::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (1) :::::
"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """
و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُسکے لیے ہدایت واضح کر دی گئی ، اور اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
تمام محترم و مؤقر قارئین سے گذارش ہے کہ یہ مضمون کچھ طویل ہو گا ، اوراِن شاء اللہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول یعنی قبول شدہ علمی قوانین و قواعد کے مطابق ہو گا ، اور بحث برائے بحث کے انداز میں نہیں بلکہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول قوانین و قواعد کے مطابق تحقیق کے انداز میں ہو گا ،
لہذا عین ممکن ہے کہ ایک ہی نشست میں پڑھنے سے درست طور پر سمجھا نہ جا سکے ، لہذا جس قاری کو ذہنی تھکاوٹ یا بیزاری محسوس ہو وہ اِس مضمون کو رک رک کر پڑہے ،
تحمل اور تدبر کے اس کا مطالعہ فرمایے ، اور اِسلامی علوم کے وہ قواعد اور قوانین جو ہمیشہ سے پوری اُمت کے اِماموں کےہاں معروف اور مقبول ہیں اس پر اسے پرکھیے ، کہ یہ میری یا کسی شخص کی ذاتی سوچوں اور بے پر اُڑتے ہوئے پراگندہ خیالات پر مبنی نہیں ہو گا ، باذن اللہ ، جس قاری کے دِل یا دِماغ میں کسی معتبر قاعدے اور قانون کے مطابق کوئی اعتراض ، اشکال یا سوال ہو ،تو وہ ضرور سامنے لائے ، لیکن ایک اچھے مسلمان والے اِخلاق و کلام کے مطابق ، اگر کوئی مسلمان نہیں تو بھی ایک اچھے اخلاق والے انسان کے مطابق کسی کے بھی اعتراض ، اشکال یا سوال کو خوش آمدید کہتا ہوں ، بدتمیزی اور بدتہذیبی اور بازاری انداز کلام میں کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دوں گا ، اِن شاء اللہ العزیز القدیر ۔
چند روز پہلے ایک بھائی کے ذریعے فیس بک پر ایک مضمون دیکھنے اور پھر اس کا برقی نسخہ اتار کر پڑھنے کا اتفاق ہوا ، جس کے لکھنے والے صاحب شاید کوئی مسلمان ہیں ، اور انہوں نے فیس بک پر اپنا شناختی نام """ القرانک پاور """ بنا رکھا ہے ، جو لغوی طور پر بالکل غلط ہے ، جس یہ اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ان صاحب کا زبان و بیان کے اصول و قواعد سے بھی کچھ ربط و رشتہ نہیں ،
ان کے اختیار کردہ اس شناختی نام سے اندازہ تو یہی ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہوں گے ، اور اسی حسن ظن کے مطابق ، ایک مسلمان بھائی کا ادب ملحوظ نظر رکھتے ہوئے میں نے اُن سے کچھ بات چیت بھی کی، جس کے جواب میں انہوں نے بالکل غیر اسلامی اندازمیں جوابات دیے ، اور میری طرف سے پوچھے گئے ایک بنیادی سوال کے جواب دینے کو بالکل ہی گول کر گئے ، اور پھر میری طرف سے پوچھے ہوئے دو اور سوالات کے جواب میں بھی بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور ان سوالات کے جواب میں جو کچھ کہا وہ الحمد للہ ان صاحب کی قران فہمی کی حقیقت مزید واضح کرنے والا ہوا ، و للہ الحمد ،
ان سوال و جواب کی بات تو اِن شاء اللہ بعد میں کرتا ہوں ، فی الحال میں ان صاحب کے لکھے ہوئے اس مضمون کا جائزہ پیش کرتا ہوں ، جس مضمون میں انہوں نے اپنی خود ساختہ قران فہمی کے مطابق ایک صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا انکار کیا ، اور صرف انکار ہی نہیں کیا ، بلکہ بدتمیزی بدکلامی والے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے اس انکار کو قران کریم کی ایک آیت شریفہ کی آڑ میں دُرُست دِکھانے کی کوشش کر ڈالی ،
