سوال: کیا کلمۂ طیبہ “لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے ملتا ہے ؟ تحقیق سے جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔
(حبیب محمد، بیاڑ۔ دیر)
الجواب: الحمد اللہ رب العالمین و الصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الأمین، أما بعد:
امام ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی ؒ (متوفی ۴۵۸ھ) نے فرمایا : “أخبرنا أبوعبداللہ الحافظ: ثنا أبو العباس محمد بن یعقوب: ثنا محمد بن إسحاق: ثنا یحیی بن صالح الوحاظي: ثنا إسحاق بن یحیی الکلبي: ثنا الزھري: حدثني سعید بن المسیب أن أباھریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال : ((أنزل اللہ تعالی في کتابہ فذکر قومًا استکبروا فقال :﴿اِنَّھُمْ کَانُوْآ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ﴾وقال تعالیٰ:﴿اِذۡ جَعَلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الۡجَاہِلِیَّۃِ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَلۡزَمَہُمۡ کَلِمَۃَ التَّقۡوٰی وَ کَانُوۡۤا اَحَقَّ بِہَا وَ اَہۡلَہَا ؕ ﴾وھي: لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ)) استکبر عنھا المشرکون یوم الحدیبیۃ یوم کاتبھم رسول اللہ ﷺ في قضیۃ المدۃ.“ہمیں ابو عبداللہ الحافظ (امام حاکم، صاحب المستدرک ) نے خبر دی (کہا) : ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب (الاصم) نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں محمد بن اسحاق (بن جعفر ، ابوبکر الصغانی) نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں یحییٰ بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں اسحاق بن یحییٰ الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں (ابن الشہاب) الزہری نے حدیث بیان کی (کہا) : مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی، بے شک انہیں (سیدنا) ابوہریرہؓ نے نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کی (….) فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر کرکے فرمایا :یقیناً جب انہیں لا الٰہ الا اللہ کہا جاتا ہے تو تکبر کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت: ۳۵)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور ان کے لئے کلمۃ التقویٰ کو لازم قرار دیا اور وہ اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے ۔( الفتح : ۲۶)اور وہ (کلمۃ التقویٰ) لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔
(صلح) حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ ﷺ نے مدت (مقرر کرنے ) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکوں نے اس کلمے سے تکبر کیا تھا۔
(کتاب الاسماء و الصفات ص ۱۰۵،۱۰۶ ، دوسرا نسخہ ص ۱۳۱ ، تیسرا نسخہ مطبوعہ انوار محمد الہ آباد ۱۳۱۳ھ ص ۸۱ باب ماجاء فی فضل الکلمۃ الباقیۃ فی عقب ابراہیم )
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے ۔
حاکم، اصم ، محمد بن اسحاق الصغانی ، زہری اور سعید بن المسیب سب اعلیٰ درجے کے ثقہ ہیں۔
۱: یحییٰ بن صالح الوحاظی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ تھے ۔ امام ابوحاتم الرازی نے کہا : صدوق، امام یحییٰ بن معین نے کہا :”ثقۃ” (الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ۱۵۸/۹ و سندہ صحیح)
