• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کورونا وائرس اور نماز جمعہ کے متعلق عوام کی بے چینی کا حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
کورونا وائرس اور نماز جمعہ کے متعلق عوام کی بے چینی کا حل

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف (مسرہ) سعودی عرب

جب سے کورونا کی مصیبت عام ہوئی ہے ، کئی قسم کے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور لوگوں میں کچھ مسائل پر بیحد بے چینی پائی جاتی ہے بلکہ آپس میں نوک جھونک کی نوبت آجاتی ہے ۔ ان میں سے ایک مسئلہ جمعہ کے دن نماز جمعہ یا ظہر پڑھنے کے متعلق ہے ۔ اہل علم کے درمیان بالخصوص عوامی طبقہ میں جمعہ کے دن نماز جمعہ سے متعلق چند مسائل زیر گفتگو ہیں ۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ کیا اہل خانہ مل کر گھر میں ہی جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں ؟
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی گھر یا کیمپ میں بیس تیس افراد جمع ہوکر جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں ؟
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ مسجد میں اذان دینے والا اور ان کے ساتھ چند افراد مل کر جمعہ پڑھیں گے یا ظہر؟
چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ کیا ان مساجد میں جمعہ کی نماز ادا کی جاسکتی ہے جن میں نماز جمعہ نہیں پڑھی جاتی تھی ؟
پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ کیا جمعہ کے لئے مسجد شرط ہے یا کسی بھی جگہ ادا کی جاسکتی ہے ؟
چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ جن بعض علماء نے گھر میں بھی جمعہ قائم کرنے کا فتوی دیا ہے اس بابت صحیح بات کیا ہے ؟
ساتواں مسئلہ عوام میں کافی تشویشناک ہے وہ اس وجہ ہے کہ عموما وہ ہفتہ میں جمعہ ہی پڑھتے ہیں اس وجہ سے جمعہ کے دن ظہر پڑھنے کا کیا فائدہ ؟
نواں مسئلہ بھی عوامی بے چینی سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ حدیث میں مسلسل تین جمعہ چھوڑنے پر وعید سنائی گئی ہے کیا یہ وعید اس وقت جمعہ چھوڑنے والوں کو بھی شامل ہے ؟
ان سارے مسائل کا اختصار میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
بھلا اس بات میں کسی کو کیا تردد ہوسکتا ہے کہ جمعہ کا دن بہت ہی فضیلت والا ہے اور نماز جمعہ کی بڑی فضیلت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شرعی عذر کی وجہ سے جمعہ کے دن لوگوں کو اپنے گھروں میں ظہر کی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے یا پھر گھر میں بھی جمعہ کی نماز ہی ادا کرنی ہوگی ؟
شریعت کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف قسم کے عذر کی وجہ سے جماعت سے نماز ترک کرسکتے ہیں اور انہیں اعذار کی بنیاد پر جمعہ بھی ترک کرسکتے ہیں ۔ میں یہاں ان اعذار کا ذکر کرکے مضمون طویل نہیں کرنا چاہتا ہوں ،فقہاء نے اس پہ لمبی بحث کی ہیں وہاں رجوع کرنا مفید ہوگا،یہاں میں اپنے مقصود کی وضاحت کے لئے ایک اہم حدیث بیان کرتا ہوں ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن سمعَ المُناديَ فلم يَمنعهُ منَ اتِّباعِهِ، عُذرٌ، قالوا: وما العُذرُ ؟، قالَ: خَوفٌ أو مرَضٌ، لم تُقبَلْ منهُ الصَّلاةُ الَّتي صلَّى(صحيح أبي داود:551)