لیکن قربان جایے اپنے اکیلے خالق و مالک اللہ جلّ جلالہُ کی قدرت و حِکمت کے ، کہ اُس نے ان صاحب کی سوچ و فِکر ، اعتراض اور علمیت کی حقیقت ان کے اسی مضمون میں بھی خوب اچھی طرح سے دِکھا دی ، جِس طرح اللہ تعالیٰ نے ان صاحب کی طرح اپنی ذاتی سوچوں کی بنا پر رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مُبارکہ کو رد کرتے ہیں اور اپنے ذاتی افکار کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام کی تلبیس چڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی معنوی تحریف کرتے ہیں ، جودو میں سے ایک معاملے کی دلیل ہے کہ تیسرے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ، کہ یہ لوگ یا تو کتاب اللہ سے جاھل ہیں چند ترجمے پڑھ کر اللہ کے کلام کو اپنی گمراہ عقلوں کے مطابق سمجھتے ہیں اور اسی طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ، یا پھر یہ لوگ جان بوجھ کر مسلمانوں کو اللہ کی کتاب کے نام کی آڑ میں کتاب اللہ کو اللہ کی مراد کے عین مطابق سمجھنے کے ذریعے یعنی سُنّت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ سُنّت شریفہ کی حدود و قیود سے آزاد ہو کر قران کریم کے نام پر مسلمانوں کو گمراہ کر سکیں اوروہ مسلمان بے چارے یہ ہی سمجھتے رہیں کہ ہم تو قران پر عمل پیرا ہیں ،
اِس وقت اِن لوگوں کے مسلک و مذھب کے بارے میں بات کرنا میرا موضوع نہیں ، چند تعارفی باتیں صِرف اس لیے کی ہیں تا کہ قارئین کرام کے ذہن میں ان لوگوں کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات موجود رہیں کہ یہ لوگ قران کریم کے مطابق نہیں بلکہ مخالف کام کر رہے ہیں ،
آیے ان صاحب کے لکھے ہوئے مضمون کا قران کریم اور صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں ،
اِن صاحب نے اپنے اِس مضمون کا نام رکھا ہے """ بخاری شریف میں جانوروں کی “ٹارگٹ کلنگ”کے وحشیانہ احکامات """، جِس کے جواب میں اپنے اِس مضمون کا ایک عنوان """صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """ بھی رکھا ہے ،
اعتراض کرنے والے نے صحیح بخاری شریف میں سے چار احادیث شریفہ کو اپنی سوچ و فکر کا تختہ مشق بنایا ہے ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان مبارک (((((وَلَا تَقْتُلُواالنَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ:::اورتُم لوگ اُس جان کو قتل مت کرنا جِس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، سوائے حق کے ساتھ)))))کو بنیادی طور پر اپنے لیے دلیل بنایا ہے اور اپنے اس مضمون میں مختلف آیات شریفہ کو بھی استعمال کیا ہے ، اِن شاء اللہ ، میں ایک ایک کر کے اعتراض کرنے والے کے سب اعتراضات کا اور اس کے اپنائے ہوئے دلائل کا جائزہ پیش کرتا ہوں ،
سب سے پہلے میں آپ صاحبان کے سامنے ایک ایک کر کے اُن احادیث شریفہ کا اصل عربی متن اور ترجمہ پیش کرتا ہوں جن احادیث مُبارکہ پر اعتراض کیا گیا ہے، خیال رہے کہ اعتراض کرنے والے نے کسی بھی حدیث شریف کا اصل عربی متن ذِکر نہیں کیا ، صرف ترجمے لکھے ہیں :::
::::::کتوں کو قتل کیے جانے کے حکم کا مسئلہ تین مراحل میں مکمل ہوتا ہے :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطاء کردہ توفیق سے میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ کتوں کو قتل کیے جانے والے اِس حکم کے تین مراحل ہیں ،::::: (۱) ::::: پہلا مرحلہ جِس میں یہ حکم عام طور پر دِیا گیا ، اور اس پر عمل بھی کروایا گیا ،
