makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
حرّیت کے متوالے سروں میں سودائے جنوں لیے جابروں سے ٹکراتے آئے ہیں ۔ نفس ِ انسانی میں پیوست آزادی کی یہ خواہش جب جوش دکھاتی ہے تو شدّادوں کے تخت لرز جاتے ہیں۔ ظلم کے ایوانوں میں زلزلے آجاتے ہیں ۔ قہر کے ستونوںپر رعشہ طاری ہو جاتا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب فراعنہ کے فُسوں کے طلسموں کا نقض اور ان کی تقدیس کے میناروں کا انہدام کسی کیمیا گر کی کیمیا گری کے بس سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس معرکۂ عشق و عقل میں ممولے شہبازوں سے بِھڑ جاتے ہیں۔
رنگ نسل، ذات پات، قوم قبیلہ تو پہچان کے واسطے ہے۔ جس مٹی سے آدم زاد پیدا ہوا ہے ، حرّیت اس کے خمیر کا حصہ ہے ۔ ضمیر کی اس آواز پر لبیک کہہ دینا کچھ یوں ہی سا عمل نہیں ہے۔ اس کے لیے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔ اس میں عقوبت ہے، اذیت ہے، ظالم سے دست بدست معرکہ آرائی ہے اور ان سب سے زیادہ صبر آزماکام جھوٹ کے ان طوماروں کا مقابلہ ہے جو طالع آزما ان احرار پر باندھتے ہیں۔ سرکار کے ڈھنڈورچی ان کا تذکرہ گلی گلی اور کوچے کوچے یوں کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا ایک معصوم سے ڈکٹیٹر کو چھٹے ہوئے بدمعاشوں کے غول سے پالا پڑ گیا ہو جس سے وہ معصوم ،لکھوکھا فوج ہوتے ہوئے، نبٹنے سے عاجز ہے۔ امن کے ان دشمنوں اور ٹیررسٹوں نے بے چاری سرکار کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اور سرکار اس کنواری دوشیزہ کی طرح ہے جو لفنگوں کے ہجوم میں گھر کر رہ گئی ہو۔ اس بات پر عوام کان دھرتے ہیں یا نہیں یہ البتہ ڈھنڈورچیوں کی 'سرکار داد' استعداد پر منحصر ہے۔ وقت کا پہیہ چلتا ہے اور تخت ا لٹ جاتے ہیں ۔ زندانوں کے قُفل کھل جاتے ہیں اور کل کے اغوا کار آج کے احرار بن جاتے ہیں۔ دور کیا جانا ! چند عشروں پہلے جھانک لیں۔
یہ جنوبی افریقہ ہے۔ یہاں رنگ کی بنیاد پر سیاہ فاموں کے حقوق کو باہر سے آئی سفید چمڑی غصب کیے بیٹھی ہے۔ ایسے میں ایک 'غدار ' ، 'امن دشمن ' اٹھتا ہے اور 'ناجائز' حقوق کا مطالبہ کرنے کی جسارت کر بیٹھتا ہے۔ آن کی آن میں سرکار کے ڈھنڈورچی حرکت میں آجاتے ہیں ۔ اسے 27 سال کی قید ہو جاتی ہے۔ ستائیس سال بعد جب وہ قدم باہر نکالتاہے تو ملک کا صدر بن جاتا ہے ۔ دنیا اسے امن کا نوبل پرائز دیتی ہے۔ امن کے اس داعی پر 2008 تک امریکہ میں اقوامِ متحدہ کی عمارت کے علاوہ کہیں اور جانے پر پابندی رہتی ہے کیونکہ اسے 27 سال قبل سفید فام حکومت نے دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ جابروں کا تخت الٹتے ہی کل کا دہشت گرد آج کا ریفارمسٹ بن جاتا ہے۔ نیلسن مینڈیلا کا عدالتی بیان اس کی "دہشت گردی" کی حقیقت کھول کھول کر بیان کر رہا ہے:
"میں نے اس (دہشت گردانہ عمل) کا منصوبہ اُس سیاسی صورتحال کے سنجیدہ مطالعے کی بنیاد پر بنایا تھا جو (سیاسی صورتحال) سفید فام لوگوں کی جانب سے میری قوم پر کئی سالوں کے جبر، تسلط اور حقوق کی پامالی کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔"
یہ1919 کا آئرلینڈ ہے۔ آئرش ریپبلکن آرمی اپنے دیس میں برطانوی تسلط کے خلاف معرکہ آراءہے۔ جنگِ عظیم اول اختتام پذیر ہے۔ اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ لائڈجارج ان حریت پسندوں کو "قاتل ٹولہ" (Murder Gang)کے علاوہ کچھ اور کہنے پر تیار نہیں ہیں۔ تین سال کے عرصے میں وزیرِ اعظم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض قاتل ٹولہ نہیں بلکہ پوری قوم ہے جس سے سولہ ہزار برطانوی سپاہی برسرِ پیکار ہیں تو 1921 میں ان سے معاہدہ کرکے قاتل ٹولے کو ' انقلابی ' تسلیم کرلیتے ہیں۔ جبر کے نظاموں سے اپنی عصمت کی سند لے آنا آسان نہیں رکھا۔
؎ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد!
