• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کلمہ توحید لا الٰہ الا اللہ کی فضیلت و اہمیت

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
کلمہ توحید لا الٰہ الا اللہ کی فضیلت و اہمیت ۲۰۱۱/۱۲/۱۶........ ۱۴۳۳/۱/۱۲

خطیب: ڈاکٹر عبد الرحمٰن السدیس
مترجم: فاروق رفیع​
سب تعریف اللہ کے لئے ہے۔ اے ہمارے پروردگار! ہم تیری تعریف کرتے ہیں، تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں، تیری طرف رجوع کرتے ہیں اور حصول خیر پر تیری انتہائی ثناء بیان کرتے ہیں۔
لک الحمد یا خیر ناصر لدین الھدیٰ ما لاح نجیہ لناظر
لک الحمد ما ھب النسیم من الصبا علی نعم لم یحصھا عدحاصر

اے دین ہدایت کے سب سے زیادہ مددگار تیرے ہی لیے سب تعریف ہے جب تک دیکھنے والوں کے لئے ستارے چمکتے ہیں۔ جب تک نسیم صبا چلتی رہے تمام تعریفیں تجھے ہی سزاوار ہیں۔ ان نعمتوں پر جسے گننے والا حیطہ شمار میں نہیں لا سکتا۔
میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، الوہیت اور توحید کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے آقا و نبی ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جو دعوت توحید دینے میں عملاً و عقیدتاً سب سے فائق ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی پا ک مطاہر آل پر جنہوں نے دین حق کے ذریعے مضبوط رکن اور طاقت ور بندھن کو حاصل کیا اور آپ ﷺ کے صحابہ پر درود و سلام ہو، جنہوں نے کلمہ توحید کے لئے موروثی و غیر موروثی اموال خرچ کیے اور تابعین پر اور ان کے اتباع پر جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے امیدوار اور اس کی وعید سے خائف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر روز قیامت تک مسلسل بے تحاشا سلامتی بھیجے۔
اگر تم باہمی اخوت و اُلفت، عزت و غلبہ اور اللہ تعالیٰ سے ثواب میں گھنے باغات چاہتے ہو تو قول و عمل میں تقویٰ کا التزام کرو، اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ (آل عمران: ۱۰۲)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں اس حال پر موت آئے کہ تم مسلمان ہو۔ ‘‘
شاعر کہتا ہے: خفیہ و علانیہ تقویٰ کا التزام کیجیے۔ یہ جمع خیر کا یقینی مجموعہ ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کرم سے جنتوں میں دائی ٹھکانہ عطا ہو۔
فکری انقلابات، سیاسی اور معاشرتی اور ثقافتی و معلوماتی عروج کے موجودہ تاریک دور میں چیلنجز اور نئے ہجری سال کے بلند اہداف مستقبل میں ان کا عروج، صحیح معلوماتی تصویر اور علاقائی منافع کا حصول صرف اس نعمت عظمٰی ’’کلمہ توحید‘‘ کی بدولت ہی حاصل ہو سکتا ہے جس کے فضائل ِ کمل، دلائل لا تعداد ہیں اور جس نے دنیا سے اندھیرے مٹا کر دنیا کو توحید کی روشنی دی۔ کفر والی اور بت پرستی کے لشکروں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ یہ کرہ ارضی کا عظیم ترین کلمہ ہے، جو کہا گیا ہے اور جس کی سطریں تحریر ہوئی ہیں اور یہ عمدہ ترین عبارت ہے۔
سب علاقوں میں جس سے زبان نطق سے آشنا ہوتی ہیں اور پاکیزہ ترین مقولہ ہے جس سے کالف محظوظ ہوتے ہیں۔
کلمہ توحید عظیم نعمت، بہت بڑا احسان ہے۔ یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے اس نعمت کبریٰ سے نوازتا ہے۔ یہ نعمت عظمٰی، کلمہ توحید، ’’لَا اِلٰہ اِلّا اللّٰہ‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
فَاعْلَمْ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ (محمد: ۱۹) جان لیجیے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
دوسرے مقام پر ارشاد کیا
’’وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیَ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ‘‘ (الانبیاء: ۳۵) ہم نے آپ ﷺ سے قبل جو بھی رسول بھیجا اسے یہی وحی کرتے رہے ہیں کہ میرے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں سو مجھ سے ڈرو۔
مسلمانو!