::::: (۲) ::::: دوسرا مرحلہ جِس میں عام طور پر سب ہی کتوں کو مارنے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے اِس میں سے استثناء فرما دِیا گیا ، چوکیداری ، شکار اور زراعت کے لیے استعمال کیے جانے والے کتوں کو قتل کرنے کے حکم سے مستثنی قرار فرما دِیا ،
::::: (۳) ::::: تیسرا اور آخری مرحلہ جِس میں اِس حکم کو اور عام طور پر سب ہی کتوں کو مارنے سے منع فرما کر صِرف دو قسم کے کتوں کے مارنے کے لیے برقرار رکھا گیا ، ، ایک تو درندگی کرنے والے خونخوار کتے ، اور دوسرے وہ خونخوار کتے جن کےچہرے پر دو کالے نقطے ہوں ،
اِس طرح آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ، صِرف دو قِسم کےکتوں کو قتل کرنے کا حکم برقرار رہا ، ایک تو درندگی کرنے والا کوئی سا بھی خونخوار کتا ، اور دوسرے وہ خونخوار کتے جن کےچہرے پر دو کالے نقطے ہوں ،
اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ یہ کیا بات ہوئی کہ پہلے ایک حکم دِیا گیا اور پھر اُسے منسوخ کر دِیا گیا ، یا اُس میں تبدیلی کر دی گئی ، یا اُس میں سے کچھ مستثنی کر دِیا گیا ،یا اُس میں سے کچھ مُقیّد کر دِیا گیا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان کے مطابق نہیں ہے لہذا یہ تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ہو سکتی ،
تو اُسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ احکام کی منسوخی ، یا اُن میں تبدیلی اور اُن میں سے کچھ مستثنی کرنا، کسی مطلق حکم میں سے کچھ مُقیّد کرنا تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ میں بھی ہے ، لہذا اگر کسی حکم کی منسوخی ، اُس میں تبدیلی اور اُس میں کچھ مستثنی کرنے کا کوئی نیا حکم ، یا کسی مطلق حکم میں سے کچھ مُقیّد کرنا دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان کے مطابق نہیں ، اور حدیث شریف کے انکار کا سبب ہے تو یہی سبب بدرجہ اُولیٰ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کئی فرامین شریفہ کے انکار کا بھی بنایا جا سکتا ، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ ،
:::::: ایک تنبیہ ، اِس مضمون میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین میں سے منسوخ کیے جانے والے فرامین کے موضوع پر بات نہیں کی جائے گی ، لہذا جوابا ً اس موضوع کو شروع نہ کیا جائے ، اِس موضوع پر درج ذیل مقامات پر کچھ بات چیت موجود ہے ، جو مزید کا خواہاں ہو وہاں تشریف لیے آئے ،
http://bit.ly/Y8tOXc
http://bit.ly/XmcSvq
::::::کتوں کو قتل کیے جانے کے حکم کا مسئلہ صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ کی روشنی میں :::::::
اعتراض کرنے والے نے اپنے مضمون میں موضوع کے مطابق ترتیب کا اہتما م کیے بغیر اِس موضوع سے متعلق دو احادیث نقل کی ہیں ، ایک سب سے پہلے اور دوسری سب سے آخر میں ، قاعدے قانون اور اصول کی بات ہے کہ جب کسی ایک مسئلے کو سمجھا جانا ہو تو اُس کے بارے میں صِرف کسی ایک ہی جگہ میں مذکورہ کسی ایک روایت یا چند ایک روایات کو دیکھ کر اُس پر حکم صادر کر دینا سوائے جہالت اور گمراہی کے کچھ اور نہیں ہوتا ، جیسا کہ اعتراض کرنے والے کی کاروائی ہے ،
