• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کشف کے زریعے بھی حدیث کو تقویت ملتی ہے۔۔

قیصر عباس

مبتدی
شمولیت
دسمبر 13، 2020
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
12
تحقیق حدیث

حدیث:
• *قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یا ابا بكر لم یعرفنی حقيقة غير ربى*
• ‏ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اے ابوبکر مجھے حقیقی طور پر میرے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا"
• ‏ یہ حدیث اس سے ملتے جلتے کچھ دیگر الفاظ کے ساتھ بھی روایت کی جاتی ہے، مثلا
• ‏ "یا ابا بكر والذي بعثني بالحق لم یعرفنی حقيقة غير ربى"،
• ‏"لا يعرف قدري احد سوى ربي"،
• ‏"لا يعلم قدري إلا ربي"،
• ‏"لا يعرف قدري غير ربي"،
• ‏"لا يعرف قدري إلا ربي" وغیرہ

حواله جات:
[(حجة الله على العالمين صفحہ 42) = (مطالع المسرات صفحہ 108،) = (العمدة في شرح البردة صفحہ 127) = (مجلی الاسرار والحقائق صفحہ 100،) = (المنھل الاصفی فی زیارة المصطفی، صفحہ 129،) = (شموس الانوار و معادن الاسرار، صفحہ 151،) = (الفجر الصادق المشرق المفلق، صفحہ 221،) = (شمائل النبی من ذخيرة المحتاج، صفحہ 84،) = (مدارج السلوك إلى مالك الملوك، صفحہ 290،)]


اسانید:
اس حدیث کی سند پر اطلاع نہ ہو سکی اور نہ ہی اسکے اصل مأخذ تک رسائی ہو سکی، مگر کثیر علماء کرام خصوصا صوفیاء اور صاحب کشف بزرگان دین نے اسے اپنی کتابوں کی رونق بنایا، جن میں کئی محدثین صوفیاء بزرگ بھی ہیں۔
جن بزرگوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، انکے نام مع کتب درج ذیل ہیں۔
1۔ حجة الله على العالمين از شيخ يوسف بن اسماعیل نبهانى المتوفى ١٣٥٠
2۔ الحقيقة المحمديه از علامه يوسف بن اسماعیل نبهانى المتوفى ١٣٥٠
3۔ القول المنجى على مولد البرزنجى از علامه سيد محمد احمد بن محمد بن عليس المتوفى ١٢٩٩
4۔ جواهر البحار از شيخ يوسف بن اسماعیل نبهانى المتوفى ١٣٥٠
5۔ الفجر الصادق المشرق المفلق از شيخ الإسلام ابو المواهب جعفر بن إدريس الكتاني الحسيني المتوفى ١٣٢٣
6۔ محاسن النبي از شيخ سيدى محمد المعطى الشرقاوى المتوفى ١١٨٠ھ
7۔ شمائل النبی من ذخيرة المحتاج از شيخ سيدى محمد المعطى الشرقاوىالمتوفى ١١٨٠ھ
8۔ المنح الوهبية از امام حافظ ابو عبدالله محمد بن محمد الحجوجي المتوفى ١٣٧٠
9۔ العطايا الإلهية السرمدية از عبد السلام العمراني الخالدى
10۔ كشف الاسرار لصلاة سيد الأبرار از شيخ عمر بن طه العطار المتوفى ١٣٠٧
11۔ الالهامات السنية از شيخ مصطفى بن محي الدين نجا البيروتى المتوفى ١٣٥٠
12۔ الشرف الامجد از شيخ أحمد فريد المزيدي
13۔ مواكب ربيع از شيخ الإسلام شهاب الدين احمد بن أحمد الحلواني المتوفى ١٣٠٨
14۔ الجوهر النفيس از شيخ خليل الهجرسي المتوفى ١٣٢٨
15۔ حل الأقفال از سيدي احمد التجانى المتوفى ١٢٢٤
16۔ شموس الانوار و معادن الاسرار از عارف بالله سيدي محمد المرون
17۔ مدارج السلوك إلى مالك الملوك از مولانا ابو بکر بن محمد بناني المتوفى ١٢٨٤
18۔ العمدة في شرح البردة از سيدى احمد بن محمد بن عجيبة الحسنى المتوفى ١٢٢٤
19۔ خبيئة الكون از حجة الإسلام محمد بن عبد الكبير الكتاني الحسيني المتوفى ١٣٢٧
20۔ فتاوی رضویہ از الشيخ المجدد امام احمد رضا خان البريلوي الهندى المتوفى ١٣٤٠
21۔ خطبات کاظمی از الشيخ سید احمد سعید کاظمی
22۔ حقیقت نور محمدى از علامه سيد محمد مدنى میاں اشرفي الجيلاني

