• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی کو اعلانیہ برا کہنا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
کسی کو اعلانیہ برا کہنا

سورۃ النساء میں فرمانِ ربِ کریم ہے:
{لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا} [نساء:۱۴۸]
''برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے مگر مظلوم کو اجازت ہے۔''
شرح...: اس سے مراد کسی کو بددعا دینا اور لوگوں کے سامنے اسے گالی گلوچ کرنا ہے۔
ہاں! مظلوم ظالم کا ظلم بیان کرنے کی اجازت رکھتا ہے لیکن یہ بددعا نہیں کر سکتا بلکہ یوں کہے: اے میرے پروردگار! اس کے خلاف میری مدد فرما، میرا حق اس سے نکلوا، اے رب کائنات! میرے حق اور ظالم کے مابین آپ خود اتر آئیے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا قول ہے: مظلوم ظالم کے لیے بددعا کر سکتا ہے لیکن اگر صبر کرے تو یہ بہت عمدہ اور بہتر ہے۔
آیت کا ظاہر تقاضا کرتا ہے کہ مظلوم اپنے اوپر ظلم کے بقدر ظالم سے بدلہ لے سکتا ہے لیکن یہ بات ملحوظ رکھے کہ اگر ظالم مومن ہے تو مناسب طریقہ اور میانہ روی سے بدلہ لے اور اگر تہمت کا مقابلہ تہمت سے کرے تو یہ ناجائز ہے۔ اگر زیادتی کرنے والا کافر ہے تو اسے اپنی زبان کو کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے اور ہلاکت وغیرہ اور ہر قسم کی بدد عا اس کے لیے مانگ سکتا ہے۔
اگر انسان کا ضمیر سویا ہوا ہو اور اسے اللہ کا خوف نہیں تو برائی کے ساتھ آواز بلند کرنا چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو، زبان پر نہایت آسان ہوتا ہے۔
اس برائی کی اشاعت معاشرے میں بڑے گہرے اثرات چھوڑتی ہے، نیز لوگوں کے باہمی اعتماد کو بہت زیادہ ٹھیس پہنچاتی ہے، جس کی بناء پر لوگ برائی کو غالب سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ برائی کی شناعت و قباحت ختم ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ پہلی مرتبہ انسان برائی کو بڑی شدت سے قبیح سمجھتا ہے لیکن اگر اس کا وقوع اور تذکرہ بار بار ہوتا رہے تو اس کی قباحت اور اس سے نفرت کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر نفوس اسے بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتے تو اس کا سننا کیا بلکہ دیکھنا بھی انہیں آسان لگتا ہے۔
مذکورہ سب باتیں اس ظلم سے مستزاد ہیں جو ان لوگوں پر ہوتا ہے جن کی نسبت برائی کی تہمت لگائی جاتی ہے اور شہرت کر دی جاتی ہے، حالانکہ وہ ہوتی بری ہے لیکن برائی کی چہ می گوئیاں جب پھیل جائیں اور اسے ظاہر کرنا آسان اور پسندیدہ ہو جائے تو پھر بد انسان کے ساتھ ساتھ نیک انسان پر بھی الزام لگنا شروع ہو جاتے ہیں، نیز اچھا انسان فاجر کے ساتھ ملنا شروع کر دیتا ہے اور اسے بدنامی و تہمت کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔ انفرادی اور اجتماعی احساس جو زبان کو قبیح باتیں کرنے اور برائی پر لوگوں کو قدم اٹھانے سے روکتا ہے برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔
جہر بالسوء (برائی کے ساتھ آواز بلند کرنا) کی ابتدا انفرادی تہمتوں اور گالیوں سے ہوتی ہے اور اس کی انتہا معاشرہ کی تباہی اور اخلاقی انتشار پر ہوتی ہے اور لوگوں کے ایک دوسرے کے لیے انفرادی و اجتماعی پیمانے گم ہو جاتے ہیں، اعتماد اٹھ جاتا ہے، تہمتیں پھیل جاتی ہیں اور بغیر تنگی و تکلیف کے زبانیں انہیں اگلنا شروع کر دیتی ہیں۔ اسی لیے رب کائنات جہر بالسوء کو ناپسند کرتے ہیں، نیز مسلمانوں کے درمیان برائی کی چہ می گوئیوں کو بھی مکروہ سمجھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس قاعدہ سے مظلوم کو مستثنیٰ قرار دیا ہے لہٰذا حدود و قیود میں رہ کر ظالم کے متعلق ایسے برے کلمات بلند کر سکتا ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے آپ سے ظلم کو دور کر سکے۔ اس حالت میں کسی کی برائی کے ساتھ اعلان، ظلم کا بدلہ اور زیادتی کو دور کرنا ہے اور برائی کا برائی سے رد کرنا اور معاشرہ میں ظلم و جور کی تشہیر کرنا ہے تاکہ اہل دنیا مظلوم کو انصاف دلا سکیں اور ظالم کو روک سکیں، نیز یہ وجہ بھی ہے کہ ظالم اپنے انجام سے ڈرے اور ظلم کے تکرار میں اسے سوچنا پڑے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