لہذا ،اِن شاء اللہ ہم اس قاعدے اور قانون کے مطابق کتوں کو قتل کیے جانے کے حکم والی احادیث شریفہ کا کچھ اور جگہوں سے بھی مطالعہ کرتے ہیں ،
اعتراض کرنے والے کی طرف سے نقل کی جانے والی احادیث شریفہ میں سے سب سے پہلے درج ذیل حدیث شریف ہے جِس میں کتوں کو مارنے کا حکم اجمالی طور پر بیان ہوا ہے:::
::::: (۱)::::: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں روایت ہے کہ(((((أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلاَبِ:::اُن(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا)))))صحیح البخاری/حدیث /3323کتاب بدء الخلق/باب17(آخری باب)،
اور پھر اسی موضوع سے متعلق ایک اور حدیث شریف جو کہ اِیمان والوں کی امی جان عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کی روایت ہے ، پانچویں اور آخری حدیث کے طور پر ذِکر کی ہے ، یہ حدیث درج ذیل ہے ،
(((((خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِى الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ ، وَالْعَقْرَبُ ، وَالْحُدَيَّا ، وَالْغُرَابُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ :::پانچ (جانور)فاسق ہیں ، انہیں حرم میں بھی قتل کیا جانا درست ہے ، چوہا ، بچھو ، چیل، کوا ، اور درندگی کرنے والا خونخوار کتا)))))صحیح البخاری/حدیث /3314کتاب بدء الخلق/باب16،
::::::: اِن دو احادیث شریفہ میں بالکل واضح ہے کہ پہلی حدیث شریف میں ایک حکم مجمل طور پر بیان ہوا ہے اور دوسری حدیث شریف میں اس حکم کی شرح ، تفصیل اور سبب بھی بیان ہوا ہے ،
اعتراض کرنے والے نے ان دو احادیث مُبارکہ میں صِرف پہلی حدیث مُبارک کو اپنا تختہء مشق بنایااور دوسری میں موجود شرح ، تفصیل اور سبب کی طرف سے آنکھیں چُرا لِیں !!! ؟؟؟
ïïïکیا یہ اعتراض کرنے والے کی جہالت ہے یا بد دیانتی ، یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بغض و عناد جو درحقیقت صاحب ء حدیث صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بغض کا غماز ہے ؟؟؟
مذکورہ بالا دو سوالات کا درست جواب سمجھنے کے لیے آپ صاحبان یہ بھی دیکھیے کہ صحیح بخاری شریف کے جس حصے میں اعتراض کرنے والے نے یہ دو احادیث شریفہ نقل کی ہیں ، وہیں ، اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما و أرضاہما کی بیان فرمودہ حدیث شریف کے فوراً بعد خود عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کی ایک اور روایت مذکور ہے جِس میں کچھ مختلف الفاظ میں یہی شرح ،اور تفصیل بیان ہے کہ (((((خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهْوَ مُحْرِمٌ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ الْعَقْرَبُ ، وَالْفَأْرَةُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ، وَالْغُرَابُ ، وَالْحِدَأَةُ:::جانوروں میں سے پانچ ایسے ہیں جنہیں اگر کوئی احرام کی حالت میں بھی قتل کر دے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں ، بچھو ،اور چوہا ، اور درندگی کرنے والا خونخوار کتا، اور کوّا ، اور چیل)))))صحیح البخاری/حدیث /3315کتاب بدء الخلق/باب16،
قارئین کرام ، اب غور فرمایے کہ اعتراض کرنے والے کو عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کی یہ روایت دِکھائی نہیں دی ، یا اُس نے جان بوجھ کر اس سے نظر چرائی ہے ؟؟؟؟؟