اگرچہ کلمہ توحید کے تحریراً و اقراراً پر تمام اہل قبلہ متفق ہیں اور ان کے دلوں میں حساًو تذکیراً یہ عقیدہ گھر کر چکا ہے۔ لیکن مسلمانوں کے کئی گروہ اس لقب سے راضی برائے نام مسلمان اور اسلام سے متصنف ہونے کو کافی سمجھتے ہیں۔ جب کہ وہ مضمون توحید سے من جملہ غافل ہے۔ ان کے حواس توحید کی چاشنی سے محروم، جذبات بے خبر اور دل بنجر ہیں۔ سوائے معدودے خیز افراد کے جن پر اللہ تعالیٰ کا کرم و فضل ہے۔
یہ وجہ ہے کہ دنیا میں اس کلمہ طیبہ سے محروم شخص جو دنیاوی مال و جاہ، جلال و جمال، قوت و حشمت اور ذہانت و فراست جیسے عظیم مراتب سے متصف شخص روز قیامت یہ خواہش کرے گا
’’یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا‘‘ (النساء: ۴۰)
کاش! میں مٹی ہوتا۔
کلمہ توحید لا الٰہ الا اللّٰہ کی قیمت کا اندازہ ناممکن ہے اور ہم سبھی اس کی محبت میں گرفتار ہیں: صحیح حدیث میں مروی ہے کہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! مجھے ایسی چیز سکھا جس کے ساتھ میں تیرا ذکر کرو اور تیرے قریب تر ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: موسیٰ! لا الٰہ الّا اللہ کہہ، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے رب! تیرے تمام بندے یہ کلمہ کہتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: موسیٰ! اگر سات آسمان اور میرے سوا ان کے رہائشی اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں ہو اور لا الٰہ اِلّا اللہ، ایک پلڑے میں ہو تو لا الٰہ الا اللّٰہ والا پلڑا جھک جائے گا۔ (اخرجہ الحاکم وابن حبان و صحہ)
اگر مسلمان کلمہ اخلاص، اس کے احکام، اس کے مضامین و اہداف کے تقاضے پورے کریں تو ظالم و سرکش لوگ معصوم لوگوں پر کبھی ظلم نہ ڈھا سکیں اور نہ اعدائے دین ہمارے عزتیں نوچیں۔
مسلمان بھائیو۔
دین قیم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور احسان عظیم ہے۔ اسی وصف کے سبب مومن دیگر مذاہب و ادیان کے پیروکاروں سے ممتاز ہے۔ حالانکہ وجود، عقل اور ان کے معاملے ان میں قدر مشترک ہے۔ لیکن مسلمان، اسلام اور لا الٰہ الا اللہ کی نعمت کے بدولت سروف و عزت کے لحاظ سے منفرد ہے۔ اس نعمت عظمیٰ کی توفیق یہ واجب ہے کہ ہم شکرانے کے طور بارگاہ ایزدی میں سر بسجود ہوں۔
شاعر اس نعمت کو اسی انداز میں پیش کرتا ہے۔
إذا نزل الإسلام ساحۃ معشر تبدَّل فیہ عسرہ أبدا یُسرًا
ھو الأ من والإیمان والنعمۃ التی بھا تسعد الأحیال فی شأنھا طراً

جب اسلام کسی جماعت کے صحن میں اترتا ہے تو اس کی مشکلات ہمیشہ کے لئے آسانی میں بدل جاتی ہیں۔ یہ امن و سلامتی کا دین ہے اور ایسی نعمت ہے، جس کی عظمت کی بدولت بسلوں کی نسلیں سعادت حاصل کرتی ہیں۔
سو جو شخص کلمہ توحید کے مطابق زندگی نہ گزارے وہ در حقیقت مردہ ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
اَوَمَنْ کَانَ مَیْتاً فَاَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُوْرًا یَمْسِنِیْ بِہِ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثْلُہُ فِی الظلمٰت لیس بخارج مّنھا۔ (الأنعام: ۱۲۲)
’’کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے نور بنا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے۔ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے، جو تاریکیوں میں ہے اور ان سے نکل ہی نہیں سکتا۔ ‘‘
جو اس کلمہ سے مانوس نہ ہو وہ یقیناً حیران و سرگرداں رہے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
