• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کل کے 'دہشتگرد' آج کے "فریڈم فائٹر"

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
حرّیت کے متوالے سروں میں سودائے جنوں لیے جابروں سے ٹکراتے آئے ہیں ۔ نفس ِ انسانی میں پیوست آزادی کی یہ خواہش جب جوش دکھاتی ہے تو شدّادوں کے تخت لرز جاتے ہیں۔ ظلم کے ایوانوں میں زلزلے آجاتے ہیں ۔ قہر کے ستونوںپر رعشہ طاری ہو جاتا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب فراعنہ کے فُسوں کے طلسموں کا نقض اور ان کی تقدیس کے میناروں کا انہدام کسی کیمیا گر کی کیمیا گری کے بس سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس معرکۂ عشق و عقل میں ممولے شہبازوں سے بِھڑ جاتے ہیں۔

رنگ نسل، ذات پات، قوم قبیلہ تو پہچان کے واسطے ہے۔ جس مٹی سے آدم زاد پیدا ہوا ہے ، حرّیت اس کے خمیر کا حصہ ہے ۔ ضمیر کی اس آواز پر لبیک کہہ دینا کچھ یوں ہی سا عمل نہیں ہے۔ اس کے لیے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔ اس میں عقوبت ہے، اذیت ہے، ظالم سے دست بدست معرکہ آرائی ہے اور ان سب سے زیادہ صبر آزماکام جھوٹ کے ان طوماروں کا مقابلہ ہے جو طالع آزما ان احرار پر باندھتے ہیں۔ سرکار کے ڈھنڈورچی ان کا تذکرہ گلی گلی اور کوچے کوچے یوں کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا ایک معصوم سے ڈکٹیٹر کو چھٹے ہوئے بدمعاشوں کے غول سے پالا پڑ گیا ہو جس سے وہ معصوم ،لکھوکھا فوج ہوتے ہوئے، نبٹنے سے عاجز ہے۔ امن کے ان دشمنوں اور ٹیررسٹوں نے بے چاری سرکار کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اور سرکار اس کنواری دوشیزہ کی طرح ہے جو لفنگوں کے ہجوم میں گھر کر رہ گئی ہو۔ اس بات پر عوام کان دھرتے ہیں یا نہیں یہ البتہ ڈھنڈورچیوں کی 'سرکار داد' استعداد پر منحصر ہے۔ وقت کا پہیہ چلتا ہے اور تخت ا لٹ جاتے ہیں ۔ زندانوں کے قُفل کھل جاتے ہیں اور کل کے اغوا کار آج کے احرار بن جاتے ہیں۔ دور کیا جانا ! چند عشروں پہلے جھانک لیں۔

یہ جنوبی افریقہ ہے۔ یہاں رنگ کی بنیاد پر سیاہ فاموں کے حقوق کو باہر سے آئی سفید چمڑی غصب کیے بیٹھی ہے۔ ایسے میں ایک 'غدار ' ، 'امن دشمن ' اٹھتا ہے اور 'ناجائز' حقوق کا مطالبہ کرنے کی جسارت کر بیٹھتا ہے۔ آن کی آن میں سرکار کے ڈھنڈورچی حرکت میں آجاتے ہیں ۔ اسے 27 سال کی قید ہو جاتی ہے۔ ستائیس سال بعد جب وہ قدم باہر نکالتاہے تو ملک کا صدر بن جاتا ہے ۔ دنیا اسے امن کا نوبل پرائز دیتی ہے۔ امن کے اس داعی پر 2008 تک امریکہ میں اقوامِ متحدہ کی عمارت کے علاوہ کہیں اور جانے پر پابندی رہتی ہے کیونکہ اسے 27 سال قبل سفید فام حکومت نے دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ جابروں کا تخت الٹتے ہی کل کا دہشت گرد آج کا ریفارمسٹ بن جاتا ہے۔ نیلسن مینڈیلا کا عدالتی بیان اس کی "دہشت گردی" کی حقیقت کھول کھول کر بیان کر رہا ہے:

