عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
چہارم: مساجد میں میل جول کی ممانعت اور صفوں کے درمیان فاصلہ
مذكوره بالا احادیث میں متاثرہ علاقوں میں آمد ورفت کے ساتھ ساتھ مریض شخص سے میل جول کی ممانعت کی گئی ہے،اور متعدی مریضوں حتیٰ کہ جانوروں سے بھی فاصلے کی تلقین کی گئی ہے۔ احتیاطی تدابیر کی مشروعیت کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی تدابیر ہیں جن کی شرعی احکام میں گنجائش ہو، جیساکہ مساجد میں اجتماعی عبادات کے بہت سے مسائل ہیں، جن میں چند احتیاطی امکانات درج ذیل ہیں:a شرعی ضرورت کے وقت اور غیرمعمولی حالات میں نمازیں جمع کرنے کی شرع میں رخصت موجود ہے، جیسا کہ سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ
جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ. فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ. قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: كَيْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ.[1]
’’رسول اللّٰہ ﷺ نے ظہر،عصر اور مغرب،عشا کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا۔وکیع کی روایت میں ہے( کہ سعید نے) کہا: میں نے ابن عباس ؓسے پوچھا:آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا:تاکہ اپنی اُمت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں۔‘‘
سیدنا ابان ؓبن عثمانؓ نے بارش والی ایک رات میں مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا ، اور کبار تابعی علما کی ایک جماعت ان کے ساتھ تھی، تو کسی نے بھی ان کی مخالفت نہ کی، چنانچہ اس مسئلہ پر اجماع ہے۔ [2]
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے لیکن شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز لکھتے ہیں کہ
الجمع رخصة عند نزول المطر أو عند المرض وفي السفر كذلك، الله جل وعلا يحب أن تؤتى رخصه، فإذا نزل بالمسلمين مطر يشق عليهم معه أداء الصلاة في وقتها، العشاء أو العصر مع الظهر فلا بأس أن يجمعوا كما يجمع في السفر، المسافر يجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء...والصواب أنه غير منسوخ لكن المحمول على أنه جمع لعذر شرعي غير الخوف وغير المطر وغير السفر كالدحض، فإن الدحض عذر شرعي أيضًا، فإذا كانت الأسواق فيها زلق وطين حول المسجد ولو لبعض الجماعة فإن هذا عذر... وإذا تركوا الجمع بين الظهر والعصر خروجًا من الخلاف وصبروا على بعض المشقة فهذا حسن إن شاء الله.[3]
’’بارش، مرض اور سفر کے وقت نماز جمع کرنے کی رخصت ہے۔ اور اپنی دی ہوئی رعایتوں سے فائدہ اٹھانا اللّٰہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔ سو جب مسلمانوں پر بارش آئے جس سے اپنے وقت پر نماز ادا کرنا مشکل ہوجائے تو وہ سفر کی طرح ظہر وعصر او ر مغرب وعشاء کو جمع کرسکتے ہیں۔ اور درست یہ ہے کہ حدیث منسوخ نہیں بلکہ خوف، بارش اور سفرکے علاوہ مزید کسی شرعی عذر اور ركاوٹ کی صورت میں بھی نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے کیونکہ رکاوٹ بھی ایک شرعی عذر ہے۔ سو جب بازاروں میں ، مسجدوں کے گرد پھسلن اور کیچڑ ہو، چاہے بعض لوگ ہی اس سے متاثر ہوں تو یہ عذر ہے ۔ اگر بعض لوگ اختلاف سے بچتے ہوئے ظہر وعصر کو جمع نہ کریں اور مشقت پر صبر کریں تو یہ بھی اچھا ہے۔ ‘‘
b اسی طرح مرض اور خوف کی مشکل ترین حالت میں نمازِ باجماعت کو ترک بھی کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں دورانِ جہاد، صلاۃِ خوف کے سلسلے میں آتا ہے :
﴿فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا١ۚ﴾ (البقرۃ: 239)
’’اگر تم حالت خوف میں ہو تو خواہ پیدل ہو یا سوار (تو جیسے ممکن ہو نماز ادا کر لو)۔‘‘
شیخ عبد العزیز بن باز لکھتے ہیں:
فإنهم يصلون رجالا وركبانا ولو بالإيماء، كل يصلي لنفسه مستقبل القبلة، وغير مستقبلها عند الضرورة كما قال الله جل وعلا: ﴿فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا١ۚ﴾[4]
’’دوران جہاد پیادہ یا سوار، ہرحالت میں حتی کہ اشارہ کے ساتھ بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ہر شخص اپنے تئیں قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھ لے، اور حسب ضرورت قبلہ کے علاوہ دوسری سمت بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔‘‘