کہتے ہیں کہ سونامی گہرے پا نیوں میں محسوس نہیں ہوا کرتالیکن جب ساحلوں پر اس کی لہریں پہنچتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طوفانِ بلا خیز سے ٹاکرا ہو گیا ہے۔ یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر 'امن دشمن' اور ہر ' غدار' اپنے 'غدر' کی تکمیل اپنی زندگی میں ہی دیکھ جائے اور بالآخرتکریم سے نوازا جائے۔ کبھی کبھی دور کہیں ، قوم کے گہرے پانیوں میں پڑنے والا پتھر بظاہر کچھ نہیں کر پاتا مگر ساحلوں پر بسنے والی مخلوق کو جب اس کی لہروں سے واسطہ پڑتا ہے تو خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ پتھر کیسا اور اس کا وزن کتنا تھا جس نے ایسا سونامی اٹھا دیا ہے!
یہ سپین کی ایک کالونی ہے۔ یہاں ہسپانویوں نے سات سمندر پار سے آکر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان حالات میں ایک مذہبی راہنما میگوئیل کوسٹیلا اٹھتا ہے اور غیر ملکی قوتوں کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ ایک سال بعد 1811میں اسے شکست دے کر پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ قوم کے سمندر میں پڑنے والا یہ پتھر ٹھیک دس سال بعد 1821 میں وہ طوفان جنم دیتا ہے جس سے میکسکو سے ہسپانوی استعمار کا تسلط ختم ہو جاتا ہے۔ دس سال پہلے کے 'باغی' کو 'قوم کا باپ'کا خطاب دیا جاتا ہے!
یہ لاطینی امریکہ کا ملک ہیٹی ہے۔ فرانسیسی استعمار کے مدّمقابل ٹوسائینٹ لوورچر (Toussaint Louverture)کھڑا ہوتا ہے تو اسے گرفتار کر کے فرانس لے جایا جاتا ہے۔ ایک عرصہ بیت جانے کے بعد فرانسیسی خود اس کا مجسمہ نصب کرواتے ہیں۔ کل کا مفسد آج کا مصلح ٹھہرتا ہے۔ برطانیہ عظمیٰ کے نوآبادیاتی دور میں اس کے زیرِ نگیں برطانوی ُ الاصل امریکیوں نے برطانیہ کے خلاف اسی طرح بغاوت کردی جیسے 1857 میں ہندوستانیوں نے برطانوی سامراج کے خلاف جنگِ آزادی کا اعلان کردیا تھا ۔ 1775 سے 1782 تک جاری رہنے والے اس "غدر" میں وہ کشت و خون ہوا جس کا تذکرہ اس وقت کا ایک امریکی 'انقلابی' جارج میسن ان الفاظ میں کرتا ہے:
"ایسے ایسے گناہ اور مظالم یہاں کیے گئے ہیں جو نہ صرف برطانیہ کے نام کو بلکہ نوعِ انسانی کو بے عزت کردینے کے لیے کافی ہیں ! ہم کبھی بھی اس قوم پر اعتبار نہیں کرسکتے جس نے اب تک ہمیں استعمال کیا ہے۔(بلکہ) انسانی فطرت تو اس کے خیال سے ہی بغاوت پر اتر آتی ہے۔"
آٹھ سال بعد ،1782 میں ہونے والے 'معاہدۂ پیرس' کے نتیجے میں،" غدر" کو جنگِ آزادی کا نام نصیب ہو جاتاہے۔ ایک بار پھر ، کل کے 'باغی' آج کے 'انقلابی' بن جاتے ہیں!