"میں نے اس (دہشت گردانہ عمل) کا منصوبہ اُس سیاسی صورتحال کے سنجیدہ مطالعے کی بنیاد پر بنایا تھا جو (سیاسی صورتحال) سفید فام لوگوں کی جانب سے میری قوم پر کئی سالوں کے جبر، تسلط اور حقوق کی پامالی کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔"

یہ1919 کا آئرلینڈ ہے۔ آئرش ریپبلکن آرمی اپنے دیس میں برطانوی تسلط کے خلاف معرکہ آراءہے۔ جنگِ عظیم اول اختتام پذیر ہے۔ اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ لائڈجارج ان حریت پسندوں کو "قاتل ٹولہ" (Murder Gang)کے علاوہ کچھ اور کہنے پر تیار نہیں ہیں۔ تین سال کے عرصے میں وزیرِ اعظم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض قاتل ٹولہ نہیں بلکہ پوری قوم ہے جس سے سولہ ہزار برطانوی سپاہی برسرِ پیکار ہیں تو 1921 میں ان سے معاہدہ کرکے قاتل ٹولے کو ' انقلابی ' تسلیم کرلیتے ہیں۔ جبر کے نظاموں سے اپنی عصمت کی سند لے آنا آسان نہیں رکھا۔

؎ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد!

کہتے ہیں کہ سونامی گہرے پا نیوں میں محسوس نہیں ہوا کرتالیکن جب ساحلوں پر اس کی لہریں پہنچتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طوفانِ بلا خیز سے ٹاکرا ہو گیا ہے۔ یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر 'امن دشمن' اور ہر ' غدار' اپنے 'غدر' کی تکمیل اپنی زندگی میں ہی دیکھ جائے اور بالآخرتکریم سے نوازا جائے۔ کبھی کبھی دور کہیں ، قوم کے گہرے پانیوں میں پڑنے والا پتھر بظاہر کچھ نہیں کر پاتا مگر ساحلوں پر بسنے والی مخلوق کو جب اس کی لہروں سے واسطہ پڑتا ہے تو خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ پتھر کیسا اور اس کا وزن کتنا تھا جس نے ایسا سونامی اٹھا دیا ہے!

یہ سپین کی ایک کالونی ہے۔ یہاں ہسپانویوں نے سات سمندر پار سے آکر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان حالات میں ایک مذہبی راہنما میگوئیل کوسٹیلا اٹھتا ہے اور غیر ملکی قوتوں کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ ایک سال بعد 1811میں اسے شکست دے کر پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ قوم کے سمندر میں پڑنے والا یہ پتھر ٹھیک دس سال بعد 1821 میں وہ طوفان جنم دیتا ہے جس سے میکسکو سے ہسپانوی استعمار کا تسلط ختم ہو جاتا ہے۔ دس سال پہلے کے 'باغی' کو 'قوم کا باپ'کا خطاب دیا جاتا ہے!

یہ لاطینی امریکہ کا ملک ہیٹی ہے۔ فرانسیسی استعمار کے مدّمقابل ٹوسائینٹ لوورچر (Toussaint Louverture)کھڑا ہوتا ہے تو اسے گرفتار کر کے فرانس لے جایا جاتا ہے۔ ایک عرصہ بیت جانے کے بعد فرانسیسی خود اس کا مجسمہ نصب کرواتے ہیں۔ کل کا مفسد آج کا مصلح ٹھہرتا ہے۔ برطانیہ عظمیٰ کے نوآبادیاتی دور میں اس کے زیرِ نگیں برطانوی ُ الاصل امریکیوں نے برطانیہ کے خلاف اسی طرح بغاوت کردی جیسے 1857 میں ہندوستانیوں نے برطانوی سامراج کے خلاف جنگِ آزادی کا اعلان کردیا تھا ۔ 1775 سے 1782 تک جاری رہنے والے اس "غدر" میں وہ کشت و خون ہوا جس کا تذکرہ اس وقت کا ایک امریکی 'انقلابی' جارج میسن ان الفاظ میں کرتا ہے:

"ایسے ایسے گناہ اور مظالم یہاں کیے گئے ہیں جو نہ صرف برطانیہ کے نام کو بلکہ نوعِ انسانی کو بے عزت کردینے کے لیے کافی ہیں ! ہم کبھی بھی اس قوم پر اعتبار نہیں کرسکتے جس نے اب تک ہمیں استعمال کیا ہے۔(بلکہ) انسانی فطرت تو اس کے خیال سے ہی بغاوت پر اتر آتی ہے۔"

آٹھ سال بعد ،1782 میں ہونے والے 'معاہدۂ پیرس' کے نتیجے میں،" غدر" کو جنگِ آزادی کا نام نصیب ہو جاتاہے۔ ایک بار پھر ، کل کے 'باغی' آج کے 'انقلابی' بن جاتے ہیں!

'دہشت گرد' اور' حرّیت پسند' کے ادل بدل کے اس بکھیڑے کو کس خوبصورتی سے حل کی جاسکتا ہے اس کا اندازہ آپ کو ایک اسرائیلی رکنِ پارلیمنٹ کے سیدھے سادے فارمولے سے ہو سکتا ہے۔یوری ایونرے اپنے مضمون 'تمام اقسام کے دہشت گرد' میں لکھتا ہے:

"حرّیت پسند اور دہشت گرد میں فرق یہ ہے کہ حرّیت پسند میری جانب ہیں اور دہشت گرد دوسری جانب ہیں ! مجھے خوشی ہے کہ(دہشت گردی کی) اس تعریف کوقابلِ ذکر حلقوں نے(بھی) اپنا لیا ہے۔"

87 سالہ، عمر رسیدہ، یوری ایونرے کو دیکھ کر وطنِ عزیز کے وہ سنیاسی بابے یاد آجاتے ہیں جن کے پاس سو بیماریوں کا ایک ہی نسخہ ہوا کرتاہے۔ اس 'گرگِ' باراں دیدہ نے بھی قسم ہا قسم کے' 'دہشت گردوں" کے لیے اپنے باپ دادا کا وہ صدری نسخہ تجویز کیا ہے جو ہمیشہ سے Gentiles (غیر یہود) کے لیے کافی شافی چلا آیا ہے۔ سینہ بہ سینہ چلا آنے والا یہ' کُشتہ' سرکار کے ڈھنڈورچیوں کے فلسفے کا پیراہن چاک کر کے اسے بیچ چوراہے کے رسوا کر دینے کے لیے کافی ہے۔ البتہ جو لوگ اب بھی محرومِ تماشا ہیں ان کے لیے شرط صر ف د یدۂ بینا کی ہے!!

یہ امت بھی ایک قوم ہے۔ اس کا دیس شرق تاغرب ہے۔ ایک نبی کی نسبت سے قائم اس امت میں ظالموں نے دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ اپنے ہی گھر میں مکینوں کو اجنبی بنا رکھا ہے۔ دیوار کے پرے سے ابھرتی سسکیوں کی دادرسی کے لیے شدادوں سے پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ بدیسی انڈوں کے یہ 'دیسی' برائلر،خود ساختہ سرحدوں پرجہنمی داروغے بن کر پہرا دیتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی دیوار سے پرے اپنی بلکتی بہن ، اپنے سسکتے بھائی، حزن و یاس کی تصویر باپ یا غم سے نڈھال ماں کو پُرسہ دینے کی ہمت کر دکھائے۔ رہی سہی کسر 'تعلیم' کے تیزاب میں امت کی خودی کو ڈبو کر پوری کردی گئی ہے۔ استعمار نے ڈھائی سو سال کے عرصے میں 24 قیراط کے سونے میں ، کمال ہنر مندی سے، محض 2 قیراط کا 'وہن' ڈال کر بین الاقوامی معیار (international standard)کی "خالص" امت تیار کرلی ہے۔