c اور سیدنا عبد الله بن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنِ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ» قَالُوا: وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: «خَوْفٌ، أَوْ مَرَضٌ». لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى.[5]
” جس نے مؤذن کو سنا اور اس کی اتباع کرنے میں (مسجد میں آنے سے ) اسے کوئی عذر مانع نہ ہوا ۔“ ... سننے والوں نے پوچھا : عذر سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا :” کوئی خوف یا بیماری ‘‘... تو ایسے آدمی کی نماز جو وہ پڑھے گا، مقبول نہ ہو گی ۔ “
اس حدیث کی سند میں جو کلام ہے، وہ عذر کی وضاحت یعنی خوف اور مرض کی حد ہے۔ کیونکہ سنن ابن ماجہ میں سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس کا یہی فرمان بالکل صحیح سند کے ساتھ ان الفاظ میں موجو د ہے:
«مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ».[6]
’’جو شخص اذان سن کر( نماز کے لیے مسجد میں)نہیں آتا، اس کی کوئی نماز نہیں، الّا یہ کہ کوئی عذر ہو۔‘‘
كشاف القناع میں ان اعذار کا تذکرہ کرتے ہوئے ، جن کی بنا پر جمعہ اور جماعت کو چھوڑنے کی اجازت ہے، امام منصور بن يونس ادريس بہوتی حنبلی (م 1051ھ) لکھتے ہیں:
(وَكَذَا مَنْ بِهِ بَرَصٌ جُذَامٌ يُتَأَذَّى بِهِ) قِيَاسًا عَلَى أَكْلِ الثُّومِ وَنَحْوِهِ، بِجَامِعِ الْأَذَى وَيَأْتِي فِي التَّغْرِيرِ مَنْعُ الْجَذْمَى مِنْ مُخَالَطَةِ الْأَصِحَّاءِ.[7]
’’اسی طرح کوڑھ اور برص کی بیماری ہے جس میں لہسن وپیاز پر قیاس کیا گیا ہے جو سب اذیت کو یکجا کرنیوالے ہیں۔ اور تغریر میں بھی کوڑھی کی صحت مندلوگوں سے میل جول کی ممانعت آئی ہے۔‘‘
مذکورہ آیتِ کریمہ اور احادیث سے علم ہوا کہ کسی شرعی عذر کی بنا پر فرض نماز کو جمع کیا جاسکتا ہے اور اسے جماعت کے بغیر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ متعدی اور وبائی امراض بھی ، مرض اور خوف کی سنگین صورت ہیں، جب وہ کسی علاقے میں فی الحقیقت پائے جائیں، نہ کہ محض میڈیا کے زور پر ان کا خوف مسلط کردیا گیا ہو۔ اس بنا پر بیماری کے حقیقی خوف سے فرض نماز مسجد میں جمع کرنے اور گھر میں بھی پڑھنے کی رخصت ہے۔
d ان احادیث میں رخصت واجازت کی بات ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ صرف انفرادی رخصت کا معاملہ ہے یا مسلم حکومت بھی اس بات کی مجاز ہے کہ لوگوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی تلقین کرے۔ اس سلسلے میں نبی کریم کی وہ حدیث خاص اہمیت رکھتی ہے ، جسے حضرت نافع نے سیدنا ابن عمر سے روایت کیا ہے:
أَذَّنَ ابْنُ عُمَرَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ قَالَ: صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَأْمُرُ مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ، ثُمَّ يَقُولُ عَلَى إِثْرِهِ: «أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ» فِي اللَّيْلَةِ البَارِدَةِ، أَوِ المَطِيرَةِ فِي السَّفَرِ.[8]
’’ عبداللّٰہ بن عمر ؓ نے ایک مرتبہ سخت سردی کی رات میں ضَجنان پہاڑی پر اذان دی، پھر فرمایا: اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ رسول اللّٰہ ﷺ دورانِ سفر ،سخت سردی یا بارش کی رات میں اپنے مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اذان کہنے کے بعد یوں کہہ دے: توجہ سے سنو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔‘‘
اس حدیث کی تشریح میں مولانا عبد الستار حماد ﷾ لکھتے ہیں:
’’ اس میں اختلاف ہے کہ اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھنے کا اعلان حي على الصلاة کی جگہ یا اسکے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کیا جائے؟ متقدمین کے ہاں اسکے متعلق تین موقف حسب ذیل ہیں :
(1) حي على الصلاة کی جگہ ان الفاظ کو کہا جائے،چنانچہ سيدنا ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ اُنھوں نے مؤذن کو کہا کہ جب تو أشهد أن محمدًا رسول الله کہے تو حي على الصلاة مت کہنا بلکہ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کرنا۔(صحیح البخاری، الجمعۃ، حدیث:901)
