- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@خضر حیات بھائی! ایک عدد خوردبین عنایت فرمائیں!
مسکراہٹیں ۔
اب دیکھیں ۔
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@خضر حیات بھائی! ایک عدد خوردبین عنایت فرمائیں!
یہی تو غریب کا استحصال ھے، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے ھمیشہ مزدور کے حقوق کا استحصال ھی کیا ھے،،،، اور یہ سپلائی کمپنیز بھی اسی ڈگر پر ھیں اور مزدور کے استحقاقات کی پامالی کرتی ھیںاگر آپ ضرورت مند ہیں تو کسی بھی کام پر آپکے کام کرنے کی شرائط نہیں ہوتی بلکہ آپ کو کام دینے والے کی شرائط ہوتی ہیں اگر آپ اس پر راضی ہیں تو کام کریں نہیں تو گھر بیٹھے رہیں یا اپنا کوئی کاروبار کر لیں۔
و علیکم السلام و رحمۃاللہالسلام علیکم
بھائی میرے اگر کبھی پردیس جانا ہوا اور وہاں شیئرنگ میں رہنے کا اتفاق بھی ہوا تو تب آپ جان جائیں گے کہ سپلائی کمپنیوں سے بہت سے مجبور جنہیں کوئی کام نہیں دیتا انہیں یہاں کام مل جاتا ھے۔ میں جانتا ہوں آپ کو مزید لکھنے سے بھی سمجھ نہیں آئے گی کیونکہ آپ ان باتوں سے ناواقف ہیں، پھر بھی ٹرائی کر کے دیکھ لیتے ہیں۔
گلف کے کسی بھی ملک میں مزدور جائیں تو اس پر حکومت کی طرف سے ایک ایگریمنٹ بنتا ھے جس پر مزدور کی تنخواہ نیشنل ریٹ 700 ریال، دو سال بعد ٹکٹ، رہائش، ٹرانسپورٹ درج ہوتی ھے۔ اس پر جو لوگ کمپنیوں کے ویزوں پر جاتے ہیں انہیں اسی طرح تمام حقوق ملتے ہیں۔
جو لوگ ادھر ادھر کا ویزہ لے کر جاتے ہیں ایگریمنٹ ان کا بھی بنتا ھے مگر جو اپنے بھائی یا دوست کے لئے ویزہ خریدتا ھے اسے پہلے بتا دیا جاتا ھے کہ کام نہیں ھے صرف ویزہ ھے، اب وہ مزدور جب وہاں جاتا ھے تو اسے کام خود سے تلاش کرنا پڑتا ھے، وہ مزدور ہے ھے جو پاکستان سے گیا ھے اور کچھ نہیں جانتا۔ اسے اگر سپلائی کمپنی سے جاب ملتی ھے تو اس کو 700 ریال سے زیادہ تنخواہ بھی ملتی ھے کیونکہ جس کمپنی کو سپلائی کی جا رہی ھے اس کمپنی پر منحصر ھے کہ وہ کتنی بڑی ھے۔ تنخواہ اسے سپلائی کمپنی سے ہی ملے گی اور اگر کام دل لگا کے کرتے رہیں تو جو کمپنی سپلائی پر لے رہی ھے وہ اسے پرمننٹ اپنا ویزہ بھی دے دیتی ہیں۔
اب بتائیں مزدور کے ساتھ زیادتی کہاں ھوئی
والسلام
میرا مؤقف یہ ھے کہ،
مڈل مین نے جس مزدور کو سہولت کاری فراہم کی ھے وہ اس کے عوض اپنی کمیشن لے اور سائیڈ پر ھو جائے، اور مزدور کی روزانہ کی اجرت میں حصہ داری پر نظر نہ رکھے، کیونکہ ایسا کرنا مزدور کی حق تلفی ھو گی، جو محنت وہ کرتا ھے اسکی اجرت میں سے محض اس وجہ سے مستقل حصہ لیئے جانا کہ سہولت کاری فراہم کی تھی،
اس کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں، جہاں تک میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں اوورسیز والے ایک بھاری رقم لیتے ہیں جس کے بعد ان کا تعلق ختم ہو جاتا ھے۔ بندہ بیرون ملک گیا پھر وہ بندہ جانے اور کمپنی، جس پر اوورسیز والے ایک دھوکہ دیتے ہیں اپنی رقم زیادہ بٹورنے کے لئے انہیں غلط بتاتے ہیں کہ وہاں آپ کو اتنی تنخواہ ملے گی مگر جب بندہ وہاں جاتا ھے تو مزید مشکلات میں گر جاتا ھے۔ھمارے یہاں پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ موجود ھیں کہ جو ویزہ پراسس کروا کر دیتے ھیں اور مزدور کی مزدوری اگر پندرہ سو ریال طے پاتی ھے توھر ماہ وہ پانچ سو ریال اپنی جیب ڈالتے ھیں اور مزدور کو ایک ہزار ریال دیتے ھیں،
پورٹر اور لوڈر کہاں کے، ائرپورٹ کے! تو انہیں تنخواہ بھی ملتی ھے اور وہ ٹپ لئے بغیر جان بھی نہیں چھوڑتے۔مقامی سطح پر بھی معاملات اس حد تک پہنچ چکے ھیں کہ پورٹر اور لوڈر کا سخت ترین کام کرنے والے مزدوروں سے انکے سہولت کار مستقل حصہ وصول کرتے ھیں، جو کہ محنت کرنے والے مزدور سے زیادتی ھے