ایسے میں ایک شوریدہ سر، سیماب فطرت ہستی،سرمیں سودائے جنوں اور دل میں آتشِ شوق لیے جبّاروں کے مقابل اتر آتی ہے۔ اس کے قلب میں بھڑکتا جوّالۂ شوق قہّاروں کے خرمنِ ہستی کو خس و خاشاک کی مانند بھسم کیے دیتا ہے۔ سائیکو سبیکو، ہنری ڈیورنڈ اور ریڈکلف کی کھینچی گئی لکیروں کو روند نے والے اس بندۂ مؤمن کی محض ایک تکبیر ہی امت کے شبستانِ وجود میں پیغام ِسحرلاتی ہے۔ وہ شبستانِ وجود جس کی تاریکی کو صوفی کی ضربیں اور ملا کے خطبے نویدِسحر سنا نہ سکے تھے! وہ برق کا ایک کُوندا تھا جو لمحوں کے لیے لپکا اور امت کی راکھ میں دبی چنگاریوں کو بھڑکتی آگ میں بدل گیا۔ وہ طوفانِ شوق تھا ذرا سی دیر رہا لیکن اپنے پیچھے سرخ آندھیوں کو چلنے کی سمت دکھلا گیا۔ وہ لپکتا شیر اسم بامسمیٰ تھا، بزدلوں کو جینے کا ڈھنگ بتلا گیا۔وہ اسامہ تھا! ظہورِ خورشید تو صبح کے ستارے کے لہوسے مشروط ہوا کرتا ہے اور کسے شک ہے کہ وہ نجمِ سحر تھا۔ اب اس کے خون کے ساتھ ہی آفتابِ حریت پوری تمازت کے ساتھ جلوہ گر ہوگا! انشاءاللہ!

سرکار کے ڈھنڈورچیوں میں سے کسی نے اسے مفسد بتایا تو کسی نے غدار؛ کسی ستم گر نے اسے خارجی کہا تو کسی نے دہشت گرد؛ کسی ظالم نے سامراج کا پروردہ کہا تو کسی نے باغی۔ یہ تو وقت فیصلہ کردے گا کہ کون کیا تھا اور کیا نہ تھا! احرار کے بارے میں زمانے کی یہ سنت رہی ہے کہ ان کی ذات پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں ۔ ہاں ! مگر جباروں کا دھڑن تختہ ہوتے ہی ڈھنڈورچی اپنی اپنی ڈفلیاں اور ڈھول لیے تاریخ میں گم ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کی دھول میں باقی جو بچتا ہے، وہ احرار کا نام ہوا کرتا ہے۔ وہ کیا تھا؟ کیسا تھا؟ ایسا کیونکر تھا؟ یہ بتانے کے لیے تو اک عمر چاہیے البتہ وہ :

آشُفتہ سر تھا ،بہت تیز گام تھا وہ

مکاں کی قید میں اس کا جنوں ،سما نہ سکا !

