• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کن کن لوگوں سے پردہ کرنا ضروری نہیں؟

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کن کن لوگوں سے پردہ کرنا ضروری نہیں؟


میں نئی نئی مسلمان ہوئی ہوں اور چاہتی ہوں کہ شریعت کے مطابق زندگی بسر کروں، سب سے پہلے مجھے پردہ کے متعلق مشکلات کا سامنا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی کریں کہ کن کن لوگوں سے مجھے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے، تا کہ میں ان کے علاوہ دوسروں سے پردہ کروں۔ ( ام حبیبہ۔ برطانیہ )

اللہ تعالیٰ آپ کو دین اسلام پر استقامت دے۔ آپ کا سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے، ہم اس کا جواب ذرا تفصیل سے دیدیتے ہیں تا کہ دوسری مسلمان خواتین بھی اس کی روشنی میں اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔

عورت اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی اور عورت کا محرم وہ ہوتا ہے جس سے ہمیشہ کیلئے نکاح حرام ہو، حرمت نکاح کے تین اسباب ہیں :
1۔ قرابت داری
2۔ دودھ کا رشتہ
3۔ سسرالی تعلق
نسبی محارم :

قرابت داری کی وجہ سے محارم کی تفصیل حسب ذیل ہے :
1۔ آباءو اجداد : عورتوں کے باپ، ان کے اجداد اوپر تک، ان میں دادا اور نانا سب شامل ہیں۔
2۔بیٹے : عورتوں کے بیٹے، ان میں بیٹے، پوتے، نواسے وغیرہ۔
3۔ عورتوں کے بھائی : ان میں حقیقی بھائی، باپ کی طرف سے اور ماں کی طرف تمام بھائی شامل ہیں۔
4۔ بھانجے اور بھتیجے : ان میں بھائی کے بیٹے اور بہن کے بیٹے اور ان کی تمام نسلیں شامل ہیں۔
5۔ چچا اور ماموں : یہ دونوں بھی نسبی محارم میں شامل ہیں، انہیں والدین کا قائم مقام ہی سمجھا جاتا ہے، بعض دفعہ چچا کو بھی والد کہہ دیا جاتا ہے۔
رضاعی محارم :

اس سے وہ مراد ہیں جو رضاعت یعنی دودھ کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں، حدیث میں سے کہ اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی ان رشتوں کو حرام کیا ہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے ( مسند امام احمد ص 131 ج 1 ) جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کو پردہ نہ کرنا جائز ہے اس طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے بھی اس کیلئے پردہ نہ کرنا مباح ہے یعنی عورت کے رضاعی بھائی، رضاعی والد اور رضاعی چچا سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے رضاعی چچا، افلح، آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے انہیں اجازت نہ دی بلکہ ان سے پردہ کر لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے پردہ نہ کرو اس لئے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔ ( صحیح مسلم، الرضاع : 1445)

اس حدیث کے مطابق عورت کے رضاعی محارم بھی نسبی محارم کی طرح ہیں لہٰذا رضاعی محارم سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سسرالی محارم :

عورت کے سسرالی محارم سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے شادی کی وجہ سے ابدی طور پر نکاح حرام ہو جاتا ہے جیسا کہ سسر اور اس کا بیٹا یا داماد وغیرہ۔ والد کی بیوی کیلئے محرم مصاھرت وہ بیٹا ہو گا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو، سورۃ النور کی آیت 31 میں اللہ تعالیٰ نے سسر اور خاوند کے بیٹوں کو شادی کی وجہ سے محرم قرار دیا ہے اور انہیں باپوں اور بیٹوں کے ساتھ ذکر کیا ہے اور انہیں پردہ نہ ہونے کے حکم میں برابر قرار دیا ہے۔

مذکورہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ جتنے بھی رشتہ دار ہیں ان سے عورت کو پردہ کرنا چاہیے خواہ وہ چچا، پھوپھی، خالہ اور ماموں کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، اسی طرح خاوند کے چچا اور ماموں سے بھی بیوی کو پردہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کے خاوند کے چچا یا ماموں ہیں اس کے نہیں ہیں۔ ( واللہ اعلم )

ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 5
جلد نمبر 39 16 تا 22 محرم الحرام 1429 ھ 26 تا 1 فروری 2008 ء
مولانا ابو محمد عبدالستارالحماد ( میاں چنوں )
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ عامر بھائی۔ دور حاضر میں تو یہ بھی بہت بڑا جہاد ہے اگر کوئی واقعی اپنے گھر میں شرعی پردہ رائج کر لے۔ اللہ تعالیٰ سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
اللہ تعالیٰ تمام مسلم خواتین کو شرعی پردہ کرنے کی توفیق دے۔ لیکن کیا شرعی پردہ میں چہرے کا پردہ بھی شامل ہے؟ فی زمانہ اس سلسلہ میں متعدد آراء کا اظہار کیا جاتا ہے۔ علامہ البانی اور غامدی مدرسہ فکر سے متاثر لوگ چہرے کے پردے کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں صائب اور درست موقف کیا ہے یہ جاننے کے لیے آپ ’کتاب و سنت ڈاٹ کام‘ پر موجود حافظ زبیر صاحب کی کتاب ’چہرے کا پردہ‘ کا مطالعہ کیجئے۔ جس میں مصنف موصوف نے جانبین کی آراء کا تجزیہ کرتے ہوئے کتاب و سنت کی روشنی میں درست موقف کی نشاندہی کی ہے۔
 
Top