام علیکم،
بہت عرصہ قبل ایک جاننے والے نے بتایا تھا کہ ان کا سامنا ایک دیوبندی تنظیم کے رکن سے ہوا، سلام کیا اور مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ میں غیر مقلدوں کو سلام کرتا ہوں نہ مصافحہ کرتا ہوں۔ یہ تعصب ایسے ہی فتاویٰ کی پیداوار ہے۔
و علیکم السلام
جی بھائی صحیح کہا آپ نے اور پھر کچھ اہل حدیث کی طرف سے بھی ایسا طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے جو مناسب نہیں
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
تا حال اس دھاگہ کو 60 ویوز مل چکے ہیں۔ قبل ازیں مجھے اس فتویٰ کا علم نہیں تھا۔ اب ہوگیا ہے کہ دیوبندی، اہل حدیث سے کتنی ”نفرت“ کرتے ہیں کہ انہیں سلام کرنا یا سلام کا جواب دین بھی ”جائز“ نہیں سمجھتے۔ اب اہل حدیث کا دیوبندیوں سے ”اظہار نفرت“ کا ”جواز“ بھی سمجھ میں آنے لگا ہے۔

اور یہ سب ”اس قسم“ کے تھریڈز کا ”نتیجہ“ ہے کہ ہم نفرت کو اتنا فروغ دیں کہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں۔ صرف اور صرف حق کی تلقین کہیں بہت پیچھے رہ جائے اور سارے مسالک ایک دوسرے کو کافر اور جہنمی قرار دیکر ان کے گلے کاٹنے لگیں، جیسا کہ میڈیا اور سوشیل میڈیا کی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعہ ہمیں ”سکھلایا“ جارہا ہے کہ فلاں مسلک ولے فلاں مسلک کے لوگوں کا گلہ کاٹ رہے ہیں۔ یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ یہ سب کچھ اغیار کے ڈائریکٹ کئے گئے ڈراموں کا حصہ ہے۔

اللہ امت مسلمہ کو عقل سلیم عطا کرے اور باہمی نفرت کے کاروبار سے محفوظ رکھے۔ آمین
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
و علیکم السلام
جی بھائی صحیح کہا آپ نے اور پھر کچھ اہل حدیث کی طرف سے بھی ایسا طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے جو مناسب نہیں
اس مسئلہ دلیل کا ہے ۔ دلیل سے صابت کیا جائے کی سلام کرنا جائز ہے یا نہیں۔
جو شخص بدعت مکفر میں مقتلا ہو اسے سلام کر جائز نہیں ہے۔

بدعت کبریٰ والے بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے۔
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا فلاں آدمی آپ کو سلام کہتا ہے تو انہوں نے فرمایا مجھے پتا چلا ہے کہ وہ بدعتی ہو گیا ہے پس اگر وہ بدعتی ہو گیا ہے تو اسے میرا سلام نہ کہنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے میری امت میں خسف(زمین میں دھنس جانا)یا مسخ (شکلوں کا مسخ ہونا)یا قذف(پتھروں کا برسنا)ہو گا اور یہ سب باتیں قدریہ کے بارے میں ہوں گی۔ (ترمذی (۲۱۵۲)ابن ماجہ ۴۰۶۱)
امام احمد رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا میرا ہمسایہ رافضی ہے، کیا میں اسے سلام کہہ سکتا ہوں ؟آپ نے فرمایا :نہیں ،اگر وہ سلام کہے اسے جواب نہ دیا جائے ۔‘‘ (السنۃ للخلال:ج۱:ص:۴۹۴)
مام احمد رحمہ اللہ نے کہا:

إذا كان جهمياً، أو قدرياً، أو رافضياً داعية، فلا يُصلى عليه، ولا يُسلم عليه.

''اگر جہمی، قدری اور رافضی(شیعی) بلانے والا ہو تو اسے نہ سلام کیا جائے اور نہ اس کی نمازہ جنازہ پڑھی جائے۔'' (کتاب السنة، للخلال، اثر روایت نمبر: 785)

3- امام بخاری رحمہ اللہ:

ما أبالي صليت خلف الجهمي والرافضي، أم صليت خلف اليهود والنصارى، لا يُسلم عليهم، ولا يُعادون ولا يُناكحون، ولا يشهدون، ولا تُؤكل ذبائحهم.