اقوال المحققین:
عامة المحدثين متقدمین ہوں یا متاخرین انہوں نے اس حدیث کے بارے میں اپنی کتب میں کوئی کلام ذکر نہ کیا۔
البتہ مذکورہ بالا کتب میں سے بعض کے عرب محققین نے اس پر مختصر کلام کیا۔ الفجر الصادق المشرق المفلق کے محقق عدنان بن عبداللہ زھار نے اس کی تحقیق میں لکھا:
"لم اقف علیہ" یعنی میں اس پر مطلع نہیں ہو سکا۔
اور المنھل الاصفی فی زیارة المصطفى کے محقق شیخ احمد
فرید المزیدی اس کے تحت لکھتے ہیں:
"ذكره السادة الصوفية في كثير من كتبهم، مثل الشيخ أحمد الحلواني في "مواكب ربيع" (ص55) وهو مما صح عند ارباب الكشف." یعنی بڑے بڑے صوفیاء نے اسے اپنی کثیر کتابوں میں ذکر کیا، مثلا شیخ احمد الحلواني نے مواكب ربيع میں اسے نقل کیا۔ اور یہ ان احادیث میں سے ہے جو اصحاب کشف کے نزدیک صحیح ہے۔

اسی طرح حل الأقفال کے محقق احمد فرید المزیدی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
"ونحوه أيضا: "لا يعرف قدري احد سوى ربي" وكلاهما حديث كشفي. ترجمہ: اور اسی کی طرح یہ حدیث"لا يعرف قدري سوى ربي" یعنی "میری قدر سوائے رب کے کوئی نہیں جانتا" بھی ہے اور یہ دونوں کشفی حدیثیں ہیں۔

( حل الأقفال از سيدي احمد التجانى المتوفى ١٢٢٤ صفحه 143، مطبوعہ دار الكتب العلمیہ، بيروت)

اور خبيئة الكون کے محقق الشریف محمد حمزہ بن علی الکتانی اس کے تحت لکھتے ہیں:
لم اقف على من خرجه، وقد ذكره السادة الصوفية في كتبهم، ونحوه:""لا يعرف قدري احد سوى ربي". قال جد جدنا الإمام محمد بن جعفر الكتاني في "جلاء القلوب" (167):" وهو حدیث ذكره غير واحد من الصوفية ولم نقف الأن على من خرجه ". قلت: ولاشك ان تعظيم القرآن لقدر النبي في غير ما اية، يدل لهذا المعنى. والله اعلم.

(خبيئة الكون از حجة الإسلام محمد بن عبد الكبير الكتاني الحسيني المتوفى ١٣٢٧، صفحہ 391، مطبوعہ دار الكتب العلمیہ، بیروت)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالٰی نے بھی اسے فتاوی رضویہ میں مطالع المسرات کے حوالے سے نقل کیا فرماتے ہیں:
"حدیث میں ہے: حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
‏یا ابابکر لم یعلمنی حقیقۃ غیر ربی۔ ‏ذکرہ العلامۃ الفاسی فی مطالع المسرات
"اے ابوبکر! مجھے ٹھیک ٹھاک جیسا میں ہوں میرے رب کے سوا کسی نے نہ پہچانا"۔ اس کو علامہ فاسی نے مطالع المسرات میں ذکر فرمایا ہے"۔