أَفَمَنْ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَام فَھُوَ عَلَی نُوْرٍ مِنْ رَبِّہِ فَوَیْلٌ لِلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ اُوْلَئِکَ فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ‘‘ (الزمر: ۲۲)
’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھولا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے، پس ہلاکت ان لوگوں کے لئے جن کے دل ذکر الٰہی سے سخت ہو چکے ہیں یہ کھلی گمراہی میں ہیں۔ ‘‘
کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کر کے بہترین سانچے میں نہیں ڈھالا۔ ہمیں وجود دے کر پیدا نہیں کیا، اپنے احسان سے ہمیں روزی مہیا نہیں کی، جب ہم اسے پکارتے ہیں تو وہ ہماری دعا نہیں سنتا، اور ہمیں ہر کرب و مصیبت سے نجات نہیں دیتا؟ فرمان باری تعالیٰ ہے:
اَمَّنْ یجیب المضطر إذا دعاہ ویکشف السوء ویجعلکم خلفاء الارض الٰہ مع اللّٰہ قلیلًا ما تذکرون‘‘ (النمل: ۶۲)
’’بے کس کی پکار کون سنتا ہے جب وہ اسے پکارے اور کون سختی کو دور کرتا اور کون تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، تم کم ہی نصیحت پکڑتے ہو۔ ‘‘
ہر جگہ کے مظلوم و مقہور بھائیو! مسلسل دعا کرو اور زمین و آسمان کے رب سے فریاد رسی کرو کہ وہ تمہیں ہر ظالم، سرکش، مطلق العنان، جابر حاکم سے نجات دے۔
ظالم و جابر حکمرانوں کی ناروا جبر پر شاعر کہتا ہے:
یامن بذرت الکید فی ارض الندی مھلًا فلن تجنی سوی البغضاء
لن یقنع الناس الکذوب بقولہ ولو ارتقیٰ لمنازل الشرفاء

اے نرم زمین میں ظلم بونے والے، باز آجا۔ تو نفرت و بغض کے سووا کچھ نہ چُنے گا۔ بات میں بہت جھوٹا کبھی لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ خواہ وہ معزز لوگوں کے مراتب کو پہنچ جائے۔
ہمارے مرشد و راہنما نبی مکرم ﷺ بدر کے دن قبلہ رو ہو کر اپنے پروردگار کو پکار کر کہتے ہیں۔
اے اللہ: مجھ سے کیا ہوا نصرت کا وعدہ پورا کر، اے اللہ! مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین پر تیری عبادت کبھی نہ ہو گی۔ پھر آپ ﷺ مسلسل مناجات کرتے رہے۔ حتیٰ کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ آئے، انہوں نے آپ ﷺ کو پیچھے سے پکڑا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! تیری اپنے رب سے یہ مناجات کافی ہے۔ وہ ضرور آپ ﷺ سے کیا وعدہ پورا کرے گا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ یوں گویا ہوئے۔
’’اِذَا تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ (الأنفال: ۹)
’’جب تم اپنے رب سے فریاد طلب کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد رسی کی بلاشبہ میں تمہاری یکے بعد دیگرے ایک ہزار فرشتوں سے مدد کرنے والا ہوں۔ ‘‘
شاعر کہتا ہے:
ورسمت للتوحید اکمل صورۃ نفضت عن الأذھان کل غبار
فرجاؤنا ودعاؤنا ویقیننا ولاؤنا للّٰہ الواحد القہار

آپ نے توحید کی کامل ترین صورت میں منظر کشی کی ہے اور آپ ﷺ نے ذہنوں سے بد عقیدگی کا ہر غبار دور کر دیا ہے۔ چنانچہ ہماری امید، دعا، یقین اور اطاعت اللہ واحد القہار سے وابستہ ہے۔
توحید خالص کی ترقی میں انبیاء و رسل علیہم السلام، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، ایوب، یونس، زکریا اور محمد علیہم السلام نے کامل اطاعت کے کئی مدارج طے کیئے اور عقیدہ توحید، دنیا و آخرت کی بھلائی کے لئے اچھے نقش چھوڑتا ہے۔
توحید و سنت کے پیروکارو!