'دہشت گرد' اور' حرّیت پسند' کے ادل بدل کے اس بکھیڑے کو کس خوبصورتی سے حل کی جاسکتا ہے اس کا اندازہ آپ کو ایک اسرائیلی رکنِ پارلیمنٹ کے سیدھے سادے فارمولے سے ہو سکتا ہے۔یوری ایونرے اپنے مضمون 'تمام اقسام کے دہشت گرد' میں لکھتا ہے:
"حرّیت پسند اور دہشت گرد میں فرق یہ ہے کہ حرّیت پسند میری جانب ہیں اور دہشت گرد دوسری جانب ہیں ! مجھے خوشی ہے کہ(دہشت گردی کی) اس تعریف کوقابلِ ذکر حلقوں نے(بھی) اپنا لیا ہے۔"
87 سالہ، عمر رسیدہ، یوری ایونرے کو دیکھ کر وطنِ عزیز کے وہ سنیاسی بابے یاد آجاتے ہیں جن کے پاس سو بیماریوں کا ایک ہی نسخہ ہوا کرتاہے۔ اس 'گرگِ' باراں دیدہ نے بھی قسم ہا قسم کے' 'دہشت گردوں" کے لیے اپنے باپ دادا کا وہ صدری نسخہ تجویز کیا ہے جو ہمیشہ سے Gentiles (غیر یہود) کے لیے کافی شافی چلا آیا ہے۔ سینہ بہ سینہ چلا آنے والا یہ' کُشتہ' سرکار کے ڈھنڈورچیوں کے فلسفے کا پیراہن چاک کر کے اسے بیچ چوراہے کے رسوا کر دینے کے لیے کافی ہے۔ البتہ جو لوگ اب بھی محرومِ تماشا ہیں ان کے لیے شرط صر ف د یدۂ بینا کی ہے!!
یہ امت بھی ایک قوم ہے۔ اس کا دیس شرق تاغرب ہے۔ ایک نبی کی نسبت سے قائم اس امت میں ظالموں نے دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ اپنے ہی گھر میں مکینوں کو اجنبی بنا رکھا ہے۔ دیوار کے پرے سے ابھرتی سسکیوں کی دادرسی کے لیے شدادوں سے پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ بدیسی انڈوں کے یہ 'دیسی' برائلر،خود ساختہ سرحدوں پرجہنمی داروغے بن کر پہرا دیتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی دیوار سے پرے اپنی بلکتی بہن ، اپنے سسکتے بھائی، حزن و یاس کی تصویر باپ یا غم سے نڈھال ماں کو پُرسہ دینے کی ہمت کر دکھائے۔ رہی سہی کسر 'تعلیم' کے تیزاب میں امت کی خودی کو ڈبو کر پوری کردی گئی ہے۔ استعمار نے ڈھائی سو سال کے عرصے میں 24 قیراط کے سونے میں ، کمال ہنر مندی سے، محض 2 قیراط کا 'وہن' ڈال کر بین الاقوامی معیار (international standard)کی "خالص" امت تیار کرلی ہے۔
ایسے میں ایک شوریدہ سر، سیماب فطرت ہستی،سرمیں سودائے جنوں اور دل میں آتشِ شوق لیے جبّاروں کے مقابل اتر آتی ہے۔ اس کے قلب میں بھڑکتا جوّالۂ شوق قہّاروں کے خرمنِ ہستی کو خس و خاشاک کی مانند بھسم کیے دیتا ہے۔ سائیکو سبیکو، ہنری ڈیورنڈ اور ریڈکلف کی کھینچی گئی لکیروں کو روند نے والے اس بندۂ مؤمن کی محض ایک تکبیر ہی امت کے شبستانِ وجود میں پیغام ِسحرلاتی ہے۔ وہ شبستانِ وجود جس کی تاریکی کو صوفی کی ضربیں اور ملا کے خطبے نویدِسحر سنا نہ سکے تھے! وہ برق کا ایک کُوندا تھا جو لمحوں کے لیے لپکا اور امت کی راکھ میں دبی چنگاریوں کو بھڑکتی آگ میں بدل گیا۔ وہ طوفانِ شوق تھا ذرا سی دیر رہا لیکن اپنے پیچھے سرخ آندھیوں کو چلنے کی سمت دکھلا گیا۔ وہ لپکتا شیر اسم بامسمیٰ تھا، بزدلوں کو جینے کا ڈھنگ بتلا گیا۔وہ اسامہ تھا! ظہورِ خورشید تو صبح کے ستارے کے لہوسے مشروط ہوا کرتا ہے اور کسے شک ہے کہ وہ نجمِ سحر تھا۔ اب اس کے خون کے ساتھ ہی آفتابِ حریت پوری تمازت کے ساتھ جلوہ گر ہوگا! انشاءاللہ!
