ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو
نجانے مالک کو کون سی ادا پسند آجائے
1 ۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ رَجُلا مَاتَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا عَمِلْتَ؟ (فَإِمَّا ذَكَرَ أَوْ ذُكِّرَ) قَالَ: إِنِّي كُنْتُ أَتَجَوَّزُ فِي السِّكَّةِ وَالنَّقْدِ، وَأُنْظِرُ الْمُعْسِرَ، فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ >.
قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: أَنَا قَدْ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۷ (۲۰۷۷)، الاستقراض ۵ (۲۳۹۱)، الأنبیاء ۵۴ (۳۴۵۱)، الرقاق ۲۵ (۶۴۸۰)، م/المساقاۃ ۶ (۱۵۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۱۰)، وقد أخرجہ: ن/الجنائز ۱۱۷ (۲۰۸۲)، ت/البیوع ۶۷ (۱۳۰۷)، حم (۵/۳۹۵، ۳۹۹)، دي/البیوع ۱۴ (۲۵۸۸) (صحیح)
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں
کہ ایک شخص مر گیا تو اس سے پوچھا گیا: تم نے کیا عمل کیا ہے؟
تو اس کو یا تو یاد آیا یا یاد لایا گیا،
اس نے کہا: میں سکہ اور نقد کو کھوٹ کے باوجود لے لیتا تھا،
۱؎ اور تنگ دست کو مہلت دیا کرتا تھا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا ۔
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کوئی کھوٹا سکہ یا نقدی دیتا تو بھی میں اسے قبول کر لیتا تھا۔
سنن ابن ماجہ > امانت کا بیان > باب: محتاج قرض دار کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دینے کا بیان
2 ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میں نے جنت میں ایک آدمی کو چلتے پھرتے دیکھا،اس نے اس درخت کو کاٹ دیا تھا جو راستے کے درمیان تھا
اور مسلمانوں کو تکلیف دیتا تھا(یعنی اسکے اس عمل کو قبول کرلیا گیا تھا)
رواہ مسلم،کتاب البر، باب ازالة الاذی عن الطریق
نجانے مالک کو کون سی ادا پسند آجائے
1 ۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ رَجُلا مَاتَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا عَمِلْتَ؟ (فَإِمَّا ذَكَرَ أَوْ ذُكِّرَ) قَالَ: إِنِّي كُنْتُ أَتَجَوَّزُ فِي السِّكَّةِ وَالنَّقْدِ، وَأُنْظِرُ الْمُعْسِرَ، فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ >.
قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: أَنَا قَدْ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۷ (۲۰۷۷)، الاستقراض ۵ (۲۳۹۱)، الأنبیاء ۵۴ (۳۴۵۱)، الرقاق ۲۵ (۶۴۸۰)، م/المساقاۃ ۶ (۱۵۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۱۰)، وقد أخرجہ: ن/الجنائز ۱۱۷ (۲۰۸۲)، ت/البیوع ۶۷ (۱۳۰۷)، حم (۵/۳۹۵، ۳۹۹)، دي/البیوع ۱۴ (۲۵۸۸) (صحیح)
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں
کہ ایک شخص مر گیا تو اس سے پوچھا گیا: تم نے کیا عمل کیا ہے؟
تو اس کو یا تو یاد آیا یا یاد لایا گیا،
اس نے کہا: میں سکہ اور نقد کو کھوٹ کے باوجود لے لیتا تھا،
۱؎ اور تنگ دست کو مہلت دیا کرتا تھا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا ۔
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کوئی کھوٹا سکہ یا نقدی دیتا تو بھی میں اسے قبول کر لیتا تھا۔
سنن ابن ماجہ > امانت کا بیان > باب: محتاج قرض دار کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دینے کا بیان
2 ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میں نے جنت میں ایک آدمی کو چلتے پھرتے دیکھا،اس نے اس درخت کو کاٹ دیا تھا جو راستے کے درمیان تھا
اور مسلمانوں کو تکلیف دیتا تھا(یعنی اسکے اس عمل کو قبول کرلیا گیا تھا)
رواہ مسلم،کتاب البر، باب ازالة الاذی عن الطریق
3 ۔ سیدنا ابوھریرة رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (ایک روز)
نماز فجر کے بعد سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ سے پوچھا
'' اے بلال ! اسلام لانے کے بعد تمہارا وہ کون سا عمل ہے جس پر تمہیں بخشش کی زیادہ امید ہے کیوں کہ آج رات میں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے چلنے کی آواز سنی ہے.''
سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا
'' میں اس سے زیادہ امید افزا عمل تو کوئی نہیں پاتا کہ دن یا رات میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو جتنی اﷲ تعالیٰ کو منظور ہو نماز پڑھ لیتا ہوں.''
(بخاری،1098 و مسلم،2458)
4 ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''ایک دفعہ ایک آدمی کسی راستے پر چل رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اس نے ایک کنواں پایا تو اس نے اس میں اتر کر پانی پیا پھر باہر نکل آیا
تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہاہے۔
پس اس آدمی نے سوچا کہ اس کتے کو بھی ویسے ہی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، پس وہ پھر کنویں میں اترا ، اپنا موزہ پانی سے بھرا،
پھر اسے اپنے منہ میں پکڑ کر اوپر چڑھ آیا اور کتے کو پانی پلایا۔
پس اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کی اور اسے بخش دیا۔
'' صحابہ نے کہا: ''اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم
کیا ہمارے لیے حیوانوں کے بارے میں بھی اجر ہے؟"
آپ لی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر تر جگر والے (یعنی جانور) کے بارے میں اجر ہے۔''
(مفتق علیہ)
اور بخاری کی ایک روایت ہے: ''اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کی، اسے بخش دیا اور جنت میں داخل کردیا۔''
اور بخاری ومسلم کی روایت میں ہے: ''ایک کتا ایک کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا، قریب تھا کہ پیاس اس کی جان لے لیتی کہ اچانک بنی اسرائیل کی فاحشہ عورتوں میں سے ایک فاحشہ نے اسے دیکھا تو اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس کے ذریعے اس کے لیے پانی نکالا اور اسے پلایا تو اس عمل کی وجہ سے اسے بخش دیا گیا۔''
توثیق الحدیث: أخرجه البخاری (05 4۔ا4۔ فتح) و مسلم (2244) الروایة الثانیة عند البخاری (2781۔فتح) والروایة الثالثة عند البخاری (5116۔فتح) و مسلم (2245)(55)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (ایک روز)
نماز فجر کے بعد سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ سے پوچھا
'' اے بلال ! اسلام لانے کے بعد تمہارا وہ کون سا عمل ہے جس پر تمہیں بخشش کی زیادہ امید ہے کیوں کہ آج رات میں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے چلنے کی آواز سنی ہے.''
سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا
'' میں اس سے زیادہ امید افزا عمل تو کوئی نہیں پاتا کہ دن یا رات میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو جتنی اﷲ تعالیٰ کو منظور ہو نماز پڑھ لیتا ہوں.''
(بخاری،1098 و مسلم،2458)
4 ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''ایک دفعہ ایک آدمی کسی راستے پر چل رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اس نے ایک کنواں پایا تو اس نے اس میں اتر کر پانی پیا پھر باہر نکل آیا
تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہاہے۔
پس اس آدمی نے سوچا کہ اس کتے کو بھی ویسے ہی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، پس وہ پھر کنویں میں اترا ، اپنا موزہ پانی سے بھرا،
پھر اسے اپنے منہ میں پکڑ کر اوپر چڑھ آیا اور کتے کو پانی پلایا۔
پس اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کی اور اسے بخش دیا۔
'' صحابہ نے کہا: ''اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم
کیا ہمارے لیے حیوانوں کے بارے میں بھی اجر ہے؟"
آپ لی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر تر جگر والے (یعنی جانور) کے بارے میں اجر ہے۔''
(مفتق علیہ)
اور بخاری کی ایک روایت ہے: ''اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کی، اسے بخش دیا اور جنت میں داخل کردیا۔''
اور بخاری ومسلم کی روایت میں ہے: ''ایک کتا ایک کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا، قریب تھا کہ پیاس اس کی جان لے لیتی کہ اچانک بنی اسرائیل کی فاحشہ عورتوں میں سے ایک فاحشہ نے اسے دیکھا تو اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس کے ذریعے اس کے لیے پانی نکالا اور اسے پلایا تو اس عمل کی وجہ سے اسے بخش دیا گیا۔''
توثیق الحدیث: أخرجه البخاری (05 4۔ا4۔ فتح) و مسلم (2244) الروایة الثانیة عند البخاری (2781۔فتح) والروایة الثالثة عند البخاری (5116۔فتح) و مسلم (2245)(55)