''میرے نزدیک جہمی اور رافضی(شیعی) کے پیچھے نماز پڑھنے اور یہود ونصاری کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہیں۔ ان جہمیوں اور رافضیوں(شیعوں) کو نہ سلام کیا جائے، نہ ان سے ملا جائے، نہ ان سے نکاح کیا جائے، نہ ان کی گواہی قبول کی جائے اور نہ ان کے ہاتھوں سے ذبح شدہ جانوروں کا گوشت کھایا جائے۔'' (كتاب خلق افعال العباد، از امام بخاری: صفحہ 125)
بدعت مکفر کی تفصیل

وہ کفریہ بدعت جو لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کے مدلول ہی سے براہ راست متصادم ہو ۔یہ وہ مسائل ہیں جن کو مسلمانوں کے عوام اور علماء سب جانتے ہیں یہ شریعت کے بنیادی عقائد ہیں۔امت کا ان مسائل میں اجماع ہو چکا اس لیے ان بنیادی امور میں تاویل یا غلط مبحث کا کوئی امکان نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف قطعاً قابل برداشت نہیں کیونکہ اس سے دین کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ امور قطعی طور پر ثابت ہیں اس لیئے انہیں قطعیات کہتے ہیں علماء اسلام کا ان پر اتفاق ہے اور یہ تواتر عملی سے امت کے اندر رائج ہیں۔اس لیئے ان کو صرف اور صرف تسلیم کر لینا ہی واجب ہے ۔یہ قطعیات عقائد اور فروع دونوں میں پائے جاتے ہیں ان میں اجتہاد ،رائے یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ شریعت کے وہ عظیم الشان قواعد ہیں جو اٹل ہیں۔جو شخص ان کے تسلیم کرنے میں ہی تردد کرے یا ان کے معاملے کو مشکوک ٹھہرائے وہ ملت اسلامیہ سے خارج یعنی مرتد ہو گا۔اس کو لاعلمی ،جہالت ،شبہ یا تاویل کا عذر نہیں دیا جائے گا۔ان کفریہ بدعات کے حاملین کے بہت سے رخ ہیں کہیں یہ کلمہ پڑھ کر کیمونسٹ‘ سوشلسٹ اور ان سیکولر لوگوں کی شکل میں ہیں جو انسانوں کے بنائے ہوئے نظام جمہوریت اور سوشلزم کو اللہ کے دین سے بہتر سمجھتے ہوئے لوگوں کو زبردستی اس کا پابند بناتے ہیں اور اسلامی احکامات کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے ۔ اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق چور،زانی اور قاتل کی سزائوں کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں۔ اورکہیں ان نام نہاد مسلمانوں کی شکل میں ہیں جو اللہ کے تمام اسماء و صفات کا بغیر کسی تاویل کے انکار کرتے ہیں اور ایمان کو صرف معرفت سے تعبیر کرتے ہیں ان کو غلاۃ الجہمیہ کہا جاتا ہے اورکہیں ان صوفیاء کی شکل میں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر عقیدہ وحدۃ الوجود (ماہیت کے اعتبار سے کائنات عین وجود باری تعالیٰ ہے)کے مبلغ ہیں اور شریعت کو طریقت سے الگ سمجھتے ہیں اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے نور کا حصہ اور مشکل کشا مانتے ہیں ،اپنی مشکلات میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدناعلی، حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو پکارتے ہیں‘ غیر اللہ کو مختار کل جان کر اپنی مشکلات کے حل کے لیے قبروں پرسجدہ کرتے ہیں، اور کہیں یہ احمدیوں کی شکل میں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو رسول کہتے ہیں اور کہیں یہ اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطا‘ مامور من اللہ اور ان کی اطاعت کو واجب قرار دینے اورامامت کو نبوت سے افضل قرار دیتے ہوئے 12 اماموں کی عصمت کا اعتقاد رکھنے ،قرآن کو بدلی ہوئی کتاب ماننے اورصحابہ کو کافر کہنے والے رافضیوں کی شکل میں ہیں ۔