سرکار کے ڈھنڈورچیوں میں سے کسی نے اسے مفسد بتایا تو کسی نے غدار؛ کسی ستم گر نے اسے خارجی کہا تو کسی نے دہشت گرد؛ کسی ظالم نے سامراج کا پروردہ کہا تو کسی نے باغی۔ یہ تو وقت فیصلہ کردے گا کہ کون کیا تھا اور کیا نہ تھا! احرار کے بارے میں زمانے کی یہ سنت رہی ہے کہ ان کی ذات پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں ۔ ہاں ! مگر جباروں کا دھڑن تختہ ہوتے ہی ڈھنڈورچی اپنی اپنی ڈفلیاں اور ڈھول لیے تاریخ میں گم ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کی دھول میں باقی جو بچتا ہے، وہ احرار کا نام ہوا کرتا ہے۔ وہ کیا تھا؟ کیسا تھا؟ ایسا کیونکر تھا؟ یہ بتانے کے لیے تو اک عمر چاہیے البتہ وہ :
آشُفتہ سر تھا ،بہت تیز گام تھا وہ
مکاں کی قید میں اس کا جنوں ،سما نہ سکا !
ڈھل گیا سحر کی سرخی میں، لگا کر تکبیر
زماں کی قید کی رسموں کو وہ، نبھا نہ سکا!
رنگ نسل، ذات پات، قوم قبیلہ تو پہچان کے واسطے ہے۔ جس مٹی سے آدم زاد پیدا ہوا ہے ، حرّیت اس کے خمیر کا حصہ ہے ۔ ضمیر کی اس آواز پر لبیک کہہ دینا کچھ یوں ہی سا عمل نہیں ہے۔ اس کے لیے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔ اس میں عقوبت ہے، اذیت ہے، ظالم سے دست بدست معرکہ آرائی ہے اور ان سب سے زیادہ صبر آزماکام جھوٹ کے ان طوماروں کا مقابلہ ہے جو طالع آزما ان احرار پر باندھتے ہیں۔ سرکار کے ڈھنڈورچی ان کا تذکرہ گلی گلی اور کوچے کوچے یوں کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا ایک معصوم سے ڈکٹیٹر کو چھٹے ہوئے بدمعاشوں کے غول سے پالا پڑ گیا ہو جس سے وہ معصوم ،لکھوکھا فوج ہوتے ہوئے، نبٹنے سے عاجز ہے۔ امن کے ان دشمنوں اور ٹیررسٹوں نے بے چاری سرکار کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اور سرکار اس کنواری دوشیزہ کی طرح ہے جو لفنگوں کے ہجوم میں گھر کر رہ گئی ہو۔ اس بات پر عوام کان دھرتے ہیں یا نہیں یہ البتہ ڈھنڈورچیوں کی 'سرکار داد' استعداد پر منحصر ہے۔ وقت کا پہیہ چلتا ہے اور تخت ا لٹ جاتے ہیں ۔ زندانوں کے قُفل کھل جاتے ہیں اور کل کے اغوا کار آج کے احرار بن جاتے ہیں۔ دور کیا جانا ! چند عشروں پہلے جھانک لیں۔
یہ جنوبی افریقہ ہے۔ یہاں رنگ کی بنیاد پر سیاہ فاموں کے حقوق کو باہر سے آئی سفید چمڑی غصب کیے بیٹھی ہے۔ ایسے میں ایک 'غدار ' ، 'امن دشمن ' اٹھتا ہے اور 'ناجائز' حقوق کا مطالبہ کرنے کی جسارت کر بیٹھتا ہے۔ آن کی آن میں سرکار کے ڈھنڈورچی حرکت میں آجاتے ہیں ۔ اسے 27 سال کی قید ہو جاتی ہے۔ ستائیس سال بعد جب وہ قدم باہر نکالتاہے تو ملک کا صدر بن جاتا ہے ۔ دنیا اسے امن کا نوبل پرائز دیتی ہے۔ امن کے اس داعی پر 2008 تک امریکہ میں اقوامِ متحدہ کی عمارت کے علاوہ کہیں اور جانے پر پابندی رہتی ہے کیونکہ اسے 27 سال قبل سفید فام حکومت نے دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ جابروں کا تخت الٹتے ہی کل کا دہشت گرد آج کا ریفارمسٹ بن جاتا ہے۔ نیلسن مینڈیلا کا عدالتی بیان اس کی "دہشت گردی" کی حقیقت کھول کھول کر بیان کر رہا ہے:
"میں نے اس (دہشت گردانہ عمل) کا منصوبہ اُس سیاسی صورتحال کے سنجیدہ مطالعے کی بنیاد پر بنایا تھا جو (سیاسی صورتحال) سفید فام لوگوں کی جانب سے میری قوم پر کئی سالوں کے جبر، تسلط اور حقوق کی پامالی کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔"
یہ1919 کا آئرلینڈ ہے۔ آئرش ریپبلکن آرمی اپنے دیس میں برطانوی تسلط کے خلاف معرکہ آراءہے۔ جنگِ عظیم اول اختتام پذیر ہے۔ اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ لائڈجارج ان حریت پسندوں کو "قاتل ٹولہ" (Murder Gang)کے علاوہ کچھ اور کہنے پر تیار نہیں ہیں۔ تین سال کے عرصے میں وزیرِ اعظم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض قاتل ٹولہ نہیں بلکہ پوری قوم ہے جس سے سولہ ہزار برطانوی سپاہی برسرِ پیکار ہیں تو 1921 میں ان سے معاہدہ کرکے قاتل ٹولے کو ' انقلابی ' تسلیم کرلیتے ہیں۔ جبر کے نظاموں سے اپنی عصمت کی سند لے آنا آسان نہیں رکھا۔
؎ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد!
کہتے ہیں کہ سونامی گہرے پا نیوں میں محسوس نہیں ہوا کرتالیکن جب ساحلوں پر اس کی لہریں پہنچتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طوفانِ بلا خیز سے ٹاکرا ہو گیا ہے۔ یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر 'امن دشمن' اور ہر ' غدار' اپنے 'غدر' کی تکمیل اپنی زندگی میں ہی دیکھ جائے اور بالآخرتکریم سے نوازا جائے۔ کبھی کبھی دور کہیں ، قوم کے گہرے پانیوں میں پڑنے والا پتھر بظاہر کچھ نہیں کر پاتا مگر ساحلوں پر بسنے والی مخلوق کو جب اس کی لہروں سے واسطہ پڑتا ہے تو خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ پتھر کیسا اور اس کا وزن کتنا تھا جس نے ایسا سونامی اٹھا دیا ہے!
یہ سپین کی ایک کالونی ہے۔ یہاں ہسپانویوں نے سات سمندر پار سے آکر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان حالات میں ایک مذہبی راہنما میگوئیل کوسٹیلا اٹھتا ہے اور غیر ملکی قوتوں کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ ایک سال بعد 1811میں اسے شکست دے کر پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ قوم کے سمندر میں پڑنے والا یہ پتھر ٹھیک دس سال بعد 1821 میں وہ طوفان جنم دیتا ہے جس سے میکسکو سے ہسپانوی استعمار کا تسلط ختم ہو جاتا ہے۔ دس سال پہلے کے 'باغی' کو 'قوم کا باپ'کا خطاب دیا جاتا ہے!