( فتاوی رضویہ، جلد 30، صفحہ254، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اور غزالی زماں سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالٰی نے بھی اسے خطبات کاظمی میں نقل کیا، فرماتے ہیں:
رب کائنات کے سوا آپﷺ کی حقیقت سے دوسرا کوئی واقف نہیں۔ حتیٰ کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسے ہمدم دیرینہ خلوت اور جلوت کے ساتھ زندگی کے ہر راستے کے ہمراہی سے ارشاد ہوتا ہے:
یا ابابکر لم یعرفنی حقیقۃ غیر ربی
اے ابوبکر! میرے صبح و شام لیل و نہار تم پر آشکار ہیں۔ میرا مزاج میری سیرت و کردار میری عادات و اطوار میری پسند نا پسند کا معیار تمہارے سامنے ہے۔ میری زندگی کا ہر لمحہ کھلی کتاب کی طرح ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم میری حقیقت سے بھی واقف ہوگئے ہو، نہیں’’میری حقیقت کو میرے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔
( خطبات کاظمی، حصہ سوم،)
خطبات کاظمی کا ویب سائٹ لنک ،
(http://www.kazmis.com/khutbat3/Khutbat3-9.html)

اور اس حدیث کو نقل کرنے والوں میں سے جن تک رسائی ہو سکی، ان میں سب سے پہلے علامہ شيخ سيدى محمد المعطى الشرقاوى المالکی المتوفى ١١٨٠ھ ہیں جنہوں نے اسے اپنی کتاب "شمائل النبی من ذخيرة المحتاج" میں درج کیا ہے۔

کئی محققین نے اس حدیث کے کشفی ہونے کی صراحت کی ہے اور اتنے سارے صوفیاء بزرگ حضرات کا اس حدیث کو نقل کرنا بھی اس کے کشفی حدیث ہونے پر دال ہے۔

اور کشفی حدیث باب فضائل میں کثیر علماء کے نزدیک حجت ہے اور کشف کے ذریعے حدیث ضعیف درجہ صحت تک بھی پہنچ جاتی ہے، مگر صوفیاء نے کشف کے ذریعے کسی حدیث پر صحت یا تضعیف کا حکم لگانے میں کئی شرائط و قواعد کا بھی معیار رکھا ہے، اس لئیے ان قواعد پر اترنے والی احادیث پر صوفیاء حکم بھی لگاتے ہیں۔ اور بہت سارے علماء بھی اسی کے قائل ہیں۔

اعلی حضرت بحوالہ امام شعرانی میزان شریف میں اپنے شیخ سیدی علی خواص قدس سرہ العزیز سے نقل فرماتے ہیں : کمایقال عن جمیع مارواہ المحدثون بالسند الصحیح المتصل ینتھی سندہ الی حضرت الحق جل وعلا فکذٰلک یقال فیما نقلہ اھل الکشف الصحیح من علم الحقیقۃ ۱؎۔

جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ محدثین نے سند صحیح متصل سے روایت کیا اس کی سند حضرت الٰہی عزوجل تک پہنچتی ہے یونہی جو کچھ علم حقیقت سے صحیح کشف والوں نے نقل فرمایا اُس کے حق میں یہی کہا جائےگا۔

[ فتاوی رضویہ،جلد نمبر 5،صفحہ 491، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن]

اور اس باب میں تفصیلی کلام کرنے والوں میں امام المکاشفین محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ کا نام سرفہرست ہے، جنھیں اس طریقہ منہج تحکیم کا بانی بھی کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا، اگرچہ سلف صالحین سے بھی ایسے واقعات منقول ہیں مگر ابن عربی رحمہ اللہ نے ہی اولا اس کی کانٹ چھانٹ اور اصول بیان کئیے۔
ابن عربی کے بعد بھی اس منہج پر آج تک خصوصا صوفیاء اور غیر صوفیاء محدثین و فقہاء بزرگ بشمول علماء مذاھب اربعہ بھی چلے آ رہے ہیں۔
جیسا کہ ابن رجب حنبلی المتوفی 895ھ ، الشيخ اسماعیل الجبرتی المتوفی 823ھ ، امام شعرانی 973ھ ، الشيخ عبدالعزیز الدباغ 1131ھ ، الشيخ ابراہیم الباجوری المتوفی 1277ھ ، الشيخ محمد بن عبد الکبیر الکتانی المتوفی 1327ھ ، والشیخ العجلونی المتوفی 1162ھ، و الطبرانى والسخاوي والنووي والشيخ الإسلام ابن حجر الهيثمي وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