اِس سوال کا جواب اِن شاء اللہ ، آپ کو اِ س اعتراض کرنے والے اور اس کے جیسے دوسرے حدیث دُشمنوں کے علم اور مقصد کے بارے میں وہ کچھ سمجھانے میں مددگار ہو گا جس کا ذِکر میں نے اپنی بات کے آغاز میں کیا ،
محترم قارئین ، امی جان عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما و أرضاہُما ، اور عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کی روایت کردہ تفصیل والی احادیث شریفہ میں یہ بالکل واضح ہے کہ سب ہی کتوں کو قتل کر دیے جانے کا حکم تبدیل کر کے اسے صِرف ان کتوں تک مُقیّد کر دِیا گیا جو خونخوار ہو چکے ہیں ، لوگوں کو بلا وجہ کاٹنے والے بن چکے ہوں ،
یہ شرح ، تفصیل اور سبب عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما وأرضاہما کی روایت کردہ پہلی حدیث شریف میں بیان اجمالی، مطلق حکم میں سےقید ہے ، اِس کی کچھ مزید تفصیل اِن شاء اللہ آگے بیان کروں گا ،
پس بالکل صاف طور پر بیان کردہ اِس شرح، تفصیل ، سبب اور قید کی موجودگی میں اسی موضوع کے ایک اجمالی حکم والی حدیث شریف پر اعتراض کرنا ، اعتراض کرنے والے کی کس سوچ کا آئینہ دار ہے ؟؟؟ اِس کا اندازہ آپ بھی باخوبی لگا سکتے ہیں ، اِن شاء اللہ،
ابھی تک ہم نے دو صحابہ ، یعنی اِیمان والوں کی امی جان عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما و أرضاہُما ، اور عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کی روایت کردہ احادیث شریفہ کا مطالعہ کیا ، اور اب یہ حدیث شریف پڑہیے ، جو ایک اور تیسرے صحابی عبداللہ ابن المغفل رضی اللہ عنہ ُ کی روایت ہے ، کہتے ہیں کہ (((((أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ ثُمَّ قَالَ« مَا بَالُهُمْ وَبَالُ الْكِلاَبِ »ثُمَّ رَخَّصَ فِى كَلْبِ الصَّيْدِ وَكَلْبِ الْغَنَمِ:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا اور(ممانعت کا سبب بیان فرماتے ہوئے )اِرشاد فرمایا """ اِن (لوگوں) کا کوئی معاملہ کتوں کو قتل کرنے کی ضرورت والا نہیں """ پھر شکار( کے لیے رکھے جانے )والے کتے ، اور بکریوں (کی چوکیداری کرنے)والےکتےکےبارےمیں رخصت عطاء فرما دی)))))صحیح مُسلم/حدیث/4104 کتاب المساقاۃ / باب10،
یہاں تک تو بات ہوئی پہلے دو مراحل کی ، اِس کے بعد ہم بڑھتے ہیں تیسرے مرحلے کے دلائل کے مطالعہ کی طرف ،
یہ روایت چوتھے صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی ہے (((((أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ تَقْدَمُ مِنَ الْبَادِيَةِ بِكَلْبِهَا فَنَقْتُلُهُ ثُمَّ نَهَى النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ قَتْلِهَا وَقَالَ، عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ الْبَهِيمِ ذِى النُّقْطَتَيْنِ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں حکم دِیا کہ کتوں کو قتل کردِیا جائے ، یہاں تک کہ مضافات کی طرف سے کوئی عورت اپنے کتے کے ساتھ آتی تو ہم اُس کتے کو بھی کر دیتے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنےسے منع فرما دِیا اور اِرشاد فرمایا """تُم لوگ اُس خونخوار کالے کتے کو قتل کرو جِس (کے چہرے )پر دو نقطے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے )))))صحیح مُسلم/حدیث/4101/کتاب المساقاۃ / باب10،
یہ مذکورہ بالاحدیث شریف تیسرے اور آخری مرحلے کی خبر دے رہی ہے جس میں عام طور پر سب ہی کتوں کو قتل کرنے کا حکم منسوخ فرما کر صِرف اُس خونخوار درندگی والے کالے کتے کو قتل کرنے کا حکم برقرار رکھا گیا جس کے چہرے پر دو نقطے ہوتے ہیں ، اور اس کا سبب بھی بتایا گیا کہ وہ شیطانوں میں سے ہوتا ہے ،