خبریں پیسٹ کرنے سے آپ وہاں کے حالات پر تبصرہ نہیں کر سکتے مگر معلومات ضرور حاصل کر سکتے ہیں چلیں ایسے ہی سہی۔ حکومت تو یہ بھی کہتی ھے کہ ہم ویزہ مفت میں جاری کرتے ہیں آپ کفیل کو پیسے نہ دیں اگر کفیل پیسے مانگے تو پولیس کو اطلاع کریں، مگر ایسا کیسے ہو سکتا ھے کہ ایک بندہ اتنے ریال دے کر ویزہ لے اور پھر رپورٹ بھی کرے جس پر اسے وہی خارج الدولہ ہو گا، تو کفیل نہ تو دوست ھے اور نہ ہی انکل، جو اپنی جاب سے اٹھ کر لیبر کورٹ ویزہ اپروول کے لئے دھکے کھائے اور پھر جوازات وغیرہ میں۔ جس نے بھی اپنا وقت ضائع کرنا ھے تو اس نے اس پر فیس لینی ھے۔ نقل کفالہ اتنا آساں ہوتا تو اخبار میں لکھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔ یہ مسئلہ بہت طویل ھے یہیں تک آپ کے لئے کافی ھے اب اگر آپ کو کچھ جاننا ہوا تو پوچھیں اس کا جواب دیں گے ورنہ آپ کا جو دل کرے لکھتے رہیں۔ایک خبر،
http://mbdinnews.com/20911
سعودی وزارت محنت نے سعودی عرب میں کام کرنیوالے تمام کارکنان سے کہا ہے کہ وہ استحصال پسندوں کفیلوں کو کسی بھی حالت میں کوئی رقم بالکل نہ دیں۔ وزارت محنت نے اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ سعودی عرب میں کام کرنیوالے کارکن وطن مخصوص حالات میں سابق کفیل سے رجوع کئے بغیر نقل کفالہ کراسکتے ہیں۔
وزارت محنت کے ایک عہدیدار نے مقامی جریدہ عکاظ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وزارت محنت سعودی عرب میں کام کرنیوالے غیر ملکیوں پر متعدد پابندیاں ختم کرانے جارہی ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے غیر ملکی کارکن کفیل کے دباؤ میں رہ رہے تھے اور اس وجہ سے مشکلات سے دو چار تھے۔ سعودی اموال و مسائل پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سعودی وزارت محنت کے اعلیٰ عہدیدار اس سے پہلے یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ سعودی عرب میں قانونی طور پر کفیل اور مکفول کی اصطلاح ختم کردی گئی ہے اور اسکی جگہ آجر اور اجیر یارب العمل یا عامل کی اصطلاح متعارف کروادی گئی ہے۔
وزارت کے عہدیدار نے کہا کہ کفیل حضرات اپنے مکفول کو دباؤ میں لانے کیلئے پولیس ھروب کی رپورٹ درج کرانے کی دھمکی دیتے تھے۔ یہ ہتھیار اب کفیلوں سے چھین لیا جائیگا، اگر کارکن نئے کفیل کا خط پیش کردے گا تو ایسی صورت میں اسے نقل کفالہ کا موقع دیا جائیگا، اطلاعات یہ ہیں کہ اس سلسلے کی تفصیل معلومات اور وضاحتیں جلد ہی پیش کردی جائینگی
مسکراہٹ ۔بتاخہ کاپی
محترم کنعان صاحب غصے میں نہ آئیں ، سجاد صاحب فورم کے ایک سنجیدہ رکن ہیں ، کاروباری پس منظر رکھتے ہیں ۔السلام علیکم
خبریں پیسٹ کرنے سے آپ وہاں کے حالات پر تبصرہ نہیں کر سکتے مگر معلومات ضرور حاصل کر سکتے ہیں چلیں ایسے ہی سہی۔ حکومت تو یہ بھی کہتی ھے کہ ہم ویزہ مفت میں جاری کرتے ہیں آپ کفیل کو پیسے نہ دیں اگر کفیل پیسے مانگے تو پولیس کو اطلاع کریں، مگر ایسا کیسے ہو سکتا ھے کہ ایک بندہ اتنے ریال دے کر ویزہ لے اور پھر رپورٹ بھی کرے جس پر اسے وہی خارج الدولہ ہو گا، تو کفیل نہ تو دوست ھے اور نہ ہی انکل، جو اپنی جاب سے اٹھ کر لیبر کورٹ ویزہ اپروول کے لئے دھکے کھائے اور پھر جوازات وغیرہ میں۔ جس نے بھی اپنا وقت ضائع کرنا ھے تو اس نے اس پر فیس لینی ھے۔ نقل کفالہ اتنا آساں ہوتا تو اخبار میں لکھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔ یہ مسئلہ بہت طویل ھے یہیں تک آپ کے لئے کافی ھے اب اگر آپ کو کچھ جاننا ہوا تو پوچھیں اس کا جواب دیں گے ورنہ آپ کا جو دل کرے لکھتے رہیں۔
والسلام