یہ لاطینی امریکہ کا ملک ہیٹی ہے۔ فرانسیسی استعمار کے مدّمقابل ٹوسائینٹ لوورچر (Toussaint Louverture)کھڑا ہوتا ہے تو اسے گرفتار کر کے فرانس لے جایا جاتا ہے۔ ایک عرصہ بیت جانے کے بعد فرانسیسی خود اس کا مجسمہ نصب کرواتے ہیں۔ کل کا مفسد آج کا مصلح ٹھہرتا ہے۔ برطانیہ عظمیٰ کے نوآبادیاتی دور میں اس کے زیرِ نگیں برطانوی ُ الاصل امریکیوں نے برطانیہ کے خلاف اسی طرح بغاوت کردی جیسے 1857 میں ہندوستانیوں نے برطانوی سامراج کے خلاف جنگِ آزادی کا اعلان کردیا تھا ۔ 1775 سے 1782 تک جاری رہنے والے اس "غدر" میں وہ کشت و خون ہوا جس کا تذکرہ اس وقت کا ایک امریکی 'انقلابی' جارج میسن ان الفاظ میں کرتا ہے:
"ایسے ایسے گناہ اور مظالم یہاں کیے گئے ہیں جو نہ صرف برطانیہ کے نام کو بلکہ نوعِ انسانی کو بے عزت کردینے کے لیے کافی ہیں ! ہم کبھی بھی اس قوم پر اعتبار نہیں کرسکتے جس نے اب تک ہمیں استعمال کیا ہے۔(بلکہ) انسانی فطرت تو اس کے خیال سے ہی بغاوت پر اتر آتی ہے۔"
آٹھ سال بعد ،1782 میں ہونے والے 'معاہدۂ پیرس' کے نتیجے میں،" غدر" کو جنگِ آزادی کا نام نصیب ہو جاتاہے۔ ایک بار پھر ، کل کے 'باغی' آج کے 'انقلابی' بن جاتے ہیں!
'دہشت گرد' اور' حرّیت پسند' کے ادل بدل کے اس بکھیڑے کو کس خوبصورتی سے حل کی جاسکتا ہے اس کا اندازہ آپ کو ایک اسرائیلی رکنِ پارلیمنٹ کے سیدھے سادے فارمولے سے ہو سکتا ہے۔یوری ایونرے اپنے مضمون 'تمام اقسام کے دہشت گرد' میں لکھتا ہے:
"حرّیت پسند اور دہشت گرد میں فرق یہ ہے کہ حرّیت پسند میری جانب ہیں اور دہشت گرد دوسری جانب ہیں ! مجھے خوشی ہے کہ(دہشت گردی کی) اس تعریف کوقابلِ ذکر حلقوں نے(بھی) اپنا لیا ہے۔"
87 سالہ، عمر رسیدہ، یوری ایونرے کو دیکھ کر وطنِ عزیز کے وہ سنیاسی بابے یاد آجاتے ہیں جن کے پاس سو بیماریوں کا ایک ہی نسخہ ہوا کرتاہے۔ اس 'گرگِ' باراں دیدہ نے بھی قسم ہا قسم کے' 'دہشت گردوں" کے لیے اپنے باپ دادا کا وہ صدری نسخہ تجویز کیا ہے جو ہمیشہ سے Gentiles (غیر یہود) کے لیے کافی شافی چلا آیا ہے۔ سینہ بہ سینہ چلا آنے والا یہ' کُشتہ' سرکار کے ڈھنڈورچیوں کے فلسفے کا پیراہن چاک کر کے اسے بیچ چوراہے کے رسوا کر دینے کے لیے کافی ہے۔ البتہ جو لوگ اب بھی محرومِ تماشا ہیں ان کے لیے شرط صر ف د یدۂ بینا کی ہے!!