امام بخاریؒ نے فرمایا : ویحیی ثقۃ (کتاب الضعفاء الصغیر : ۱۴۵، طبع ہندیہ)
یحییٰ بن صالح پر درج ذیل علماء کی جرح ملتی ہے :
۱: احمد بن حنبل ۲: اسحاق بن منصور ۳: عقیلی ۴: ابواحمد الحاکم
امام احمد کی جرح کی بنیاد ایک مجہول انسان ہے ۔ دیکھئے الضعفاء للعقیلی (۴۰۸/۴)
یہ جرح امام احمد کی توثیق سے معارض ہے ۔
ابو زرعہ الدمشقی نے کہا : “لم یقل یعني أحمد بن حنبل في یحیی بن صالح إلا خیرًا“احمد بن حنبل نے یحییٰ بن صالح کے بارے میں صرف خیر ہی کہا ہے ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر ۷۸/۶۸ و سندہ صحیح)
اسحاق بن منصور کی جرح کا راوی عبداللہ بن علی ہے ۔ (الضعفاء للعقیلی ۴۰۹/۴)
عبداللہ بن علی کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ جرح ثابت نہیں ہے ۔ عقیلی کی جرح الضعفاء الکبیر میں نہیں ملی لیکن تاریخ دمشق میں یہ جرح ضرور موجود ہے ۔ (۷۹/۶۸)
اس جرح کا راوی یوسف بن احمد غیر موثق (مجہول الحال) ہے لہٰذا یہ جرح بھی ثابت نہیں ہے ۔
ابواحمد الحاکم (اور بشرطِ صحت احمد، اسحاق بن منصور اور عقیلی) کی جرح جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے ۔ حافظ ذہبی نے کہا :“ثقۃ في نفسہ، تکلم فیہ الرأیہ“ وہ بذاتِ خود ثقہ تھے، ان کی رائے کی وجہ سے (ابواحمد الحاکم وغیرہ کی طرف سے ) ان میں کلام کیا گیا ہے۔ (معرفۃ الرواۃ المتکلم فیھم بمالا یوجب الرد: ۳۶۷)
حافظ ابن حجر نے کہا : خالد (بن مخلد) اور یحییٰ بن صالح دونوں ثقہ ہیں۔ (فتح الباری ج ۹ ص ۵۲۴ تحت ح ۵۳۷۸ کتاب لأطعمۃ باب الأکل ممایلیہ)اور کہا : صدوق من أھل الرأي (تقریب التہذیب : ۷۵۶۸)
تقریب التہذیب کے محققین نے لکھا ہے :”بل ثقۃ” بلکہ وہ ثقہ ہے ۔ (التحریر ج ۴ ص ۸۸)
خلاصۃ التحقیق : یحییٰ بن صالح ثقہ و صحیح الحدیث ہیں۔
۲: اسحاق بن یحییٰ بن علقمہ الکلبی الحمصی العوصی صحیح بخاری کے (شواہد کے ) راوی ہیں۔ دیکھئے صحیح بخاری(۷۳۸۲،۷۱۷۱،۷۰۰۰،۶۶۴۷،۳۹۲۷،۳۴۴۳،۳۲۹۹،۱۳۵۵،۶۸۲)
حافظ ابن حبان نے انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیا ۔ (ج۲ ص ۴۹) اور صحیح ابن حبان میں ان سے روایت لی ہے ۔ (الاحسان : ۶۰۷۴)
دارقطنیؒ نے کہا : “أحادیثہ صالحۃ و البخاري و یستشھدہ ولا یعتمدہ فی الأصول“
ان کی حدیثیں صالح (اچھی) ہیں، بخاری شواہد میں ان سے روایت لیتے ہیں اور اصول میں ان پر اعتماد نہیں کرتے ۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی : ۲۸۰)
تنبیہ: امام بخاری شواہد میں جس راوی سے روایت لیتے ہیں وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے (اِلا یہ کہ کسی خاص راوی کی تخصیص ثابت ہوجائے ) دیکھئے شروط الأئمۃ الستۃ لمحمد بن طاہر المقدسی (ص ۱۸ دوسرا نسخہ ص ۱۴)
ابوعوانہ نے صحیح ابی عوانہ (المستخرج علیٰ صحیح مسلم ) میں ان سے روایت لی ہے ۔ (ج۲ ص ۲۹۳)
حافظ ابن حجر نے کہا : “صدوق، قیل : إنہ قتل أباہ” سچا ہے ، کہا گیا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو قتل کیا تھا۔ (تقریب التہذیب: ۳۹۱)
باپ کو قتل کرنے والا قصہ تہذیب الکمال (طبع مؤسسۃ الرسالہ ج ۱ص ۲۰۲) میں بغیر کسی سند کے “أبو عوانۃ الأسفرائني عن أبي بکر الجذامي عن ابن عوف قال: یقال” سے مروی ہے ۔ یہ قصہ کئی لحاظ سے مردود ہے :
۱: ابوعوانہ تک سند غائب ہے۔
۲: ابوبکر الجذامی نامعلوم ہے ۔
۳: یقال (کہا جاتا ہے )کا قائل نامعلوم ہے ۔