اگرچہ کلمہ توحید بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن عقیدہ توحید اس کی شروط، مقتضیات کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ بالخصوص عملی زندگی کے میدانوں میں، مشکلات و مصائب اور تمام زندگی میں اسے مقصد حیات بنانا تو بہت لازم ہے۔
دین اسلام کا اصل مقصود، بلند ترین ہدف، بلکہ اس کا اصل جوہر اور لب لباب اللہ وحد ہ لا شریک کے لئے عاجزی و انکساری ظاہر کرنا اور اپنے حاجتیں اس کے سامنے پیش کرنا ہیں۔
میرے ہم مسلک عزیزو!
عقیدہ توحید کے طلب گار ہی کامیاب ہیں اور جو توحید کی تلاش اور قبول کرنے سے کوتاہ ہو وہ عاجز و لاچار ہیں اور خود ساختہ اور تصوراتی دین کو بے تابی سے قبول کرتے ہیں۔ خالص توحید کے ساتھ شرک و خرافات کی آمیزش کرتے اور گندے اعتقادات گڈ مڈ کرتے ہیں۔ یاد رکھیے، توحید صرف زباں سے کلمہ کا اقرار اور اسے وظیفہ بنانا ہی نہیں۔ اگرچہ کلمہ توحید کہنے سے کلمہ گو مسلم کی جان، مال اور عزت محفوظ ہو جاتی ہے۔
لیکن دل سے توحید کا اقرار و قبول ایسے ہے، جیسے بدن کے لئے خون، زندوں کے لئے ہوا اور نباتات کے لئے پانی ہے۔ پھر جب عقیدہ توحید قوام میں قرار پکڑتا، روح میں اترتا اور مضبوط ہوتا ہے تو صاحب توحید ببانگ دھل اعلان کرتا ہے کہ اللہ احد الصمد کے سوائے عبادت کا صحیح مستحق کوئی نہیں اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
پھر اس کے اقوال و اعمال اور چلنا پھرنا سارا اللہ رب العالمین کی خاطر ہو جاتا ہے۔ وہ اس آیت کا مصداق بن جاتا ہے۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلَمِیْنَ (الانعام: ۱۶۲-۱۶۳)
’’کہیے، بلاشبہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں یہی حکم دیا گیا ہوں اور میں مطیع لوگوں میں سے پیدا ہوں۔ ‘‘
اور وہ یہ اعلان کرے گا کہ اللہ تعالیٰ الوہیت، ربوبیت، اسماء وصفات اور حاکم مطلق ہونے میں یکتا ہے۔ ان اوصاف کی روح اللہ تعالیٰ کے کامل ترین، محبوب ترین اور مخلوق میں معزز و محترم تریں انبیاء ورسل علیھم السلام میں داخل ہوئی۔ ان پر درود و سلام ہو۔
کیونکہ شریعت اسلامیہ کا اہم مقصد دین کی حفاظت اور مخالفت کے باوجود عقیدہ توحید کا بچاؤ ہے۔ موجودہ دور میں تو عقیدہ و دین کا بچاؤ بہت ضروری ہے کیونکہ اس دور میں عقائد کے مابین شدید کشمکش، گروہوں کی باہمی لڑائیاں اور مذہبی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔
اور جنونیت کے خیمے اور بدعات و خرافات کے سائبان پھیل چکے ہیں۔ لیکن اس حالت میں بھی عقیدہ صحیحہ، سنت نبویہ اور منہج سلف کو مضبوطی سے تھامنے والے اصل دین سے وابستہ ہیں اور اچھا انجام انہی لوگوں کا ہے۔
حاملین کتاب و سنت صبر کا دامن تھامیے، تم جہاں بھی ہو صبر سے کام لو، خوشخبری ہو، نصرت الٰہی کے پھریرے لہرا رہے ہیں اور فتح و نصرت کی خوشخبریوں کی نوید صبح و شام سنائی دے رہی ہے اور اس کے روشن شواہد رسالت کے گہوارے میں نمایاں ہیں۔ اور عقیدہ و دین حنیف کا مستقر اور سنت کا مرکز مملکت سعودی عرب اس کا واضح نمونہ اور ایمان، عقیدہ، امن و سلامتی اور معاشی خوشحالی کے اعتبار سے بہترین مثال ہے۔ یہ تمام آسائشیں اللہ تعالیٰ کی توفیق، پھر عقیدہ کی دوستی، منہج کی صحت، عدل و قضاء کے قیام اور شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی بدولت ہے۔