ترجمہ:جو شخص اذان کی آواز سنے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے اسے کوئی عذر مانع نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: عذر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: خوف یا بیماری تو اس کی نماز جو اس نے پڑھی قبول نہ ہو گی۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ مسجد سے اذان کی آواز آئے اور مسلمان کو سنائی بھی دے لیکن اسے کوئی بیماری لاحق ہو یا کسی قسم کا خوف ہو اسے جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے خواہ وہ اذان جمعہ کی ہو اور خوف جان ومال کا ہو یا مرض کا ہو۔ آج کل کے حالات میں کورونا وائرس کا خوف ہے اس وجہ سے حکومتی پیمانے پر اجتماعات پر پابندی لگادی گئی ہے اور اکثر ممالک میں لاک ڈان کی صورت حال بنی ہوئی ہے، ایسے میں ایک مسلمان پنچ وقتہ نمازوں کے علاوہ جمعہ کے دن بھی مسجدحاضر نہ ہوکر گھر میں ہی نماز ادا کرسکتا ہےیعنی خوف ومرض کی صورت میں جماعت ساقط ہوجاتی ہےاور انفرادی طور پر نماز پڑھنے کی رخصت مل جاتی ہے۔
اب سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹھیک ہے ہم لاک ڈان کی وجہ سے مسجد میں حاضر نہیں ہوسکتے ہیں تو کیا گھر میں جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں اور اس سلسلے میں جو چند علماء نے فتوی دیا ہے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں اہل خانہ کے ساتھ مل کر جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں کیا وہ ٹھیک ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لئے پہلے ذہن میں اوپر والی بات رکھیں کہ عذر کی وجہ سے جماعت اور نماز جمعہ ساقط ہوجاتی ہے پھر سورہ جمعہ کی اس آیت پر غور کریں ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ
ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الجمعۃ:9)
ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
اس آیت سے جمعہ کی فرضیت کی ایک عظیم حکمت کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کو اذان کے ذریعہ ایک جگہ جمع ہونے کے لئے بلایا جارہا ہے تاکہ اجتماعیت کے ساتھ اللہ کا ذکر کریں ۔ اس آیت کے ساتھ ساتھ اب صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی دیکھیں ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے:
خَطَبَنَا ابنُ عَبَّاسٍ في يَومٍ ذِي رَدْغٍ، فأمَرَ المُؤَذِّنَ لَمَّا بَلَغَ حَيَّ علَى الصَّلَاةِ، قَالَ: قُلْ: الصَّلَاةُ في الرِّحَالِ، فَنَظَرَ بَعْضُهُمْ إلى بَعْضٍ، فَكَأنَّهُمْ أنْكَرُوا، فَقَالَ: كَأنَّكُمْ أنْكَرْتُمْ هذا، إنَّ هذا فَعَلَهُ مَن هو خَيْرٌ مِنِّي، - يَعْنِي النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ - إنَّهَا عَزْمَةٌ، وإنِّي كَرِهْتُ أنْ أُحْرِجَكُمْ وعَنْ حَمَّادٍ، عن عَاصِمٍ، عن عبدِ اللَّهِ بنِ الحَارِثِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، نَحْوَهُ، غيرَ أنَّه قَالَ: كَرِهْتُ أنْ أُؤَثِّمَكُمْ فَتَجِيئُونَ تَدُوسُونَ الطِّينَ إلى رُكَبِكُمْ(صحيح البخاري:668)