صاحب تہذیب الکمال نے بغیر کسی سند کے محمد بن یحییٰ الذہلیؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اسحاق بن یحییٰ کو طبقۂ ثانیہ میں ذکر کیا اور کہا :”مجھول : لم أعلم لہ روایۃً غیر یحییٰ بن صالح الوحاظي فإنہ أخرج إليّ لہ أجزاء من حدیث الزھري فوجدتھا مقاربۃ فلم أکتب منھا إلا شیئاً یسیرًا“مجہول ہے ، میرے علم میں یحییٰ بن صالح الوحاظی کے سوا کسی نے اس سے روایت بیان نہیں کی۔ انہوں نے میرےسامنے اس کی زہری سے حدیثوں کے اجزاء پیش کئے تو میں نے دیکھا کہ یہ روایات مقارب (صحیح و مقبول او رثقہ راویوں کے قریب قریب ) ہیں ۔ میں نے ان میں سے تھوڑی روایتیں ہی لکھی ہیں۔ ( ج۱ص ۲۰۲)
حافظ ابوبکر محمد بن موسیٰ الحازمی (متوفی ۵۹۱ھ) نے امام زہری کے شاگردوں کے طبقۂ ثانیہ کے بارے میں کہا کہ وہ مسلم کی شرط پر ہیں۔ (شروط الائمۃ الخمسہ ص ۵۷)
معلوم ہوا کہ یہ روای امام محمد بن یحییٰ الذہلی کے نزدیک مجہول ہونے کے ساتھ ثقہ و صدوق اور مقارب الحدیث ہے (!) ورنہ یہ جرح جمہور محدثین کے مقابلے میں مردود ہے ۔
خلاصۃ التحقیق : اسحاق بن یحییٰ الکلبی حسن الحدیث ہے ۔
فائدہ: لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ والی یہی روایت شعیب بن ابی حمزہ نے “عن الزھري عن سعید بن المسیب عن أبي ھریرۃ” کی سند سے بیان کر رکھی ہے ۔ (کتاب الایمان لا بن مندہ ج ۱ص ۳۵۹ ح ۹۹ وسندہ صحیح إلی شعیب ابن ابی حمزہ )
اس شاہد کے ساتھ اسحاق بن یحییٰ کی روایت مزید قوی ہوجاتی ہے ۔ الحمد للہ
دوسری دلیل : لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ حافظ ابن حزم لکھتے ہیں :“فھذا إجماع صحیح کالإجماع علیٰ قول لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” پس یہ اجماع صحیح ہے جیساکہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے پر اجماع ہے ۔ (المحلیٰ ج ۱۰ ص ۴۲۳، العین ، مسئلہ: ۳۰۲۵)
حافظ ابن حزم مزید لکھتے ہیں:
“وکذلک ما اتفق علیہ جمیع أھل الإسلام بلاخلاف من أحدمنھم من تلقین موتاھم: لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ“اور اسی طرح تمام اہل اسلام بغیر اختلاف کے اس پر متفق ہیں کہ مرنے والوں کو (موت کے وقت) لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ (پڑھنے ) کی تلقین کرنی چاہئے۔(الفصل فی الملل والاھواء و النحل ج ۱ص ۱۶۲، الرد علی من زعم أن الانبیاء علیہم السلام لیسوا أنبیاءالیوم)
معلوم ہو اکہ کلمۂ اخلاص : کلمۂ طیبہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا صحیح حدیث اور اجماع سے ثبوت موجود ہے ۔ والحمد للہ و صلی اللہ علیٰ نبیہ وسلم
تنبیہ: “مفتی” محمد اسماعیل طور و دیوبندی نے “شش کلمے” کے تحت لکھا ہے:
“کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
(ترجمہ) نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ (البخاری، مسلم ج۱ص ۷۳)
(مختصر نصاب ص ۲۴طبع ۲۰۰۵ء دارالافتاءجامعہ اسلامیہ، صدر کامران مارکیٹ ، راولپنڈی)
یہ مکمل کلمہ نہ تو صحیح بخاری کی کسی حدیث میں لکھا ہوا ہے اور نہ صحیح مسلم کی کسی حدیث میں اس طرح موجود ہے ۔ مفتی بنے ہوئے علماء کو اپنی تحریروں میں احتیاط کرنی چاہئے اور غلط حوالوں سے کلی اجتناب کرنا چاہئے۔ وما علینا إلا البلاغ
نوٹ: بعض الناس شیخ کی اس تحقیق کو صرف لائکس کے لیے اپنی تحقیق بتاتے ہیں-
دیکھئے:
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-کلمہ-طیبہ-حدیث-میں-موجود-ہے.9506/
(حبیب محمد، بیاڑ۔ دیر)
الجواب: الحمد اللہ رب العالمین و الصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الأمین، أما بعد:
امام ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی ؒ (متوفی ۴۵۸ھ) نے فرمایا : “أخبرنا أبوعبداللہ الحافظ: ثنا أبو العباس محمد بن یعقوب: ثنا محمد بن إسحاق: ثنا یحیی بن صالح الوحاظي: ثنا إسحاق بن یحیی الکلبي: ثنا الزھري: حدثني سعید بن المسیب أن أباھریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال : ((أنزل اللہ تعالی في کتابہ فذکر قومًا استکبروا فقال :﴿اِنَّھُمْ کَانُوْآ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ﴾وقال تعالیٰ:﴿اِذۡ جَعَلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الۡجَاہِلِیَّۃِ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَلۡزَمَہُمۡ کَلِمَۃَ التَّقۡوٰی وَ کَانُوۡۤا اَحَقَّ بِہَا وَ اَہۡلَہَا ؕ ﴾وھي: لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ)) استکبر عنھا المشرکون یوم الحدیبیۃ یوم کاتبھم رسول اللہ ﷺ في قضیۃ المدۃ.“ہمیں ابو عبداللہ الحافظ (امام حاکم، صاحب المستدرک ) نے خبر دی (کہا) : ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب (الاصم) نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں محمد بن اسحاق (بن جعفر ، ابوبکر الصغانی) نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں یحییٰ بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں اسحاق بن یحییٰ الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں (ابن الشہاب) الزہری نے حدیث بیان کی (کہا) : مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی، بے شک انہیں (سیدنا) ابوہریرہؓ نے نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کی (….) فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر کرکے فرمایا :یقیناً جب انہیں لا الٰہ الا اللہ کہا جاتا ہے تو تکبر کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت: ۳۵)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور ان کے لئے کلمۃ التقویٰ کو لازم قرار دیا اور وہ اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے ۔( الفتح : ۲۶)اور وہ (کلمۃ التقویٰ) لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔
(صلح) حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ ﷺ نے مدت (مقرر کرنے ) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکوں نے اس کلمے سے تکبر کیا تھا۔
(کتاب الاسماء و الصفات ص ۱۰۵،۱۰۶ ، دوسرا نسخہ ص ۱۳۱ ، تیسرا نسخہ مطبوعہ انوار محمد الہ آباد ۱۳۱۳ھ ص ۸۱ باب ماجاء فی فضل الکلمۃ الباقیۃ فی عقب ابراہیم )
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے ۔
حاکم، اصم ، محمد بن اسحاق الصغانی ، زہری اور سعید بن المسیب سب اعلیٰ درجے کے ثقہ ہیں۔
۱: یحییٰ بن صالح الوحاظی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ تھے ۔ امام ابوحاتم الرازی نے کہا : صدوق، امام یحییٰ بن معین نے کہا :”ثقۃ” (الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ۱۵۸/۹ و سندہ صحیح)
امام بخاریؒ نے فرمایا : ویحیی ثقۃ (کتاب الضعفاء الصغیر : ۱۴۵، طبع ہندیہ)