اس مملکت، اس کے عقیدہ و منہج اور حکام و علماء کے خلاف جو پیش پیش لوگ، ان کے بارے باطل چیزوں کو پھیلانے، ان کی بے اعتدالیوں کو نشر کرنے والے، ان کے عقیدہ، اور افکار و تصورات کے متعلق بد زبانی کرنے والے اپنے عزائم و مقاصد میں ہمیشہ ناکام رہے اور تباہی و ہلاکت ان کا مقدر ٹھہری۔
اہل اسلام:
باوجود اس کے کہ امت اسلامیہ اس مبارک زمیں کے بارے حال ہی میں ناگوار وقوعہ کے صدمے سے گزر رہی ہے، جس نے مسلمانوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے لیکن اس حادثے کی لپٹ سے ہم نیک فال محسوس کر رہے ہیں کہ آئندہ سال ہمارے منہج میں مزید نکھار آئے گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وعد اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنّھم فی الأرض کما استخلف الّذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضٰی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم أمنا یعبدوننی لا یشرکون بی شیأ ومن کفر بعد ذلک فاولئک ھم الفاسقون (النور: ۵۵)
’’اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ وہ انہیں ضرور زمین کا خلیفہ بنائے گا جیسے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے دین میں ضروری مضبوطی دے گا، جسے اس کے لئے پسند کیا اور ان کے لئے انہیں خوف کے بعد امن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جس نے اس کے بعد کفر کیا، یہی لوگ فاسق ہیں۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ میرے لئے اور آپ کے لئے قرآن و سنت کو مبارک بنائے اور اس کی حکمت بھری آیات ہمارے لئے نفع مند بنائے۔ میں اپنی بات تمام کرتا ہوں اور اللہ عزوجل سے اپنے لیے ، تمہارے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے تمام گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔ تم بھی اس سے معافی مانگو اور توبہ کرو بلاشبہ وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ

اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کی بدولت تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لائق ہیں۔ جو ہمیشہ سے فیاض ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ایسی گواہی دیتا ہوں جس کی تابانی ہر چیز کو روشن کر دے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی مکرم محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ جنہوں نے خلوص دل سے دعوت و اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔ اے اللہ! آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی اولاد پر، صحابہ و تابعین پر درود و سلام بھیج اور برکات نازل فرما، جنہوں نے دن رات توحید کا پیغام پھیلایا اور زمیں کے تمام کناروں تک یہ پیغام پہنچایا۔
حمد و ثناء کے بعد!