ترجمہ:انہوں نے بارش اور کیچڑ کے دن لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور مؤذن کو حکم دیا کہ جب وہ حي على الصلاة پر پہنچے تو اس طرح کہے: "لوگو! اپنی اپنی قیام گاہوں پر نماز پڑھ لو۔" یہ سن کر وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے: گویا انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بیشک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ «حى على الصلاة‏» کہہ کر تمہیں باہر نکالوں (اور تکلیف میں مبتلا کروں)۔ عاصم کی روایت بھی اسی طرح ہے، البتہ اس کے آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہیں گناہ میں مبتلا کروں، تم تنگ دلی کے ساتھ گھٹنوں تک کیچڑ کو روندتے ہوئے مسجد میں آؤ۔
یہ حدیث خاص جمعہ کی نمازسے متعلق ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما خطبہ دے رہے ہیں اس دوران تیز بارش ہوگئی تو انہوں نے مؤذن کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردیں کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیں یعنی انہیں بارش وکیچڑ کی مشقت اٹھاکر اور مسجدمیں حاضر ہوکر نمازجمعہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیں ۔ آپ نے گھروں میں جمعہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نماز پڑھنے کا حکم دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں ظہر کی نماز پڑھی ہوگی ۔
اب آج کل لاک ڈان او ر کورونا کی وجہ سے جو صورت حال ہے اس میں نہ لوگ مسجد میں جمع ہوسکتے ہیں اور نہ ہی گھر سے نکلنے کی کسی کو اجازت ہے یعنی جمعہ کی فرضیت کی حکمت کا جو اہم سبب ہے کہ اذان کی آواز سنتے ہی لوگ کام کاج چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں سے نکل نکل کر مسجد میں جمع ہوں اور اجتماعیت کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کریں وہ حکمت فوت ہورہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ جس طرح صحابہ نے شدید بارش کی وجہ سے جمعہ کے دن اپنے اپنے گھروں میں ظہر کی نماز ادا کیں اسی طرح ہم بھی اپنے اپنے گھروں میں لاک ڈان اور کورونا کا خطرہ باقی رہنے تک ظہر کی نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ رہا مسئلہ ان چند فتاوی کا جن میں کہاگیا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں بھی جمعہ کے دن جمعہ کی نماز ادا کریں گے اور دلیل میں پیش کرتے ہیں بعض صحابی اپنے گھر والوں کے ساتھ جمعہ پڑھ لیتے اور بعض صحابی باغ وکھیت میں نماز جمعہ ادا کرلیتے ہیں ۔ ان لوگوں سےپوچھا جائے کہ کیا ایک بستی میں مسلمانوں کے پانچ سو گھر ہوں وہ پانچ گھروالے الگ الگ اپنے گھروں میں نماز جمعہ ادا کریں گے،اس بات کی دلیل قرآن وحدیث سے ملتی ہے اور اسلاف میں اس قسم کی کوئی نظیر ملتی ہے؟ جمعہ تو نام ہے جمع ہونے کا پھر الگ الگ اپنے گھروں میں جمعہ کرنے کی بات کرنا نصوص کے بھی خلاف ہے اور تعامل اسلاف کے بھی ۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد ہی شرط نہیں ہے مگر بستی والے ایک جگہ جمع ہوکر نماز جمعہ ادا کریں گے خواہ بستی میں دو چار ہی مسلمان کیوں نہ ہوں یہی مقصود ہے نبی ﷺ کا قریہ جواثی میں،انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا اپنے ڈیرے پر اہل وعیال کے ساتھ اور رزیق بن حکیم کا سیاہ فام لوگوں کی جماعت کے ساتھ نماز جمعہ پڑھنے کا۔ اور اگر اپنے اپنے گھروں سے نکلنا اور ایک جگہ جمع ہونا دشوار ہو تو جمعہ کے دن گھروں میں ظہرانہ ادا کریں گے ، یہی بات صحیح ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو گھر میں جمعہ پڑھنے کی بات کرتے ہیں ان سے دوسرا یہ سوال کیا جائے کہ چلو مان لیتے ہیں کہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں اہل خانہ کے ساتھ جمعہ ادا کریں گے تو اکثر گھروالوں کے پاس جمعہ پڑھانے کے قابل کوئی نہیں ہوگا ایسی صورت میں آپ کا جواب جمعہ ہوگا یا ظہر پھر آپ کہیں گے کہ تب ظہر پڑھ لیں ۔ بات تو گھوم کر وہیں آگئی کہ کسی عذر اور مرض کی وجہ سے جماعت ترک جانا جائز ہے اور جماعت میں جمعہ بھی داخل ہے لہذا جمعہ کے دن گھر سے نہ نکل پانے کی صورت میں آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ظہر ادا کرلیں ۔