ترکی کے جامعہ اینونو سے چھپنے والی کتاب *مؤتمر ابن العربي الدولي البحث عن الحقيقة وابن العربي* کی فصل قبول الحديث وردہ عند ابن عربی: التصحيح بالكشف ومنزلته من نظرية اإلسناد میں سے چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں،

قال الحافظ السيوطي المتوفى[ 911ھ] الذي نقل عنه الشعرانی قوله: "اجتمعت برسول اللہ إلی وقتی هذا خمسا
وسبعين مرة يقظة ومشافهة، وإنى رجل من خدام حديثه، وأحتاج إليه في تصحيح الأحاديث التي ضعفها المحدثون من طريقهم"
[سعادة الدارين، صفحة 402، ملتقطا]

ويقول العجلوني في مقدمة كتابه "كشف الخفاء" على سبيل الإقرار: (والحكم على الحديث بالوضع والصحة أو غيرهما ، إنما بحسب الظاهرِ للمحدثين ، باعتبار الإسناد أو غيره ، لا باعتبار نفس الأمرِ والقطع، لجواز أن يكون الصحيح مثلاً باعتبار نظر المحدث: موضوعاً أو ضعيفاً في نفس الأمر، وبالعكس. نعم المتواتر مطلقاً قطعي النسبة لرسول الله صلى الله عليه وسلم اتفاقاً.
‏ ومع كون الحديث يحتمل ذلك، فيعمل بمقتضى ما يثبت عند المحدثين، ويترتب عليه الحكم الشرعي المستفاد منه للمستنبطين. وفي "الفتوحات المكية" للشيخ الأكبر قدس سره الأنور ، ما حاصله: فرب حديث يكون صحيحاً من طريق رواته يحصل لهذا المكاشف أنه غير صحيح لسؤاله لرسول الله صلى الله عليه وسلم فيعَلم وضعه، ويترك العمل به وإن عمل به أهل النقل لصحة طريقه. ورب حديثٍ ترِك العمل به لضعف طريقه، من أجل وضاع في رواته، يكون صحيحاً في نفس الأمر، لسماعِ المكاشف له من الروح حين إلقائه على رسول الله صلى الله عليه وسلم)) انتهى.
[كشف الخفاء، صفحة، 1/10]

ومن الأحاديث التي زعم الصوفية تصحيحها بالكشف حديث "أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم". فقد قال الشعراني : ((وهذا الحديث وإن كان فيه مقال عند المحدثين فهو صحيح عند أهل الكشف)).
[الميزان الكبرى، صفحة 1/30]

ويقول الباجوري في شرحة على الجوهرة: ((ولعل هذا الحديث "حديث إحياء والدي النبي صلى الله عليه وسلم وإيمانهما ثم موتهما" صح عند أهل الحقيقة بطريق الكشف.
[شرح الجوهرة صفحة،30]
الکل من مؤتمر،

(مؤتمر ابن العربي الدولي البحث عن الحقيقة وابن العربي، صفحہ 345، 346، مطبوعہ دار جامعہ اینونو للنشر، ترکی ملتقطا)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالٰی اپنا عندیہ ارشاد فرماتے ہیں:

اقول (احادیث اولیائے کرام کے متعلق نفیس فائدہ) یہی وجہ ہے کہ بہت احادیث جنہیں محدثین کرام اپنے طور پر ضعیف ونامعتبر ٹھہرا چکے علمائے قلب، عرفائے رب، ائمہ عارفین، سادات مکاشفین قدسنا اللہ تعالٰی باسرارہم الجلیلہ ونور قلوبنا بانوارہم الجمیلہ انہیں مقبول ومعتمد بناتے اور بصیغ جزم وقطع حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت فرماتے اور ان کے علاوہ بہت وہ احادیث تازہ لاتے جنہیں علما اپنے زبر ودفاتر میں کہیں نہ پاتے، اُن کے یہ علوم الٰہیہ بہت ظاہر بینوں کو نفع دینا درکنار اُلٹے باعث طعن ووقعیت وجرح واہانت ہوجاتے،حالانکہ العظمۃللہ وعباداللہ ان طاعنین سے بدرجہا اتقی اللہ واعلم باللہ واشد توقیافی القول عن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

