• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی کا راز فاش کرنا!

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
اسلام علیکم شیخ،
سوال ہے کہ، اگر کوئی مسلم اپنے مسلم بھائی میں کوئی غلط چیز دیکھتا ہے اور نبی کی حدیث کو ذہن میں رکھتے ہوئے اللہ سے یہ وعدہ کرتا کے کہ وہ اس کا راز راز ہی رکھے گا۔ لیکن بعد میں اگر دوسرا مسلم اس سے اس شخص کے بارے میں پوچھتا ہے تا کہ اس سے اپنی بہن یا بیٹی کا رشتہ کر سکے، تو کیا اس کے پوچھنے پر اسے اس کا راز کھول دینا چاہیے تا کہ بیٹی کا باپ رشتہ دینے سے پہلے اس کی اصلیت جان جائے؟

ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ نبی کی حدیث جس میں اپنے بھائی کے راز کو پوشیدہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، اس میں یہ بات کس قسم کے رازوں پر کہی گئی ہے، مثلا اگر کوئی راز ایسا ہے جس کے چھپانے سے وہ شخص دنیاوی یا اخروی نقصان اٹھا سکتا ہے، تو ایسے راز کے بارے میں حکم ہے؟

جزاک اللہ خیرا
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جو صورت حال آپ نے ذکر کی ہے، اس میں ایک مسلمان بھائی کا کسی دوسرے مسلمان کے بارے شادی کے حوالہ سے آپ سے مشورہ طلب کرنا، مسلمان کی خیر خواہی میں داخل ہے لہذا آپ کے لیے انہیں صحیح مشورہ دینا فرض ہے کیونکہ مسلمان کی خیر خواہی میں داخل ہے اور مسلمان کی خیر خواہی واجب ہے۔

باقی اس صورت میں راز افشا کرنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں مقصود اس شخص کی توہین، تذلیل یا تحقیر نہیں ہے بلکہ مقصود ایک دوسرے مسلمان کی مصلحت اور خیر خواہی ہے۔

Share |
السوال : ما هي الحالات التي يجوز فيها الغيبة ؟

الحمد لله
ذكر العلماء أن الغيبة تجوز في حالات :
الأولى : التظلم ، فيجوز للمظلوم أن يتظلم إلى السلطان أو القاضي ، وغيرهما ممن له ولاية أو قدرة على إنصافه من ظالمه .
الثانية : الاستعانة على تغيير المنكر ، ورد العاصي إلى الصواب ، فيقول لمن يرجو قدرته ، فلان يعمل كذا فازجره عنه .
الثالثة : الاستفتاء ، بأن يقول للمفتي ظلمني فلان أو أبي أو أخي بكذا فهل له كذا ؟ وما طريقي للخلاص ، ودفع ظلمه عني ؟
الرابعة : تحذير المسلمين من شره ، كجرح المجروحين من الرواة والشهود والمصنفين ، ومنها : إذا رأيت من يشتري شيئاً معيباً ، أو شخصا يصاحب إنساناً سارقاً أو زانيا أو ينكحه قريبة له ، أو نحو ذلك ، فإنك تذكر لهم ذلك على وجه النصيحة ، لا بقصد الإيذاء والإفساد .
الخامسة : أن يكون مجاهراً بفسقه أو بدعته ، كشرب الخمر ومصادرة أموال الناس ، فيجوز ذكره بما يجاهر به ، ولا يجوز بغيره إلا بسبب آخر .
السادسة : التعريف ، فإذا كان معروفاً بلقب : كالأعشى أو الأعمى أو الأعور أو الأعرج جاز تعريفه به ، ويحرم ذكره به على سبيل التنقيص ، ولو أمكن التعريف بغيره كان أولى .
وقد جاء في "فتاوى اللجنة الدائمة للإفتاء" (26/20) : " وتجوز الغيبة في مواضع معدودة دلت عليها الأدلة الشرعية إذا دعت الحاجة إلى ذلك ، كأن يستشيرك أحد في تزويجه أو مشاركته أو يشتكيه أحد إلى السلطان لكف ظلمه والأخذ على يده - فلا بأس بذكره حينئذ بما يكره ؛ لأجل المصلحة الراجحة في ذلك ، وقد جمع بعضهم المواضع التي تجوز فيها الغيبة في بيتين ، فقال :
الذم ليس بغيبة في ستة ... متظلم ومُعرِّف ومحذر
ولمظهر فسقا ومستفت ومَنْ ... طلب الإعانة في إزالة منكر" انتهى بتصرف .
والله أعلم
الإسلام سؤال وجواب
 
Top