قانونی اصطلاحات میں اسے سَبُّ و قذف سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّہِ! أَنْصُرُہٗ إِذَا کَانَ مَظْلُومًا أَفَرَأَیْتَ إِذَا کَانَ ظَالِمًا کَیْفَ أَنْصُرُہٗ؟ قَالَ: تَحْجُزْہُ أَوْ تَمْنَعْہٗ مِنَ الظُّلْمِ، فَإِنَّ ذَلِکَ نَصْرُہٗ (أخرجہ البخاري في کتاب الإکراہ، باب: یمین الرجل لصاحبہ؍ حدیث: ۶۹۵۲۔)
''اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، ایک آدمی نے کہا: اگر وہ مظلوم ہو پھر تو میں اس کی مدد کر سکتا ہوں لیکن اگر وہ ظالم ہو تو پھر میں اس کی مدد کیسے کر سکتا ہوں؟ ( تو) فرمایا: اس کو ظلم سے روک دے یہی اس کی مدد ہے۔''
اس وقت برائی کا اظہار محدد المصدر ہو گا یعنی اس کا صدور صرف مظلوم کی طرف سے ہی جائز ہو گا۔ محدد السبب بھی ہو گا یعنی وہی ظلم ہو گا جسے مظلوم بیان کرتا ہے، نیز اس کی نسبت صرف ظالم کی طرف ہو گی۔ چنانچہ اس وقت بھلائی جس کی وجہ سے یہ اظہار متحقق ہوا ہے اسے جائز و درست بنانے والی بن جائے گی کیونکہ ہدف محض عدل و انصاف ثابت کرنا ہے نہ کہ مطلق تشہیر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اس کی مثال درج ذیل حدیث ہے:
وَقَدْ جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم یَشْکُو جَارَہُ، فَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : إِذْہَبْ فَاصْبِرْ فَأَتَاہُ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : إِذْہَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَکَ فِی الطَّرِیقِ، فَطَرَحَ مَتَاعَہُ فِی الطَّرِیقِ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَسْأَلُونَہُ فَیُخْبِرُہُمْ خَبَرَہُ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَلْعَنُوْنَہُ: فَعَلَ اللّٰہُ بِہِ، وَفَعَلَ، وَفَعَلَ، فَجَائَ إِلَیْہِ جَارُہُ فَقَالَ لَہُ: إِرْجِعْ لَا تَرَی مِنِّی شَیْئًا تَکْرَہُہُ (صحیح سنن أبي داود، رقم: ۴۲۹۲۔)
''رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واپس چلا جا اور صبر کر۔ وہ دو یا تین مرتبہ آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اپنا سامان راستے پر رکھو، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا تو لوگ اس سے (وجہ) پوچھنا شروع ہو گئے تو وہ انہیں حقیقت حال بتاتا رہا چنانچہ لوگوں نے اس (ظالم پڑوسی) کو لعن طعن کرنا شروع کر دیا، اللہ اس کے ساتھ یہ کرے اور یہ کرے (وغیرہ) وہ پڑوسی اس (مظلوم) کے پاس آیا اور کہا واپس چلو (آئندہ) تو میری طرف سے ایسی چیز (ہرگز) نہیں دیکھے گا جسے ناپسند کرتے ہو۔''
ایسے ہی اسلام اس کی حرص کو ایسے عدل پر لگا دے گا جس کے ہوتے ہوئے وہ ظلم ایسی قباحت نہیں رکھے گا اور حرص کو ایسے اخلاق پر یکسو کر دے گا جس کے ذریعہ وہ حیائے نفسی اور حیائے اجتماعی مخدوش کرنے کی قوت نہیں رکھے گا۔
لیکن مسلمان کے لیے بہتری صبر کرنے اور برائی و زیادتی سے درگزر کرنے میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر ابھارا، فرمایا:
{إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا}[النساء:۱۴۹]
''اگر تم کسی نیکی کو اعلانیہ کرو یا پوشیدہ یا کسی برائی سے درگزر کرو پس یقینا اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے اور پوری قدرت والے ہیں۔''
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے ہی مذکورہ آدمی کو بار بار یہی کہا کہ واپس چلے جاؤ اور صبر کرو۔
یہ چیز ان اشیاء میں سے ہے جن کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ کا مقرب بنتا ہے اور اس کے ہاں زیادہ ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے کیونکہ رب کعبہ کی صفات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اپنے بندوں کو سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف فرما دیتے ہیں۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top