خفیہ و علانیہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اس نے تمہیں دینِ حنیف کی توفیق بخشی اس پر اس کی تعریف کرو، دین حنیف میں ظاہری و باطنی بدعات گڈ مڈ کرنے سے احتراز کرو، اور یہ اعتقاد رکھو کہ سب سے سچی بات کتاب اللہ ہے، نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہدایت سب سے بہترین ہے اور بد ترین امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
عاقل و دانا شخص جو امت مسلمہ کی عظمت و سر بلندی کا خواہاں ہے۔ وہ شخص ہے جو ان جدید حادثات کا دین کے اصولوں کی روشنی میں حل تلاش کرے۔ جو موجودہ چیلنجز کا توڑ اور اختلافات کا حل ہو۔ ہم امت مسلمہ کو جو شدید مصائب کا شکار ہے، کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہی دیتے ہیں کہ دشمنوں سے زیادہ خود ہی اپنی سنگینیوں میں شدت پیدا نہ کرے۔
موجود حالات میں اہل توحید، علماء و صلحاء، منہج حق کے پیروکاروں اور قائدین و سیاستدانوں کی مسئولیت و ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ عقیدہ توحید کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈوں سے اقوام و ملل کو نکالیں، اور دین حنیف کے خلاف یلغار کو روکیں۔ اور امت کی اصلاح، اتحاد و یگانگت قائم کرنے کے لئے توحید و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں، اور یہ چیزیں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے ہی سے حاصل ہو سکتیں ہیں: فرمان باری تعالیٰ ہے:
واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعاً ولا تفرقوا (آل عمران: ۱۰۳) ۔’’اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ ‘‘
فرزندانِ اسلام! اللہ کی رسی (دیں) کو مضبوطی سے پکڑنے کا وقت آن پہنچا ہے کہ ہم صحیح طور اسلام کا پرچم لہرائیں اور بالعزم عظمت و رفعت کی حدود کی حفاظت کریں۔
اللہ تعالیٰ اسی صورت ہی امت سے مصائب دور کرنے اور نصرت کا وعدہ پورا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون۔ (الانعام: ۸۲)
’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو شرک سے آلود نہ کیا، انہیں کے لئے امن ہے اور ہمیں لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ‘‘
مخلوق کی پاکیزہ ترین ہستی پر درود و سلام بھیجو، جو سخت اندھیروں میں چودھویں کا چاند بنا کر بھیجے گے۔ جنہوں نے توحید و سنت کا پرچم بلند کیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی شان و عظمت میں یہ ارشاد کرتے ہیں:
ان اللّٰہ وملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین اٰمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما (الأحزاب: ۵۶)
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر رحمتیں بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجو۔
محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ہیں اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی آل اور سادات و اکابر صحابہ کرام جو ابد الآباد معزز و محترم ہیں۔ اے اللہ، بہترین مددگار! سب تعریف تیرے ہی لائق ہے۔
أما بعد، فیا عباد اللّٰہ:
اتقوا اللّٰہ فی السرِّ والعلَن، واحمَدوہ علی ما شرعَ لکم من التوحیدِ وسنَّ، واحذَروا شوبَہ بما ظھرَ من البدع وما بطَن، واعلمُوا أن أصدقَ الحدیثِ کتاب اللّٰہ، وخیرَ الھدیِ ھدیُ محمدٍ - ﷺ-، وشرَّ الأمور مُحدثاتُہا، وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ۔
اُمۃ التوحید والسنۃ:
إن المُتأمِّل البصیر الذی یرومُ عِزَّۃَ أمتہ ھو من یستنطِقُ الحادِثات المُستجِدَّات فی ضوءِ أصولھا الکُلِّیات تجاوُزًا للتحدیات، وتخلُّصًا من الصِّراعات، وإننا لنُعیذُ أمتنا۔ وھی تُکابِدُ من المِحَن ما تُکابِد۔ أن یتفاقَمَ بلاؤُھا من ذاتِھا أکثرَ من عُداتِھا۔
وفی ھذۃ الآونۃِ خُصوصًا تعظمُ الأمانۃ وتجِلُّ المسؤولیۃ المُناطۃُ بأھل العقیدۃ، وحملَۃ الشریعۃ، ورجال العلم والدعوۃِ والإصلاحِ السائرین علی المنھجِ الربانِیَّ الوضَّاح، وکذا القادۃُ والساسۃُ أن ینتشِلوا المُجتمعات والأجیال من أوھاقِ الافتِئات علی العقیدۃ، والمُزایَدۃ علی مرامِیھا البَلْجاءِ العَتیدۃ، وأن یتَّخِذوا من التوحید والسنۃ أطیبَ سَقْیِ وغِراسٍ، وخیرَ مِنھاجٍ ونِبراس، لإصلاحِ أحوالِ الأمۃ، وتوثیقِ اتحادھا، ودحرِ الأرزاءِ عنھا، وتحقیقِ أجلِّ۔
 
Top