اب ان لوگوں کی بے چینی پر نظر ڈالتے ہیں جو ہفتہ میں صرف جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں بھلاان کو ظہر پڑھنے سے کیسے تسلی ملے گی ؟ اس لئے یہ بے نمازی جمعہ کے لئے کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آتے ہیں ۔ جب کوئی ان کو کہتا ہے کہ مسلسل تین جمعہ چھوڑنے سے دل پراللہ تعالی مہر لگادیتا ہے تو یہ اور بھی پریشان ہوجاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کےلئے کورونا ایک تنبیہ ہے کہ اب بھی وقت ہے سدھر جاؤ، پنج وقتہ نماز پڑھنے لگ جاؤ،ہفتہ میں ایک وقت کی نماز پڑھنے سے مسلمان نہیں ہوسکتے ، پانچ وقت کے نمازی بنو ورنہ جب گھروں میں قید کردئے جاؤگے اس دن جمعہ نہیں پڑھ پاؤگے ،ظہر پڑھنا پڑے گا اور ہفتہ میں ایک مرتبہ ظہر پڑھ کے کیا کروگے ؟ سوچنے اور غوروفکر کرنے کا مقام ہے۔۔۔۔
اب آتے ہیں نفس مسئلہ کی طرف ، کہ عذر کی وجہ سے مسلسل تین جمعہ یا اس سے بھی زیادہ چھوٹ جائے تو اس کے دل پر اللہ مہر نہیں لگائے گا کیونکہ اس نے قصدا جمعہ نہیں چھوڑا ہے اور اس نے ظہر کی نماز تو ادا کی ہے وہ جمعہ کے قائم مقام ہوگیا۔ یہی حال مسلسل سفر میں رہنے یا مسلسل بیمار رہنے والے کا بھی ہے جنہیں مسلسل کتنے جمعہ پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔
اس مسئلے کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ جوکبھی جمعہ ترک کرنے والا نہ ہو ، ہمیشہ جمعہ پڑھنے کی کوشش کرتارہاہواور جمعہ کی ادائیگی میں کبھی سستی سے کام نہ لیا ہواسے آج لاک ڈان کی وجہ سے جمعہ نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے ظہر کا اجر بھی جمعہ جیسا ملے گا کیونکہ اللہ تعالی نیت کے مطابق ثواب دیتا ہے ۔ اس حیثیت سے دیکھا جائے تو اگر تین یا تین سے زیادہ جمعہ چھوٹ جائے پھر بھی اسے جمعہ کا اجر ملے گا اور جب وہ جمعہ کا اجر پاہی رہا ہے تو مسلسل تین جمعہ ترک کرنے پر جو وعید ہے اس میں یہ معذور نہیں داخل ہوگا۔
پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ لاک ڈان اور کورونا کی وجہ سے لوگ اپنے اپنے گھروں میں ظہر کی نماز ادا کرسکتے ہیں ، اس میں کوئی تردد نہ کیا جائے اور لوگ اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھروں میں ظہر ہی ادا کریں ، جمعہ نہیں ۔ نیز یہ بھی معلوم رہے کہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد شرط نہیں ہے اس لئے جمعہ کے دن لوگ مسجد میں جمع ہوں خواہ جامع ہو یا غیرجامع اس میں جمعہ پڑھیں گے اور اسی طرح کسی عام جگہ(گھر یا کیمپ) متعدد اشخاص جمع ہوجائیں مثلا بیس پچیس کی تعداد میں تو وہ لوگ بھی جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں مگر قانون کی خلاف ورزی کرکے کسی جگہ بیس تیس کی تعداد میں جمع ہونے سے بہتر ہے رخصت پرعمل کرتے ہوئے اپنے گھروالوں کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی جائے۔
 
Top