اب یہاں ایک دفعہ پھر یہ دہراتا چلوں کہ اِس طرح آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ، صِرف دو قِسم کےکتوں کو قتل کرنے کا حکم برقرار رہا ، ایک تو درندگی کرنے والا کوئی سا بھی خونخوار کتا ، اور دوسرے وہ خونخوار کتے جن کےچہرے پر دو کالے نقطے ہوں ۔
الحمد للہ جب ہم نے تحقیق کے قاعدے قانون اور اصول کے مطابق ایک زیادہ مصادر میں سے احادیث شریفہ کی روشنی میں اِس مسئلہ کا مطالعہ کیا، تو الحمد للہ یہ واضح ہو گیا کہ کتوں کو قتل کرنے کا حکم تین مراحل سے گذر کر اس حتمی صورت میں پہنچا کہ ، صِرف دو قِسم کےکتوں کو قتل کرنے کا حکم برقرار رہا ، ایک تو درندگی کرنے والا کوئی سا بھی خونخوار کتا ، اور دوسرے وہ خونخوار کتے جن کےچہرے پر دو کالے نقطے ہوں ۔
اِ س کے بعد اِن شاء اللہ ، ہم کتوں کو قتل کیے جانے والے اِس حکم پرصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل کے بارے میں صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ کا مطلاعہ کریں گے ،
اور اِن شاء اللہ اب میں جو صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ اور آثار ذِکر کروں گا اُن میں اعتراض کرنے والے کے اِس سوال کا جواب بھی ہوگا ، جو سوال اُس نے فیس بک پر میرے مراسلات کے جواب میں ظاہر کیا ، کہ """کیا صحابہ کرامؓ اور خلفا راشدین میں سے کسی نے اپنے اپنے ادوار میں ان احکامات پہ عمل کرتے ہوئے ان جانوروں کا قتلِ عام کیا تھا؟؟ اگر ایسا کچھ ہواتھا تو ثابت کیا جائے۔۔کیونکہ ایسا کچھ ہوا ہوتاتو آج بلادِ عرب میں نہ کتا موجود ہوتا نہ گرگٹ، نہ سانپ نہ چوہا۔نہ کوا نہ چیل """،
اور ایک دفعہ یہ لکھ مارا کہ """کمال کی بات ہے کہ جس روایت پہ نہ کبھی صحابہ کرام کا عمل ثابت کیا جاسکا، نہ برصغیر کے یہ وہابی خود کبھی عمل کرتے ہیں، اسی روایت کو لے کر ’’سنتِ شریفہ‘‘ کا ڈھنڈورا کیسے پیٹاجاتا ہے۔۔ حیرت ہے۔ بھئی کیا یہ روایت صرف باتوں کی حد تک ہی ہے؟ عمل تو آپ نہ خود کرتے ہو نہ صحابہ کرامؓ کا عمل ثابت کر سکتے ہو اس پہ۔۔۔ یہی دلیل کافی ہے اس روایت کے جھوٹا ہونے کے لیے۔۔ کبھی کسی صحابی نے کوئی کتا نہیں مارا """،
اور ایک دفعہ پھر حدیث شریف کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا کہ """ دوسرا سوال میں نے یہ پوچھا تھا کہ جس سنتِ شریفہ کا بار بار ذکر کر رہے ہو، اس ’’سنتِ شریفہ‘‘ پہ صحابہ کرام میں سے کس کس نے عمل کیا تھا؟؟؟ اثباتِ امر درکار ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کتنے کتے اور گرگٹ مارے تھے؟ حضرت فاروق اعظم، عثمانؓ، علی معاویہ وغیرہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے کتنے جانور اپنے ہاتھوں مار کر مسجد نبوی میں قربانی کی کھالوں کی طرح جمع کروائے تھے؟؟؟؟ کیونکہ ایک روایت آپ کی یہ بھی کہتی ہے کہ ان جانوروں کو پہلی ضرب سے مارنے کا ثواب دوسری ضرب سے مارنے سے زیادہ ہے۔۔ یعنی حکم میں شدت اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں زندہ چھوڑدینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ لیکن حیران کن طور پہ آج بلاد عرب میں کتے بھی موجود ہیں، گرگٹ اور سانپ بھی۔۔ چیل اور کوے بھی۔۔۔ تو یہ ان کی نسلیں کس طرح باقی بچی رہ گئیں؟؟؟؟ سوال کا جواب دیا جائے۔۔ اس سنتِ شریفہ پہ صحابہ کرامؓ کا عمل ثابت کیا جائے۔ """،