ایک روایت میں ہے کہ سيدنا ابن عباس ؓنے کیچڑ والے دن خطبہ دینے کا ارادہ فرمایا،مؤذن جب حي على الصلاة پر پہنچا تو اسے حکم دیا کہ وہ الصلاة في الرحال کے الفاظ کہے۔(صحیح البخاری، الاذان،حدیث:668) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ الصلاة في الرحال کے الفاظ حي علي الصلاة کی جگہ پر کہے جائیں۔امام ابن خزیمہ نے ان الفاظ کے پیش نظر اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ بارش کہ دن حي على الصلاة کے الفاظ حذف کردیے جائیں۔
ان حضرات نے جب اذان کے مفہوم پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حي علي الصلاة کہنے،پھر الصلاة في الرحال یا صلوا في بيوتكم کا اعلان کرنے میں بظاہر تضاد ہے،اس لیے حي علي الصلاة کے الفاظ حذف کر دیے جائیں۔ (فتح الباری:2؍130)
(2)حي على الصلاة کے بعد یہ اعلان کیا جائے۔اس کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ سخت سردی کی رات میں مؤذن نے اذان دی تو اس نے حي علي الفلاح کہنے کے بعد صلّوا في رحالكم یعنی گھروں میں نماز پڑھنےکا اعلان[9] کیا۔(المصنف عبدالرزاق:1؍501، رقم 1925،1926)
(3) گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان اذان مکمل ہونے کے بعد کیا جائے جیسا کہ مذکورہ روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما نے اس امر کی صراحت کی ہے تاکہ اذان کا نظم متاثر نہ ہو۔
ہمارے نزدیک راجح آخری موقف ہے کہ اذان کی تکمیل کے بعد گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کیا جائے کیونکہ ان الفاظ سے اگر کوئی فائدہ اٹھا کر گھر میں نماز پڑھنا چاہے تو اس کےلیے رخصت ہے اور اگر حي على الصلاة کے پیش نظر تکلیف برداشت کرکے مسجد میں آتا ہے تو اس کے لیے یقیناً یہ امر باعثِ اجرو ثواب ہوگا۔اس سلسلے میں سیدنا جابر ؓسے ایک روایت ہے کہ ہم ایک دفعہ رسول اللّٰہ ﷺ کے ہمراہ سفر میں نکلے تو بارش ہونے لگی،رسول اللّٰہ ﷺنے فرمایا:’’اگر کوئی خیمے میں نماز پڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔‘‘(صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:1603...698)
ïحدیث میں سفر کا ذکر اتفاقی ہے۔ اگر ایسے حالات حضر میں پیدا ہوجائیں تو عام حالات میں بھی مذکورہ اعلان کیا جاسکتا ہے تاکہ لوگوں کو سہولت رہے اور مسجد میں آنے کی مشقت سے محفوظ رہیں۔‘‘
[1] صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ)، رقم 1633
[2] https://islamqa.info/ar/answers/31172
[3] https://binbaz.org.sa/fatwas/11585
[4] فتاوى نور علىٰ الدرب از شیخ ابن باز:13؍ 130،132
[5] سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّلَاةِ (بَابُ فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ)، رقم 551... اس حدیث کو دار الدعوۃ، دہلی کی مجلس علمی نے صحیح جبکہ شیخ ناصر الدین البانی نے عذر کی وضاحت کے علاوہ باقی الفاظ کو صحیح قرار دیا ہے۔
[6] سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْمَسَاجِدِوَالْجَمَاعَاتِ (بَابُ التَّغْلِيظِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ)، رقم 793
[7] کشاف القناع از امام منصور بہوتی حنبلی: 1؍ 498، دار الکتب العلمیہ، بیروت
[8] صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بَابُ مَنْ قَالَ: لِيُؤَذِّنْ فِي السَّفَرِ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ)، رقم 632
[9] سنن نسائی میں عمرو بن اوس سے مروی ہے کہ أَنْبَأَنَا رَجُلٌ مِنْ ثَقِيفٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُنَادِيَ النَّبِيِّ ﷺ يَعْنِي فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ فِي السَّفَرِ يَقُولُ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ(کِتَابُ الْأَذَانِ، رقم 653، صحیح)... پہلا موقف سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس کا ہے جو مرجوح ہے۔ جبکہ دوسرا اور تیسرا موقف نبی کریمﷺ سے مروی ہے جس میں دوسرے موقف کو تیسرے پر محمول کرنا راجح ہے، کیونکہ لفظ حدیث میں اس کی صراحت پائی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: "ثُمَّ يَقُولُ عَلَى أَثَرِهِ صَرِيحٌ فِي أَنَّ الْقَوْلَ الْمَذْكُورَ كَانَ بَعْدَ فَرَاغِ الْأَذَانِ." (فتح البار ی: 2؍113)