(حالانکہ وہ ان طعن کرنے والوں سے زیادہ اللہ تعالٰی سے خوف رکھنے والے، اللہ تعالٰی کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والے، سرورِ دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنے میں بہت احتیاط کرنے والے تھے۔ ت)

اور آپ مزید بحوالہ کشف الغمہ نقل فرماتے ہیں۔

کشف الغمہ عن جمیع الاُمہ میں ارشاد فرمایا:

کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول من صلی علی طھر قلبہ من النفاق، کمایطھر الثوب بالمائ، وکان صلی اللّٰہ تعالٰی یقول من قال صلی اللّٰہ علی محمد فقد فتح علی نفسہ سبعین بابا من الرحمۃ، والقی اللّٰہ مجلتہ فی قلوب الناس فلایبغضہ الامن فی قلبہ نفاق، قال شیخنا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ھذا الحدیث والذی قبلہ رویناھما عن بعض العارفین عن الخضر علیہ الصلاۃ والسلام عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وھما عندنا صحیحان فی اعلٰی درجات الصحۃ وان لم یثبتھما المحدثون علی مقتضی اصطلاحھم۔
ترجمہ:
حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے جو مجھ پر درود بھیجے اس کا دل نفاق سے ایسا پاک ہوجائے جیسے کپڑا پانی سے، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے جو کہے ''صلی اللّٰہ علٰی محمد'' اس نے ستّر 70 دروازے رحمت کے اپنے اوپر کھول لیے، اللہ عزوجل اُس کی محبّت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا کہ اُس نے بغض نہ رکھے گا مگر وہ جس کے دل میں نفاق ہوگا۔ ہمارے شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہ حدیث اور اس سے پہلی ہم نے بعض اولیاء سے روایت کی ہیں انہوں نے سیدنا خضر علیہ الصلاۃ والسلام، اُنہوں نے حضور پُرنور سید الانام علیہ افضل الصّلاۃ واکمل السلام سے یہ دونوں حدیثیں ہمارے نزدیک اعلٰی درجہ کی صحیح ہیں اگرچہ محدثین اپنی اصطلاح کی بنا پر اُنہیں ثابت نہ کہیں۔

[ فتاوی رضویہ،جلد نمبر 5،صفحہ 491،92، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن]

مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ معتمد صوفیاء کرام کی منقولہ احادیث جنہیں جزم کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، محض بےسند کہہ کر رد نہیں کی جا سکتیں، خصوصا جب وہ اہل کشف میں سے ہوں اور اس حدیث کی اصل دین میں موجود ہو، اس کا معنی و مفہوم دیگر ذرائع سے ثابت ہو، اور وہ حدیث کسی مسلم دینی اصول یا ضابطہ کے خلاف نہ ہوں اور باب فضائل میں سے ہوں، دریں حال کہ اسے نقل کرنے والے کثیر علماء کرام بھی ہوں۔

واللہ اعلم بالصواب۔

از قلم قیصر عباس
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1180 ھجری سے پہلے کن بنیادوں پر احادیث نبوی کو جانچا پرکھا جاتا رھا؟ صحیح البخاری اور صحیح المسلم کی قدر اور منزلت کیا ھے؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ومن الأحاديث التي زعم الصوفية تصحيحها بالكشف حديث "أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم". فقد قال الشعراني : ((وهذا الحديث وإن كان فيه مقال عند المحدثين فهو صحيح عند أهل الكشف)).
[الميزان الكبرى، صفحة 1/30]

اس فقرہ کا اردو ترجمہ پیش کریں ، نوازش
 
Top