یحییٰ بن صالح پر درج ذیل علماء کی جرح ملتی ہے :
۱: احمد بن حنبل ۲: اسحاق بن منصور ۳: عقیلی ۴: ابواحمد الحاکم
امام احمد کی جرح کی بنیاد ایک مجہول انسان ہے ۔ دیکھئے الضعفاء للعقیلی (۴۰۸/۴)
یہ جرح امام احمد کی توثیق سے معارض ہے ۔
ابو زرعہ الدمشقی نے کہا : “لم یقل یعني أحمد بن حنبل في یحیی بن صالح إلا خیرًا“احمد بن حنبل نے یحییٰ بن صالح کے بارے میں صرف خیر ہی کہا ہے ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر ۷۸/۶۸ و سندہ صحیح)
اسحاق بن منصور کی جرح کا راوی عبداللہ بن علی ہے ۔ (الضعفاء للعقیلی ۴۰۹/۴)
عبداللہ بن علی کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ جرح ثابت نہیں ہے ۔ عقیلی کی جرح الضعفاء الکبیر میں نہیں ملی لیکن تاریخ دمشق میں یہ جرح ضرور موجود ہے ۔ (۷۹/۶۸)
اس جرح کا راوی یوسف بن احمد غیر موثق (مجہول الحال) ہے لہٰذا یہ جرح بھی ثابت نہیں ہے ۔
ابواحمد الحاکم (اور بشرطِ صحت احمد، اسحاق بن منصور اور عقیلی) کی جرح جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے ۔ حافظ ذہبی نے کہا :“ثقۃ في نفسہ، تکلم فیہ الرأیہ“ وہ بذاتِ خود ثقہ تھے، ان کی رائے کی وجہ سے (ابواحمد الحاکم وغیرہ کی طرف سے ) ان میں کلام کیا گیا ہے۔ (معرفۃ الرواۃ المتکلم فیھم بمالا یوجب الرد: ۳۶۷)
حافظ ابن حجر نے کہا : خالد (بن مخلد) اور یحییٰ بن صالح دونوں ثقہ ہیں۔ (فتح الباری ج ۹ ص ۵۲۴ تحت ح ۵۳۷۸ کتاب لأطعمۃ باب الأکل ممایلیہ)اور کہا : صدوق من أھل الرأي (تقریب التہذیب : ۷۵۶۸)
تقریب التہذیب کے محققین نے لکھا ہے :”بل ثقۃ” بلکہ وہ ثقہ ہے ۔ (التحریر ج ۴ ص ۸۸)
خلاصۃ التحقیق : یحییٰ بن صالح ثقہ و صحیح الحدیث ہیں۔
۲: اسحاق بن یحییٰ بن علقمہ الکلبی الحمصی العوصی صحیح بخاری کے (شواہد کے ) راوی ہیں۔ دیکھئے صحیح بخاری(۷۳۸۲،۷۱۷۱،۷۰۰۰،۶۶۴۷،۳۹۲۷،۳۴۴۳،۳۲۹۹،۱۳۵۵،۶۸۲)
حافظ ابن حبان نے انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیا ۔ (ج۲ ص ۴۹) اور صحیح ابن حبان میں ان سے روایت لی ہے ۔ (الاحسان : ۶۰۷۴)
دارقطنیؒ نے کہا : “أحادیثہ صالحۃ و البخاري و یستشھدہ ولا یعتمدہ فی الأصول“
ان کی حدیثیں صالح (اچھی) ہیں، بخاری شواہد میں ان سے روایت لیتے ہیں اور اصول میں ان پر اعتماد نہیں کرتے ۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی : ۲۸۰)
تنبیہ: امام بخاری شواہد میں جس راوی سے روایت لیتے ہیں وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے (اِلا یہ کہ کسی خاص راوی کی تخصیص ثابت ہوجائے ) دیکھئے شروط الأئمۃ الستۃ لمحمد بن طاہر المقدسی (ص ۱۸ دوسرا نسخہ ص ۱۴)
ابوعوانہ نے صحیح ابی عوانہ (المستخرج علیٰ صحیح مسلم ) میں ان سے روایت لی ہے ۔ (ج۲ ص ۲۹۳)
حافظ ابن حجر نے کہا : “صدوق، قیل : إنہ قتل أباہ” سچا ہے ، کہا گیا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو قتل کیا تھا۔ (تقریب التہذیب: ۳۹۱)
باپ کو قتل کرنے والا قصہ تہذیب الکمال (طبع مؤسسۃ الرسالہ ج ۱ص ۲۰۲) میں بغیر کسی سند کے “أبو عوانۃ الأسفرائني عن أبي بکر الجذامي عن ابن عوف قال: یقال” سے مروی ہے ۔ یہ قصہ کئی لحاظ سے مردود ہے :
۱: ابوعوانہ تک سند غائب ہے۔
۲: ابوبکر الجذامی نامعلوم ہے ۔
۳: یقال (کہا جاتا ہے )کا قائل نامعلوم ہے ۔
