• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کوئی بھائی اس کی اچھی تاویل کرنا پسند کرے گا؟

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
کوئی بھائی اس کی اچھی تاویل کرنا پسند کرے گا؟

مولاناانور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب ''فیض الباری'' شرح بخاری میں لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں :
’’حدیث مبارک میں ہے ـحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ فرائض کی پابندی سے جو قرب حاصل کرتا ہے اُس جیسا اور کوئی قرب نہیں،پ ھر میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے میں کوشاں رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو جب میں اسے پسند کرلیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔الخ‘‘
علمائے ظواہر نے اس حدیث کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ بندہ کے اعضاء جوارح اللہ کی رضا کے تابع ہو جاتے ہیں ان سے وہی حرکت ہوتی ہے جو اللہ کو پسند ہو اور اس کے تمام اعضاء کی انتہاء اور غایت ذات باری تعالیٰ ہو تو یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ بندہ سنتا ہے تو خدا کےلیے، گویا اللہ تعالیٰ اُس بندے کے کان اور آنکھیں بن گیا ہے۔
میں کہتا ہوں یہ معنی لینا حدیث کے الفاظ سے پھر جانا ہے حدیث میں صیغہ متکلم استعمال ہوا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جو بندہ نوافل سے قرب الہٰی حاصل کرچکا ہو،جسم اور صورت کے بغیر اس کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور اس میں تصرف ک کرنے والا رب العالمین ہی ہے یہ وہ مقام ہے جس کو صوفیا ء فنا فی اللہ کہتے ہیں یعنی خواہشات کے دواعی سے وہ شخص نکل جاتا ہے ، اور اس میں صرف اللہ کا تصرف رہ جاتا ہے۔'' (فیض الباری شرح بخاری بحوالہ دلائل السلوک ص۳۳)
''صوفیاء نے فرمایا کہ قرب فرائض میں بندہ اعضائے خدا تعالیٰ بنتا ہے اور قرب نوافل میں خدا تعالیٰ اعضائے بندہ بن جاتا ہے۔''(فیض الباری ۴:۴۲۷ بحوالہ دلائل السلوک ص۳۶)
نقل کردہ
 

ابوطلحہ بابر

مشہور رکن
شمولیت
فروری 03، 2013
پیغامات
674
ری ایکشن اسکور
843
پوائنٹ
195
’’حدیث مبارک میں ہے ـحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ فرائض کی پابندی سے جو قرب حاصل کرتا ہے اُس جیسا اور کوئی قرب نہیں،پ ھر میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے میں کوشاں رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو جب میں اسے پسند کرلیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔الخ‘‘
جس حدیث سے یہ عبارت کوٹ کی ہے ، یہ آدھی عبارت کوٹ کی ہے اگر مکمل عبارت دیکھیں تو جواب باقی کی عبارت میں ہے۔ اسی موضوع پر ایک درس بھی تھا میرے پاس میں دیکھتا ہوں اگر وہ مل گیا تو یہاں پیش کرتا ہوں۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
اس حدیث کے اگلے الفظ ہیں کہ "پھر وہ مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں"۔ جو بذات خود اس امر پر دال ہیں کہ اللہ کا اعضاءے بندہ ہونا فی الواقع ایسا نہیں ہے جیسا کہ اس پہلے ٹکڑے کو الگ کر کے مراد لیا جا رہا ہے۔ مطلب صرف اتنا سا ہے کہ بندہ سرتا سر مجسمِ ارادہ الٰہی ہو جاتا ہے کہ جو وہ مالک چاہتا ہے اس سے سواءے اس کے کچھ ظہور نہیں ہوتا۔

اب رہی تاویل کی بات تو ابن باز رحمہ اللہ کا بہت پیارا جواب میں نے پڑھا تھا کہ معنیٰ شرعی میں تاویل ،تاویل متصور ہو گی نہ کہ معنیٰ لغوی میں، کیونکہ علم شرعی ایک خاص علم ہے اور اس میں اصلا مراد ہوتے ہی شرعی معنیٰ ہیں۔ یہی قاعدہ معیت الٰہی پر لاگو ہوتا ہے اور یہی اس حدیث پر کہ ان نصوص کے معنیٰ شرعی ہی یہ ہیں نہ کہ تاویل شدہ معنی! تاویل تو وہ کہلاءے گی جو ان شرعی معنوں میں کی جاءے گی۔

باقی رہے صوفیاء اور ان کے احوال تو وہ آپ جانتے ہی ہیں کہ جب شریعت کی پکڑ میں آنے لگتے ہیں تو شطیحات یا معرفت کے خاص اسلوب کہلوا کر جان بچا لیتے ہیں کہ ان پر حکم نہیں لگتا۔ ویسے فیض الباری کی عبارت بھی یہ مکمل نہیں ہے۔ ابتسامہ
 
Top