ڈھل گیا سحر کی سرخی میں، لگا کر تکبیر

زماں کی قید کی رسموں کو وہ، نبھا نہ سکا!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سرکار کے ڈھنڈورچیوں میں سے کسی نے اسے مفسد بتایا تو کسی نے غدار؛ کسی ستم گر نے اسے خارجی کہا تو کسی نے دہشت گرد؛ کسی ظالم نے سامراج کا پروردہ کہا تو کسی نے باغی۔ یہ تو وقت فیصلہ کردے گا کہ کون کیا تھا اور کیا نہ تھا! احرار کے بارے میں زمانے کی یہ سنت رہی ہے کہ ان کی ذات پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں ۔ ہاں ! مگر جباروں کا دھڑن تختہ ہوتے ہی ڈھنڈورچی اپنی اپنی ڈفلیاں اور ڈھول لیے تاریخ میں گم ہو جاتے ہیں۔
یہ الفاظ اس مضمون میں مناسب نہیں ہیں۔ ہم پہلے بھی اس قسم کے مضامین پر توجہ دلا چکے ہیں کہ اس قدر اسلوب بیان میں سختی اور تشدد غیر مناسب امر ہے۔ اس سختی سے ہی آپ کے مدمقابل کے اسلوب بیان میں بھی سختی آ جاتی ہے۔
کیا اتنا کافی ہے کہ آپ بس اسامہ کی تعریف کر دیں۔ لیکن اگر آپ اسامہ کے مخالفین کو رگیدنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں بھی یہ حق کھلے دل دے دیں کہ وہ آپ کو بھی اور اسامہ کو بھی رگیدیں۔ اور جواب میں سوائے تفسیق تضلیل یعنی ایک دوسرے کو فاسق اور گمراہ قرار دینے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

شیخ بن باز رحمہ اللہ نے اسامہ بن لادن کو مفسد کہا ہے اور وہ یہ کہنے کے اہل بھی ہیں۔ اگر آپ کو شیخ بن باز رحمہ اللہ کے اس فتوی سے اتفاق نہیں ہے تو یہ کوئی شرعی نص ہر گز نہیں ہے کہ اس سے اختلاف پر آپ دائرہ اسلام سے باہر ہو جائیں گے۔ آپ ادب کے ساتھ اختلاف کریں لیکن اگر آپ اس طرح ان کبار شیوخ پر طعن شروع کر دیں گے تو جواب میں سلفی اہل علم، نوجوانان اور طلبۃ العلم کی ایک بہت بڑی تحریک موجود ہے جو ان شیوخ کے خلاف آپ کے اس طعن کو بنیاد بنا کر آپ اور آپ جیسے افکار کے حاملین کو خوارجی ثابت کرنے میں اپنے وسائل خرچ کر دیں گے۔ آپ کیوں سلفی اہل علم اور ان کی اکثریت کو اپنے خلاف کرنا چاہتے ہیں۔

کیا مجاہدین ہی کی تحریک سے وابستہ ایسے اہل علم نہیں ہیں جو شیخ بن باز، علامہ البانی اور شیخ صالح العثیمین رحمہم اللہ سے ادب سے اختلاف کرتے ہیں اور انہیں شیخ کہتے کہتے نہیں تھکتے۔ اس ادب کے ساتھ اختلاف سے جس قدر آپ اپنے مخالفین کو قائل کر سکتے ہیں، اس کے بالمقابل ان شیوخ کے خلاف نفرت کے اظہار سے اپنی پوزیشن مزید مشکوک اور غیر مستحکم بناتے ہیں۔

جزاکم اللہ خیرا۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
Dear Abu Al Hassan Sb.

ASSALAMU ALAYKUM.

I hope that you will be best with your health.

may ALLAH keep you the same.(AAMEEN YA RAB.)
These few words are in ur response to my post,(kal kay dahshatgard,aaj kay freedomfighter).
(1.This was not original my post.
(2.It was pasted from Eeqaz.
(3.The idea behind was to know & share the views of forum members,
(4.I have ful respect for sheikh Bin Baz رحمہ اللہ,sheikh Uthemeenرحمہ اللہ,Allama Albaniرحمہ اللہ.)
5.May ALLAH keep them in JANNAT UL FIRDOUS.
6.I CAN NOT SEND MESSAGE IN URDU AFTER UP GRADING OF UR SYSTEM.
7.MY AIM WAS NOT TO CRITICISE THE STATEMENTS OF THESE BIG SCHOLERS OF QURAN O SUNNAH ATALL.
8.I HOPE THAT NOW UNDERSTAND MY POINT VIEW.





WASSLAM.
 
Top