صاحب تہذیب الکمال نے بغیر کسی سند کے محمد بن یحییٰ الذہلیؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اسحاق بن یحییٰ کو طبقۂ ثانیہ میں ذکر کیا اور کہا :”مجھول : لم أعلم لہ روایۃً غیر یحییٰ بن صالح الوحاظي فإنہ أخرج إليّ لہ أجزاء من حدیث الزھري فوجدتھا مقاربۃ فلم أکتب منھا إلا شیئاً یسیرًا“مجہول ہے ، میرے علم میں یحییٰ بن صالح الوحاظی کے سوا کسی نے اس سے روایت بیان نہیں کی۔ انہوں نے میرےسامنے اس کی زہری سے حدیثوں کے اجزاء پیش کئے تو میں نے دیکھا کہ یہ روایات مقارب (صحیح و مقبول او رثقہ راویوں کے قریب قریب ) ہیں ۔ میں نے ان میں سے تھوڑی روایتیں ہی لکھی ہیں۔ ( ج۱ص ۲۰۲)
حافظ ابوبکر محمد بن موسیٰ الحازمی (متوفی ۵۹۱ھ) نے امام زہری کے شاگردوں کے طبقۂ ثانیہ کے بارے میں کہا کہ وہ مسلم کی شرط پر ہیں۔ (شروط الائمۃ الخمسہ ص ۵۷)
معلوم ہوا کہ یہ روای امام محمد بن یحییٰ الذہلی کے نزدیک مجہول ہونے کے ساتھ ثقہ و صدوق اور مقارب الحدیث ہے (!) ورنہ یہ جرح جمہور محدثین کے مقابلے میں مردود ہے ۔
خلاصۃ التحقیق : اسحاق بن یحییٰ الکلبی حسن الحدیث ہے ۔
فائدہ: لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ والی یہی روایت شعیب بن ابی حمزہ نے “عن الزھري عن سعید بن المسیب عن أبي ھریرۃ” کی سند سے بیان کر رکھی ہے ۔ (کتاب الایمان لا بن مندہ ج ۱ص ۳۵۹ ح ۹۹ وسندہ صحیح إلی شعیب ابن ابی حمزہ )
اس شاہد کے ساتھ اسحاق بن یحییٰ کی روایت مزید قوی ہوجاتی ہے ۔ الحمد للہ
دوسری دلیل : لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ حافظ ابن حزم لکھتے ہیں :“فھذا إجماع صحیح کالإجماع علیٰ قول لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” پس یہ اجماع صحیح ہے جیساکہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے پر اجماع ہے ۔ (المحلیٰ ج ۱۰ ص ۴۲۳، العین ، مسئلہ: ۳۰۲۵)
حافظ ابن حزم مزید لکھتے ہیں:
“وکذلک ما اتفق علیہ جمیع أھل الإسلام بلاخلاف من أحدمنھم من تلقین موتاھم: لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ“اور اسی طرح تمام اہل اسلام بغیر اختلاف کے اس پر متفق ہیں کہ مرنے والوں کو (موت کے وقت) لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ (پڑھنے ) کی تلقین کرنی چاہئے۔(الفصل فی الملل والاھواء و النحل ج ۱ص ۱۶۲، الرد علی من زعم أن الانبیاء علیہم السلام لیسوا أنبیاءالیوم)
معلوم ہو اکہ کلمۂ اخلاص : کلمۂ طیبہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا صحیح حدیث اور اجماع سے ثبوت موجود ہے ۔ والحمد للہ و صلی اللہ علیٰ نبیہ وسلم
تنبیہ: “مفتی” محمد اسماعیل طور و دیوبندی نے “شش کلمے” کے تحت لکھا ہے:
“کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
(ترجمہ) نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ (البخاری، مسلم ج۱ص ۷۳)
(مختصر نصاب ص ۲۴طبع ۲۰۰۵ء دارالافتاءجامعہ اسلامیہ، صدر کامران مارکیٹ ، راولپنڈی)
یہ مکمل کلمہ نہ تو صحیح بخاری کی کسی حدیث میں لکھا ہوا ہے اور نہ صحیح مسلم کی کسی حدیث میں اس طرح موجود ہے ۔ مفتی بنے ہوئے علماء کو اپنی تحریروں میں احتیاط کرنی چاہئے اور غلط حوالوں سے کلی اجتناب کرنا چاہئے۔ وما علینا إلا البلاغ
نوٹ: بعض الناس شیخ کی اس تحقیق کو صرف لائکس کے لیے اپنی تحقیق بتاتے ہیں-
دیکھئے:
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-کلمہ-طیبہ-حدیث-میں-موجود-ہے.9506/