کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
کلمہ لاالہ الا اللہ کی عظمت احادیث کی روشنی میں
حضرت مقداد بن الاسود سے روایت ہے کہ انہوں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اگر میں کسی کافر سے ملوں (اس کے مقابلہ ہونے لگے) اور وہ مجھ سے لڑے اور تلوار سے میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالے اور اس کے بعد کسی درخت کی آڑ میں چھپ جائے اور کہے میں اسلام لے آیا خدا کے واسطے تو کیا اس اقرار کے بعد میں اس کو قتل کر دوں؟
آپﷺنے فرمایا اس کو قتل مت کر میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا اس کا کیا ہوگا؟ آپﷺنے فرمایا اس کو قتل مت کر اگر تو اس کو قتل کرے گا تو وہ تیری مثل ہو جائے گا قتل سے پہلے (یعنی وہ تو معصوم الدم ہوجائے گا) اور تو اس کی مثل ہوجائے گا جب تک کہ اس نے کلمہ نہ پڑھا تھا (یعنی تو مباح الدم ہوجائے گا) (سنن ابو داود- جہاد کا بیان)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے حرقہ کی جانب بھیجا ہم نے صبح کو اس قوم پر حملہ کرکے انہیں شکست دے دی، میں اور ایک انصاری اس قوم کے ایک آدمی کے پیچھے لگ گئے جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، اس انصاری نے تو ہاتھ روک لیا، مگر میں نے اس کے نیزہ مار کر اسے قتل کردیا، جب ہم واپس آئے تو نبیﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا، اسامہ! تم نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہنے کے بعد بھی اسے قتل کردیا، میں نے عرض کیا اس نے جان بچانے کیلئے کہا تھا، مگر آپﷺ برابریہی فرماتے رہے، یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ کاش آج سے پہلے میں اسلام نہ لایا ہوتا۔ (صحیح بخاری۔ غزوات کا بیان)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺنے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو غالب اًبنوخذیمہ کی طرف بھیجا انہوں نے وہاں پہنچ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی وہ لوگ صاف لفظوں میں یہ تونہیں کہہ سکے کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا البتہ وہ یہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنا دین بدل لیا (لفظ صبأنا کامعنی بے دین ہوناہے) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں قیدی بنانا اور قتل کرنا شروع کردیا اور ہم میں سے ہر آدمی کے حوالے ایک ایک قیدی کردیاجب صبح ہوئی تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ہم سے ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کردے میں نے کہا کہ میں تو اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی ایسا کرے واپسی پر لوگوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اس طرزعمل کا نبی کریمﷺ سے تذکرہ کیا نبی کریم ﷺنے یہ سن کر اپنے ہاتھ اٹھائے اور دو مرتبہ فرمایا اے اللہ خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے بری ہوں ۔ (مشکوة، قیدیوں کے احکام کا بیان)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺنے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک شخص کو میری امت سے جدا کرے گا اور اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر کھولے جائیں گے۔ ہر دفتر اتنا بڑا ہوگا جہاں تک انسان کی نگاہ پہنچتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے اس میں سے کسی کا انکار ہے۔ کیا میرے لکھنے والے محافظ فرشتوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے؟ وہ عرض کرے گا نہیں اے پروردگار ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے آج تجھ پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔ پھر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر کلمہ شہادت لکھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میزان کے پاس حاضر ہو جا۔ وہ کہے گا یا اللہ ان دفتروں کے سامنے اس چھوٹے سے کاغذ کا کیا وزن ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج تم پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔ نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ پھر ایک پلڑے میں وہ ننانوے دفتر رکھ دیئے جائیں گے اور دوسرے پلڑے میں کاغذ کا وہ پر زہ رکھا جائے گا۔ دفتروں کا پلڑا ہلکا ہو جائے گا جبکہ کاغذ (کا پلڑا) بھاری ہوگا۔ آپﷺ نے فرمایا اور اللہ کے نام کے برابر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ (یہ حدیث حسن غریب ہے۔ جامع ترمذی ۔ ایمان کا بیان )
حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا اللہ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ میں تمہیں ایک وصیت کررہاہوں جس میں تمہیں دوباتوں کا حکم دیتاہوں اور دوباتوں سے روکتاہوں حکم تو اس بات کا دیتاہوں کہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کرتے رہنا کیونکہ اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کوترازوکے ایک پلڑے میں رکھاجائے اور لاالہ الا اللہ کو دوسرے پلڑے میں تولاالہ الا اللہ والاپلڑا جھک جائے گا۔ (مسند احمد)