اعتراض کرنے والے سے گذارش ہے کہ اپنے لکھی ہوئی بات """ کیونکہ ایک روایت آپ کی یہ بھی کہتی ہے کہ ان جانوروں کو پہلی ضرب سے مارنے کا ثواب دوسری ضرب سے مارنے سے زیادہ ہے۔۔"""، کا کوئی ثبوت سامنے لائے ، اِن شاء اللہ اُس کی حقیقت بھی واضح کر دی جائے گی ،
قارئین کرام ،میں کہہ رہا تھا کہ اِن شاء اللہ اب میں جو صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ اور آثار ذِکر کروں گا اُن میں اعتراض کرنے والے کے اِس سوال کا جواب بھی ہوگا ، جو سوال اُس نے فیس بک پر میرے مراسلات کے جواب میں ظاہر کیا ،
وہ سوالات میں نے ابھی ابھی نقل کیے ہیں ، ذرا ُنہیں ذہن میں رکھتے ہوئے آگے پڑہتے چلیے ،
اِن درج ذیل احادیث شریفہ اور آثار کو بغور پڑہیے ،
:::::: صحابہ رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس حکم پر عمل کرنا :::::::
::::::: (1) ::::::: سب سے پہلے اِس حکم کی روایت بیان کرنے والوں میں سے ایک صحابی عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کی ہی بات سنیے ، فرمایا(((((أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ فَأَرْسَلَ فِى أَقْطَارِ الْمَدِينَةِ أَنْ تُقْتَلَ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دِیا اور مدینہ کی بیرونی حدود تک لوگوں کو بھیجا کہ کتوں کو قتل کیا جائے)))))صحیح مُسلم شریف /حدیث/4100کتاب المساقاۃ /باب 10،
اِس حدیث شریف سے یہ پتہ بھی چل گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے لیے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کچھ لوگوں کو مدینہ المنورہ کے بیرونی حدود تک بھی ارسال فرمایا ،
اب دیکھتے ہیں کہ وہ کون تھے ؟؟؟ اور کیا واقعتااُنہوں نے کتوں کو قتل کیا ؟؟؟
::::: (2) ::::: او رانہی عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما نے ایک اور مرتبہ میں یہ فرمایا (((((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَأْمُرُ بِقَتْلِ الْكِلاَبِ فَنَنْبَعِثُ فِى الْمَدِينَةِ وَأَطْرَافِهَا فَلاَ نَدَعُ كَلْبًا إِلاَّ قَتَلْنَاهُ حَتَّى إِنَّا لَنَقْتُلُ كَلْبَ الْمُرَيَّةِ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ يَتْبَعُهَا :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرماتے ، اور ہم لوگوں کو مدینہ اور اس کے اِرد گِرد روانہ فرماتے ، حتیٰ کہ ہم لوگ ہر ایک کتے کو مار دیتے ، یہاں تک کہ (ایک دفعہ)دیہاتیوں کی ایک عورت کے ساتھ آنے والے کتے کو بھی ہم نے مار ڈالا)))))صحیح مُسلم/حدیث/4101/کتاب المساقاۃ / باب10،
::::: (3) ::::: اِس کے بعد یہ پڑہیے ، یہ روایت دوسرے صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی ہے (((((أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ تَقْدَمُ مِنَ الْبَادِيَةِ بِكَلْبِهَا فَنَقْتُلُهُ ثُمَّ نَهَى النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ قَتْلِهَا وَقَالَ، عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ الْبَهِيمِ ذِى النُّقْطَتَيْنِ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں حکم دِیا کہ کتوں کو قتل کردِیا جائے ، یہاں تک کہ مضافات کی طرف سے کوئی عورت اپنے کتے کے ساتھ آتی تو ہم اُس کتے کو بھی کر دیتے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنےسے منع فرما دِیا اور اِرشاد فرمایا """تُم لوگ اُس خونخوار کالے کتے کو قتل کرو جِس (کے چہرے )پر دو نقطے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے )))))صحیح مُسلم/حدیث/4101/کتاب المساقاۃ / باب10،