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بالخصوص عصر حاضر میں اسلام کا نام استعمال کرنے اور اس کے پردے میں کفر کی نشرو اشاعت کرنے والے باطل فرقوں کا یہی حکم ہے ۔جیسے البابیہ،بہایہ،قادیانیت، اشتراکیت،سوشلزم ،علمانیت،قومیت، استشراق،وحدۃ الوجود،حلول و اتحاد،مادیت پرستی،روشن خیالی،وحدت ادیان،برابری کی بنیاد پر مکالمہ بین المذاہب وغیرہ۔یہ اہل بدعت نام کی حد تک بدعتی ہیں ، اصلاً یہ سب کفر کی شکلیں ہیں۔جیسے نفاق اور کفر میں صرف لفظی فرق ہے ،اصل میں دونوں ایک ہی ہیں۔ان تمام بدعتوں کے دُعاۃ شر کھلے بندوں ہر قسم کے ذرائع ابلاغ میں کفر کی نشر واشاعت میں مصروف عمل ہیں ۔ بدعت کی اس نوع کے کفر اور اس کے مرتکبین کے کفار ہونے میں کسی تردد کی ضرورت نہیں ہے ۔ اہل ِ ایمان کو ان کے فریب سے نکالنا، سازشوں سے آگاہ رکھنا، ان کا حکم بیان کرنا، ممکن ہوتو انہیں نصیحت کرنا اور حق کی دعوت دینا، استطاعت ہو تو ان سے بحث کرکے حق واضح کرنا،بصورت دیگر ان سے مکمل قطع تعلقی اور اظہار بیزاری حضرات محدثین کا عقائدی منہج ہے، جس کی پیروی ان کی جماعت اہل الحدیث والسنہ کا فرض منصبی ہے ۔‘‘(مقالات تربیت،ص:۱۰۹)
شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:’’ کافر و مشرک سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو مسلمان ہونے کے دعویدار تو ہیں لیکن کسی ایسے کام کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا کفر و شرک علمائِ امت کے نزد یک متفق علیہ ہے ۔ جیسے غیر اللہ کو سجدہ کرنا، دین کی بنیادی باتوں کا انکار کرنا ، اللہ اور اس کے رسول یا اسلام کا مذاق اڑانا۔ بشرطیکہ وہ خود با خبر ہوں یا ان پر حجت قائم ہو چکی ہو۔‘‘(وفاداری یا بیزاری،ص30)
سعودی عرب کی اللّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء (جس کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ تھے)کے چند فتوے ملاحظہ فرمائیں:
’’جو شخص نماز پڑھے ،روزے رکھے اور ارکان اسلام پر عمل کرے مگر اس کے ساتھ وہ مُردوں، غیر حاضر بزرگوں اور فرشتوں وغیرہ کو مدد کے لیے پکارے، وہ مشرک ہے اور اگر وہ نصیحت کو قبول نہ کرے اور مرتے دم تک اس عقیدے پر رہے تو اُسکی موت شرک پرہے۔ اس کا شرک ’’شرک اکبر‘‘ ہے جو اسے اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ اُسے نہ تو مرنے کے بعد غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا اور نہ اس کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے گی اور نہ ہی اس کی اولاد ،والدین اور بھائی، اگر مو ّحدین ہوں، اُس کے وارث ہوں گے۔‘‘ [فتوی نمبر6972]
’’جو شخص اللہ کی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے پس وہ مسلم و مومن ہے۔ اور جو شرکیہ اقوال یا شرکیہ افعال کرتا ہے جو کلمہ کے منافی ہیں پس وہ کافر ہے اگرچہ کلمہ پڑھے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ جیسا کہ مُردوں کو مشکلات میں پکارتا ہے، ان کی تعظیم میں قربانی کرنا ہے ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ ‘‘[فتوی نمبر10685، فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش]
 
Last edited:
Top