یہ امت بھی ایک قوم ہے۔ اس کا دیس شرق تاغرب ہے۔ ایک نبی کی نسبت سے قائم اس امت میں ظالموں نے دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ اپنے ہی گھر میں مکینوں کو اجنبی بنا رکھا ہے۔ دیوار کے پرے سے ابھرتی سسکیوں کی دادرسی کے لیے شدادوں سے پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ بدیسی انڈوں کے یہ 'دیسی' برائلر،خود ساختہ سرحدوں پرجہنمی داروغے بن کر پہرا دیتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی دیوار سے پرے اپنی بلکتی بہن ، اپنے سسکتے بھائی، حزن و یاس کی تصویر باپ یا غم سے نڈھال ماں کو پُرسہ دینے کی ہمت کر دکھائے۔ رہی سہی کسر 'تعلیم' کے تیزاب میں امت کی خودی کو ڈبو کر پوری کردی گئی ہے۔ استعمار نے ڈھائی سو سال کے عرصے میں 24 قیراط کے سونے میں ، کمال ہنر مندی سے، محض 2 قیراط کا 'وہن' ڈال کر بین الاقوامی معیار (international standard)کی "خالص" امت تیار کرلی ہے۔
ایسے میں ایک شوریدہ سر، سیماب فطرت ہستی،سرمیں سودائے جنوں اور دل میں آتشِ شوق لیے جبّاروں کے مقابل اتر آتی ہے۔ اس کے قلب میں بھڑکتا جوّالۂ شوق قہّاروں کے خرمنِ ہستی کو خس و خاشاک کی مانند بھسم کیے دیتا ہے۔ سائیکو سبیکو، ہنری ڈیورنڈ اور ریڈکلف کی کھینچی گئی لکیروں کو روند نے والے اس بندۂ مؤمن کی محض ایک تکبیر ہی امت کے شبستانِ وجود میں پیغام ِسحرلاتی ہے۔ وہ شبستانِ وجود جس کی تاریکی کو صوفی کی ضربیں اور ملا کے خطبے نویدِسحر سنا نہ سکے تھے! وہ برق کا ایک کُوندا تھا جو لمحوں کے لیے لپکا اور امت کی راکھ میں دبی چنگاریوں کو بھڑکتی آگ میں بدل گیا۔ وہ طوفانِ شوق تھا ذرا سی دیر رہا لیکن اپنے پیچھے سرخ آندھیوں کو چلنے کی سمت دکھلا گیا۔ وہ لپکتا شیر اسم بامسمیٰ تھا، بزدلوں کو جینے کا ڈھنگ بتلا گیا۔وہ اسامہ تھا! ظہورِ خورشید تو صبح کے ستارے کے لہوسے مشروط ہوا کرتا ہے اور کسے شک ہے کہ وہ نجمِ سحر تھا۔ اب اس کے خون کے ساتھ ہی آفتابِ حریت پوری تمازت کے ساتھ جلوہ گر ہوگا! انشاءاللہ!
سرکار کے ڈھنڈورچیوں میں سے کسی نے اسے مفسد بتایا تو کسی نے غدار؛ کسی ستم گر نے اسے خارجی کہا تو کسی نے دہشت گرد؛ کسی ظالم نے سامراج کا پروردہ کہا تو کسی نے باغی۔ یہ تو وقت فیصلہ کردے گا کہ کون کیا تھا اور کیا نہ تھا! احرار کے بارے میں زمانے کی یہ سنت رہی ہے کہ ان کی ذات پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں ۔ ہاں ! مگر جباروں کا دھڑن تختہ ہوتے ہی ڈھنڈورچی اپنی اپنی ڈفلیاں اور ڈھول لیے تاریخ میں گم ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کی دھول میں باقی جو بچتا ہے، وہ احرار کا نام ہوا کرتا ہے۔ وہ کیا تھا؟ کیسا تھا؟ ایسا کیونکر تھا؟ یہ بتانے کے لیے تو اک عمر چاہیے البتہ وہ :
آشُفتہ سر تھا ،بہت تیز گام تھا وہ
مکاں کی قید میں اس کا جنوں ،سما نہ سکا !
ڈھل گیا سحر کی سرخی میں، لگا کر تکبیر
زماں کی قید کی رسموں کو وہ، نبھا نہ سکا!