ان دو مذکورہ بالا حدیثوں میں ، دو مختلف صحابیوں نے کتوں کو قتل کرنے کے حکم پر عمل کرنے کی خبر دی ہے ، اور غور فرمایے کہ دونوں نے جمع کے صیغے میں اس کام کے کیے جانے کی خبر دی ہے ، اور استمرار کے کیفیت کی موجودگی کے ساتھ خبر دی ہے ،
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس حکم پر عمل صِرف ان دو صحابہ رضی اللہ عنہما نے ہی نہیں کیا تھا ، بلکہ کافی صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا ، اور صِرف ایک دفعہ نہیں کیا ، بلکہ اُس وقت تک کرتے رہے جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کے عام حکم سے منع فرما کر اُسے چند قسم کے کتوں تک محدود و مُقیّد فرما دِیا ۔
یہاں تک کتوں کے بارے میں تو مکمل ہوئی ، اور الحمد للہ معاملہ بالکل واضح ہو گیا کہ اعتراض کرنے والے کا اعتراض اُس کی جہالت کا منہ ُ بولتا ثبوت ہے ، یا پھر اُس کی حدیث شریف سے دُشمنی کا ،
اور اُس کے داغے ہوئے سوال کا جواب بھی میسر ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس حکم پر عمل کیا اور اس وقت تک کیا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس حکم کو تبدیل نہیں فرمایا ،
اب اِن شاء اللہ حسب عادت اعتراض کرنے والا راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ، وہی پرانا جاھلانہ راگ الاپے گا کہ یہ تو ایرانی حدیث سازوں کی کتابوں کی روایات ہیں ،
چلتے چلتے تھوڑی سی بات اعتراض کرنے والے کے اس ایک جاھلانہ ڈائیلاگ کے بارے میں بھی کرتا چلوں کہ یہ جو أمیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اِسماعیل البخاری رحمہُ اللہ و رفع درجاتہ ُ کو اور کتب ستہ کے مؤلفین ہمارے اِماموں رحمہم اللہ جمعیاً کو ایرانی کہتا ہے ، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی جہالت کا ایک واشگاف ثبوت ہے جو اللہ تعالیٰ اسی کے الفاظ میں بار بار دِکھا چکا ہے ،
محترم قارئین ، أمیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اِسماعیل البخاری رحمہُ اللہ و رفع درجاتہ ُ اور کتب ستہ کے مؤلفین ہمارے اِمام رحمہم اللہ جمعیاً میں کوئی بھی ایرانی نہیں تھا، اگر اس بندے میں کچھ تھوڑی سی بھی علم رمق ہے اور اخلاقی جرأت ہے تو اپنے اس بے بنیاد دعوے کا کوئی ثبوت تو سامنے لائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اِن شاء اللہ ہم اُس آیت شریفہ کا اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کریں گے جِس آیت مبارکہ کو اعتراض کرنے والے نے اپنی غلط سوچوں کی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اور پھر اس کے بعد اُس کے مضمون میں ذِکر کی گئی دیگر احادیث شریفہ میں بیان کردہ مسائل اور موضوعات کا ۔
و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کے سات حصے ہیں، اِن شاء اللہ ایک دو دِن کے وقفے کے ساتھ سب حصے یہاں ارسال کر دیے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کے سات حصے ہیں، اِن شاء اللہ ایک دو دِن کے وقفے کے ساتھ سب حصے یہاں ارسال کر دیے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